
قصرِ سفید کے فرعون نے جب سے مودی سرکار کو گود لیا ہے، اس کے بعد سے ایک بگڑے بچے کی طرح اپنے اڑوس پڑوس میں دھونس اور دھمکی کا انداز کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے۔ بنگلادیش کے بعد اب نیپال کو بھی بھارت بری طرح اپنے حصار میں جکڑنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ایک طرف تو بھارتی قیادت اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے حصول کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی خشکی میں گھرے (Land Lock) نیپال کی معاشی ناکہ بندی کرکے اس کو اپنا تابع اور ذیلی ریاست بنانے کے لیے عملاً سازشیں کررہی ہے۔ حال ہی میں نیپال نے بھارت پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی سرکار پچھلے چھ عشروں سے ناگالینڈ کو غیر قانونی طور پر ہتھیانے کے لیے کھلی مداخلت کررہی ہے، اور اس کے ساتھ ہی اب نیپال کی معاشی ناکہ بندی کرکے اسے شدید اقتصادی نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ قصرِ سفید کی حمایت کے باوجود یہ الزامات بھارت کی ساکھ پر ایک سیاہ دھبہ بن کر سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
نیپال کی تجارت بھارت کے راستے ہوتی ہے۔ خشکی میں گھرا ہوا ملک نیپال، بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے بھارت کا دستِ نگر رہنے پر مجبور ہے۔ بھارت نے کئی ماہ سے بغیر کوئی وجہ بتائے نیپال کے لیے بنیادی اشیاء کی فراہمی روک رکھی ہے۔ نیپال میں چند برسوں کے دوران جو سیاسی اور معاشرتی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان کے نتیجے میں بھارت کا اثر و رسوخ تیزی سے کم ہوگیا ہے۔ نیپال میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کی پشت پناہی پر بھارت کا ہاتھ رہا ہے، مگر اب چند برسوں کے دوران نیپال کے سیاستدانوں نے طے کیا ہے کہ وہ بھارت کے زیرِ اثر رہتے ہوئے زندگی بسر نہیں کریں گے۔ چند ماہ سے بھارت نے سرحدی تجارت روک رکھی ہے، جس کے نتیجے میں نیپال میں پٹرولیم مصنوعات اور دیگر ضروری اشیاء کی واضح قلت پیدا ہو چکی ہے۔
۳؍اکتوبر ۲۰۱۵ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں نیپال کے نائب وزیراعظم پرکاش مان سنگھ نے بھارت پر نیپال کی معاشی ناکہ بندی کا الزام عائد کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی کہ خشکی سے گھرے ہوئے ممالک کے حقوق کی پاسداری کی جائے اور انہیں باعزت طریقے سے عالمی برادری سے ہم آہنگ رہتے ہوئے جینے کا حق دیا جائے۔ نیپال کے وزیراعظم نے اپنی تقریر میں خشکی سے گھرے ہوئے ممالک کے لیے سمندر تک رسائی کے حق کو ہر حال میں یقینی بنانے کے لیے عالمگیر نوعیت کے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا اور سیکرٹری جنرل بان کی مون سے ملاقات کرکے بھارت کی طرف سے نیپال میں پٹرولیم مصنوعات اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی شدید قلت پیدا کرکے شہریوں کی مشکلات کو دوچند کرنے کی شکایت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان حالات میں عالمی برادری کی فوری مداخلت ناگزیر ہوگئی ہے۔ پرکاش مان سنگھ نے بان کی مون کو بتایا کہ نیپال میں ۲۴؍اپریل کو آنے والے زلزلے کے زخمیوں کے علاج اور بحالی کے کاموں میں غیرمعمولی دشواریوں کا سامنا ہے اور بھارتی رویہ سے نیپال میں لاکھوں افراد انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔ بھارت کی طرف سے اگر بنیادی اشیاء کی فراہمی کا راستہ روکنے کا سلسلہ جاری رہا تو نیپال میں لاکھوں افراد کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔ بان کی مون نے صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے نیپالی نائب وزیراعظم کو یقین دلایا کہ اس معاملے کا فوری طور پر جائزہ لیتے ہوئے ضروری اقدامات کی راہ ہموار کرنے میں کسی بھی تاخیر سے کام نہیں لیا جائے گا۔
