
امریکی ووٹروں نے صدارتی انتخابات میں کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی، ابتر معیشت اور سیاہ فاموں کے خلاف نسلی تشدد کے لیے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو وا ئٹ ہاوس سے باہر کا راستہ تو دکھا دیا، مگر ہزاروں میل دور بھارت کی مشرقی ریاست بہار کے حالیہ انتخابات میں جس طرح وزیراعظم نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی کے زیر قیادت اتحاد نے اقتدار میں واپسی کی، اس سے لگتا ہے کہ دہلی میں ہوئے مسلم کش فسادات،کورونا وائرس سے نپٹنے میں ناکامی یا لاک ڈاؤن کی وجہ سے مہاجر مزدوروں کی حالت زار بھارتی ووٹروں کو پسیج نہیں پائی۔ تمام تر ناکامیوں کے باوجود، وہ مودی کی گفتار اور ہندو تواکی سیاست کے اسیر ہیں۔ مگر باریک بینی سے انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کرنے سے یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ مودی کے رتھ کو روکنے میں ناکامی کی ذمہ داری اپوزیشن کانگریس کے سر جاتی ہے، جس کی من مانی اور زیادہ سے زیادہ سیٹیں لڑنے کی ضد نے سیکولر اتحاد کی کامیابی میں روڑے اٹکائے۔ اب اس کے رہنما مع چند بندھوا مسلم رہنماؤں و علما سیکولر اتحاد کی ہار کا پورا ٹھیکرا حیدرآباد کے ممبر پارلیمان اسدالدین اویسی کے سر پر پھوڑکر یہ بتاناچاہ رہے ہیں، کہ ان کی وجہ سے مسلم ووٹ بکھر گیا اور ہندو ووٹ یکجا ہوگیا۔ اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (ایم آئی ایم) دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی جنتا دل کے ساتھ مل کر ۲۰ نشستوں پر قسمت آزمائی کر رہی تھی اور پانچ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی۔ کانگریس نے پچھلی بارکل ۲۴۳ نشستوں میں سے ۴۰ نشستوں پر انتخاب لڑا اور ۲۰ جیت گئی تھی۔ اس بار اس نے ۷۰ سیٹوں پر لڑنے کی ضد کی، مگر بس ۱۹میں کامیابی حاصل کی۔اگر یہ سیٹیں بائیں بازو یا راشٹریہ جنتا دل کے کھاتے میں چلی جاتی، تو نتائج کچھ مختلف ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ کانگریس پارٹی کے صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے ایک ماہ بعد دہلی کے سری فورٹ آڈیٹوریم میں سونیا گاندھی کی تقرری پر مہر لگانے کے لیے اپریل ۱۹۹۸ء میں کانگریس کمیٹی کا سیشن منعقد ہوا۔ لوک سبھا میں پارٹی کے رہنما شرد پوار نے میٹنگ میں یاد دلانے کی کوشش کی کہ اب یہ عہد رفتہ کی کانگریس نہیں ہے۔ انہوں نے کانگریس کی تشبیہ کسی زمیندار سے دی، جس کی زمینیں بک چکی ہیں، حویلی خستہ حال ہو چکی ہے۔ وہ خود مقروض ہوکر زندگی کھینچ تو رہا ہے، مگر زمینداری کا نشہ برقرار ہے۔ ملک بھر سے آئے کانگریس کے اراکین کو یہ تشبیہ سخت ناگوار گزری اور انہوں نے پوار کی اس قدر ہوٹنگ کی کہ بڑی مشکل سے انہوں نے اپنی تقریر ختم کی۔ اس سیشن میں جو سیاسی قرار داد پاس ہوئی، اس کا لب لباب تھا کہ گاندھی فیملی نے اب چونکہ دوبارہ کانگریس کی قیادت سنبھالی ہے، اس لیے اب پارٹی عروج کی طرح گامزن ہو جائے گی اور اپنے دم پر اتحادیوں کے بغیر انتخابات لڑے گی۔مگر متواتر انتخابات ہارنے کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ہر کشن سنگھ سرجیت کی ایما پر ۲۰۰۴ء کے انتخابات میں کانگریس نے سیٹوں کی تقسیم میں دریا دلی دکھا کر متحدہ ترقی پسند اتحاد تشکیل دے کر دیگر پارٹیوں کی مدد سے بی جے پی کی زیر قیادت اٹل بہاری واجپائی حکومت کو اکھاڑ پھینکا۔ مگر جلد ہی انا عود کر آگئی۔ چند برسوں کے بعد جب ۲۰۰۹ء کے پارلیمانی انتخاب کی تیاریاں ہو رہی تھیں، تو بہار کی سب سے بڑی پارٹی لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل( آر جے ڈی) نے کانگریس کو ۴۰ میں سے پانچ نشستیں لڑنے کی پیشکش کی۔ مگر کانگریس نے اس کو حقارت سے ٹھکرا کر اعلان کیا کہ وہ سبھی نشستوں پر امیدوار کھڑا کرے گی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کانگریس خود کوئی سیٹ لینے میں کامیاب تو نہیں ہوئی، دوسری طرف ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے آر جے ڈی بس چار سیٹیں جیت پائی۔ پارٹی اسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے بجائے کانگریس ابھی بھی گاندھی فیملی کو ہی انتخابات میں بھنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے رہنما ابھی تک اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ موجودہ دور کا عام ووٹر پریوں اور راجے مہاراجوں کی کہانیان سن کر پروان نہیں چڑھا ہے۔ بلکہ وہ اب اسی رہنما کو ترجیح دیتا ہے جو قابلِ رسائی ہو یا ماضی میں اس کی ہی جیسی زندگی گزار چکا ہو۔ کانگریس اب ایسا بوجھ بن گئی ہے کہ جسے کوئی اتحادی اب شاید ہی اپنے ساتھ رکھنا چاہے گا۔پڑوسی ریاست اترپردیش میں تو سونیا گاندھی کی صاحبزادی پرینکا گاندھی نے ضمنی انتخابات میں کمان سنبھالی تھی، مگر پھر بھی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ ان انتخابات میں ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر بھارت میں بسنے والے ۲۰۰ملین مسلمان کیا کریں؟ سیکولر پارٹیوں کا حال یہ ہے کہ پچھلے سال ماہ رمضان سے دو ماہ قبل اتر پردیش کی سماج وادی پارٹی کے سربراہ نے ضلعی صدور کو پیغام بھیجا تھا کہ تزک و احتشام کے ساتھ افطار پارٹیوں کا اہتمام نہ کیا جائے۔ اگر ذاتی طور پر کوئی مقامی رہنما افطار کا اہتمام کرتا ہے تو وہاں ملائم سنگھ یادو یا ان کے صاحبزادے اکھلیش سنگھ کی تصویر یا پارٹی کا بینر آویزاں نہیں ہونا چاہیے۔ مزید ہدایت تھی کہ اگر کسی کی افطار پارٹی میں جانا ہوا تو وہاں ٹوپی لگا کر سلفی یا تصویریں نہ کھنچوائیں یا کم ازکم ان کو سوشل میڈیا کی زینت نہ بنائیں۔اس پارٹی کے ایک مقتدر مسلم رہنما اعظم خان فی الوقت اپنے اہل و عیال کے ساتھ جیل میں بند ہیں۔ ان کی رہائی کے لیے سماج وادی پارٹی کے کسی رہنما نے کوئی مہم چلانا تو دور کی بات، زبانی جمع و خرچ کرنا بھی مناسب نہ سمجھا۔ چند برس قبل کانگریس کے مقتدر رہنما اور ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد کو شکوہ کرنا پڑا کہ ان کی پارٹی کے ہندو اراکین اب ان کو اپنے حلقوں میں جلسے اور جلوسوں میں مدعو کرنے سے کتراتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ۱۹۷۳ء میں کانگریس میں شمولیت کے بعد سے لے کر آج تک انہوں نے ہر انتخابی مہم میں شرکت کی ہے اورہندو رہنما ان کو اپنے انتخابی حلقوں میں لے جانے کے لیے بے تاب ہوتے تھے۔ پہلے جہاں جلسے جلوسوں میں ان کو مدعوکرنے کے لیے ۹۵فیصد درخواستیں ہندو رہنماؤں کی آتی تھیں، اب پچھلے چار سالوں میں سکڑ کر محض ۲۰ فیصد رہ گئی ہیں۔
۲۰۱۷ء میں گجرات کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر کانگریس نے کارکنوں کو باضابط ہدایت دی تھی کہ اسٹیج پر کوئی مسلم رہنما براجمان نہ ہو۔ حتیٰ کہ گجرات سے کانگریس کے مقتدر رہنما اور سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو پس پردہ رہنا پڑا۔ امیدوارں کو بتایا گیا تھا کہ وہ مسلم محلوں میں ووٹ مانگنے نہ جائیں اور جلسے، جلوسوں میں لمبی داڑھی و ٹوپی والوں کو اگلی صفوں میں نہ بٹھائیں۔ اسی طرح کی حکمت عملی بعد میں ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات میں بھی اپنائی گئی۔ ہندو ووٹروں کو لبھانے کے لیے راہول گاندھی نے مندروں اور مٹھوں میں جاکر آشیرواد بھی لی تاکہ خود کو مودی سے زیادہ ہندو ثابت کرسکیں۔
