
جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے بھارت کی مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی (CPM)ابھی تک پرانے اشتراکی نعروں کو ہی اپنائے ہوئی ہے ‘ حتیٰ کہ اپنی فیصلہ سازعاملہ کو سویت طرز پر ہنوز یہ (Polit Bureau) کا نام دیتی ہے۔ لہٰذا اس گرمی میںایک بڑے اچنبھے کی بات ہوئی جب قومی قیادت نے مغربی بنگال کے آزاد و غیر معمولی وزیراعلیٰ کے ذریعے صوبے کے لئے کئے گئے تمام اقدامات کو قبول کرلیا۔ واصح رہے کہ مغربی بناگال کا صوبہ دس کروڑ کی آبادی پر مشتمل ہے اور کمیونسٹ پارٹی کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ بدھا دیب بھٹاچارجی کے اس بیان کے فوراً بعد پیش آیا جو انہوں نے سنگاپور میں وہاں کے سرمایہ کاروں کو مغربی بنگال کے ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے دیا تھا ۔ بھارتی کمیونسٹوں کو اپنی اصلاح کرنی ہوگی یا اپنے حق میں تباہی کا فیصلہ لکھ لینا ہوگا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب بھٹا چارجی شہرت بھارت کے ڈینگ ذیائوپنگ کی حیثیت سے ہوئی یعنی ایک عملیت پسند کمیونسٹ رہنما کی حیثیت سے لیکن اس کا بہرحال یہ مطلب نہیں ہے کہ بھارت کے اشتراکی حضرات نے روس اور روس کے کامریڈوں کی راہ اپنالی ہے‘ جس کا جھکائو ایسی سرمایہ داری کی جانب ہے جو ڈاکوئوں اور لٹیروں کو روئسا و شرفاء کا مقام دیتی ہے۔ بھارت کے بائیں بازو والے ٹریڈ یونین میں موجود کمیونسٹ کی روایتی حلیف پارٹیوں نے گزشتہ جمعرات کو ایک ملک گیر ہڑتال کے ذریعہ پورے ملک کو جام کردیا تھا یہاں تک کہ ریلوے ‘ روڈز‘ ایئرپورٹس اور بینکز سبھی بند پڑے تھے۔ نئی دہلی میں جہاں کمیونسٹ پارٹی مخلوط حکومت میں بہت اہم ساجھی ہے اس پارٹی نے فری مارکیٹ اصلاحات کو بے اثربنادیا اور سرمایہ دارانہ معیشت میں اپنے کردار کے حوالے سے انتہائی گرما گرم بحث میں چھیر ڈی۔ اس ڈیبٹ کا نتیجہ بھی خاصا اہم ہے۔ اس بحث سے یہ بات پتہ چل سکے گی کہ آیا بھارت کو چین کے طرز کی شرح ترقی کی جانب پیش رفت کرنی چاہئے یا دوبارہ ٹھوکر کھاناچاہئے بھارتی کمیونسٹ پارٹی تمام کمیونسٹوں سے زیادہ (سوائے وینزولا کے صدر Hugo Chavez کی تحریک کے)کسی بھی سرمایہ دارانہ جمہوریت میں موثر ہے۔ اس فہرست میں تیسرا نمبر پرتگال کا ہے جہاں ۲۳۰ نشستوں والی پارلیمنٹ میں ۱۲ نشستیں کمیونسٹوں کی ہیں۔ بھارت کی سی پی ایم (مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی اور دو مزید چھوٹی کمیونسٹ پارٹیاں مل کر ۵۴۵ نشستوں والی بھارتی پارلیمنٹ میں ۶۰ فیصد نشستوں پر قابض ہیں۔ چونکہ یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس جو وزیراعظم من موہن سنگھ کی زیر قیادت ہے کی نشستیں صرف ۵۱ہیں اور اکثریت سے محروم ہیں لہٰذا اسے اقتدار میں باقی رہنے کے لئے کمیونسٹوں پر انحصار کرنا پڑا ہے۔ سی پی ایم نے مخصوص اقتصادی شعبوں میں حکومتی ملکیت والی کمپنیوںکی فروخت سے لے کر لیبر قوانین کے لیبر لائزیشن تک کی پالیسیوں کو ختم کرنے یا سخت ترین کرنے میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیاہے۔ مغربی یورپ میںسرد جنگ کی مدت میں اہم کمیونسٹ لابیاں اٹلی میں پائی جاتی تھیں ۔ جہاں ان کی توجہ کا مرکز داخلی امور ہوتے تھے۔ ان کا ز یادہ انہماک کارخانوں کی ملکیت مزدوروں کو دلوانے میں ہوتا تھا وہ بھی سرمایہ دارانہ مارکیٹ میں۔ سرد جنگ کے بعد سے بین الاقوامی تجارت میں غیرمعمولی پھیلائو کے پیش نظر بھارتی کمیونسٹوں کی توجہ زیادہ تر عالمی نوعیت کے مسائل پر رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک کی بے حدوحساب آبادی اور اس کی روزافزوں معیشت نے پارٹی کو گلوبلائزیشن کے مخالفین میں دنیا کا موثر ترین مخالف بنادیا ہے۔ ماہرین اس بحث میں مصروف ہیں کہ آیا بھارتی کمیونسٹ چین کے اصلاح پسندوں کی نقل کررہے ہیں یا یورپ کے سوشل ڈیمو کریٹس کے نقش قدم کی پیروی کررہے ہیں۔ بھٹاچاربی کا کہنا ہے کہ ’’ہم دونوں میں سے کسی کی نقل نہیں کررہے ہیں۔ ہم آپس میں گفتگو کررہے ہیں کہ ریفارم کیا ہے ریفارم کے معنی کیا ہیں؟ ریفارم کس کے لئے؟‘‘ سیتا رام بے چوری جو سی پی ایم یونٹ بیورو کے ایک رکن ہیں کا کہنا ہے کہ پارٹی کا اہم تر مقصد پارٹی کے مارکیٹ ریفارم کے ہدف کو تبدیل کرکے کارپوریٹ منافع کو فروغ دیتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کی جانب اس کا رخ موڑنا ہے۔ چین کے ساتھ اختلافات سخت ہیں۔ بھارتی کمیونسٹ اب بھی سوشلسٹ آیڈیلز سے اپنے آپ کو وابستہ کئے ہوئے ہیں مثلا مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور لینڈریفارم جیسے معاملات سے۔ جبکہ چین کے کے کمیونسٹوں کی ساری توانائی لگتا ہے مائو کے زمانے میں ہی خرچ ہوگئی جبکہ دیہی بورژوائیوں کو تباہ کردیا گیا تھا۔ بھارتی کمیونسٹ اس دوران اپنے وعدوں کی تکمیل میں آزادی کے بعد سے ناکام رہے باالخصوص جاگیردارانہ ذات پات کے نظام کو (Feudal Cast System) ختم کرنے کے والے سے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ معاشی خود مختاری سے متعلق بھارتی کمیونسٹوں کے خیالات چین کی کتاب سے مسعتار ایک ورق ہے نیز نوے کی دہائی میں کانگریس میں پارٹی کے خیالات کی آئینہ دار ہے۔ سی پی ایم نے بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے (۱) انہیں بھارت کی پیداواری صلاحیت میں لازمی اضافہ کرنا ہے(۲) محض اثاثہ خریدنے کے بجائے کارخانے تعمیر کرنا ہے (۳) بھارتی ٹیکنالوجی کو جدید اور بہتر بنانے میں مدد کرنا ہے اور روزگار پیدا کرنا ہے ۔ اب جبکہ کانگریس مزید دروازے کھولنے کی خواشمند ہے کمیونسٹ حضرات اس حوالے سے قدرے محتاط ہیں۔جہاں کانگریس میں رہنما ٹاٹا جیسے آٹو موبائل گاڑیاں تیار کرنے والے دیسی گروپ کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں تاکہ وہ بڑھتی ہوئی بیرونی مسابقت کا مقابلہ کریں وہاں کمیونسٹ حضرات اس بات پر شور مچارہے ہیں کہ کس طرح جاپانی کارخانہ دارسوزوکی نے بھارت جاپان مشترکہ آٹو موبائل صنعت ’’ماروتی اُدھّوکَ‘‘ پر حتمی کنٹرول حاصل کرلیا ہے ۔ یہ بات غلط ہوگی کہ کوئی ہماری مخصوص پہچان بنادے کہ ہم بھارت میں سرمایہ کے بہائو کے مخالف ہیں۔‘‘ یے چوری مزید کہتے ہیں کہ ہم تو اس طرح کے بہائو کے مستحق ہیں لہٰذا ہم اس کی مخالفت کیوں کریں گے۔ اس چپقلش پر کہ کس طرح بھارت کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تئیںاپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہیں۔ سی پی ایم نے بعض مسائل پر حکومت کو بہت زیادہ فراخدلی کا مظاہرہ کرنے سے روک رکھا ہے مثلاً دوائوں کی حقوق ملکیت کے مسئلے پر جس سے صارفین کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔مارکیٹ کے بعض ریفارم میں بائیں بازو کی جماعت پیش پیش رہی ہے۔ مغربی بنگال میں بھٹاچارجی کے وزیرمالیات نے Value-added Tax کو متعارف کرانے میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک طریقہ ہے ٹیکس کی چوری کو ختم کرنے کا اور حکومت کے خزانہ کو دوبارہ سے بھرنے کا جس کے متعلق بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ۵ سالوں کے دوران بھارت میں پہلی معاشی پیش رفت ہے ۔ بمبئی میں Mckinsey&Co کے ایک پارٹنر رمیش وینکٹ رمن کا کہنا ہے کہ’’ آپ بائیں بازو کی جماعت کی ریفارم مخالف تصویر پیش کرسکتے ہیں لیکن بائیں بازو کے لوگ اپنے انتخاب میں بہت ماہر اور انوکھے ہیں۔‘‘ بھارتی میڈیا میں سی پی ایم پر تنقید کی جارہی ہے یہ کہتے ہوئے کہ ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر میں بیرونی سرمایہ کاری پر National Limits کے اضافے کی مخالفت کرکے سی پی ایم نے منافقت کا ثبوت دیا ہے اس لئے کہ وہ خود مغربی بنگال میں بیرونی سرمایہ کاری کے لئے بڑی والہانہ تگ و دو کررہی ہے۔ کسی زمانے میں جس صوبہ کا رکاوٹ کھڑی کرنے اور مستقل ہڑتالوں کے سبب مذاق اڑایا جاتا تھا تو اب وہی صوبہ ۱۹۹۰ء میں بھٹاچارجی کے چارج سنبھالنے کے بعد IBMاور مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کے لئے سرمایہ کاری کی کشش رکھتا ہے۔یہ صوبہ جاپان سے ‘کرناٹیکا سمیت جس کا صدر مقام بنگلور ہے دوسرے بھارتی صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ سرمایہ کشید کررہا ہے ۔ لیکن کمیونسٹوں کا کہنا ہے کہ شیطان تفصیلات میں ہے۔ پارٹی نے کانگریس کے ٹیلی کام منصوبے کی اس وجہ سے مخالفت کی ہے کہ یہ بیرونی سرمایہ کاروں کو ٹیلی فون سروس کی فراہمی کے ذریعہ بہت بڑا منافع کمانے کا موقع فراہم کررہا ہے لیکن اس کے عوض نئی ٹیکنالوجی کی فراہمی اور پیداواری صلاحیت کی منتقلی کی شرط نہیں لگائی گئی ہے یے چوری کا کہنا ہے کہ پارٹی نے صوبائی سطح پر کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا ہے جس کی اس نے قومی سطح پر مخالفت کی ہو۔ اب بھی پارٹی میں بعض اہم ترقی پسند رہنمائوں کے حوالے سے تنازعہ باقی ہے۔ جب بھٹا چارجی نے حال ہی میں انڈونیشیا کے سلیم گروپ کے ساتھ ۲۰۰۰ ہیکٹیئر پر مشتمل ایک تجارتی رہائشی تعمیراتی منصوبے پر دستخط کیا تو پارٹی کے ارکان نے ان پر ایک ایسی کمپنی کے حمایت کا الزام لگایا ہے جو سابق سوہارتھو حکومت کے قریب رہی ہے یعنی جو حکومت کمیونسٹ مخالف بغاوت کے نتیجے میں برسراقتدار آئی تھی۔ سفید بالوںوالے بھٹاچارجی جو بہت نرم لہجے میں گفتگو کرتے ہیں چوڑے فریم کی عینک لگاتے ہیں جو بنگالی دانشوروں کی مخصوص پہچان ہے۔ جناب بھٹاچارجی نے لفظ Capitalism کو صرف مزدوروں اور غریبوں کے تحفظ کے لئے گلے لگایا ہے۔
اگرچہ یہ لیبر مارکیٹ ریفارم کے لئے کوشاں ہیں تاکہ مزید Outsourcing کمپنیاں مغربی بنگال میں وارد ہوں تاہم ان کا کہنا ہے کہ مزدوروں کو بھی مینجمنٹ کے ساتھ پیداوار سے متعلق ان کی فکر میں برابر کا شریک ہونا چاہیں۔ سی پی ایم نے گزشتہ ہفتے کی اسٹرائک پر جس کی کال یونین نے دی تھی اپنا خاموش ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہڑتال من موہن سنگھ کے لئے ایک انتباہ ہے کہ وہ ریفارم کے مسئلے پر پر اصرار نہ کریں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہڑتال سے سب سے زیادہ مغربی بنگال متاثر ہوا جہاں مزدوروں نے صوبے کے دارالحکومت کول کتہ کا پورا کنٹرول ہاتھ میں لے لیا۔مزدوروں نے بھٹاچارجی کے اس حکم نامے کی بھی خلاف ورزی کی جس میں انہوں نے IT ورکروں کو بند شدہ راستوں سے کام پر جانے کی اجازت دی تھی ۔ یہاں تک کہ جب بھٹاچارجی ذاتی طور مخل ہوئے تب وہ ہڑتالی بادل ناخداستہ ایک طرف ہوگئے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ پارٹی کے منحرفین جو ابھی تک پارٹی کی بیشتر بنیادوں کو اہمیت دیتے ہیں کب بھٹاچارجی کی طرح کی پالیسی اختیا رکرتے ہیں۔
(بشکریہ :’’نیوز ویک ‘‘۱۰ اکتوبر ۲۰۰۵)
Leave a Reply