پہلی قسط ۱۶ فروری ۲۰۱۹ء شمارہ نمبر۴، میں شائع ہوئی تھی۔ دوسری قسط قارئین کے استفادہ کے لیے پیش ہے۔ (ادارہ)
خطے میں چینی منصوبوں کے حوالے سے بھارتی ردِّعمل کااکثر کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔بھارت اکثر کسی نئی پیش رفت پر ردعمل دینے میں پھنس جاتا ہے اور چین بحرہند اورجنوبی ایشیا میں اپنے قدم مزید مضبو ط کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ چار معاشی راہداریوں کا جائزہ بتاتا ہے کہ چین کیا اقدامات کررہا ہے،ان اقدامات سے بھارت کو کون سے فائدے اور نقصانات ہیں اور اس پر بھارت کا ردعمل کیا ہونا چاہیے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری
سی پیک، چین کے خودمختار علاقے سنکیانگ سے شروع ہوکر پاکستان کی گوادر بندر گاہ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔اس منصوبے میں ہائی وے، سڑکیں، ریلوے، پائپ لائن، بندرگاہوں او ر انفارمیشن ٹیکنالوجی پارکس کی تعمیر شامل ہے۔ س معاشی راہداری میں دو اہم منصوبے شامل ہیں، ایک گوادر بندرہ گاہ کی تعمیر، تاکہ چین کے مغربی علاقوں سے سامانِ تجارت بحر ہند کے ذریعے بحیرہ عرب تک پہنچایا جاسکے۔ دوسرا منصوبہ پاکستان کے گلگت بلتستان اور پنجاب کو ملانے والی قراقرم ہائی وے کی تعمیر نو ہے۔
راہداری کی تعمیر کا مقصد پاکستان کے شمالی علاقے گلگت کو ملک کے جنوبی علاقے گوادر سے ملانا ہے۔چینی اداروں کو سی پیک پر تقریباً ۶۲؍ارب ڈالر سرمایہ کاری کرنی ہے۔ اسلام آباد کا کوئی بھی اسٹرٹیجک اتحادی چین کی طرح پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں بھار ت نے سب سے زیادہ مخالفت سی پیک کی ہی کی ہے۔ اس حوالے سے بھارت کے تین بنیادی خدشات ہیں، علاقائی خود مختاری، سلامتی اور پاکستان اور چین کا مضبوط ہوتا اسٹرٹیجک اتحاد۔یہ خدشات مل کر جموں اور کشمیر میں مزید سنگین شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ جموں وکشمیر سے پاکستان، بھارت اور چین کی سرحدیں ملتی ہیں۔نئی دہلی کے خدشات کے بعد یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ بھارت اپنے علاقائی انفرااسٹرکچر کو سی پیک کے ساتھ جوڑے گا۔بھارت کو سی پیک پر سب سے بڑا اعتراض اپنی علاقائی خودمختاری کے حوالے سے ہے۔
اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان کسی سمجھوتے کے بغیر بھارت اور چین میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر کسی مثبت پیش رفت کی امید کم ہی کی جاسکتی ہے۔چین نے بھارت کے پڑوس میں علاقائی خودمختاری کے اصول کو نظر اندازکردیا ہے۔یہ رویہ نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں تعاون کے حوالے سے مزید چیلنجوں کا سبب بن سکتا ہے۔ نئی دہلی کے موجودہ خدشات ۱۹۷۰ء کی یاد دلاتے ہیں، جب بھارت نے پاکستانی کشمیر میں قراقرم ہائی وے کی تعمیر کی مخالفت کی تھی۔ سی پیک منصوبے سمیت چین کے دیگر اقدامات نے بھارت کے پرانے خدشات کو دوبارہ جنم دیا ہے۔یہاں بڑے پیمانے پر غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جموں وکشمیر کا تنازع صرف دو ممالک (پاکستان، بھارت) کے درمیان ہے، حقیقت میں چین اس تنازع کا تیسرا اہم ترین فریق ہے۔ اس وقت کے بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے ۲۰۱۲ء میں لکھا تھا کہ ’’بھارتی جموں اور کشمیر کا۳۸ ہزار اسکوائر کلو میٹر کا علاقہ۱۹۶۲ء سے چین کے قبضے میں ہے‘‘۔ اس کے علاوہ چین پاکستان سرحدی معاہدہ ۱۹۶۳ء کے تحت پاکستان نے۵ہزار۱۸۰؍اسکوائر کلومیٹر کا بھارتی علاقہ (پاکستانی کشمیر) چین کو دے دیا۔ ۲۰۱۵ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں بھارتی نمائندے کا کہناتھا کہ ’’ہمارا چین پاکستان معاشی راہداری پر بنیادی اعتراض اس منصوبے کا پاکستان کے غیر قانونی قبضے میں موجود بھارتی سرزمین سے گزرنا ہے‘‘۔ بھارت سی پیک پر عمل درآمد پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اس حوالے سے چین کو اپنے خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے متنازع علاقوں میں چینی سرگرمیاں روکنے کا مطالبہ بھی کرچکا ہے۔ سی پیک کو جاری رکھنے کی اجازت دینے سے بھارتی خودمختاری کو نقصان پہنچے گا، اس سے متنازع علاقے پر پاکستان کے دعوے کو تقویت بھی ملے گی۔سی پیک پر بھارتی خدشات میں سے ایک پاکستانی کشمیر میں چینی فوج کی مسلسل موجودگی ہے، جس سے بھارت کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ۱۹۶۲ء میں جنوبی اور مشرقی علاقوں میں سرحدی تنازع چین بھارت جنگ کی وجہ بنا تھا۔ چین کا پاکستان کے ذریعے بھارت کے جنوب مشرقی سرحدی علاقوں میں اپنی مستقل فوجی موجودگی میں اضافہ نئی دہلی کی دفاعی اور سیکورٹی ترجیحات کو تبدیل کرکے رکھ دے گا۔ اروناچل پردیش کی سرحد پر بھارت اورچین کی فوجی جھڑپیں معمول کا حصہ ہیں۔۲۰۱۷ء میں ہمالیہ کی سرحد پرڈوکلام میں دونوں فوجوں کے درمیان شدید جھڑپوں کے بعد چین اور بھارت کے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے،اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی طرف چینی فوجوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق چین اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستانی کشمیر میں ۳۰ ہزار فوجی اہلکار تعینات کرے گا۔ بھارت کی نظر میں کشمیر پر بیجنگ کے موقف میں تبدیلی کی وجہ پاکستان اور چین میں بڑھتے ہوئے اسٹرٹیجک تعلقات ہیں۔ بھارت کی نظر میں سی پیک منصوبے کے بعد چین امریکا کی جگہ پاکستان کا اہم ترین اتحادی بن کر ابھرا ہے۔ یہ سب ایسے وقت ہورہا جب امریکا کمزور ہورہا ہے، چین اور امریکا کے تعلقات کشیدہ ہیں، بھارت اور امریکا کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، جبکہ چین اور بھارت تعلقات بھی سخت تناؤ کا شکار ہیں۔ پاکستان اور چین کو ملانے کے لیے کشمیر میں سڑک کی تعمیر سے بیجنگ اور نئی دہلی کے درمیان جیو پولیٹیکل تقسیم میں اضافہ ہورہا ہے۔گوادر سے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کوسمندر تک پہنچنے کا راستہ ملتا ہے۔ بھارت کی نظر میں گوادر بحر ہند میں چین کی غیر معمولی طاقت کے اظہار کا حصہ ہے۔اگر چہ گوادر کو تجارتی مقاصد کے لیے تعمیر کیاگیا ہے مگر نئی دہلی میں موجود کئی افراد کو خدشہ ہے کہ یہ بندرگاہ مستقبل میں چینی بحریہ کا اہم ترین مرکز ہوگی۔ اگر یہ خدشات درست ہیں تو بیجنگ کی گوادر تک رسائی چینی بحریہ کو بحرہند میں قدم جمانے کا موقع دینے کے مترادف ہے، یہ صورتحال خطے میں طاقت کا توازن تبدیل کردے گی۔ بندرگاہ اور فوجی سہولیات تک رسائی کے بغیر بھی چین بحرہند میں بھارتی بحریہ کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ بھارتی بحریہ نے کافی عرصے تک بحرہند پر اپنی برتری قائم رکھی ہے۔ کشمیر میں جاری منصوبوں پرخودمختاری کے حوالے سے خدشات اور بھارت اور چین میں بڑھتی ہوئی بداعتمادی کے پس منظر میں سی پیک پر نئی دہلی کے تعاون کی امید بہت کم ہے۔
