
بھارتی وزیراعظم جناب نریندر مودی کا حالیہ ’’اچانک‘‘ دورۂ پاکستان، (کم از کم میرے لیے) نہ تو حیران کُن ہے، نہ مسحور کُن، اور نہ مخمور کُن۔
یہ ایک نہایت زیرک لیڈر کا بڑا ہی جَچا تُلا، شاطرانہ، اور کامیاب اِقدام ہے۔
بھارت کی خوبی یہ ہے کہ اُن کے ہاں حب الوطنی، قوم پرستی اور قومی مقاصد و اہداف پر یکجہتی و ہم آہنگی، ہمارے ہاں سے کہیں زیادہ موجود ہے۔ بلکہ اپنی خیالی دنیاؤں میں رہنے والے، ہمارے بَڑبولے لیڈروں اور اُن کے نعرہ زَن پیروکاروں کے اندازوں سے بھی زیادہ۔
بھارت میں حکومتیں کئی بار بدلی ہیں، مگر پالیسی کا تسلسل عموماً برقرار رہا ہے۔ خارجہ پالیسی کی ترجیحات بھی، انیس بیس کے فرق کے ساتھ، ہمیشہ برقرار رہتی ہیں۔ صرف حکمتِ عملی اور تزویراتی چالیں کچھ بدلی بدلی سی لگتی ہیں۔
خارجہ پالیسی، اُس کی ترجیحات، حکمتِ عملی اور تزویراتی چالوں کا مقصودِ اصلی و دائمی، ’’بھارت وَرش‘‘ کا استحکام و استبداد اور توسیع و تقویت کا سامان بَہَم کرنا ہوتا ہے۔ کسی پارٹی کی حکومت آئے، خارجہ امور میں کوئی بریک ڈاؤن یا گیپ نہیں آتا۔
بھارتیوں کی حب الوطنی اور قومی مقاصد سے اُن کی مخلصانہ وابستگی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اُن کی ملکی قیادت نہ تو کبھی جاگیرداروں کے پاس آئی اور نہ کبھی ’’کارپوریٹ مائینڈ سیٹ‘‘ کے حامل تاجروں کو ملی۔ جاگیرداروں کو جاگیر کی ’’خدائی‘‘ سے زیادہ، کوئی غرض نہیں ہوتی، اور ’’کارپوریٹ مَین‘‘ یا اُن کے ذہنی غلاموں کو افزائشِ دولت اور اِرتکازِ وسائل سے زیادہ، کچھ محبوب و مطلوب نہیں ہوتا۔ بھارت ایسے گِدھوں سے، اب تک بڑی حد تک محفوظ رہا ہے۔ البتہ اب اُن کے ’’کارپوریٹ گِدھ‘‘ بھی ملکی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اُن کی حب الوطنی اور بھارتی قوم پرستی، ہمارے ہاں کے گِدھوں سے زیادہ مستحکم ہے۔
جنابِ مودی کے ’’دورۂ جاتی عُمرہ‘‘ کے بنیادی طور پر چار مقاصد تھے:۔
۱) ’’خوش ہمسائیگی‘‘ کی فضا بنانے کے لیے بھارتی خلوص اور کاوشوں کا دنیا بھر میں چرچا۔
۲) ثانیاً، ’’میاں صاحب آف جاتی عمرہ‘‘ کی بھارت کے لیے ’’آتشِ عِشق‘‘ کو مزید بَھڑکانا۔
۳) پاکستانی ہیئتِ مقتدرہ میں پہلے سے موجود تضادات و اختلافات کو اتنا اُبھار دینا کہ معاملہ داخلی تصادم تک جاپہنچے۔
