
بھارت میں مقامی خودمختاری کا مضبوط نظام اب تک یقینی نہیں بنایا جاسکا ہے۔ بنیادی ڈھانچا کمزور ہے۔ ایسے میں بھارت کے لیے اسمارٹ سٹیز وژن کو مکمل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ثابت ہوسکتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے حال ہی میں بھارت کا دورہ کیا۔ پروٹوکول کے باعث ممکن نہ ہوا کہ وہ کسی بھی تقریب میں بروقت پہنچیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ مون سون کی بارش کے باعث وہ ٹریفک میں پھنس کر رہ گئے۔ بعض مقامات پر سڑکیں زیر آب تھیں اور کہیں ٹریفک جام ملا۔ ایک بار انہوں نے تقریب میں دیر سے پہنچنے پر خطاب میں سوال کیا کہ آپ لوگ کہیں بھی کس طرح پہنچ پاتے ہیں؟ پھر طنزاً کہا کہ شاید کشتیوں کا سہارا لینا پڑتا ہوگا!
جان کیری کے دورے کے دوران ایجنڈے میں اسمارٹ سٹیز وژن کے حوالے سے تقریبات میں شرکت کرنا بھی شامل تھا۔ اسمارٹ سٹیز وژن وزیر اعظم نریندر مودی کے دماغ کی پیداوار ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بھارت کے چھوٹے بڑے ۱۰۰ شہروں میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسا ماحول پیدا کردیا جائے کہ زندگی آسان سے آسان تر ہوجائے اور دنیا کو معلوم ہوجائے کہ بھارت میں بھی ایسے شہر بکثرت پائے جاتے ہیں جن میں تمام بنیادی سہولتیں جدید ترین انداز کے ساتھ میسر ہیں اور آسائش و تعیش کا سامان بھی پہنچ سے دور نہیں۔ بھارت بھر میں نئے دور کی بستیاں بسانے کا خیال نریندر مودی کے ذہن کی پیداوار سہی مگر اس خیال کو عملی شکل دینا اُن کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے ریاستی مشینری کو بڑے پیمانے پر کام کرنا ہے اور اُسے یہ کام کرنا پڑ رہا ہے۔
اسمارٹ سٹیز وژن کئی پرتوں یا مراحل پر مشتمل ہے۔ نریندر مودی کے ذہن میں جو آئیڈیا ابھرا تھا اُس کی بنیاد پر ۲۰۱۵ء میں بھارت بھر سے ۱۰۰ شہروں کا انتخاب کیا گیا۔ ابتدا میں جوش و جذبہ کچھ زیادہ ہی بڑھ چڑھ کر تھا۔ اب دریا بہت حد تک اتر چکا ہے۔ کل تک بڑھک تھی۔ اب معاملہ سنجیدگی سے سوچنے اور بہت سوچ سمجھ کر بولنے کے مرحلے تک آچکا ہے۔
بھارت کے ۱۰۰ سے زائد شہروں کو جدید ترین سہولتوں اور ٹیکنالوجی سے مزیّن کرنے کا خواب نریندر مودی تنہا یا ملکی وسائل سے شرمندۂ تعبیر نہیں کرسکتے۔ انہیں دیگر ممالک اور بالخصوص بڑی طاقتوں کی طرف سے تعاون درکار ہے۔ اب تک ۳۰ ممالک نے بھارت میں اسمارٹ سٹیز کا قیام یقینی بنانے میں معاونت کا وعدہ کیا ہے۔
زمینی حقیقت کا ایک بنیادی مزاج یہ ہے کہ یہ ذہنوں میں پائے جانے والے خیالات اور آنکھوں میں بسے ہوئے خوابوں سے خاصی مختلف ہوتی ہے۔ بھارت میں بنیادی مسائل اب بھی موجود ہیں اور دن بہ دن ’’توانا تر‘‘ ہوتے جارہے ہیں۔ بھارتی حکومت نے اسمارٹ سٹیز سے متعلق بروشرز اور کتابچوں میں جو کچھ بیان کیا تھا وہ زمینی حقائق سے بہت مختلف تھا۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ زمینی حقائق کچھ اور ثابت ہو رہے ہیں۔
شہری ترقی کی حالت
بھارت کے بیشتر چھوٹے بڑے شہروں میں بنیادی ضرورت کی اشیا و خدمات کو بہتر انداز سے فراہم کرنا اب تک ممکن نہیں بنایا جاسکا ہے۔ لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے موزوں حالات درکار ہوا کرتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ بنیادی سہولتوں کے طالب ہوتے ہیں اور دوسری طرف انہیں تحفظ بھی درکار ہوتا ہے۔ اگر شہر میں سیکورٹی کا بہتر انتظام نہ ہو تو زندگی ڈھنگ سے بسر کرنا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے۔