نیپال نے معاشی ناکہ بندی کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھا کر بھارت کو حیرت زدہ کر دیا۔ بھارت کے لیے یہ بات ناقابلِ یقین تھی کہ نیپال اس حد تک بھی جاسکتا ہے۔ نیپال عشروں سے بھارت کے سیاسی اور معاشی دباؤ کے تحت رہا ہے، ایسے میں یہ بات بھارتی قیادت کے لیے انتہائی حیرت انگیز تھی کہ پہلے سے مشاورت کے بغیر نیپال معاشی ناکہ بندی کا معاملہ اقوام متحدہ میں کیسے لے جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھارت کی سفارتی ناکامی ہے کہ وہ نیپالی حکومت کے عزائم جاننے میں ناکام رہا اور معاملہ جنوبی ایشیا سے نکل کر اقوام متحدہ تک پہنچ گیا، جس سے مودی سرکار کو خاصی خفت اور ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض ماہرین کا کہناہے کہ بھارت نے نیپال کے نئے آئین کی مخالفت کرنے والے بھارتی نژاد نیپالیوں کی حمایت کرکے نیپال میں سیاسی جماعتوں کو ناراض کردیاہے۔
تین بڑی نیپالی سیاسی جماعتوں نے مل کر بھارت کے خلاف جانے کافیصلہ کیا ہے۔ اب یہ تینوں جماعتیں بیشتر معاملات میں بھارت کی مرضی کے خلاف کام کرنے کے ارادے میں پُرعزم دکھائی دے رہی ہیں۔ بظاہر ان کا اتحاد بھارت کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت کی ریاست بہار، جھاڑکھنڈ اور اُترپردیش سے تعلق رکھنے والے باشندوں کو نیپال میں مدھیشی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں نیپال میں آباد ہوئے ہیں۔ بھارت کے دباؤ پر نیپالی حکومت نے انہیں شہریت دے رکھی ہے، ایک نیپالی سفارتکار نے بھارت کے شہر ممبئی سے شائع ہونے والے اخبار ’’ڈی این اے‘‘ (ڈیلی اینالسز) کو بتایا کہ مدھیشیوں کی حمایت کرکے بھارت نے باقی ماندہ نیپال میں اپنی ساکھ خراب کرلی ہے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے سرحدی تجارت بند اور کسی بھی طور پر معاشی ناکہ بندی نافذ نہیں کی، بلکہ مدھیشی نیپالیوں نے سرحدی علاقوں میں چیک پوسٹوں کا گھیراؤ کرکے پیٹرولیم مصنوعات اور دیگر ضروری اشیاء سے بھرے ٹرک روک لیے۔ بھارت کے اس مؤقف پر کوئی بھی نیپالی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ بھارت کی مرضی کے بغیر ایسا ممکن نہیں۔ بھارت اگر سرحدی تجارت جاری رکھنا چاہے تو کوئی بھی اسے روکنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔
نیپال نے اقوام متحدہ میں معاملہ اٹھایا تو بھارت کو کچھ ہوش آیا اور اس نے گیارہویں دن ناکہ بندی ختم کرکے نیپال کے لیے بنیادی اشیاء کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا، مگر یہ سب پلک جھپکتے ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ نئی دہلی میں نیپالی سفیر دیپ کمارا پادھیائے نے بھارتی قیادت پر زور دیا کہ نیپال کے لیے پیٹرولیم مصنوعات اور دیگر ضروری اشیاء کی فراہمی بالکل نہ روکی جائے اور اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں تاکہ نیپال میں پیدا ہونے والے شدید منفی اثرات کا خاتمہ ہو۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیپالی سفارتکاروں نے بھارتی حکام سے یہ بھی کہا ہے کہ معاملات کواس حد تک نہ بگاڑا جائے کہ نیپال کی حکومت مجبور ہو کر ہر معاملے میں چین کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوجائے گو کہ ایسا کرنا جغرافیائی اعتبار سے نیپال کے لیے انتہائی دشوار اور پریشان کن ہوگا۔
۲۰۰۶ء کے سیاسی بحران کے دوران بھارت کی اُس وقت کی حکمران جماعت کانگریس اورخفیہ ادارے ’’را‘‘ نے نیپال کی کمیونسٹ (مارکسٹ) عناصر اور دیگر بدعنوان سیاستدانوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا، جس کے نتیجے میں نیپال میں محاذ آرائی مزید شدت اختیار کر گئی۔ ۲۱نومبر ۲۰۰۵ء کو نیپال کے ان بدعنوان اور غدار سیاستدانوں نے بھارت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کا بنیادی مقصد نیپال کے سیاسی بحران کو مزید سنگین بنانا تھا۔ یہ سمجھوتا یقینی بنانے میں نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر اور بھارتی وزیر خارجہ کے مشیر ایس ڈی مُنی نے اہم کردار ادا کیا۔ ۱۵؍ستمبر ۲۰۰۸ء کو روزنامہ ’’ہندو‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’’ڈیکنگ ود نیپال‘‘ میں ایس ڈی مُنی نے کھل کر اعتراف کیا کہ سیاسی بحران کو سنگین ترین بنانے کے لیے بھارت نے تین نیپالی سیاسی جماعتوں کو ایک ارب روپے فراہم کیے تھے۔ گرجا پرشاد کوئیرالہ کے سوا تمام متعلقہ سیاستدان زندہ ہیں۔
