
بیس سال پہلے کی بات ہے۔ میری ملاقات راشٹریہ سویم سیونگ سنگھ کے اُس وقت کے سربراہ کے ایس سدرشن سے کرائی گئی۔ اُس وقت انہوں نے جو بات بہت زور دے کر کہی تھی وہ میری سمجھ میں اب آئی ہے۔ اتر پردیش کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی شاندار کامیابی نے بہت سے معاملات کو دِن کے اجالے کی طرح واضح کردیا ہے۔
میں رومانیہ میں دو سال گزار کر بھارت واپس آیا تو انڈین پولیس سروس کے میرے بیچ میٹ ڈی ایچ ’وسنت‘ سمن نے کہا کہ کے ایس سدرشن ممبئی آرہے ہیں۔ وہ موہن بھاگوت کے جانشین تھے۔ کے ایس سدرشن کو ڈی ایچ وسنت سمن کے ایک دوست نے رات کے کھانے پر بلایا تھا۔ اس دعوت میں چند منتخب افراد ہی کو بلایا گیا تھا۔
جب کے ایس سدرشن کو میری موجودگی کا علم ہوا تو انہوں نے ۸۵ فیصد کے لیے انصاف یقینی بنانے پر زور دیا۔ ان کے خیال میں ملک کے ۸۵ فیصد افراد سے دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک روا رکھا جارہا تھا۔ کچھ ہی دیر کی گفتگو میں اُنہوں نے یہ راگ دس بارہ مرتبہ الاپا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ آر ایس ایس کے سربراہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو، جو اس وقت آبادی کا ۱۵ فیصد تھے، واضح طور پر اقلیت میں شمار کر رہے ہیں اور اس خیال کے حامل ہیں کہ مسلمان اور عیسائی مل کر ہندوؤں کا استحصال کر رہے ہیں! مگر سِکھوں کو ہندوؤں ہی میں شمار کر رہے ہیں۔ کے ایس سدرشن کا کہنا تھا کہ حکمراں طبقہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو خوش کرنے کے لیے ہندوؤں کو احساسِ محرومی سے دوچار کرنے پرتُلا ہوا ہے۔
میں نے اُس وقت بھی غور کیا تھا کہ کے ایس سدرشن آخر ۸۵ فیصد پر اس قدر زور کیوں دے رہے ہیں۔ کیا سِکھوں کو ہندوؤں میں شمار کیا جانا چاہیے؟ میں نہیں سمجھتا کہ سِکھ اس بات سے خوش ہوں گے۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ ۱۵ فیصد آبادی ۸۵ فیصد کا استحصال کیسے کرسکتی ہے۔
من موہن سنگھ کے سِوا تمام وزرائے اعظم ہندو رہے ہیں۔ ملک میں سیاسی قوت کا مرکز و منبع وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان ہیں۔ مرکزی کابینہ میں بھی ۸۵ فیصد ارکان ہندو رہے ہیں۔ سول اور ڈیفنس سروس میں بھی ہندوؤں کی واضح اکثریت رہی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ آر ایس ایس نے یہ مفروضہ کیسے گھڑلیا کہ اقلیت کے لوگ ۸۵ فیصد اکثریت کا استحصال کر رہے ہیں۔
ہندوؤں میں ایک خاص طبقہ ہے جو آر ایس ایس کے بانی ایم ایس گولوالکر سے متاثر ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں اور عیسائیوں سے محض اس لیے خار کھاتے ہیں کہ نچلی ذات کے ہندو یعنی دلِت اسلام اور عیسائیت قبول کر رہے ہیں۔ اس عمل سے معاشرتی نظام میں بہرحال تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ اور پھر یہ بات بھی انتہا پسند اور بنیاد پرست ہندوؤں سے ہضم نہیں ہو پارہی کہ اٹلی میں پیدا ہونے والی عیسائی سونیا گاندھی کو بھارتی باشندوں کی اکثریت نے لیڈر تسلیم کرلیا ہے۔