بنگلادیش،چین، بھارت، میانمار اقتصادی راہداری
بی سی آئی ایم اقتصادی راہداری، چین کے صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہے۔ بیجنگ بنگلادیش اور میانمار کے راستے مشرقی بھارت سے جنوب مغربی چین تک راہداری تعمیر کرنا چاہتا ہے،یہ راہداری جنوبی سلک روڈ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔اس راہداری کی تعمیر کا مقصد معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے لیے چینی شہر کیون منگ کو بنگلادیش کے شہر ڈھاکا اور میانمار کے شہر مانڈالا کے ذریعے کولکتہ سے جوڑناہے ۔اس منصوبے میں باہمی رابطوں کو فروغ دینے کے لیے انفرااسٹرکچر تعمیر کیاجاناہے۔اصل میں اس منصوبے کا نام ’’کیون منگ‘‘ سے منسوب تھا۔ یہ منصوبہ مختلف ممالک کے درمیان سیاحت کے فروغ، ذرائع نقل وحمل کی فراہمی اور تجارتی راستوں کی تعمیر کے لیے۱۹۹۰ سے زیر غور رہاہے۔اس حوالے سے ۱۹۹۹ میں ایک کانفرنس میں چین نے اپنا اہم وفد بھیجاتھا، تاکہ ایک ایسے خطے (جنوبی ایشیا)میں کثیر الملکی تعاون کا نیا احساس پیدا کیا جائے، جہاں بھارت کے مقابلے میں چین کا اثر تاریخی طور پر کم ہی رہا ہے۔اس منصوبے نے بی سی آئی ایم کا نیا نام پانے کے بعد زبردست حکومتی توجہ حاصل کی ہے، لیکن ایسا۱۹۹۹ میں بھی ہوچکا ہے۔یہ راہداری ماضی میں نجی افراد اور کمپنی کا منصوبہ تھی، لیکن آج اس راہداری میں نجی کمپنیوں کے ساتھ حکومت بھی شامل ہوگئی ہے۔یہ منصوبہ سی پیک کے برعکس بھارت چین کشیدہ تعلقات کو تعاون کی مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔
۲۰۱۳ کے اواخرمیں چینی وزیراعظم لی کے دورۂ بھارت کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ میں بی سی آئی ایم کے علاقائی فورم کے تحت تعاون کو فروغ دینے کی بات کی گئی،اعلامیہ میں کہاگیا کہ’’دونوں ممالک نے بنگلادیش، چین، بھارت اور میانمار کے خطے کوانفرااسٹرکچر کے ذریعے جوڑنے کے لیے مشترکہ مطالعاتی گروپ کے قیام کی خاطر دیگر ممالک سے مشاورت پر اتفاق کیاہے‘‘۔ ۲۰۱۵ میں بھی وزیراعظم نریندر مودی اور صدر شی نے بی سی آئی ایم کے تحت تعاون میں اضافے کا خیر مقدم کیا،د ونوں رہنماؤں نے اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔بیجنگ اور نئی دہلی کے درمیان بات چیت کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے چین اور بھارت نے بی سی آئی ایم راہداری کے لیے مسلسل اپنی سفارتی حمایت کااظہار کیا ہے۔بہرحال بی سی آئی ایم پرمثبت بیانات اور جوش وخروش محض علامتی ہی ثابت ہوئے، ا س معاشی راہداری کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان موثر تعاون انتہائی محدود رہا۔یہاں وسیع پیمانے پر احساس پایا جاتا ہے کہ بھارت مشرقی برصغیر میں چین کے ساتھ تعاون کے فائدہ اور نقصان پر بحث کرکے وقت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔خطے کو جوڑنے کے منصوبوں کے حوالے سے نئی دہلی اپنی مشرقی سرحد پرچین کے ساتھ کام کرنے پر اسٹرٹیجک تحفظات رکھتا ہے۔ بھارت کاشمار بی سی آئی ایم کے بانی ارکان میں ہوتا ہے، لیکن مختلف سیکیورٹی خدشات کے وجہ سے نئی دہلی کااس معاشی راہداری کی تعمیر میں فعال کردارادا کرنے کا امکان نہیں،کیوں کہ بھارت کو اس منصوبے میں بہت کم فائدہ نظر آتا ہے ۔ بہرحال بھارت کا اس منصوبے سے علیحدگی کا کوئی امکان نہیں، کیوں کہ بھارت اور چین کے درمیان اسٹرٹیجک بداعتمادی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس دوران بھارت کے ذہن میں کئی سیکورٹی خدشات موجود ہیں۔ ڈوکلام سرحد پر جھڑپوں سے بھارت اور چین کی کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا، بھارت کی نظر میں ان جھڑپوں سے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے حوالے سے چین کے پس پردہ عزائم کھل کرسامنے آگئے۔یہ جھڑپیں چین اور بھوٹان کے درمیان متنازع علاقے میں چینی ورکرز کی جانب سے سڑک تعمیر کرنے کی کوشش پر ہوئی تھیں۔اس کے علاوہ بھارت کی مشرقی سرحد پر بغاوت، منشیات کی اسمگلنگ اور دیگرسیکورٹی مسائل پیدا کرنے میںچین کا کردار بڑھتا جارہا ہے۔چین بھارت کے شمال مشرقی علاقوں میں باغیوں کی حمایت کررہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق تبت میں۱۹۶۲ کی جنگ کے بعد بیجنگ ناگا باغیوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔بھارت کے مشیر قومی سلامتی اجیت دودل نے۲۰۱۱ میں شمال مشرقی علاقوں میں چینی مداخلت کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے لکھا کہ ’’۸۰ کی دہائی کے بعد ایک بار پھر چین نے باغیوں کی حمایت کاسلسلہ شروع کردیا ہے‘‘۔بھارت چین کو ایک حریف کے طورپر دیکھتا ہے اورموجودہ جیو پولیٹیکل صورتحال میں بی سی آئی ایم راہداری سے برصغیر میں چین کے اثرات میں اضافے کا خطرہ ہے، جبکہ نئی دہلی اس خطے کو روایتی طور پراپنے زیر اثر تصور کرتا ہے ۔شدید بداعتمادی بھارت کو چین کے ساتھ معاشی راہداریوں کے حوالے سے تعاون سے روکتی ہے۔ بیجنگ کی جانب سے ان منصوبوں میں شفافیت اختیار کرنے کی پالیسی ہی نئی دہلی کے اعتماد کو بحال کرسکتی ہے اورسرحدوں پر معاشی تعاون کے منصوبوں کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال بھارت کواس معاشی راہداری کے کچھ حصوں پر تعاون کرنے پرسنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، جیسے میانمار اور بنگلادیش میں جاری منصوبوں میں تعاون سے خطے کو بہتر انداز میں جوڑا جاسکتا ہے، اس سے خطے کی ترقی میں بھی اضافہ ہوگا۔خطے کو جوڑنے کے لیے بھارت کوخلیج بنگال میں ملٹی سیکٹرل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن منصوبے کو دوبارہ بحال کرنا چاہیے۔ بھارت کو اس منصوبے میں پڑوسی ممالک بنگلادیش، بھوٹان، میانمار، نیپال، سری لنکا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کوشامل کرنا چاہیے، لیکن چین کو اس منصوبے سے دور رکھا جائے،خطے کے ممالک کے درمیان یہ تعاون کا اہم ترین منصوبہ بن سکتا ہے۔
ہمالیہ کی معاشی راہد اری
ہمالیہ کی معاشی راہداری ابتدائی طور پر چین اور نیپال کے درمیان تعاون کا منصوبہ تھا، اب اس کو بھی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ بنالیاگیا ہے،نیپال نے مئی۲۰۱۷ء میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شمولیت اختیار کی، جس کے بعدنیپال اور چین کے درمیان ہمالیہ کے پہاڑی علاقوں میں معاشی راہداری کی تعمیر کے حوالے سے مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ ہمالیہ سے جڑے تمام دوطرفہ منصوبوں کو اب ہمالیہ کی معاشی راہداری کا حصہ بنادیا گیاہے۔چین کھٹمنڈو سے بیجنگ کے درمیان راہداری کی تعمیر کو درپیش سیاسی اور جغرافیائی چیلنجوں سے بخوبی آگاہ ہے۔