بھارتی دارالحکومت دہلی میں (جو اب ایک ریاست ہے) ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی حکومت نے ایک ماہ میں دوسری بار چند بنیادی مسائل کے حوالے سے عوام سے رابطہ کیا ہے۔ یہ قدیم یونانی روایت کا تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ دسمبر کے اوائل میں ’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے دہلی کی اسمبلی کے انتخابات میں ۳۰ فیصد ووٹ اور ۴۰ فیصد نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ آیا، جو خاصا جاں گسل تھا۔ اس معاملے میں عام آدمی پارٹی نے براہ راست ریفرنڈم کرانے کا سوچا تاکہ معلوم ہوسکے کہ عوام اقلیتی یعنی مخلوط حکومت چاہتے ہیں یا مستحکم حکومت۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے بلاواسطہ جمہوریت متعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ عوام کسی بھی وقت کسی بھی وزیر سے جواب طلب کرسکیں، اپنے مسائل عمدگی سے اور بروقت بیان کرسکیں۔
’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے برازیل کی پورٹو الیگرے پارٹی کے مقامی حکومت کے ماڈل سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس کے منشور میں اس پارٹی کے منشور کے بہت سے نکات ہیں۔ بھارت اور برازیل دو ابھرتی ہوئی معیشتیں ہیں۔ ان دونوں ممالک میں اب معاملہ صرف معیشتی ندرت کا نہیں بلکہ سیاسی فکر میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی غیر معمولی ہیں۔ دونوں ممالک کے لوگ سیاسی سطح پر بہت کچھ نیا دیکھنا چاہتے ہیں، بالخصوص جمہوریت کے حوالے سے تجربات ہو رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ نمائندہ حکومت کا قیام اب عوام کی شدید خواہش ہے۔ مغرب کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ جمہوری نظام اس نے دیا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے جوں جوں ترقی کرتے جاتے ہیں، حکمرانی کا نظام زیادہ سے زیادہ جمہوری ہوتا چلا جاتا ہے۔
’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے ایس ایم ایس یا فون کال کے ذریعے لوگوں سے رائے مانگی کہ پارٹی کو دہلی میں حکومت بنانی چاہیے یا نہیں۔ جن لوگوں نے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کو ووٹ دیا تھا، وہ تو یقینا یہی چاہتے ہوں گے کہ ان کی پسندیدہ پارٹی حکومت تشکیل دے۔ حکومت سازی کے حوالے سے یہ مخلوط نوعیت کا ریفرنڈم بہر حال بلا واسطہ جمہوریت کی ایک روشن شکل ہے۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے سربراہ اروند کجری وال اب دہلی کے وزیراعلیٰ ہیں۔ عوام نے ان سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ عوام نے ووٹ دے کر ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کی راہوں میں پھول بچھائے ہیں۔ اس کا راستہ بہت کٹھن ہے۔ دہلی میں اس کی حکومت خاصی کمزور ہے کیونکہ اکثریت معمولی سی ہے۔ کانگریس نے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے ہاتھوں شکست کھائی ہے۔ وہ تین بار دہلی پر حکومت کرچکی ہے مگر اب اسے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے ریاستی اقتدار کے ایوان سے باہر کردیا ہے۔ کانگریس کو دہلی اسمبلی کی صرف ۸ نشستیں مل سکیں، مگر اس کے باوجود اس نے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ سے تعاون کیا اور حکومت بنانے میں اس کی مدد کی ہے۔
دہلی میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے بعد جو صورت حال ابھری، اس نے بہت سے سیاسی تجربات کو لوگوں تک براہِ راست پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک طرف سیاسی سادگی اور معصومیت کی انتہا ہے اور دوسری طرف سیاسی چرب زبانی اور چالاکی و ہُشیاری ہے۔ اروند کجری وال نے بھی کانگریس کی طرف سے حکومت سازی میں تعاون کی پیشکش پر حیرت کا اظہار کیا۔ کانگریس کی طرف سے حکومت سازی میں تعاون کی پیشکش نے اوروں کو بھی حیرت میں مبتلا کیا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ اگر دہلی میں آسانی سے حکومت نہ بن پاتی تو تعطل پیدا ہوتا، شہر کا نظام درہم برہم ہو جاتا اور اس کا نقصان عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی پہنچنا تھا۔