سِوِل اور ملٹری، ’’لبرل‘‘ اور ’’پاکستان فوکسڈ‘‘ ریاستی عناصر میں باہمی بے اعتمادی، شکوک و شبہات، وسوسے اور الزام تراشی کا ماحول مزید پروان چڑھے، اور قومی اہداف و مقاصد پر اندرونی انتشار دوچند ہوجائے۔ پھر ’’بی جمالو‘‘ تماشا دیکھیں اور پڑوس کی آگ سے ہاتھ تاپیں۔
۴) بھارت کو مغرب اور شمال مغرب کا آسان زمینی راستہ ’’پھوکٹ‘‘ (Free) میں میسر آجائے۔ اِس سے اُسے کم از کم ’’علاقائی قوت‘‘ یا ’’ریجنل ایس ایچ او‘‘ بننے میں بڑی مدد ملے گی۔
ضمناً ایک اور مقصد بھی لگتا ہے کہ جناب نریندر مودی صاحب، امن کا نوبل انعام لینے کی خواہش میں دکھاوے کے ایسے کئی اقدام کریں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ جنابِ مودی کے اہداف و مقاصد کے مقابل ’’میاں صاحب آف جاتی عمرہ‘‘ اور اُن کے خانوادۂ عُلیہ کے پیشِ نظر کیا ہے؟
اس پر بات کرنے سے پہلے یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ وزیرِاعظم ہِند، جناب نریندر مودی نے اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے ’’شہ مات‘‘ قسم کی جو چال چلی ہے، اُس پر داد نہ دینا، ایک طرح کی کم فہمی و کم ظرفی، اور نِری بے ذوقی ہے۔ انہوں نے جو کہا ہے، اپنے ملک کے لیے انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ وہ پاکستان کے بھلے کے لیے نہیں، بھارتی اور ذاتی مفادات کے لیے اِس طرح یہاں آئے۔
ہمارے ہاں کے جو خوش فہم اُن کی اِس ’’سالگرہ ڈپلومیسی‘‘ پر پُھولے نہیں سمارہے، اُن میں سے کچھ تو ’’محبانِ بھارت‘‘ ہیں، کچھ ’’ہمیشہ کے بیزار از مُلکِ پاکستان‘‘ ہیں۔ (لیکن یہاں وہ لوگ ہمارے مخاطَب نہیں)۔ البتہ ہمارے بہت سے مخلصین و محبّان بھی ستائشی جذبات سے مخمور و مسرور دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری رائے میں، اُن کی باتیں اور دلائل ستّر اسّی فیصد درست ہیں۔ میں خود بھی عالمی بساطِ سیاست پر دائمی دوستی یا دائمی دشمنی کا قائل نہیں۔
(آپ لوگوں کو چاہے جیسا بھی لگے، یہ کہنے میں مجھے کوئی باک نہیں کہ وہ دن بہت زیادہ دور نہیں، جب پاکستان کو چین کے غیر معمولی دباؤ سے نکلنے یا اُس کو متوازن رکھنے کے لیے کچھ اور ’’دوست‘‘ دیکھنے اور ڈھونڈنے پڑیں گے)۔
اِس خاکسار کی رائے میں، بھارت سے، اور خصوصاً بھارتی عوام سے دشمنی پر اِصرار نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ وہاں کے عوام کو اچھے لگنے والے کچھ باوقار اقدامات اور شروعات کی ضرورت ہے۔ مثلاً ویزہ پالیسی میں واضح نرمی اور کشادگی (چاہے یک طرفہ ہی کرنا پڑے)۔ دونوں طرف آنے جانے والوں کی بھاری اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
