امریکا آئندہ ہفتوں میں ایران کے خلاف نئی اور مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کے سوال پر بھارت سے بات چیت شروع کرنے والا ہے۔
امریکا ایران سے جوہری معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے کے بعد پہلی پابندیاں ۶؍اگست اور آخری ۴؍نومبر سے نافذ کرنے والا ہے۔
امریکا نے بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایران سے اپنے تعلقات پر نظرثانی کرے اور ۴ نومبر تک ایران سے تیل کی درآمدات مکمل طور پر ختم کر دے۔
بھارت چین کے بعد ایران سے خام تیل خریدنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایران کی تیل کی برآمدات کا دس فیصد بھارت کو جاتا ہے۔
ایرانی اخبار تہران ٹائمز نے لکھا ہے کہ ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۶ء کے درمیان ایران کے خلاف امریکا اور یورپی ممالک کی پابندیوں کے باوجود ایران بھارت کو خام تیل سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔
گزشتہ فروری میں ایرانی صدر روحانی کے دلی کے دورے کے بعد ایران میں پٹرولیم، گیس اور توانائی کے شعبے میں بھارت کی شراکت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ بھارت ایران میں چاہ بہار بندرگاہ بھی تعمیر کر رہا ہے جو افغانستان کے لیے ایک نیا راستہ فراہم کرے گی۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں امریکا نے بھارت کو ایران سے تیل درآمد کرنے اور چاہ بہار کی تعمیر کے سلسلے میں استثنیٰ دے رکھا تھا۔ بھارت ترکی کے ایک بینک کے توسط سے خام تیل کی نصف قیمتوں کی ادائیگی یورو میں کرتا اور باقی رقم روپے کی شکل میں ادا کی جاتی ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک سے جوہری معاہدے کے بعد بھارت اور ایران کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعلقات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کے اعلان کے چند ہفتے بعد بھارت کی وزیر خارجہ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ بھارت کسی کی پابندی کو تسلیم نہیں کرتا اور وہ صرف اقوام متحدہ کے ذریعے منظور کی گئی پابندیوں کے نفاذ کا پابند ہے۔ ایران نے بھارت کے اس موقف کی ستائش کی تھی اور اسے ایک اصولی موقف قراد دیا تھا تاہم امریکا میں اس پر اچھا ردعمل نہیں ہوا۔
اقوام متحدہ میں امریکا کی سفیر نکی ہیلی جون کے اواخر میں دلی کے دورے پر آئیں۔ انھوں نے بھارت سے صاف لفظوں میں کہا کہ وہ ایران سے اپنے اقتصادی تعلقات پر نظر ثانی کرے اور نومبر کے مقررہ وقت تک ایران سے تیل درآمد کرنا پوری طرح بند کرے۔
ابھی وہ دلی میں ہی تھیں کہ ۲۷ جون کو واشنگٹن میں امریکی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ بھارت اور امریکا کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے درمیان ۶جولائی کو جو براہ راست بات چیت ہونے والی تھی وہ منسوخ کر دی گئی ہے۔
اگرچہ منسوخی کی وجہ امریکی وزیر خارجہ کی شمالی کوریا میں مصروفیت بتائی گئی، لیکن بھارت میں اسے ایران کے سوال سے جوڑ کر دیکھا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی اہلکاروں نے یہ واضح کر دیا کہ بھارت کی جو کمپنیاں ایران سے ڈیل کر رہی ہوں گی ان کو بھی ان پابندیوں کا سامنا کرنا ہوگا جو دوسری کمپنیوں کو درپیش ہو گا۔
بھارت نے ابھی یہ واضح نہیں کیا ہے کہ اس نے ایران سے تیل کی درآمد کے سلسلے میں کیا فیصلہ کیا ہے۔ کیا وہ ایران کو چھوڑ کر امریکا کے ساتھ کھڑا ہو گا یا وہ اپنے اصولی موقف پر عمل کرتے ہوئے ایران کا ساتھ دے گا اور امریکا کی ناراضی کا خطرہ مول لے گا۔
تہران ٹائمز نے گذشتہ دنوں ایک مضمون میں لکھا کہ بھارت کی تیل کمپنیوں نے اپنی ریفائنریز سے کہا ہے کہ وہ نومبر سے ایران سے تیل کی سپلائی بند ہونے کے لیے خود کو تیار کر لیں۔ تیل کی قیمتیں پہلے ہی بڑھ رہی ہیں اور ایرانی تیل کی سپلائی بند ہونے سے مزید قیمتیں بڑھنا لازمی ہے۔
بھارت کے لیے یہ ایک مشکل صورتحال ہے۔ ایک طرف ایران سے اس کے تعلقات گہرے ہیں اور دوسری جانب وہ جوہری معاہدے سے امریکا کی یکطرفہ علیحدگی کے فیصلے سے بھی متفق نہیں ہے۔ چین اور ترکی نے امریکا کی پابندیوں کو مسترد کر دیا ہے جبکہ یورپی ممالک نے بھی کہا ہے کہ وہ ایران سے جوہری معاہدے کی پاسداری کریں گے۔
بھارت پر اس وقت امریکی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ آئندہ چند ہفتوں میں امریکی اہلکار بھارت سے بات چیت شروع کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد بھارت میں کافی امید پیدا ہوئی تھی کہ دونوں جگہ دائیں بازو کے نظریے کی حکومت ہونے سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں زبردست بہتری آئے گی لیکن وہ ابتدائی جوش اب ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ ٹرمپ کے بہت سے اقدامات سے بھارت کو براہ راست نقصان پہنچا ہے۔
بھارت نے حال ہی میں چین اور روس سے قربت بڑھانے کی شعوری کوشش کی ہے۔ اس کے اس اقدام سے امریکا کی ناراضی اور بڑھ گئی ہے۔
بھارت، چین اور روس کی طرح طاقتور بھی نہیں ہے کہ وہ امریکا سے ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرے۔ وہ اپنے آپ کو بھلے ہی علاقائی طاقت یا ’اقتصادی پاور ہاؤس‘ سمجھتا ہو، امریکا کے نزدیک اس کی حیثیت ایک جونیئر شراکت دارسے زیادہ کی نہیں ہے۔
بھارت کو ایران کے حوالے سے جلد ہی کوئی فیصلہ کرنا ہو گا۔ کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ ایران سے تیل کی درآمد بند کرنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے، لیکن کیا بھارت امریکا کی پابندیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے؟ یا پھر وہ پابندیوں کے ذریعے ایران کو اقتصادی طور پر تباہ کرنے کے لیے امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب جیسے ایران مخالف ممالک کے ساتھ کھڑا ہوگا؟
بھارت کے سامنے یہ بہت بڑا سفارتی، اقتصادی اور اخلاقی چیلنج ہے۔ بھارت کے پاس وقت کم اور دباؤ بہت زیادہ ہے۔
(بحوالہ: ’’بی بی سی اردو ڈاٹ کام۔ ۶ جولائی ۲۰۱۸ء)
Leave a Reply