
یہ ’’بدلتے زمانہ‘‘ کی علامت ہے کہ ہندوستان میں اس سال مقبول ترین IPOs میں سے ایک اخباری کمپنی ہے۔ ہندوستان ٹائمز میڈیا(جو ’’ہندوستان ‘‘ایک معروف ہندی روزنامہ ہندوستان ٹائمز نامی ایک انگریزی روزنامہ اور دو انگریزی میگزین کی اشاعتوں پر مشتمل ہے ) کے حصص کی فروخت بمبئی اسٹاک ایکس چینج کی فہرست میں یکم ستمبر کوجس کی قیمت ۹ کروڑ ڈالر ز سے بھی زیادہ ٹھہری شامل کرلئے گئے۔ IPO نے بھارتی اخباری صنعت کے لئے غیرمعمولی سال کو تاریخ ساز قرار دیا ہے‘ یہ وہی اخباری صنعت ہے جس نے نئی اشاعتیں جاری ہونے‘ بے معنی جنگیں ہونے اور سنسنی خیز رپورٹوں کو اپنے انجام تک پہنچتے دیکھی ہیں۔
یہ تمام ہنگامہ خیزی اخباری ناشرین کے لئے دلوں کو گرما دینے والا نظارہ ہے۔ کئی ایک ممالک میں روزناموں کی فروخت اور اس سے حاصل ہونے والا منافع بتدریج کئی برسوں سے زوال کا شکار ہے ایک ایسا زوال جس میں انٹرنیٹ اور ٹی وی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے مزید تیزی پیدا کردی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی ہندوستان میں ایک اخباری تجارت نے زور پکڑا دنیا بھر سے سرمایہ کار اور میڈیا کے سربراہ وہ تاجر گھسنے کے مواقع تلاش کررہے ہیں ایک ایسی جگہ جو شاید دنیا کی آخری سب سے بڑی اخباری مارکیٹ ہے۔
یہ آسان نہیں ہوگا۔ ہندوستان کا اخباری دھندہ غیرملکیوں کے لئے تقریباً بند ہے۔ جون میں حکومت نے ایک پابندی اٹھائی جب غیرملکی اخباروں کو اجازت ملی جیسے انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹریبیٔون پہلی مرتبہ بھارت میں شائع ہوا اور رعایت بھی اس شرط کے ساتھ کہ غیرملکی میڈیا کی تمام اقسام کے فروخت کرنے والے صرف بین الاقوامی ایڈیشن ہی بیچ سکتے ہیں اور شمارہ کسی بھی قسم کے مقامی مواد یا اشتہا ر سے پاک ہو کیونکہ اس صورت میں ملک کی مقامی سطح کی اشاعتوں کو دھچکا لگنے کا احتمال ہے ۔چنانچہ بیرون ملک میں موجود میڈیا کے کرتا دھرتا اس طرح اس کے اندر گھس نہیں سکتے ہیں۔ بیرون ملک اخبارات اور ٹی وی نیوز چینل کے مالکانہ حقوق پر ۲۶ فیصد کی حد ہے۔ حالیہ تبدیلیاں کافی نہیں ہیں۔ مثلاً کچھ ’’کلیدی کھلاڑی‘‘ ہیں جو پابندی اٹھنے کے منتظر ہیں۔
مثلاً گذشتہ برس وال اسٹریٹ جرنل نے دھوم دھڑکے کے ساتھ اعلان کیا کہ وہ ایک مقامی پارٹنر کے ساتھ ایک انڈین اشاعت کا آغاز کرنے والے ہیں۔ مگر یہ اشاعت ہنوز اخباری اسٹینڈ پر نہیں مل سکا ہے۔ ’’ہم انڈیا میں شائع کرنے کی پوری امید رکھتے ہیں‘‘سمُن دوبے نے عزم دہرایاہے جو وال اسٹریٹ جرنل کے مالک ڈائوجونز ایئر کمپنی کے انڈیا میں نمائندے ہیں۔ ’’مگر صرف اسی صورت میں جب ہماری پراڈکٹ ہندوستانی قارئین کے لئے پرکشش بھی ہو اور معاشی طور پر فروغ پذیر بھی۔‘‘دوبے کی مایوسی اس لحاظ سے کافی بڑھ جاتی ہے کہ ایک سنہری موقع اس کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ ہندوستانی اخبار کا منظر کچھ اس قسم کا ہے جیسے ایک ٹائم مشین کے ذریعے بیسویں صدی کے اوائل میں امریکا کی ایک سیر کرلی جائے کہ جب اخبارات زندگیوں اور سیاست پر حکمرانی کرتے تھے۔ زیادہ تر ہندوستانی اخبارات کی فروخت بتدریج بڑھ رہی ہے اور اشتہارات ٹھیک ٹھاک بلندی پر ہیں۔ ایک ارب کی آبادی کے لئے اس ملک میں لگ بھگ پچاس ہزار اخبارات نکلتے ہیں۔ گو کہ اخبار کی تقسیم کے اعداد و شمار متنازعہ ہیں اور پرکھنا انتہائی مشکل ہے‘ ایک حالیہ سروے کے مطابق اخبارات کے روزناموں کے قارئین کی تعداد گزشتہ تین برسوں میں ۱۴ فیصد کے اضافے کے ساتھ ۱۷کروڑ ۶۰لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ (ان میں سے بیشتر لوگ انگریزی زبان کے علاوہ زبانوں میں اخبار پڑھتے ہیں) ٹائمز آف انڈیا جو انگریزی کا کثر سے فروخت ہونے والا اخبار ہے فروخت کے لحاظ سے بارہویں نمبر پر ہے۔ اس شعور کی وجوہات تلاش کرنا چنداں مشکل نہیں۔ خواندگی کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے اور گذشتہ تین برسوں میں ہندوستان بھر میں ۲۱ فیصد تک بڑھی ہے۔ اخبار بینی کا بڑھتا ہوا رجحان ہندوستان کی دیگر خوبیوںکے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایک ٹھوس معاشی اور جمہوری فضاء جس نے اسے میڈیا کے عالمی سرمایہ کاروں کی توجہ کے حوالے سے چین کا سنجیدگی سے حریف بنادیا ہے۔ بایں ہمہ اس سلطنتِ وسط میں اشتہار بازی پر بہت پیسہ ہے۔ ہندوستان میں چین کے مقابلہ میں قواعد و ضوابط اتنے نہیں ہیں یہاں پیسہ بنانا زیادہ آسان ہے۔ اس رائے کا اظہار ہانگ کانگ کے ایک مشاورتی ادارہ برائے میڈیا صنعت میڈیا پارٹنرز ایشیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر وویک کیوٹو نے کیا۔
آپ شاید یقین نہیں کریں گے نئی دہلی کی سڑکوں پر اخبار۶ سینٹ یا اس سے کم ہی میں بکتی ہے ‘لہٰذا سرکولیشن کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ریونیو کی کمی کو اشتہار بڑی حد تک پورا کرتے ہیں۔ گزشتہ سال ہندوستان کے تمام ذرائع ابلاغ میں اشتہارات پر خرچ ہونے والے ڈھائی ارب ڈالرز کی رقم کا ۴۶ فیصد اخبارات لے اڑے۔
بڑھتی ہوئی سرکولیشن اور اشتہار بازی کے حسین امتزاج میں پرکشش منافع پر رال ٹپکاتے ہوئے ہندوستانی اخبارات کے چوہدریوں نے ملکی تاریخ میں اخبارات کے درمیان شدید رقابت ختم کردی ہے۔ حالیہ صورتحال تک زیادہ تر شہروں میں ایک بڑے انگریزی اخبار کا تسلط ہے مثلاً بمبئی شہر ٹائمز آف انڈیا کی جاگیر ہے۔
کچھ مٹھی بھر خاندان ہندوستان کے بڑے اخبارات کو کنٹرول کرتے تھے اور ایک شریفانہ معاہدہ انہیں آپس کی روزی کے معاملات میں باہمی مداخلت سے دور ہی رکھتا تھا۔ مگر اب ایسا نہیں ہے بمبئی میں ایک نئے انگریزی روزنامہ DNA (Daily News and Analysis) شہر بھر میں درجنوں دیوقامت اشتہاری سائن بورڈز خرید کر اشتہارات کی اس طرح یلغار کردی ہے کہ جیسے وہ ٹائمز آف انڈیا کو نگل ہی جائے گا۔ اسی دوران ٹائمز نے ایک نیا ٹیبلائڈ (کم جسامت کا اخبار) ممبئی مرر کے نام سے جاری کیا ہے۔ اس دنگل کو مزید بڑھاوا دینے کے لئے ہندوستان ٹائمز نئی دہلی کا ایک معروف اخبار بھی میدان میں کود پڑا ہے۔ بمبئی اس وقت ہندوستان میں اخبارات کی تاریخ کی سب سے آتشیں جنگ سے دوچار ہے مگر صرف ایک بمبئی ہی نہیں ۔ مدراس میں دکن کرانکل (Deccan Chronicle) ہندوستان کے سب سے منظم انگریزی اخبار (The Hindu) کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقابلہ کررہا ہے۔
ان نئی اشاعتوں اور آغاز کرنے والوں کو چاہئے کہ عمل کے میدان میں بیرون ملک سرمایہ کاروں کو موقع فراہم کریں۔ بہرنوع بھارتی اخبارات کو نئے شہروں میں مارکیٹنگ کی مہنگی مہمات کے ذریعے موثر انداز میں راستہ بنانے کے لئے سرمایہ کی ضرورت ہے۔ مغربی اخبارات ایک یقینی مستقبل کا سامنا کررہے ہیں مگر جیبیں ان کی بھاری ہیں۔ یہ صورتحال دونوں کے لئے موزوں ہے۔ ابھی تک کچھ ہی بڑے معاہدے طے پائے ہیں ۔ مثلاً برطانیہ کے فنانشل ٹائمز نے بھارت کے بزنس اخبار ’’بزنس اسٹینڈرڈ‘‘ پر سرمایہ لگایا ہے اور ہینڈرس گلوبل انوسیٹمنٹس ایک برطانوی کمپنی نے HT میڈیا پر سرمایہ کاری کی ہے۔ ’’یہ ہمارے حق میں بہت بہتر ہوگیا ہے‘‘ یہ بات بزنس اسٹینڈرڈ کے مدیر ٹی ایس نیناں نے کہی۔ اس کا اخبار اب فنانشل ٹائمز سے روزانہ ایک صفحہ انٹرنیشنل بزنس نیوز کا حاصل کرتا ہے اور عمواً اس میں برطانوی اخبار سے آراء کا تبادلہ کرتا ہے جس کے نتیجے میں یہ اپنے مدمقابل اخبارات سے کافی بہتر ہوگیا ہے۔