یا مثلاً ’’بارٹر سسٹم‘‘ کے تحت اشیائے ضروریہ اور خام مال کا منضبط تبادلہ۔ ’’بارٹر سسٹم‘‘ اِس لیے کہ کسی بھی فریق کو تجارتی خسارے کا سامنا نہ ہو۔
اِس طرح کی کئی تجاویز ہوسکتی ہیں، جو کشمیر پر اپنے دعوے سے پسپائی اختیار کیے بغیر، ہم زیرِ غور اور رُو بہ عمل لا سکتے ہیں۔
مگر سوچنے اور سمجھنے کی اصل بات یہ ہے کہ بھارت، پاکستان سے کس طرح اور کس سطح کے تعلقات چاہتا ہے؟ مجھے تو ایک گھرانے کا ایک ’’کامیاب‘‘ تجربہ یاد آرہا ہے۔ آپ بھی سُنیے:۔
کسی شادی کی تقریب میں، پچھتر سالہ ایک بزرگ فرما رہے تھے کہ آج کل کے رشتے ناپائیدار ہوتے ہیں۔ ہمیں دیکھیے، ابھی پچھلے ہی مہینہ، ہم نے اپنی شادی کا جشنِ طِلائی (Golden Jubilee) منایا ہے۔ سامعین بڑے متاثر ہوئے۔ ایک نوجوان نے مرعوبیت سے پوچھا کہ اِن پچاس برسوں میں کبھی جَھگڑے بھی نہیں ہوئے، تنازع بھی نہیں ہوئے؟ علیحدگی کی بات بھی نہیں ہوئی؟
بزرگ نے اعتماد و افتخار سے جواب دیا کہ ہم میاں بیوی، کبھی نہیں جھگڑتے۔ ہر معاملہ کو بحث و تمحیص کے بعد، بالاتفاق اور خوشگوار انداز میں طے کرلیا کرتے ہیں۔ کسی نے حیرت سے پوچھا کہ بحث کے بعد اتفاق اور خوشگواری تو بڑی نادر شے ہے۔
بزرگ نے اطمینان سے کہا کہ ’’ہاں، بحث کے بعد، کبھی وہ جیت جایا کرتی ہیں اور کبھی میں ہار مان لیتا ہوں، یوں بڑی عمدگی سے ہم نے پچاس سالہ رفاقت کو خوشگوار بنا رکھا ہے‘‘۔
’’میاں صاحب آف جاتی عُمرہ‘‘ کی سوچ پر آگے بات کرتے ہیں، مگر یہاں بھارتی ذہن، سوچ اور حکمتِ عملی کے متعلق عرض ہے کہ وہ لوگ، اپنے پڑوسیوں سے ایسا ہی ’’خوشگوار و ہموار و پائیدار‘‘ تعلق بنائے رکھنے کے قائل اور عادی ہیں۔ بھارت کے بیشتر ہمسایوں نے یہ ’’ارینجمنٹ‘‘ ذہناً یا عملاً قبول کرلیا ہے۔ بس پاکستان رہ گیا ہے۔
’’میاں صاحبان آف جاتی عُمرہ‘‘ (صحیح تلفظ کیا ہے؟) کے ذہنی و نفسیاتی تجزیے کے بعد بھارتی ہیئتِ مقتدرہ اِس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ یہی نفوسِ شریفہ ہیں جن کے بابرکت عہدِ اقتدار میں پاک و ہند ’’پائیدار و ہموار و خوشگوار‘‘ رشتۂ حیات، اُستوار ہوسکتا ہے۔