اس راہداری کی تعمیر میں ہمالیہ پہاڑ جغرافیائی رکاوٹ ہے اور نئی دہلی اپنی شمالی سرحد پر نیپال اور چین کے درمیان تعاون کو آسانی سے ہضم نہیں کرے گا۔ ۲۰۱۴ء میں بیجنگ نے ہمالیہ کی معاشی راہداری کے منصوبے کو تین ممالک بھارت،نیپال اورچین کے درمیان منصوبہ قرار دینے کا خطرہ مول لیا تھا، اصل میں اس منصوبے کی تجویز نیپال کے سابق وزیراعظم پشپا کمال کی جانب سے۲۰۱۰ء میں پیش کی گئی تھی، انہوں نے ہمالیہ کے گرد موجود تینوں ممالک کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات بڑھانے کی بات کی تھی، بیجنگ کا خیال تھاکہ وہ نئی دہلی کو ابتدائی مذاکرات میں شامل کرکے اس منصوبے میں آسانی کے ساتھ شریک کرسکتا ہے، حالانکہ تینوں ممالک کے درمیان تعاون ابھی صرف ایک تجویز تھی اور اس تجویز کا بھارت نے سرکاری سطح پر کوئی بھی جواب نہیں دیا تھا۔ نئی دہلی نے بیجنگ کی پیشکش کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا، لیکن کھٹمنڈو بھاری چینی سرمایہ کاری کا خواہشمند تھا، نیپال سامان تجارت کی نقل وحمل کے لیے بھارت پر انحصا ر کرتا ہے اوراب خود کو ہمالیہ کے درمیان ہونے والی تجارت کے مرکز کے طور پر پیش کرنا چاہتاہے۔پشپا کمال نے۲۰۱۶ ء میں تینوں ممالک کے درمیان تعاون کرنے پر زور دیتے ہوئے لکھا کہ’’ہمالیہ کو مزید رکاوٹ نہیں سمجھا جاسکتا،یہ خطہ ایشیا میں ابھرتے ہوئے علاقوں کے درمیان اہم ترین پل کا کردار ادا کرسکتا ہے،سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ راہداری ہمالیائی ممالک کے درمیان تعاون کی بنیاد بنے گی‘‘۔ ۲۰۱۶ء میں ہی چین اور نیپا ل کے درمیان چینی ریلوے ٹریک کو تبت اور کھٹمنڈو تک توسیع دینے کے معاملے پر بات چیت کا آغاز ہوگیاتھا۔چین نے اپنے راہد اری منصوبے میں توسیع کرتے ہوئے ہمالیہ کے پہاڑ کاٹ کر نیپال تک ریلوے ٹریک بچھانے کی پیشکش کردی۔ ہمالیہ کی معاشی راہداری بھی چین پاک اقتصادی راہداری جیسا ایک منصوبہ ہے،بیجنگ مالِ تجارت کی نقل وحمل کے لیے نیپال کا بھارت کی بندرگاہوں پر انحصار ختم کرنا چاہتا ہے،ہمالیہ کی معاشی راہداری نیپال کو ایک متبادل راستہ فراہم کرتی ہے۔ بیجنگ نے خشکی میں گھرے نیپال کے لیے متبادل راستوں کی تعمیر پر جلد ہی کام کاآغاز بھی کردیا۔ابتدا میں ہی بیجنگ اور کھٹمنڈو کے درمیان اسٹرٹیجک راہداری کے حوالے سے بھارتی تحفظات پرچین نے بہت حساسیت کامظاہرہ کیاتھا۔ ۲۰۱۵ء میں بھارت اور نیپال سرحد کی بندش نے چین اور نیپال کے درمیان براہ راست راہداری کی تعمیر کے عزم کو اورپختہ کردیا تھا۔ نیپال میں بسنے والے مہیسی ہندوؤں نے آئین میں ترمیم کے ذریعے اپنی نمائندگی بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھارت نیپال سرحد بند کردی تھی،سرحد کی بند ش سے نیپال میں ایندھن کا بحران پیداہوگیا،اس بحران سے تجارت کے لیے نیپال کا بھارت پر انحصار واضح ہوگیاتھا۔نیپال اور بھارت میں اس کشیدگی کے نتیجے میں چین نے نئے ریلوے روٹ کے آغاز اور۸۶ کنٹینر پر مشتمل مال گاڑی چین کے مغربی صوبے سے کھٹمنڈو بھیجنے کا اعلان کیا۔ابھی تک ہمالیہ کی معاشی راہداری کے تحت تبت اور نیپال کے درمیان تجارت کے لیے۹مقامات کا انتخاب کیاگیا ہے،یہ تمام راستے چین جاتے ہیں،بہرحال پہاڑی خطہ ہونے کے سبب تمام راستوں کی تعمیر ممکن بھی نہیں ہے۔
بھارت اپنے پڑوس میں ان تیز رفتار ترقیاتی منصوبوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔آزادی کے بعد سے ہی بھارت نے اپنی ہمالیائی سرحد پر تجارتی راستوں کی تعمیر میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی تھی جبکہ چین انتہائی جارحانہ انداز میں اپنے سرحدوں پر تجارتی راستوں کی تعمیر میں مصروف ہے۔بھارت نے توخود اپنے ساحلوں کواپنے سرحدی علاقوں سے جوڑنے کے لیے راستوں کی تعمیر پر بھی توجہ نہیں دی،خاص کر ہمالیائی سرحد کو تو بالکل نظرانداز کردیا گیا۔ چین بندرگاہوں اورسڑکوں کی تعمیر میں مدد کے ذریعے جنوبی ایشیائی اقوام کے سامنے ایک متبادل راستہ پیش کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے،ان منصوبوں کے ذریعے چین جنوبی ایشیائی طاقت کے طور پر بھارت کے کردار کو چیلنج کررہا ہے۔ اپنے پڑوس میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے جواب میں بھارت نے بھی ۲۰۱۳ء میں ہمالیائی خطے میں معاشی راہداری کی تعمیر کے منصوبے کا آغاز کیا تھا۔
۲۰۰۴ سے۲۰۱۴ تک قائم رہنے والی کانگریس حکومت کی جانب سے کئی اسٹرٹیجک ریل منصوبے تعمیر کرنے کی حکمت عملی تیار کی گئی تھی،اس میں پسماندہ علاقے کی تیز رفتار ترقی کے لیے ۱۴ ریلوے لائنیں بچھانے کی تجویز بھی شامل تھی۔ لیکن بھارتی قیادت میں اسٹرٹیجک وژن کی کمی کی وجہ سے ان منصوبوں پر عمل درآمد کی رفتار انتہائی سست رہی بلکہ کئی منصوبے تو ملتوی ہی کر دیے گئے۔ موجودہ حکومت نے ۲۰۱۷ء میں ہمالیہ کی سرحد پر تیز رفتار ریلوے منصوبے کی تعمیر کا اعلان کیا۔ ہمالیہ ریل ایکسپریس کی تعمیر کا مقصد بھارتی کے شمالی علاقوں لیہ، جموں اور کشمیر کو ملک کے مشرقی علاقے اورناچل پردیش سے جوڑنا ہے۔چین کشمیر میں لداخ اور تقریباً پورے اورناچل پردیش کو اپنے ملک کا حصہ قرار دیتا ہے۔بھارت دنیا کے انتہائی دشوار گزار علاقے کو کاٹ کر نیپال اور بھوٹان تک معاشی راہداری تعمیر کرنے کی کوشش کررہا ہے، بھارت کا ریل منصوبہ معاشی سے زیادہ اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔سرحدی علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں سے بھارت کو تجارتی سامان کی نقل وحمل کے ساتھ فوجیوں کی نقل و حرکت میںبھی آسانی ہوگی۔یہ بھارتی منصوبے ماضی میں سرحدی علاقوں کو نظرانداز کرنے اور پڑوس میںچین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور فوجی موجودگی کا ردعمل ہیں۔بہرحال ان منصوبوں پر عمل درآمد کو انتہائی سخت چیلنجوں کا سامنا ہے، کیونکہ تبت کے مقابلے میں بھارت کی طرف ہمالیائی علاقے انتہائی دشوار گزار ہیں۔ خشکی میں گھرے پڑوسی ممالک کے سامنے متبادل راستے پیش کرنے کے لیے نئی دہلی کوانتہائی تیز ی سے کام کرنا اور سوچنا پڑے گا، خاص کر ایسے حالات میں کہ جب چین زبردست معاشی فوائد کے منصوبے لیے آپ کے پڑوسیوں کے دروازے کھٹکھٹا رہا ہے۔ہمالیائی خطے میں چین اور بھارت کی مسابقت شدید ہونے کا امکان ہے، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان سیکورٹی خدشات مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ اگرچہ بھارت بھی اپنے راہداری منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے چینی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، لیکن دونوںممالک میں اعتماد کے فقدان نے تعاون کے راستے کو بند کردیا ہے۔
(۔۔۔جاری ہے!)
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“India’s answer to the belt and road: A road map for South Asia <>(“carnegieindia.org”.Aug. 21, 2018)
Leave a Reply