پارٹی نے مسلم رہنماؤں کو یہ بھی بتایا تھا کہ انتخابات میں وہ ٹکٹ یا مینڈیٹ کے حصول کے لیے تگ و دو نہ کریں اور حلقہ کے لیے کسی مضبوط سیکولر ہندو امیدوار کر ترجیح دے کر اس کو کامیاب بنائیں۔ انتخابات کے دوران اتر پردیش کا دورہ کرتے ہوئے دیوبند شہر میں معروف وکیل ندیم اختر نے راقم کو بتایا تھاکہ بی جے پی کو پتا ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا ہے، اس لیے ان کا امیدوار ووٹ مانگنے ہی نہیں آتا ہے۔ اس کے رہنماؤں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ یکجا ہو۔ ادھر سیکولر پارٹیوں کو معلوم ہے کہ مسلمان کہاں جائے گا، ووٹ تو بہرحال انہی کو ملنا ہے، اس لیے وہ بھی ان کے سماجی اور اقتصادی مسائل کو حل نہیں کرتے ہیں۔ اترپردیش کے ہی کوسی کلان قصبہ میں مسلمان محلوں کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ تھی، کہ چند لمحے وہاں گزارنا محال تھا۔ ٹوٹی سڑکوں اور گندے نالے کے کنارے واقع اس محلے میں بدبو کے بھبھکے اڑ رہے تھے۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ کیا بلدیہ اس علاقے میں صفائی نہیں کرواتی ہے، تو لوگوں کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں پچھلے کئی سالوں سے بی جے پی کا کونسلر انتخاب جیت رہا ہے، اس لیے اس علاقے میں خاکروب وغیرہ آتے ہی نہیں ہیں۔ بریلی کے مسلم اکثریتی علاقہ شامت گنج کی تقریباً چار لاکھ آبادی کے لیے صرف ایک بینک اور چار اے ٹی ایم تھے۔ یہ علاقہ زردوزی کے لیے مشہور ہے۔ علی گڑھ کے جو علاقے تالے بنانے کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں مگر ان میں کوئی بینک نہ پوسٹ آفس تھے۔ البتہ ان دونوں علاقوں میں تین چار پولیس اسٹیشن اورکئی درجن پولیس پوسٹیں قائم تھے۔ کئی برس قبل تک میں بی جے پی کے مسلم رہنماؤں جیسے شاہنواز حسین اور علما میں مولانا وحید الدین خان کی اس دلیل کا کسی حد تک قائل ہوگیا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کو منفی ووٹ دینے کے بجائے بی جے پی اور دائیں بازوکی دیگر جماعتوں میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہئے، تاکہ ان کی موجودگی سے ان پارٹیوں کا رویہ مسلمانوں کے تئیں نرم ہو اور سیکولر پارٹیاں بھی ان کو بس ترنوالہ نہ سمجھیں۔ مگر اس میں اب سب سے بڑی رکاوٹ بی جے پی خود ہے جس نے شدت پسند ہندو نظریات کو اپنا محور بنایا ہوا ہے اور اس میں اقلیتوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھی ہے۔ ۲۰۱۴ء میں کئی کشمیر ی مسلمانوں نے بی جے پی میں شمولیت کی تھی۔ ان میں حنا بھٹ اور شیخ خالد جہانگیر بی جے پی کا خوف دور کرنے کے لیے وعدے کر رہے تھے کہ پارٹی کشمیر کے خصوصی تشخص اور اختیارات سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کریگی۔ حنا بھٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا، کہ اگر ایسی کوئی کوشش ہوتی ہے، تو آگے آکر پہلے اس کی مخالفت کرے گی۔ پتا نہیں وہ اب اپنے اس ویڈیو کو دوبارہ دیکھتی ہیں کہ نہیں اور کس طرح یہ رہنما اپنے ضمیر کو کچل کر بی جے پی کے ایجنڈے کے حصہ بن کر اپنے ہم وطنوں کا قافیہ تنگ کر رہے ہیں؟