اب رہا جاتی عُمرہ کے ’’کارپوریٹ ڈانز‘‘ کے ’’تعلق بالباکستان‘‘ کا معاملہ، تو انہیں پاکستان سے نہ اُلفت ہے، اور نہ نفرت۔ اِس باب میں وہ ’’ایموشنلی نیوٹرل‘‘ ہیں۔ یہ خانوادہ، پاکستان سے اُتنی ہی محبت کرتا ہے جتنی اُسے اِس کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثلاً یہ کہ وزیراعظم وغیرہ تو اُن کے لوگ، یہیں بن سکتے ہیں، برطانیہ یا بھارت میں نہیں بن سکتے۔ اِسی طرح ’’میاں صاحبان آف جاتی عُمرہ‘‘ کو پاکستان سے اُس وقت اُلجھن ہونے لگتی ہے، جب اُن کے ایجنڈے کو کوئی چیلنج کرتا ہے، یا اُس پر سوال اُٹھاتا ہے، یا اُن کی طرز و مدّتِ حکمرانی میں کوئی خلل انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔
’’میاں صاحب آف جاتی عُمرہ‘‘ کے مخفی ارادوں، پوشیدہ نیتوں، داخلی محرکات اور باطنی کیفیات کو ’’عین الیقین‘‘ یا ’’حق الیقین‘‘ کے درجے پر تو ہم جیسے ہرگز نہیں جان سکتے۔۔۔ کسی کے بھی معاملہ میں نہیں جان سکتے۔ (ہاں، ’’اَصحابِ باطن‘‘ کی بات اور ہے، جو میڈیائی ’’خانقاہوں‘‘ میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔)
لیکن جس طرح حضرت عمر بن خطاب نے کہا تھا کہ ’’وصالِ نبیٔ اکرمؐ کے بعد، چونکہ جبریل کے وحی لانے کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔ لہٰذا اب تمہارے بارے میں رائے، ہم تمہارے ظاہر کو دیکھ کر قائم کریں گے‘‘۔
سو ہم عوام الناس اور سیاسی کارکن بھی، اپنے لیڈروں اور خصوصاً اصحابِ اقتدار و اختیار کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے مجبور ہیں کہ اُن کے ظاہر کردہ خیالات کو، اُن سے سرزد ہونے والے اَفعال کو، اُن کے ماضی کے ریکارڈ کو، اُن کے مزاج و نفسیات اور اُفتادِ طبع کو، اور اُن کے فیصلوں اور اقدامات کو ضرور پیشِ نظر رکھیں، اور اُن کے ظاہر سے مدد لیں۔۔۔! اِس معاملے میں، ایّوب خان، ذوالفقار علی بُھٹّو، ضِیاء الحق، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری، پرویز مشرف، اور میاں نواز شریف میں کوئی فرق و امتیاز نہیں ہو سکتا، اور نہیں ہونا چاہیے۔
کسی انسانی شخصیت کے برسوں، بلکہ عشروں پر محیط ’’ٹریک ریکارڈ‘‘ کی بنیاد پر ہی، اُس کے آئندہ کے طرزِ عمل، ردِّ عمل، فیصلوں اور اقدامات پر ساری دنیا قیاسات کے گھوڑے دوڑاتی، اور معنیٰ پہناتی ہے۔ اگر کوئی عشروں تک صادق و امین رہاہو، تو آئندہ بھی اُس سے یہی توقع ہوتی ہے۔ کوئی عدل و انصاف کی روش پر برسوں گامزن رہا ہو، تو اُس سے آئندہ بھی اِسی کی امید رکھی جاتی ہے۔ ہمدردی و غم گُساری پر طویل عرصے تک عامل رہنے والے سے کبھی اِس کے برعکس رویّے کا صدور ہو بھی جائے، تو معقول لوگ اُسے شک کا فائدہ یا بشری کوتاہی کا الاؤنس دیتے ہیں۔ انسانی زندگی اور انسانی معاشروں کا صدیوں سے یہی چلن رہا ہے۔ تو کیا ’’میاں صاحبان آف جاتی عمرہ‘‘ کو اِس عمومی قاعدے سے استثنیٰ دے دیا جائے؟
