
نریندر مودی بہت جاندار اور باصلاحیت فروش کار (Salesman) ہیں۔ گزشتہ کئی بیرونی دوروں میں اس بات کا اندازہ انہوں نے نہ صرف اپنے الفاظ سے بلکہ اپنے انداز سے بھی کرایا ہے۔ اپنی راحت انگیز مسکراہٹ، روایتی لباس اور گرم جوشی سے معانقہ کرتے ہو ئے وہ ایک بڑے ملک کے عاجزانہ تاثر کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر اسی مہربان سے بھارت میں (جس کا تاثر مودی پیش کر رہے ہیں) ان کی راہنمائی میں بہت سی علاقائی طاقتیں جنم لے رہی ہیں۔
روایتی ہندوستانی سفارتکاری غیر اتحادی (یعنی کسی بھی اتحاد سے اجتناب) طرز کی ہے۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ عالمی مسائل سے دور رہا جائے اور اپنی سرحدوں کے پاس کے معاملات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جائے۔ بھارت اسی پالیسی کے تحت چین سے معاملات کر رہا ہے۔ چین اس وقت بھارت کے روایتی حریف پاکستان کی بہت زیادہ معاشی امداد کر رہا ہے، اس کے علاوہ وہ بھارت کے پڑوس میں واقع چھوٹے ممالک نیپال اور سری لنکا کو بھی بھاری امداد دے کر بھارت کے حلقہ اثر سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین کے اس عمل نے دہلی کے پالیسی سازوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ کارنیگی اینڈومنٹ برائے بین الاقوامی امن کے راجہ موہن، کہتے ہیں کہ بھارت کی سفارتی حکمت عملی تبدیل ہو رہی ہے، یہ اب ’’ہم جواب دیں گے‘‘ کی پالیسی اختیار کر رہا ہے۔
مودی نے اس بات کا اشارہ اپنے حالیہ دورے میں دیا ۔ گزشتہ ماہ ایران کے دورے کے دوران ایرانی راہنماؤں کے ساتھ تصویریں بنواتے ہوئے انہوں نے ایران اورافغانستان کے درمیان ریلوے لائن تعمیر کرنے کا وعدہ کیا۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں کہ یہ راستہ، جو کہ بحیرہ عرب اور وسط ایشیا کے درمیان ٹریفک کو کم کرے گا، چین کی ۴۶؍ارب ڈالر کے اس منصوبے کے متوازی ہوگا جس کے تحت چین پاکستان میں توانائی اور نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیرکر رہا ہے اور یہ راستہ چین کو سمندر تک رسائی دے گا۔
۴ جون کو مودی افغانستان میں ایک ہائیڈرو الیکٹرک اسٹیشن کے افتتاح کے لیے رکے تھے۔ یہ بھارت کے بے شمار منصوبوں میں سے ایک ہے جس کا مقصد نہ صرف افغانستان کی مغربی حمایت یافتہ حکومت کو مستحکم کرنا بلکہ پاکستان (جس کے خفیہ اداروں پر الزام ہے کہ وہ طالبان کی مدد کر رہے ہیں) کے مقابلے میں بھارت کا ایک اچھے اور کھلے دل سے مدد کرنے والے دوست کا تاثر قائم کرنا بھی تھا۔
افغانستان سے وہ سوئٹزرلینڈ، امریکا اور میکسیکو گئے۔ ان کا وہاں جانے کا مقصد بھارت کی عرصہ دراز سے جاری سفارتی کوششوں کو حتمی شکل دینا تھا۔ بھارت کئی دہائیوں سے نیوکلیئر ریاست کی حیثیت سے بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ جلد ۳۴ ملکوں پر مشتمل Missile Technology Control Regime (MTCR کا حصہ بن جائے گا، جس کا کام غیر ذمہ دار ممالک کی ایسے میزائل تک رسائی کو ناممکن بنانا ہے، جو بڑے پیمانے پر تباہی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
لیکن ایٹمی مواد کے پھیلاؤ سے گریز کرنے اور ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کے لیے بنائے گئے عالمی قوانین کو قبول کرنے کے باوجود بھارت ۴۸ ریاستی نیو کلئیر سپلائر گروپ کا حصہ نہیں بن سکا۔ اس گروپ کا رکن نہ ہونا بھارت جیسے بڑے ملک کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔اسی وجہ سے بھارت سول نیو کلئیر ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہا اور نہ ہی وہ خود سے بنایا ہوا کوئی مواد بیچ پا رہا ہے۔
ایک دہائی قبل امریکا نے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر غیر حربی مقاصد کے لیے نیو کلئیر ٹیکنالوجی معاہدہ کیا، تاکہ بھارت کی اہمیت اجا گر کی جا سکے۔ امریکا نے ۲۰۰۸ء میں اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے نیو کلئیر سپلائر گروپ اور خاص کر چین کو اس بات پر راضی کرنے کی کوششیں کیں کہ بھارت کے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی کی تجارت کے حوالے کچھ چھوٹ دی جائے۔اب مودی کی قیادت میں بھارت بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ ایٹمی اشرافیہ میں اس کا نام درج کیا جاسکے۔ حالات یہ بتاتے ہیں کہ متوقع این ایس جی کے دو اجلاس بھارت کے لیے بھرپور موقع فراہم کریں گے۔
سوئٹزرلینڈ اور میکسیکو ان ممالک میں سے ہیں جنہوں نے بھارت کی کوششوں پر عدم اعتماد کیا ہے، مگر اب یہ ممالک اور باقی ممالک (جو ایٹمی طاقت کو ناپسند کرتے ہیں ) جیسے جاپان ، بھارت کی رکنیت کے لیے پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اٹلی نے بھی اپنے اعتراضات واپس لے لیے، کیونکہ بھارت نے اٹلی کے ایک سپاہی کورہا کر دیا جس پر دو ہندو مچھیروں کے قتل کا مقدمہ تھا (جنہیں وہ بحری قزاق سمجھتا تھا)۔
چین اس بات سے فکرمند ہے کہ مغربی ممالک اس کے ایک بڑے پڑوسی کی طاقت میں مسلسل اضافہ کر نے میں مصروف ہیں۔اس بات کا بھی ڈر ہے کہ مودی امریکا سے اپنے اچھے تعلقات کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کو شش کر سکتے ہیں۔ کئی سالوں سے پینٹاگون اس بات کی جستجو میں رہا ہے کہ بھارت کو چین کی برھتی ہوئی طاقت کے راستے میں رکاوٹ بنانے کے لیے استعمال کیا جائے، لیکن اب جاکر بھارتی افواج کے افسروں نے تعاون پر رضامندی ظاہر کرنا شروع کی ہے۔ اس مہینے یہ دو ممالک اپنی سالانہ بحری مشقیں کریں گے جو کہ بھارت کے سمندر میں نہیں بلکہ جاپان کے سمندروں میں اور متنازعہ جزیروں کے پاس ہوں گی۔ ۸ جون کو کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ امریکا بھارت کا ’’ناگزیر شراکت دار‘‘ تھا۔ بھارت اور امریکا کے درمیان براہ راست فوجی اتحاد کا کوئی امکان نہیں لیکن اس طرح کے تعلقات چینی ذہنوں کی توجہ کا مرکز ضرور بن رہے ہیں۔
(ترجمہ : عبدالرحمن کامران)
“Indian diplomacy: Modi on the move”. (“The Economist”. June 11, 2016)
Leave a Reply