بھارت کے بیشتر شہر ہر سال مون سون کی بارش میں شدید مشکلات سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ بیشتر علاقے زیر آب آجاتے ہیں۔ لوگوں کو گھر سے نکلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ لاکھوں، بلکہ کروڑوں افراد بارش سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہر سال بارش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ بھارت کے شہروں میں ترقی کا نام و نشان نہیں۔ اب بھی بنیادی مسائل پوری طرح حل نہیں کیے جاسکے ہیں۔ چھوٹے بڑے شہروں کے بیشتر باشندے اب تک بنیادی سہولتوں کے دستیاب ہونے کی راہ تک رہے ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار کرسکتا ہے نہ صرفِ نظر کہ بھارت کے شہروں میں بنیادی ڈھانچا بہت کمزور ہے۔ لوگوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا نے حال ہی میں لکھا ہے کہ بھارت کے شہر بہت تیزی سے تباہی کی طرف جارہے ہیں۔ سوال صرف ممبئی، دہلی یا کولکتہ کا نہیں بلکہ بنگالورو (بنگلور)، حیدرآباد دکن، احمد آباد، سُورت، بنارس، متھرا، اُجین اور دوسرے بہت سے چھوٹے بڑے شہر بھی بنیادی سہولتوں سے اب تک پوری طرح مزیّن نہیں کیے جاسکے ہیں۔
شہروں کی طرف نقل مکانی
بنگالورو کو بھارت کی سلیکون ویلی یعنی جدید ترین انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مرکز قرار دیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس شہر کو بھی تمام بنیادی سہولتیں کماحقہ میسر نہیں۔ بھارت کے اس اسٹارٹ اپ کیپٹل کے نصف گھروں کو نکاسیٔ آب کی سہولت اب تک نہیں مل سکی۔ ممبئی تجارتی دارالحکومت کہلاتا ہے اور فلمی صنعت کا بھی مرکز ہے مگر یہ شہر اب تک اپنی کچی آبادیوں سے نجات پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ بھارت میں دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی تیزی سے جاری ہے۔ ہر منٹ ۳۰ افراد دیہی علاقوں سے نکل کر شہروں کی طرف آرہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ۴ عشروں میں بھارت کی شہری آبادی میں ۵۰ کروڑ کا اضافہ ہوچکا ہوگا۔ دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی تیزی سے جاری رہنے کے باعث بنیادی سہولتوں کے حوالے سے بہت سے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں۔ اس اعتبار سے ملک کو بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔
بھارت کو بیرونی سطح پر جن چیلنجوں کا سامنا ہے وہ تو خیر دنیا جانتی ہے، مگر اندرونی سطح پر جو مسائل ہیں ان کا دنیا کو کم ہی ادراک ہے۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ محض ساڑھے تین چار عشروں میں بھارت کے شہروں کی آبادی میں پچاس کروڑ نفوس کا اضافہ ہوچکا ہوگا۔ ان میں سے بہت سے لوگ خوشحالی کی طرف بھی بڑھیں گے۔ سائیکل والے موٹر سائیکل اور موٹر سائیکل والے کار خریدیں گے۔ ایندھن کا صَرف بڑھے گا۔ اس کے نتیجے میں ماحول کو پہنچنے والے نقصان میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ ماحول کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم سطح پر رکھنے کے مذاکرات میں امریکا اور چین کے ساتھ اب بھارت بھی شریک ہوتا ہے۔
علاقائی پالیسیوں کا فقدان