اُن کا پورا ٹریک ریکارڈ تو اُنہیں مشکوک بناتا ہے۔ جو شخص بھارتی امداد سے چلنے والے پلیٹ فارم پر بھارتی مہمانوں سے دَھڑلّے سے کہے کہ پاک و ہِند کے درمیان قائم یہ جو سرحدی لکیر ہے، یہ ہمیں آپ سے جُدا نہیں کرسکتی۔ آپ کا اور ہمارا خدا ایک ہے، کلچر ایک ہے، کھانا پینا ایک ہے۔
ایسے اعلیٰ دماغ مدبّرِ ملک و قوم کے ذہنی اُفُق اور وژن کی وُسعت یا تنگی کا اندازہ اچھی طرح ہوجانا چاہیے۔ ایسی باتیں کرنے والے حاکم کا اگر وژن غلط نہیں ہے، تو پھر اُس کی فکر میں کجی اور نیت میں فتور ہے۔ ورنہ اُس کی وزارتِ عظمیٰ کے اعلیٰ منصب کے لیے اہلیت مشکوک ضرور ہے۔ جو اپنی ’’بزنس ایمپائر‘‘ وسیع تر کرنے میں لگا ہو۔ قومی وقار و مفاد اور قواعد و ضوابط کا بھی کوئی خیال نہ رکھتا ہو۔ جس کے لیے ملکی مفاد اُسی حد تک قابلِ لحاظ ہو، جہاں تک اُس کے کارپوریٹ مفادات پر زَد نہ پڑے۔ تو ایسے ’’شاندار خود غرضانہ‘‘ ٹریک ریکارڈ رکھنے والے حاکمِ وقت پر اگر ملّت فروشی کے لیے آمادہ ہونے کا شبہ کیا جائے تو اِس پر تنگ نظری کی پھبتی کَسی نہیں جاسکتی۔ البتہ اُس حاکم کے حق میں، کوئی چاہے تو دلائل کی معرکہ آرائی کرسکتا ہے۔
افسوس کہ ہمارے ’’جمہوری نظام‘‘ کا منتخب وزیرِاعظم، فکر و نظر اور اعلیٰ و اَرفع اقدار و مقاصد کے معاملہ میں تقریباً بانجھ پن اور کور نگاہی کا مریض ہے۔ کسی کا محض منتخب ہوجانا، نہ تو اُس کی عقل و خِرَد، فہم و فراست اور دانش و بصیرت کی سَنَد ہے، اور نہ (صوبہ سندھ کی طرح) من مانی کرنے کا کوئی کُھلا اجازت نامہ۔ جرمنی کا ہٹلر، جمہوری الیکشن جیت کر آیا تھا۔ کیا آج کوئی اُسے اپنا رول ماڈل مانتا یا کہتا ہے؟ اٹلی کابنیتو مَسولینی بھی عوام کا پسندیدہ حکمراں تھا۔ مگر اٹلی اس کے نام پر شرمندہ ہے۔
۱) ہماری رائے میں ’’میاں صاحب آف جاتی عمرہ‘‘، وزیرِاعظم ہِند سے دوستی کی پینگیں بڑھا کر، ایک طرف عالمی ہیئتِ مقتدرہ کی سرپرستی و پُشت پناہی میں آنا چاہتے ہیں، تاکہ اُن کے اقتدار کو لاحق موہوم خطرات ٹَل جائیں۔
(جَلِّ تُو جَلال تُو۔۔ صاحبِ کمال تُو۔۔ آئی بَلا کو ٹال تُو!)