کچھ اور معاہدے کیوں نہیں ہورہے؟۲۶ فیصد مالکانہ حقوق کی پابندی ایک مسئلہ ہے۔
طارق انصاری مڈڈے ملٹی میڈیا کے منیجنگ ڈائریکٹر اور بمبئی کے مقبولا خبار مڈ ڈے کے مالک کہتے ہیں کہ زیادہ تر بیرونی سرمایہ کار چاہتے ہیں کہ پابندی کی حد کو تبدیل کیا جائے کم سے کم ۴۹ فیصد اس سے قبل کہ وہ بھارتی اخبار میں سرمایہ کاری کریں۔
پابندی کی حد کے حامیان کا موقف ہے کہ بہت سے ممالک میں اخباری مارکیٹ میں غیرملکیوں کا داخلہ ممنوع ہے تو پھر بھارت میں کیوں نہیں؟ اور ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ پابندی کی غیر موجودگی میںمقامی صنعت میں ناجائز سرمایہ داخل ہوجائے گا۔’’آپ چاہیں گے کہ ایسا سرمایہ جس کے دہشت گردوں سے روابط ہیں میڈیا میںداخل ہوجائے ‘‘ ایم جے اکبر جو بھارت کے قابل ترین صحافی اور ایشین ایج اخبار کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں نے یہ سوال اٹھایا۔ مگر پابندی کے خلاف بولنے والے اس دلیل کو بہت خیال نہیں کرتے زیادہ تر کا اندازہ ہے کہ ۲۶ فیصد کی حد کو برقرار رکھنے کی پشت پر بھارتی اخبارات کے طاقتور چوہدری ہیں جو اسے اسی طرح رکھنا چاہتے ہیں۔
’’اخبار خانوں کے خود ساختہ اجارہ داراس قسم کے الزامات لگا کر ایک مضبوط مقابلہ کی فضاء کو الگ رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ انصاری کی یہ رائے بھی ہے۔
کچھ تجزیہ نگار پوری طرح اس بات کے قائل ہیں کہ ابھی نہیں تو کچھ ہی عرصہ میں بیرونی دنیا کے دبائو کے نتیجے میں قانون ساز اداروں کو مجبوراً پابندیاں کم کرنا ہونگی مگر پابندی کی یہ حد ابھی کچھ دیر تک تو ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بالاخر غیرملکی سرمایہ کاروں ہی کے حق میں بازی رہے گی۔ رپورٹر حضرات اور دیگر اسٹاف کے درمیان مقابلہ کی فضاء نے موجودہ اخبارات کے لئے مشاہرہ کی شرح بڑھادی ہے اور مارکیٹنگ کے پہاڑ جیسے اخراجات کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ منافع بہت تھوڑا رہ جائے گا۔
مڈ ڈے کے انصاری صاحب کہتے ہیں کہ ’’محاذ آرائی کی جو حکمت عملیاں اختیار کی جارہی ہیں اس پر میں فکر مند ہوں انہوں نے خبردار کیا کہ آگے چل کر یہ صنعت کو بڑا نقصان پہنچائے گی۔‘‘ بالفاظ دیگر دنیا کی سب سے بڑی اور تہلکہ خیز میڈیا اور مارکیٹ کے کچھ کھلاڑی دکان اپنی بند کرسکتے ہیں اس لئے کہ خریدار بہت ہی تھوڑے ہیں جن کا یہ تعاقب کررہے ہیں۔ بعد میںجس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اخبارات بند ہوجائین گے۔ لوگ اخبار کی دنیا میں آتے ہیں سمجھتے ہیں کہ یہ ایک دلفریب جگہ ہے۔ ایم جے اکبر کہتے ہیں ’’یہ ہرگز ایسی جگہ نہیں‘‘ اگر اشاعتیں کباڑ کے مول بکنا شروع ہوجائیں تو بیرون سرمایہ کار جو شاید بھارت میں راستہ ڈھونڈنے کے لئے پریشان ہیں بہت خوش ہوں گے کہ شکر ہے انہیں تیزی سے اندر آنے کی اجازت نہیں ملی۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘۔ شمارہ۔ ۲۶ ستمبر ۲۰۰۵)
Leave a Reply