نیپال کے باشندوں میں عمومی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کے ملک کے حالات خراب کرنے میں بھارت کا ہاتھ رہا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ نیپال کو غیرمستحکم رکھنا بھارت کا خفیہ ایجنڈا ہے، جس پر عملدرآمد کے لیے نیپالی سیاستدانوں کو خریدتا رہتا ہے۔ جن سیاستدانوں کو خریدا جاتا ہے، وہ بھی اس بات کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے کہ انہیں بھارت کی طرف سے مدد مل رہی ہے۔ اپسیذر یادو کی سربراہی میں قائم فیڈرل سوشلسٹ فورم کے رہنما اشوک رائے نے ستمبر کے آخری ہفتے میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ ہم نے بھارت کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے (یا اس کی ایما پر) احتجاج کا طریقہ بدل دیا ہے اور اب ہم چیک پوسٹوں اور سرحدی علاقوں میں بنیادی اشیاء فراہم کرنے والے ٹرکوں کا راستہ بند کردیتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اشوک رائے نے یہ بھی کہا کہ بھارت نے ہمارے احتجاج کی حمایت کی ہے اور ہمارے احتجاج کو مستحکم کرنے کے لیے ہی بنیادی اشیاء کی فراہمی روک دی ہے۔
سوال یہ ہے کہ بھارت نیپال سے ملنے والی سرحدکے علاقے میں گڑبڑ کیوں چاہتا ہے، اور عدم استحکام پیدا کرنے کے کیوں درپے ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت نیپال کے ان علاقوں کو ختم کرنا چاہتا ہے جن میں بہار اور اترپردیش سے گئے ہوئے لوگ یا ان کی نسلیں رہتی ہیں۔ یہ سب کچھ آنجہانی اندرا گاندھی کے دور میں شروع ہوا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ نیپال کے کئی ضلعوں اور علاقوں کو بھارت کا حصہ بنا دیا جائے۔ اس منصوبے پرعمل کرتے ہوئے ۱۹۹۵ء میں سکم کو بھارت کا حصہ بنا لیا گیا۔ اس پر کسی نے شور نہیں مچایا، کسی بھی سطح پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔ اسی منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے اب نیپال کے سرحدی علاقوں کو بھارت میں ضم کرنے کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔
ناگالینڈمیں قائم ’’ناگا نیشنل کونسل‘‘ نے، جو بھارت کی اس ریاست کے اندر رہتے ہوئے الگ انتظامی ڈھانچا رکھتی ہے، اور خود کو بھارت کا حصہ سمجھنے کے لیے قطعاً تیار نہیں، سلامتی کونسل میں مستقل نشست حاصل کرنے سے متعلق بھارتی کوششوں کی شدید مخالفت کی ہے۔ ناگا نیشنل کونسل کے سرکردہ رہنماؤں نے حال ہی میں اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنے سے متعلق بھارتی کوششوں پر بالکل متوجہ نہ ہو، ان رہنماؤں نے عالمی ادارے کو بتایا ہے کہ کسی طور بھارت نے چھ عشروں سے شمال مشرقی بھارت کے علاقوں میں جبر کا ماحول بنا رکھا ہے۔ میانمار (برما) سے متصل ناگالینڈ پر غیر قانونی قبضہ جمایا ہوا ہے۔ جموں و کشمیر کے لوگوں پر اپنی مرضی اور فوج مسلط کررکھی ہے اور جہاں کہیں بھی آزادی یا داخلی خودمختاری کے حق میں آواز اٹھتی ہے، اسے بری طرح کچل دیا جاتا ہے۔ ناگا رہنماؤں نے اقوام متحدہ کو یہ بھی بتایا کہ بھارتی فوج کو خصوصی قوانین کے تحت غیرمعمولی اختیارات دیے گئے ہیں جس سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے وہ جائز حقوق اور علیحدگی کی ہر کوشش کو اپنے غیرانسانی ظلم و ستم سے کچل دیتی ہے۔ سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے حصول کی بھارتی کوشش کے خلاف ایسا ہی ایک بیان شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں کے ۹ باغی گروپوں پر مشتمل یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ آف ویسٹرن ساؤتھ ایسٹ ایشیا نے جاری کیا ہے۔ اس گروپ کے سربراہ ناگا لیڈر ایس ایس کھپلانگ کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل میں بھارت کو مستقل رکنیت کا ملنا، اس کے جابرانہ اطوار میں مزیدشدت پیدا کر دے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’اوصاف‘‘ لندن۔ ۹ نومبر ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply