
افغانستان میں جو کچھ بھارت کے ساتھ ہوا ہے یعنی جس بُرے انداز سے وہ ایک طرف ہٹادیا گیا ہے اُس کے حوالے سے تنقید کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ انتہا پسند ہندو لیڈر نریندر مودی کی حکومت کو مطعون کرنے کا کوئی بھی اچھا موقع ضائع نہیں ہونے دیا جارہا۔ بھارت کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک کے سیاسی تجزیہ کار بھی نریندر مودی اور اُن کی ٹیم کی نا اہلی کو بڑھ چڑھ کر بیان کر رہے ہیں۔ بھارت نے افغانستان میں ’’اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر چند بنیادی زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں اُسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اس حقیقت کو بھی بھارت کے پالیسی سازوں نے نظر انداز کردیا کہ افغانستان اور بھارت کے بیچ میں پاکستان واقع ہے۔ اگر افغانستان سے سرحد ملی ہوئی ہوتی تو معاملات کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنا نئی دہلی کے پالیسی سازوں کے لیے زیادہ مشکل نہ ہوتا۔ ساتھ ہی ساتھ چین کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔ امریکا اور یورپ کی حاشیہ برداری میں بھارت نے پاکستان اور چین کے ساتھ ساتھ روس اور کسی حد تک ایران کو بھی ناراض کیا ہے۔زیرِ نظر مضمون اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
افغانستان سے امریکا اور بھارت دونوں ہی کو خاصے ذِلّت آمیز انداز سے نکلنا پڑا ہے۔ امریکا کے روایتی حریف روس اور آج کی دنیا میں منہ دینے والے چین نے اُس کے پیدا کردہ خلا کو کامیابی سے پُر کردیا ہے۔ بھارت اور امریکا نے کابل میں اپنے سفارت خانے خالی کردیے ہیں، مگر روس اور چین نے ایسا نہیں کیا۔ ان کا پورا سفارتی عملہ کابل میں موجود ہے۔
بھارت نے جنوبی ایشیا میں اپنی برتری برقرار رکھنے کی دُھن میں مونرو ڈاکٹرائن سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔ بھارت اپنے آپ کو نئی عالمی طاقت کے طور پر پیش کرنے کے خبط میں مبتلا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ افغانستان سے ذِلّت آمیز انخلا بھارت کے لیے خطے میں اور خطے سے باہر کیا مفہوم رکھتا ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ افغانستان سے امریکا کا ذِلّت بھرا انخلا عالمی سطح پر اس کی ساکھ مزید خراب کرنے کا ذریعہ بنا ہے اور اس کی عالمی سطح کی برتری بہت حد تک ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ دوسری طرف بھارت کو بھی شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اس کی علاقائی سطح کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے اور جنوبی ایشیا میں اُس کی برتری بہت حد تک ختم ہوگئی ہے۔ بھارت یہ دعوٰی کرتا آیا ہے کہ وہ عالمی سطح پر برتری کے لیے کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے توازن قائم رکھنے میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے اُس سے بھارت کے ایسے تمام دعوے بالکل جھوٹ ثابت ہوئے ہیں۔
اسٹریٹجک معاملات کے تناظر میں دیکھیے تو آج بھارت کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا اور ایسا لگتا ہے کہ اگلے بیس، تیس برس کے دوران بھی بھارت کو عالمی سیاست میں کوئی نمایاں کردار ادا کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا۔ عالمی سطح کی ری بیلینسنگ پاور بنانے کے لیے بھارت کو معاشیات، اسٹریٹجی اور ٹیکنالوجی تینوں محاذوں پر غیر معمولی فتوحات یقینی بنانا ہوں گی۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسٹریٹجک معاملات میں بھارت کی پالیسی مرتب کرنے والوں کا دعوٰی ہے کہ بھارت نے چین کا پامردی سے سامنا کرنے کے لیے امریکا سے ہاتھ ملایا ہے اور چار رکنی اتحاد تشکیل دیا ہے۔ اس اتحاد کو دنیا ’’کواڈ‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ خیر، عالمی سیاست میں پوری خود مختاری کے ساتھ کام کرنے سے متعلق بھارت کا ہر دعوٰی انتہائی درجے کے مبالغے کا حامل ثابت ہو رہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت اسٹریٹجک معاملات میں اپنی خود مختاری کھو بیٹھا ہے۔ افغانستان کے معاملات نے ثابت کیا ہے کہ بھارت اور امریکا کی افغان پالیسی یکساں نوعیت کی ہے۔ امورِ خارجہ کی بھارتی وزارت نے ۱۷؍اگست کو ایک بیان جاری کیا، جس میں کابل کی صورتِ حال کا ذکر تھا اور سفارت خانہ خالی کرنے کے حوالے سے صرف امریکا کا ذکر تھا۔ اس میں روس یا کسی اور طاقتور علاقائی ملک کا نام تک شامل نہ تھا۔
جو کچھ افغانستان میں ہوا ہے اُس کے بعد تو جنوبی ایشیا میں بھارت کی برتری اب لے دے کر بھوٹان تک محدود ہوچکی ہے جو اُس کے لیے بغل بچے کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت نے خشکی سے گِھرے ہوئے ایک اور ملک نیپال کو بھی اپنے دائرۂ اثر میں رکھا ہے، مگر اب نیپال بھی اِس دائرۂ اثر سے نکل رہا ہے۔ نیپال نے چین کے ساتھ کئی سمجھوتوں پر دستخط کیے ہیں، جن کے نتیجے میں سمندروں تک رسائی کے معاملے میں نیپال کی بیرونی تجارت اور نیپالی باشندوں کی حرکت پذیری پر بھارت کا کنٹرول بہت حد تک ختم ہوکر رہ گیا ہے۔
بھارت کی اسٹریٹجی تیار کرنے والوں کا خیال ہے کہ نیپال کی سیاسی جماعتیں بھارتی مفادات کے خلاف نہیں جاسکتیں۔ یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ نیپال کی کوئی بھی سیاسی جماعت ملک بھر میں پائے جانے والے بھارت مخالف جذبات کے پیشِ نظر چین سے کیے جانے والے سمجھوتوں اور معاہدوں کو کسی طور نظر انداز نہیں کرسکتی۔ یوں اب خطے میں بھارت کی برتری صرف بھوٹان کی حد تک ہے۔ بھوٹان کے سوا جنوبی ایشیا کا کوئی بھی ملک علاقائی اور عالمی معاملات میں بھارت کا ہم نوا نہیں۔
افغانستان وہ اسٹریٹجک مقام تھا جہاں اپنے قدم مضبوطی سے جماکر بھارت اپنے روایتی حریف پاکستان کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے کچھ کرسکتا تھا۔ بھارتی میڈیا میں یہ خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ افغانستان کے ذریعے بھارت اپنے روایتی حریف پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بڑے انٹیلی جنس آپریشنز شروع کرنے والا ہے۔ یہ آپریشنز بظاہر اس لیے ہیںکہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پاکستان کی مبینہ حمایت و مدد سے جاری علیحدگی کی تحریک کو منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔ ایسے میں افغانستان سے بھارت کی شرم ناک واپسی نے پاکستان کو اسٹریٹجک نقطۂ نظر سے خاصی بہتر پوزیشن میں پہنچادیا ہے۔
یہ بات بھی کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ امریکا سے اسٹریٹجک اتحاد قائم کرکے بھارت نے مشرقِ وسطٰی اور وسطِ ایشیا تک رسائی بھی کھوئی ہے۔ بھارت مسقبلِ قریب میں یوریشین سرزمین پر معاشی اور اسٹریٹجک معاملات کے بڑے اتحادوں کا حصہ بن کر بہت کچھ حاصل کرسکتا تھا مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام مواقع اب ہاتھ سے جاچکے ہیں۔ اب پاکستان، ایران، ترکی، چین اور روس خطے میں معاشی و اسٹریٹجک شراکت داریاں قائم کرنے کی منصوبہ سازی کر رہے ہیں۔
افغانستان میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں روسی قیادت نے حال ہی میں بڑی علاقائی طاقتوں سے گفت و شنید اور مشاورت کی مگر اس عمل میں بھارت کو شریک نہیں کیا۔ اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ بھارت نے روس مخالف رویہ اپنایا ہے بلکہ اصل سبب یہ تھا کہ بھارتی قیادت نے امریکا نواز رویہ اپنا رکھا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کس حد تک تنہا ہوچکا ہے۔
چین اور روس نے مل کر افغانستان میں تعمیرِ نو، استحکام اور ترقی کے لیے بنیادی نوعیت کے اقدامات کیے ہیں مثلاً ڈالر کا عمل دخل کم کرکے معاملات کو علاقائی کرنسیوں کی مدد سے طے کرنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ امریکا سے اسٹریٹجک معاہدے یا اتحاد کا حصہ ہونے کے باعث بھارت اس عمل میں حصہ نہیں لے سکتا۔
۲۰۰۱ء کے بعد سے اب تک بھارت نے افغانستان میں تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ بھارت کی یہ سرمایہ کاری ایسی لگتی ہے جیسے صحرا کی ریت پر پانی ڈالا جائے۔ یہ خطیر رقم بھارت میں شدید افلاس، بھوک اور بیماریوں سے نبرد آزما اور تعلیمِ عامہ کی ناقص سہولتوں سے دوچار بچوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے پر بھی خرچ کی جاسکتی تھی۔ نئی دہلی کے پالیسی سازوں نے تین ارب ڈالر انڈین فارن سروس کے چند سینئر افسران کی خود کو گلوبل پارٹنرز پلیئرز کے طور پر پیش کرنے کی خواہش کی نذر کردیے۔ اس نکتے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب روس اور چین نے کابل میں اپنے سفارت خانے کھلے رکھنے کو ترجیح دی اور اُس کے باشندوں نے انخلا نہیں کیا تو بھارت کو وہاں سے فرار ہونے پر کیوں مجبور ہونا پڑا۔
بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کے پالتو کتے جیسا کردار ادا کرنے والے چند میڈیا آؤٹ لیٹس اب بھی خارجہ پالیسی کے میدان میں اُن کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اپوزیشن جماعتیں عالمی معاملات میں بھارت کی پوزیشن میں رونما ہونے والی گراوٹ کے لیے نریندر مودی کو موردِ الزام ٹھہراتے نہیں تھکتیں۔ بھارت بھر میں اب لوگ محسوس کرنے لگے ہیں کہ عالمی سیاست کے اسٹیج پر بھارت کا سکڑتا ہوا کردار دراصل وزیر اعظم نریندر مودی کی ٹیم کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ناکام حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سات برس کی مدت میں نریندر مودی نے بہت سے بلینڈر کیے ہیں۔
سب سے پہلے اس بات پر غور کیجیے کہ نریندر مودی نے خارجہ پالیسی کو اپنے نام اور شخصیت سے جوڑ دیا۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ واحد سپر پاور اور دیگر طاقتور ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومت سے مصافحہ اور معانقہ کرنا بھارتی خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی ہے۔
نریندر مودی نے ۲۰۱۴ء میں جب وزیر اعظم کا منصب سنبھالا تھا تب وہ خارجہ پالیسی اور اسٹریٹجک معاملات میں ناتجربہ کار تھے۔ وزیراعظم کا منصب سنبھالنے سے قبل وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے یعنی وفاقی یا مرکزی سطح کے کسی منصب پر خدمات انجام دینے کا ان کا تجربہ نہیں تھا۔
بھارت کی پارلیمان کے ایوانِ بالا راجیہ سبھا کے رکن اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے راہ نما سبرامنیم سوامی نے کئی بار معاشیات اور امورِ خارجہ میں نریندر مودی کی لاعلمی اور ناتجربہ کاری پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ سبرامنیم سوامی کو جن چند معاملات میں نریندر مودی سے بہت سے شکایات ہیں اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے مختلف شعبوں میں اہل ترین افراد کی خدمات حاصل کرنے پر توجہ نہیں دی اور اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ پیشہ ورانہ مہارت پر کچھ زیادہ یقین نہیں رکھتے۔ نریندر مودی نے سابق بیورو کریٹس سبرامنیم جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے۔ نریندر مودی کی کمزوریاں بھانپ لینے کے بعد ۲۰۱۵ء کے بعد سے امورِ خارجہ کے حوالے سے فیصلہ سازی کے عمل پر انڈین فارن سروس کے سینئر افسران چھائے ہوئے ہیں۔