بہتر ذریعۂ معاش کی تلاش میں شہروں کی طرف رخ کرنے والوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ تو بڑے شہروں کے مرکزی علاقوں میں رہائش کا ہے۔ شہروں کی آبادی حقیقی گنجائش سے کہیں زیادہ ہوچکی ہے۔ بنیادی سہولتوں کا ڈھانچا وہی ہے۔ لاکھوں افراد رہائشی سہولتیں نہ ہونے کے باعث فٹ پاتھ پر سوتے ہیں۔ ان کے لیے فراہمی و نکاسیٔ آب کا معقول انتظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب چھوٹے بڑے شہروں کے مضافات کی آبادی تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ کچی آبادیوں کی تعداد میں اتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ ان کے لیے بنیادی سہولتوں کا اہتمام کرنا متعلقہ شہر کے اداروں کے لیے ممکن نہیں رہا۔ وہ اگر مضافات میں غیر قانونی طور پر بسنے والوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ دیں تو شہر کے اصل اور ٹیکس ادا کرنے والے باشندوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا مشکل ہوجائے۔ بڑے شہروں کے مضافات میں کوئی علاقائی یا مقامی پالیسی بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ایسا لگتا ہے کہ متعلقہ صوبائی (ریاستی) حکومت اس حوالے سے کچھ کرنے کے موڈ میں نہیں۔ بنگالورو میں انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن سیٹلمنٹ کے استاد گوتم بھان کہتے ہیں کہ ہمارے شہر میں بنیادی ڈھانچا خاصا کمزور ہے۔ کوئی بھی چیز ٹھکانے پر دکھائی نہیں دیتی۔ اسے ہم چند بکھرے ہوئے معاملات کا مجموعہ قرار دے سکتے ہیں۔ دہلی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ موزوں شہری منصوبہ بندی کا فقدان واضح ہے۔ دہلی اور ممبئی میں ۲۵ فیصد سے زائد آبادی واضح طور پر غیر قانونی طریقے سے سکونت پذیر ہے۔
عالمی بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت کو ڈھکی چھپی اور بے ہنگم اربنائزیشن کا سامنا ہے یعنی دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی اس تیزی سے جاری ہے کہ سبھی کچھ تلپٹ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بنیادی ڈھانچے اور سہولتوں تک عوام کی رسائی اب بہت حد تک سیاسی کھیل ہوکر رہ گئی ہے۔
بھارت اپنے آپ کو بجا طور پر سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاقی یا مرکزی سطح پر ریاستی ڈھانچا بہت مضبوط ہے مگر مقامی یا میونسپل سطح پر سب کچھ اب تک ابتدائی مرحلے میں دکھائی دے رہا ہے۔ یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے جسے حل کرنا لازم ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام مسائل عوام کو بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
سیاسی اصلاحات کی ضرورت
مقامی خود مختاری کا مضبوط نظام اس وقت بھارت کی بنیادی ضروت ہے۔ اگر بھارتی حکومت اسمارٹ سٹیز وژن کو کامیابی سے ہم کنار کرنا چاہتی ہے تو لازم ہے کہ اختیارات اور وسائل کو مقامی سطح تک منتقل کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جدید ترین ڈجیٹل ٹیکنالوجی اور دیگر متعلقہ سہولتوں کے متعارف کرائے جانے سے بھارتی شہروں کو جدید ترین نہیں بنایا جاسکتا۔ جب تک شہروں کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے تب تک انہیں جدت سے ہم کنار کرنے کی کوششیں مکمل کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکیں گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سیاسی اور مقامی انتظامی قیادت کا تنزل تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ یہنحطاط بہت خطرناک ہے۔ بڑے شہروں کے بیشتر مقامی ادارے مکمل تباہی کے خطرے سے دوچار ہیں۔
حقیقی اور جامع سیاسی و انتظامی اصلاحات بھارت کے لیے ناگزیر ہوچکی ہیں۔ اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی یقینی بنائے بغیر مودی سرکار اسمارٹ سٹیز وژن کو حقیقت میں تبدیل نہیں کرسکتی۔ اگر بنیادی سطح پر تبدیلی نہ لائی گئی تو دوسرے بہت سے منصوبوں کی طرح یہ بھی ایک ناکام منصوبہ ثابت ہوگا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“India’s smart cities: A vision without base”. (“The Globalist”. September 15, 2016)
Leave a Reply