۲) دوسری طرف ۱۹۹۹ء میں، اُنہیں اقتدار بدر کرنے والے ادارے پر شدید غصہ ہے، جو کم نہیں ہو رہا۔ وہ اندر ہی اندر کھولتے رہتے ہیں اور اس ادارے کے پَر تراشنا، یا اُسے زِچ اور بے بس کرکے اپنی کِینہ پرور طبیعت کی تسکین کا سامان کرنا چاہتے ہیں۔
۳) تیسری طرف ’’پاک و ہِند دوستی‘‘ کا کوئی پودا، کسی گملے میں لگا کر، نریند مودی آف گجرات کے ساتھ، ’’نوبل پرائز‘‘ کے مشترک حقدار بننا چاہتے ہیں، (جیسے اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن اور فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو مشترکہ طور پر ملا تھا۔)
۴) چوتھی جانب وہ اپنے کاروباری مفادات کا دائرۂ کار، بھارت کی وسعتوں تک پھیلا کر، عالمی سطح کے ’’کارپوریٹ ڈان‘‘ کے محدود کلب کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
اپنے چاروں مقاصد کی تکمیل میں وہ صرف عسکری ہیئتِ مقتدرہ کو ’’اسپیڈ بریکر‘‘ سمجھتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں مغربی ڈُگڈگی پر کان لگائے رکھتی ہیں۔ کچھ تو ان کے ’’ہم مقصد بھائی‘‘ ہیں اور کچھ فہم و فراست سے عاری۔
باقی رہ گئیں مذہبی سیاسی جماعتیں اور مذہبی عناصر، تو اِنہیں وہ ’’مرثیہ خواں‘‘ یا ’’فرمائشی قوّال‘‘ سے زیادہ وقیع نہیں سمجھتے۔
پاکستان کی جو ’’شانِ قیام‘‘ اور ’’تاریخ پَسِ قیام‘‘ ہے، جو جغرافیائی مَحَلِّ وُقوع اور اسٹریٹجِک مقام ہے، یہ ملک ہمیشہ اُن کے زیرِ اثر رہے گا۔ بالکل اُسی طرح جیسے عہدِ رواں کے حقائق و دَقائق سے مَفَر ممکن نہیں۔ اِس نازک و پیچیدہ، اور قدرے متضاد صورتحال اور عوامل سے ہوشمندی و فراست سے کھیلنا ہی اصل چیلنج ہے۔ یہ صورتِ احوال، پاکستان کی کمزوری و مجبوری بھی ہے، اور قوت و امکانات سے آباد مستقبل کا در بھی۔ کاش کہ ہمارے آج کے حکمراں، کم از کم ذوالفقار علی بھٹو یا ضیاء الحق جیسی نظر و ہُنر، چستی و چالاکی اور قومی مفاد سے گہری وابستگی کی صلاحیتوں سے متصف ہوتے۔ (اُن کی داخلی پالیسیوں، شخصی خامیوں اور طرزِ حکمرانی کی خرابیوں کو فی الوقت الگ رکھیے)۔
پاکستان کے ’’بائی ڈیفالٹ‘‘ غیر معمولی پوٹینشیلز اور قوت پر بات بہت لمبی ہوجائے گی۔ یوں بھی یہ مثبت پہلو اُجاگر کرنا، ہر طرف چھائے ’’روشن خیالوں‘‘ کو ’’احمقانہ اور طِفلانہ‘‘ لگتی ہے۔ یہ موضوع کسی اور وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔
پاکستان کے پوٹینشیلز کا پورا اِدراک، اور حکمت و تدبر اور مضبوط دل و دماغ کے ساتھ، علاقائی و عالمی بساطِ سیاست پر چالیں چلنے سے، کسی نادان ہی کو اختلاف ہوگا۔ مگر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ پاکستان، فی الوقت نہ مارشل لائی عہد سے گزر رہا ہے، اور نہ عربوں کی آمرانہ اور شاہانہ طرزِ حکمرانی کے سبب، کوئی بند اور گُھٹن زدہ ملک ہے۔ یہاں اہلِ اقتدار کے فیصلوں اور اقدامات پر سوالات بھی اُٹھیں گے اور اعتراضات بھی ہوں گے۔ حکمرانوں کو بتانا بھی پڑے گا کہ وہ کیا سوچ کر، کیا کررہے ہیں۔ پاکستان کسی کی جاگیر نہیں کہ وہ جو چاہے کریں، اور قوم صم بکم بنی رہے۔
جہاں تک ملک کے نادیدہ، لیکن شریک حکمرانوں کا معاملہ ہے، تو دیارِ مغرب کے حاکموں نے اُنہیں ’’خرگوشوں‘‘ کو پکڑنے پر لگا دیا ہے۔
ملک کے لِبرلز اور سابق ’’اشتراکی کُوچہ گردوں‘‘ کی بھی پوری کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح، اِس ملک میں بھی، ماضی کے تُرکی، الجزائر اور مصر کی طرح، اسلام کا ’’حَرکی تصور‘‘ رکھنے والوں سے عسکری اداروں کا اختلاف بڑھے، اور دونوں باہم اُلجھ کر پاکستان کی اسلامی جڑوں کو کھود ڈالیں۔
بدقسمتی سے عسکری قیادت اور لِبرلز کا یارانہ بڑھ رہا ہے کہ شاید اِس طرح مغربی استعمار کی رِضا و خوشنودی اور سرپرستی میسر آجائے۔ مگر۔۔۔۔۔۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
یاد رکھیے! مغرب کو آئندہ نہ کوئی بڑا مسلمان ملک گوارا ہو گا (چاہے وہ محض نام کا ’’مسلم ملک‘‘ ہو) اور نہ کوئی بڑی اور مستحکم ’’مسلم فوج‘‘ قبول ہوگی، (چاہے وہ نام نہاد یا برائے نام ہی ’’مسلم‘‘ کیوں نہ ہو)۔ برطانوی عہد کے ہندوستانی رجواڑوں اور دیسی ریاستوں کی طرح کے بے دَم و خَم اور لاچار ’’مسلم ملکوں‘‘ کو بس اتنی عسکری قوت رکھنے کی اجازت ہوگی جو داخلی ردِّعمل اور عوامی تحریکوں کو کچلنے کے کام آسکے۔
ہماری افواج اِس وقت ہمہ پہلو دباؤ میں ہیں۔ ایسے میں گھبراہٹ کا شکار ہوکر، یا ’’گاجروں‘‘ کی اُمید پر، اگر انہوں نے ملکی نظامِ ریاست کا دَھڑن تختہ کیا تو خود بھی دَلدل میں دھنسیں گی، اور ملک و ملت کو بھی کسی اندھے کنویں میں گرانے کی راہ ہموار کریں گی۔ اس لیے جیسا کچھ سیاسی نظام چل رہا ہے، اُسی کو برقرار رکھ کر، بہتری کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ اِسی میں ہم سب کا بَھلا ہے۔
اب جہاں تک جماعت اسلامی کے ردِّعمل (بابت دورۂ وزیرِاعظم ہِند) کا سوال ہے، تو ردِّعمل کی اِس شکل سے مجھے نہ آج اتفاق ہے، اور نہ ۱۹۹۹ء میں تھا، جب واجپائی صاحب لاہور آئے تھے۔
ایک زمانہ تھا کہ جب جماعت اسلامی ’’ایشوز کری ایٹر‘‘ تھی۔ اب یہ عرصے سے محض ’’ری ایکٹر‘‘ اور ’’ایجی ٹیٹر‘‘ کا رول ادا کررہی ہے۔ جو اَب صرف ’’پریشر گروپس‘‘ والی تنگنائی میں پھنسی ہوئی ہے۔ شاید اس کا مائینڈ سیٹ ’’کالج یونین پالیٹکس‘‘ کی سطح پر منجمد ہوکر رہ گیا ہے۔ خدا کرے کہ یہ جماعت ’’پریشر گروپ‘‘ کے بجائے، ملکی، علاقائی اور عالمی سیاست کاری کی کچھ منزلیں جلد طے کرلے۔
وزیراعظم ہِند (چاہے وہ نریندر مودی ہی کیوں نہ ہوں) کی آمد کی خبر سُن کر میرا دل چاہا تھا کہ جماعت کا ردِّعمل مختلف اور چونکا دینے والا ہو۔ لیکن یہ بھی اپنے ہی بُنے ہوئے تانے بانے کی اَسیری میں ہے۔
لَا تَنْفُذُونَ اِلّا بِسُلْطٰن !!!
Leave a Reply