دہلی ملک کی واحد شہری ریاست ہے۔ یہ چونکہ مرکزی دارالحکومت بھی ہے، اس لیے سیاسی اعتبار سے اس کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے لیے یہ قومی سطح کی سیاست میں ابھرنے کا سنہرا موقع ہے۔ ملک کی واحد شہری ریاست کی باگ ڈور سنبھالنا اس کے لیے چیلنج بھی ہے اور موقع بھی ہے۔ وہ ملک گیر سطح پر اپنی بات پہنچا سکتی ہے، اپنی صلاحیت کا لوہا منوا سکتی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے چند ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے اس کی بات دور تک سنی جائے گی اور لوگ اس کی طرف متوجہ ضرور ہوں گے۔ اس نے یومیہ ۷۰۰ لیٹر سے کم پانی استعمال کرنے والوں کو پانی مفت فراہم کرنے اور بجلی کے نرخ نصف کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فنڈز کی تقسیم بھی زیادہ شفاف بنانے اور علاقوں یا محلوں کی سطح تک بھی فنڈز پہنچانے کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ شہر کی صفائی پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔ اروند کجری وال نے انا ہزارے کے ساتھ مل کر بدعنوانی کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ اب بھی وہ ایک ایسا کمیشن قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں جو ہر طرح کی بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا مکمل اختیار رکھتا ہو۔ اس سلسلے میں انہوں نے بڑی سیاسی جماعتوں پر بہت دباؤ ڈالاہے مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
معروف سیاسی تجزیہ نگار آشوتوش ورشنے کا استدلال ہے کہ چھ ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں عام آدمی پارٹی کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی، اس کا مدار اس بات پر ہے کہ دہلی کی شہری ریاست میں وہ کیا کر دکھاتی ہے۔ اگر اس نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو عام انتخابات میں وہ اپنا آپ منوانے میں بہت حد تک کامیاب رہے گی۔ لوک سبھا کے ۵۴۳ میں سے ۲۰۰ حلقے شہری علاقوں میں ہیں۔ عام آدمی پارٹی اپنے آپ کو زیادہ منظم کرے اور دہلی میں کچھ کر دکھائے تو ملک بھر کے شہری علاقے اس سے متاثر ہوں گے اور وہ عام انتخابات پر بھی اپنی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب ہوگی۔
کانگریس کو دہلی اسمبلی میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر وہ اس نئی اور ابھرتی ہوئی پارٹی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقابل ایک اہم قوت کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ گجرات میں بہتر حکمرانی کے ذریعے سیاست اور معیشت دونوں محاذوں پر کامیابی حاصل کرنے والے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو ملک کے اگلے وزیراعظم کے روپ میں دیکھا جارہا ہے۔ وہ قوم پرست ہیں اور قدرے سخت گیر بھی۔ کانگریس چاہتی ہے کہ عام آدمی پارٹی مضبوط ہوکر بی جے پی اور نریندر مودی کا راستہ روکے۔ کانگریس کا دہلی میں حکومت سازی کے حوالے سے عام آدمی پارٹی کی طرف جھکنا بھی اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیا۔
سیاسی تجزیہ نگار بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کانگریس اب عام آدمی پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے۔ بہتوں کو تو ابھی سے نریندر مودی کی ساکھ بحران سے دوچار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عام آدمی پارٹی کا نشانہ بی جے پی نہیں بلکہ کانگریس ہے۔ اس نے انتخابات سے قبل وعدہ کیا تھا کہ کانگریس کے رہنماؤں اور قانون سازوں پر بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کرائی جائے گی۔ بی جے پی کو اس حوالے سے زیادہ فکر لاحق نہیں کیونکہ عام آدمی پارٹی کا رخ ابھی اس کی طرف نہیں ہوا۔ اروند کجری وال کو بہت سوچ سمجھ کر چلنا ہوگا۔ انہوں نے پہلی بار الیکشن جیتا ہے۔ اگر انہوں نے کانگریس کے گلے میں احتساب کا پھندا ڈالنے کی کوشش کی تو بہت جلد کانگریس جوابی وار کرکے دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت کا بوریا بستر گول کرنے کی بھی کوشش کرے گی۔ عام آدمی پارٹی کے عہدیدار پہلی بار قانون ساز بنے ہیں۔ سیاسی توڑ جوڑ کا تجربہ ان کے پاس ہے نہیں۔ ایسے میں پارٹی کے لیے دہلی پر حکومت کی میعاد پوری کرنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔ عام آدمی پارٹی کا دہلی میں حکومت بنانا بہرحال بھارتی سیاست میں ایک نئی، خوشگوار اور مثبت تبدیلی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ۲۰۱۴ء میں بھارت سے دھماکا خیز سیاسی خبریں دنیا تک پہنچتی رہیں گی۔
(“Is India reinventing politics?”… .”Bloomberg”. Dec. 27, 2013)
Leave a Reply