کشمیر کے بعد تو اب آسام میں بھی مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بی جے پی کی پچھلی اوتار یعنی بھارتیہ جن سنگھ، بھارتی سیاست میں ۵۰ کی دہائی سے لے کر ۸۰ تک دائیں بازو کی اہم جماعت تھی۔ مگر اس کے اعلیٰ عہدوں پر کئی مسلمان بھی براجمان تھے۔ اندرا گاندھی کے خلاف ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں مسلمانوں اور دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام سید عبداللہ بخاری نے جن سنگھ کے امیداروں کے حق میں مہم چلاکر جتوا بھی دیا تھا۔ مگر بی جے پی جس طرح اب ہندو شدت پسندی کو گلے لگا کر مسلمانوں کو معتوب و مغضوب بناکر ووٹ بٹوررہی ہے، اس کے مدنظر کسی باضمیر مسلمان کا بی جے پی کو ووٹ دینا یا اس کی صفوں میں شامل ہونا نا ممکن ہے۔ حکومت گجرات کے ایک سابق افسر ہر ش مندر کے مطابق مسلمانوں کے لیے اتنا برا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کی تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔ گو کہ دنیامیں مسلمانوں کی جو آبادی ہے اس کا دسواں حصہ بھارت میں ہے، مگر اس کے باوجود وہ سیاسی یتیم بنائے گئے ہیں۔ ان میں اب تعلیم و ترقی کے بجائے سلامتی کا احساس زیادہ ہے جوایک خطرناک علامت ہے۔ اب یہ اہم سوال مسلمانوں کے سامنے ہے کہ کیا وہ سیکولر پارٹیوں کا دامن تھامے رکھیں، جنہیں ان کی تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جو ان کو صرف ووٹ بینک کی نظر سے دیکھتے ہیں یا جنوبی صوبہ کیرالا کا ماڈل اپنا لیں؟ کیرالا میں مسلمانوں کی اپنی سیاسی جماعت ہے اور چونکہ اس صوبہ میں مخلوط حکومت ہی اقتدار میں آتی ہے، اس لیے یہ حکومت میں شریک بھی رہتی ہے۔ سیاسی نمائندگی کی وجہ سے اس صوبہ میں مسلمانوں کی سماجی اور اقتصادی صورت حال خاصی بہتر ہے۔ مبصرین کے مطابق شمالی بھارت یا کسی دوسرے صوبے میں ایسی سیاسی جماعت بنانا ناممکن ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ہندو خوف کی نفسیات میں مبتلا ہوکر فرقہ پرست جماعتوں کا دامن تھام کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں۔
معروف مصنفہ ارون دھتی رائے نے ایک بار مشورہ دیا تھا کہ بھارت میں ’’مظلوموں کا اتحاد‘‘ قائم کرنے کے وافر مواقع ہے کیونکہ مسلمانوں کی طرح دلت اور قبائلی بھی موجودہ نظام کا شکار ہیں۔ اس طرح کا ہی کوئی اتحاد بھارت میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اویسی اس راہ پر گامزن ہیں۔ مہاراشٹرا میں بھی انہوں نے دلت پارٹیوں کے ساتھ ہاتھ ملا کر انتخابات میں شرکت کی تھی۔ مگر سیکولر پارٹیوں نیز چند علما ان کے خلاف ایسی تیر اندازی کر رہے ہیں، حتیٰ کہ ان کے عقائد پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں، لگتا ہے کہ انتخابات میں شرکت کرکے وہ گناہ عظیم کے مرتکب ہو گئے ہیں۔ معروف صحافی معصوم مراد آبادی کے مطابق سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو ایک ریوڑ کی طرح ہانکتی رہی ہیں۔ اگر مسلمان ان استحصالی پارٹیوں سے دامن چھڑا کر اپنی سیاست اور اپنی قیادت کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور کوئی خود اعتمادی اور خدا اعتمادی کے بل پر سیاست میں کامیابی حاصل کرتا ہے،تو اس کو بی جے پی کا ایجنٹ بتاکر معتوب کرایا جاتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ مسلمان رہنما اپنے اندر جھانک کر فیصلہ کریں کہ کیا سیکولر پارٹیوں کا دُم چھلہ بن کر وہ قوم کا بھلا کرسکیں ہیں؟ کیا ابھی وقت نہیں آیاکہ ایک متبادل حکمت عملی تیار کرنے پر سنجیدہ غور و خوض کیا جائے؟ وزیراعظم مودی اوران کی پارٹی کے رہنما بھی اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ کیا ۲۰کروڑ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر وہ بھارت کو ایک سپر پاور بنانے کا خواب پورا کر سکیں گے؟
(بحوالہ: روزنامہ ’’۹۲ نیوز‘‘ کراچی۔ ۱۸؍نومبر ۲۰۲۰ء)
Leave a Reply