سبرامنیم جے شنکر مغرب نواز رویے کی حامل نمایاں شخصیت ہیں اور وہ امریکا میں بھارت کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ نریندر مودی نے انہیں ۲۰۱۵ء میں سیکرٹری خارجہ مقرر کیا۔
سبرامنیم جے شنکر کے سیکریٹری خارجہ بنائے جانے کے بعد بھارت نے اگست ۲۰۱۶ء میں امریکا سے دی لاجسٹکس مینجمنٹ معاہدہ کیا۔ چار برس کی مدت میں بھارت نے امریکا کے ساتھ چار بنیادی نوعیت کے معاہدے کیے اور اس کا اسٹریٹجک پارٹنر بن گیا۔
۲۰۱۹ء میں چوتھے رام ناتھ گوئینکا لیکچرز میں سبرامنیم جے شنکر کی تقریر ایک اہم دستاویز ہے۔ اس تقریر میں سبرامنیم جے شنکر نے کہا تھا کہ امریکا کا شراکت دار اور اتحادی بننا بھارت کے لیے خطرناک ہے مگر خواہشات کی تکمیل کے لیے خطرات مول لینا ہی پڑتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خطرات مول لینا سفارت کاری کا ایک بنیادی حصہ ہے۔ پالیسی کے حوالے سے بہت سے اہم فیصلے اِسی میکینزم کے تحت کام کرتے ہیں۔ اگر معاملات کو پکانا ہو، پروان چڑھانا ہو تو خطرات مول لینا ہی پڑتے ہیں۔ اگر سفارت کاری میں زیادہ خطرہ مول لینے سے گریز کیا جائے گا تو فوائد بھی محدود ہی رہیں گے۔ سبرامنیم سوامی نے کہا کہ بھارت نے کئی مواقع پر توقعات اور اندازوں کے برعکس خطرہ مول لیا اور کامیابی پائی۔ کبھی کبھی ناکامی بھی ہاتھ لگی۔ سبرامنیم جے شنکر کا مزید کہنا تھا کہ مول لیے جانے والے تمام خطرات ڈرامائی نہیں ہوتے۔ بہت سے معاملات میں پورے اعتماد کے ساتھ تخمینے کی ضرورت پڑتی ہے اور یومیہ بنیاد پر معاملات کا جائزہ لینا پڑتا ہے مگر کبھی کبھی نتائج انتہائی حوصلہ افزا برآمد ہوتے ہیں اور عالمی سیاست و معیشت میں پوزیشن بہتر ہو جاتی ہے۔ آج ہم ہمیں عالمی سیاست و معیشت میں کچھ ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت سے اتحاد کرنا بھی بھارت کی طرف سے ایک سوچا سمجھا خطرہ تھا۔
نیپالی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ ’’دور افتادہ دیوتا کے مقابلے میں پڑوس کا بھوت زیادہ کام کا ہے‘‘۔ نریندر مودی نے چین کا پامردی سے سامنا کرنے کے لیے دور کے دیوتا امریکا کو چُن کر بھیانک غلطی کی۔ بھارت کو افلاس، بیماریوں اور جہالت کا سامنا ہے۔ ان تمام عوارض نے اُس کی ترقی روک رکھی ہے۔ بڑی مارکیٹ تک رسائی، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کے ذریعے چین اُس کی غیر معمولی حد تک مدد کرسکتا ہے۔
اہلِ بھارت اس گمان کے سائے میں جی رہے تھے کہ امریکا و بھارت کے اتحاد سے چین خوفزدہ ہوکر وہی کرے گا جو بھارت چاہتا ہے۔ معاملات کی حتمی حیثیت وہ نہ رہی جو اہلِ بھارت چاہتے تھے۔ ایک بڑا خطرہ مول لیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ سبرامنیم جے شنکر ریاضی میں کمزور ہیں۔ وہ غلطی کرگئے۔ بھارت نے جو خطرہ مول لیا وہ پلٹ کر آگیا اور نقصان کا باعث بنا۔ اس کا نتیجہ ہے بھارت کی موجودہ تنہائی اور حیثیت میں پیدا ہونے والا سکڑاؤ۔
۲۴ جون ۲۰۲۰ء کو میں نے ’’ایشیا ٹائمز‘‘ میں لکھا تھا کہ تمام انڈے امریکی ٹوکری میں رکھنے پر بھارت کو مشکل گھڑی میں تعمیری دوست نہیں مل پائیں گے۔ آج نریندر مودی ایسی ہی حالت سے دوچار ہیں۔ وہ اپنی محدود سوچ اور غیر حقیقت پسندانہ امنگوں کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اگر بھارت مشرقِ وسطٰی اور وسطِ ایشیا میں دوبارہ داخل ہونا چاہتا ہے تو اُسے چین کی طرف دوستی اور مفاہمت کا ہاتھ بڑھانا ہی پڑے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“India’s Afghan pullout epitomizes Modi’s foreign policy ineptitude”.(“asiatimes.com”. August 31, 2021)
Leave a Reply