مسلمانوں سے نفرت کرنے کی اور بھی بہت سے وجوہ ہیں اور الزامات کی بھی کمی نہیں مگر تمام الزامات سمٹ کر ایک الزام میں سما جاتے ہیں … یہ کہ ووٹ بینک کی سیاست کی خاطر مسلمانوں کو خوش کیا جاتا ہے۔ بنیاد پرست ہندو سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو نوازا جارہا ہے! حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے چند نام نہاد رہنماؤں کو ذاتی حیثیت میں نوازا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مسلمانوں کی غالب اکثریت آج بھی ناخواندہ اور معاشرتی و معاشی اعتبار سے انتہائی پست معیارِ زندگی کی حامل ہے۔ مسلمانوں میں صحتِ عامہ کا بہت برا حال ہے۔ خواتین کی حالت زیادہ خراب ہے۔ بھارت کے بیشتر مسلمان آج بھی کس مپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اس وقت بھارت کے دلِت اور قبائلی یعنی نچلی ذات کے ہندو ۸۵ فیصد اکثریت کا حصہ نہیں۔ ہندوؤں کے چار ذات کے نظام (ورناشرم) میں دلِتوں کا کوئی مقام نہیں۔ آر ایس ایس انہیں ورناشرم کا حصہ بنانے کے لیے بے تاب ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے رجعت پسند اور بنیاد پرست ہندو ایسا نہیں چاہتے۔ دلِت ایسے بہت سے کام کرتے ہیں جو انہیں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی نظر میں سخت ناپسندیدہ بناتے ہیں۔ دلِت مذبح میں کام کرتے ہیں، مردہ جانوروں کی کھالیں اتارتے ہیں۔
میں نے انڈین پولیس سروس میں ۱۹۵۳ء میں شمولیت اختیار کی تھی۔ تب ماحول بہت اچھا تھا۔ کسی بھی بنیاد پر کسی کو الگ تھلگ نہیں کیا جاتا تھا، نہ ہی اجنبی سمجھا جاتا تھا۔ میں عیسائی تھا اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ میرے ایک ابتدائی باس وسنت ونایک نگرکر تھے جو پونا کے برہمن تھے۔ انہوں نے اپنی سرکاری رہائش میں ایک کمرہ مجھے دے دیا تھا، حالانکہ ان کی بیوی اور بچے ساتھ تھے۔ اب وہ دنیا نہیں رہی۔ وسنت ونایک نگرکر اب اس دنیا میں نہیں۔ میں انہیں بہت احترام سے یاد کرتا ہوں۔
آر ایس ایس کی سوچ یہ ہے کہ جمہوریت ہی وہ نظام ہے جو اکثریت کا ہے، اکثریت کی طرف سے ہے اور اکثریت کے لیے ہے۔ اور یہ کہ اس نظام میں ۱۵ فیصد اقلیت کو شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہندوؤں اور عیسائیوں کو توہینِ رسالت کے نام پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بھارت میں گو رکشک یہی کام کوئی نہ کوئی بہانہ تراشتے ہوئے کر رہے ہیں۔ پولیس یہ تماشا دیکھتی ہے اور ہدف بننے والوں کے خلاف پہلے کارروائی کرتی ہے۔ اُسے شاید یہ خوف لاحق ہے کہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں اُسے ملک دشمن یعنی بی جے پی دشمن گردانا جائے گا۔
نریندر مودی زور دے کر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ترقی سب کے لیے ہے مگر در حقیقت ایسا ہے نہیں۔ احمد آباد سمیت تمام بڑے شہروں میں مسلمان آج بھی ’’گھیٹوز‘‘ (الگ تھلگ آبادیوں) میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ۸۵ فیصد اکثریت کے حقوق مقدم اور بالا سہی مگر جب قانون کی بالا دستی کا تصور خاک میں ملا دیا جائے تو کیسی ترقی اور کہاں کی ترقی؟ ظلم اور نا انصافی وہ تیر ہے جو پلٹ کر آتا ہے۔
جولیو ریبیرو ممبئی کے سابق پولیس کمشنر اور گجرات اور پنجاب کے سابق ڈائریکٹر جنرل پولیس ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“The Majority Complex”.(“Indian Express”. June 5, 2017)
Leave a Reply