
میری ٹائم سلک روڈ
میری ٹائم سلک روڈ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اہم ترین جز ہے، جو وسیع سمندری علاقے پر مشتمل ہے۔سلک روڈ کاآغاز۲۰۱۳ میں ہوا، جس کا مقصد چین اور پڑوس میں موجود آسیان ممالک کے درمیان میری ٹائم تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔جس کے بعد اس منصوبے کو رفتہ رفتہ یورپ، افریقا اور بحرہند میں موجود ساحلی ممالک تک پھیلا دیاگیا،اس منصوبے کا مقصد چین اور اس کے ممکنہ معاشی شراکت دار ممالک کے درمیان سامان تجارت کی نقل وحمل کو آسان بنانا ہے۔ اس منصوبے میں سمندری راستوں پر مشتمل قدیم سلک روڈ کی تعمیر نو کے ساتھ ساتھ چین اور دیگر ممالک کے درمیان تاریخی اور ثقافتی تعلقات قائم کرنابھی شامل ہے۔میری ٹائم سلک روڈ منصوبے میں بندرگاہوں،ہائی ویز، ہوائی اڈوں، سڑکوں اور پلوں سمیت کئی انفرااسٹرکچر منصوبے شامل ہیں۔
ہمالیائی خطے کے برعکس سمندرو ں میں چین اور بھارت کا آمنا سامنا کم ہی ہوتا ہے، لیکن پھر بھی بھارت کو اس منصوبے پر تحفظات ہیں۔ بھارت کو خدشہ ہے کہ چین بحر ہند میں اپنی موجودگی کو بڑھا کر وہاں پہلے سے قائم بھارتی برتری کو چیلنج کرے گا،بھارت کو چین کی جانب سے بندرگاہوں کی شکل میں اپنے گرد گھیرا بنانے پر تحفظات ہیں۔ کئی ماہرین بحرہند میں چینی فوجی اڈا قائم ہونے کے خدشات کومسترد کرچکے ہیں۔بھارت کوچین کے طاقتور ہونے کاخوف ہمیشہ لاحق رہا ہے، یہ بدترین خوف گزشتہ دہائی میں حقیقت بن گیا۔چین کے اندر بیرونی ممالک میں فوجی اڈوں کے قیام کے حوالے سے بحث جاری ہے،ان حالات میں بحر ہند میں چینی بحریہ کی آمدورفت میں اچانک اضافے نے نئی دہلی کو پریشان کردیا ہے، یہاں تک کے چینی آبدوزیں بھی سری لنکا اور پاکستان کی بندرگاہوں کا دورہ کرچکی ہیں۔ خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری سفارت کاری کا مقصد جزائر پر مشتمل ریاستوں کے ساتھ خصوصی سیاسی تعلقات قائم کرنا ہے، تاکہ چینی بحریہ کی خطے میں رسائی کو آسان بنایا جاسکے۔ چین کی جانب سے۲۰۱۷ میں جبوتی میں پہلا بیرون ملک فوجی اڈہ قائم کیے جانے کے بعد نئی دہلی کی تشویش میں کافی اضافہ ہوگیا ہے۔ چین انتہائی جارحانہ انداز میں بھارتی سمندر کے ساتھ موجو دممالک سے تعلقات بڑھا رہا ہے اور انہیں حیرت انگیز سرمایہ کاری کی پیشکش کررہاہے۔سری لنکا کی بندر گاہ ہمبنٹوٹا کے معاملے نے بھارتی خدشات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اس بندر گاہ کا اسٹرٹیجک محل وقوع اور سمندری راستوں کے حوالے سے سری لنکا کی جغرافیائی اہمیت بھارتی خدشات میں اضافہ کررہی ہے کہ چین بحر ہند میں اپنے اسٹرٹیجک مقاصد کے حصول کے لیے ہی یہاں انفرااسٹرکچر تعمیر کر رہا ہے۔ ہمبنٹوٹا پر کنٹرول، گوادر تک رسائی، مالدیپ اور ماریشس میں سرمایہ کاری، جبوتی میں فوجی اڈے کا قیام، یہ سب بیجنگ کی جانب سے خطے پر اپنی بحریہ کی عسکری برتری قائم کرنے کی کوششوں کا محض آغاز ہے۔
یکم مارچ۲۰۱۸ کو جاری ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ نے قرض کے خطرات کو بہت زیادہ بڑھا دیاہے، خاص کر ان ممالک کے لیے جو قرض ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔یہ تحقیق بھارت کے اس موقف کودرست ثابت کرتی ہے کہ چین ناقابل برداشت قرض کا بوجھ ڈال کر اپنے اسٹرٹیجک مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے بارے میں بھارت کا سرکاری موقف ہے کہ اس منصوبے کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے لیے دستیاب معلومات کافی نہیں ہیں، لیکن عملی طور پر بھارت اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے ہٹ کرخطے میں اپنے اثرورسوخ میں اضافے کے لیے کئی اقدامات اٹھا چکا ہے۔ چین کی بحر ہند میں بڑھتی ہوئی موجودگی ایک حقیقت ہے،نئی دہلی نے بھی بدلتے سکیورٹی ماحول کا جواب دینا شروع کردیا ہے۔بھارت کو خدشہ ہے کہ میری ٹائم سلک روڈ بحر ہند میں اس کی برتری کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ چین اور بھارت کی حکومتیں تسلیم کرتی ہیں کہ جہاں تک ہوسکے دونوں ممالک کو سمندروں میں کسی بھی ٹکراؤ سے بچاؤ کاراستہ تلاش کرنا چاہیے۔اس کا ایک طریقہ تو چین اور بھارت کے درمیان میری ٹائم سکیورٹی مذاکرات ہیں، جس کے لیے میری ٹائم سکیورٹی کے حوالے سے خدشات اور چیلنجز پر بات چیت کے لیے باقاعدہ چینل قائم کیاجاسکتاہے۔ چین اور بھارت برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جسے کثیر ملکی فورمز پر بھی ایک دوسرے سے بات چیت کرتے رہتے ہیں۔اس حوالے سے بھارت اور چین کے درمیان سکیورٹی تناؤ کو کم کرنے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں لیکن کشیدگی تاحال برقرار ہے۔ اس دوران بھارت نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ اہم اقدامات کرنے شروع کردیے ہیں۔ بھارت نے اپنے سمندری علاقوں میں موجود انفرااسٹرکچر کی توسیع اور جدت پرتوجہ دی ہے۔ بھارت نے بحر ہند میں موجود ممالک میں انفرااسٹرکچر پروجیکٹ کی نگرانی کے لیے اپنے اداروں کی صلاحیتوں کو کافی بہتر بنایا ہے۔
نریندر مودی حکومت نے ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر پر خاص توجہ دی ہے۔چاہ بہار بندرگاہ میں بھارتی کردار چین کی گوادر میں موجودگی اور اس کی میری ٹائم سلک روڈ کا جواب سمجھا جاتا ہے۔اس کے علاوہ بھارت نے ایک ثقافتی پروجیکٹ ’’موسم‘‘ کے نام سے بھی متعارف کرایا ہے۔جس کا مقصد بھارت کے بحرہند کے ساتھ تاریخی رشتے کو بیان کرنا ہے۔مبصرین کے مطابق پروجیکٹ ’’موسم‘‘ کا مقصد بھی چین کے سلک روڈ منصوبے کے دعوؤں کا جواب دینا ہے۔
نئی دہلی خطے میں چھوٹے جزائر پر مشتمل ممالک سے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے، بھارت طویل عرصے سے بحرہند میں موجود مالدیپ،سری لنکا، ماریشس اور سے شلز جسے ممالک کو سکیورٹی فراہم کرتا آیا ہے۔ اگرچہ یہ ممالک چھوٹے ہیں لیکن پھر بھی جغرافیائی طور پر اہم ہیں،یہ ممالک اہم تجارتی راستوں کے گرد ایک دائرے کی شکل میں موجود ہیں، جغرافیائی اہمیت ان ممالک کو طاقت کے زبردست اظہار اور ناگزیر تجارتی راستوں کی حفاظت کے لیے بہت اہم بنادیتی ہے۔بحر ہند میں چھوٹے جزائر پر مشتمل ممالک پر اثرورسوخ رکھنے والا ملک زمانہ امن میں سمندری نقل وحرکت پر نظر رکھنے اور طاقت کا اظہار کرنے کی صلاحیت با آسانی حاصل کرسکتا ہے، جبکہ زمانہ جنگ میں مذکورہ ملک کو مخالفین پر برتری حاصل ہو جائے گی۔ان چھوٹے ممالک کی اپنے سمندر کا تحفظ کرنے کی صلاحیت میں اضافے کے لیے بھی بھارت طویل عرصے سے مختلف اقدامات کرتارہا ہے۔جزائر پر مشتمل زیادہ ترممالک اپنے سمندر میں موجود اکنامک زون کے تحفظ اور نگرانی کی صلاحیت نہیں رکھتے۔یہ اکنامک زونز ملک کے ساحل سے۲۰۰ نارٹیکل میل کے فاصلے پر بیچ سمندر میں ہوتے ہیں۔ماریشس اور سے شلز جیسے ممالک کی درخواست پر بھارت نے ان کے اکنامک زونزکے تحفظ کے لیے اپنی بحریہ کو تعینات کیا۔اس کے علاوہ بھارت منشیات کی اسمگلنگ جیسے غیر روایتی خطرے سے نمٹنے کے لیے بھی ان ممالک کومدد فراہم کررہا ہے۔ جس کے لیے بھارت نے ریڈار نیٹ ورکس کو سری لنکا اور ماریشس جیسے ممالک سے پھیلا دیا ہے۔بھارت کے یہ اقدامات بحر ہند میں جاری چین کی مشکوک سرگرمیوں سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔
چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے تناظر میں بھارت کے لیے ملک کو تیل اور گیس کی فراہمی برقرار رکھنے کے لیے سمندری راستوں کا تحفظ کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔عالمی طاقت بننے کے لیے ضروری ہے کہ چین بحر ہند میں موجود بین الاقوامی پانی اور تجارتی راستوں کی حفاظت کرنے والے اہم ترین کھلاڑی کا کردار حاصل کرے۔لیکن بحر ہند میں موجود بندرگاہوں اور فوجی اڈوں تک چینی بحریہ کی رسائی کے بغیر بیجنگ کے لیے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ بھارتی فوجی حکام خدشات کا اظہار کرچکے ہیں کہ چین میری ٹائم سلک روڈ کی آڑ میں بندرگاہوں کوتجارتی اور فوجی دونوں مقاصد کے لیے تعمیر کررہا ہے۔اگرایسا ہے تو تجارتی مقاصد کے لیے تعمیر کی گئیں بندرگاہیں ضرورت پڑنے پر چینی بحریہ کوعسکری مدد فراہم کرنے کے لیے بھی استعمال کی جاسکیں گی۔جس سے خطے میں بیجنگ کوزبردست جغرافیائی برتری حاصل ہوجا ئے گی۔بحر ہند میں چین کا اسٹرٹیجک مفادآبنائے ملاکا کے ساتھ جڑا ہے۔ چین کو خوف ہے کہ کسی بھی تنازعے کی صورت میں بھارت یا امریکاچین کے اہم ترین تجارتی راستے آبنائے ملاکا کو بند کرسکتے ہیں۔ آبنائے ملاکا اہم ترین گزرگاہ ہے، چین جانے والی تیل اورگیس کی بڑی مقدار اسی راستے سے گزرتی ہے۔ چین آبنائے ملاکا کے تحفظ کے ساتھ تیل اور گیس کی فراہمی کے لیے متبادل راستہ بھی چاہتا ہے۔ان تجارتی راستوں کے تحفظ کے لیے چینی بحریہ کی صلاحیت میں اضافہ کرنا بھی چین کی خواہش ہے۔میری ٹائم سلک روڈ منصوبہ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر ہی بنایاگیا ہے۔آبنائے ملاکاکے متبادل کے طور پر چین نے کرا کینال کی تعمیر کا منصوبہ دوبارہ سے پیش کیا،کرا کینال تھائی لینڈ میں زمین کا چھوٹا ساٹکرا کاٹ کر تعمیر کیا جانا ہے۔کرا کینال کی تعمیر کا منصوبہ انیسوی صدی میں پیش کیاگیاتھا، لیکن مختلف سیاسی اور اسٹرٹیجک خدشات کی وجہ سے کینال تعمیر نہیں کی جاسکی۔ کینال کی تعمیر مکمل ہونے کی صورت میں یہ بحر الکاہل سے بحرہند آنے کا مختصر ترین راستہ ہوگا۔کرا کینال کی تعمیر کے بعد آبنائے ملاکا جانے کی ضرورت نہیں رہے گی، لیکن یہ راستہ بحیرہ انڈمان میں کھلے گا،جہاں انڈمان اور نیکوبار جزائر پر پہلے ہی بھارتی بحریہ کے اڈے موجود ہیں۔یعنی کرا کینال کی تعمیر کی صورت میں چینی تجارتی راستہ بھارت کے مزید قریب آجائے گا، بہرحال کینال کی تعمیر کے لیے بہت پیسے اور زبردست ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے، جو میری ٹائم سلک روڈ منصوبے کے ذریعے فراہم کی جاسکتی ہے۔میری ٹائم سلک روڈ کی تعمیر کے ذریعے چین کو آبنائے ملاکا کے متبادل کے ساتھ بحرہند میں اپنی موجودگی بڑھانے کا موقع ملے گا۔
میری ٹائم سلک روڈ اور دیگر منصوبے بحرہند میں بھارت کی روایتی برتری کے لیے زبردست چیلنج بن سکتے ہیں۔ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بھارت اپنے طور پر اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر بھی اقدامات کررہا ہے۔ بھارت بحر ہند میں موجود مالدیپ، ماریشس، سے شلز اور سری لنکا جیسے ممالک سے اپنے سکیورٹی تعلقات کو بہتر بنارہا ہے۔ اس سے بحر ہند میں موجود ممالک میں آپسی تعاون مضبوط ہوگا اوربھارتی بحریہ کی رسائی خلیج بنگال میں موجود ممالک تک بڑھ جائے گی۔ نئی دہلی نے اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ اور موجودہ سکیورٹی صورتحال کے استحکام کے لیے امریکا،فرانس، جاپان اورآسٹریلیا جیسے ممالک کے ساتھ بھارتی بحریہ کے تعاون میں اضافہ کررہا ہے۔ بھارت اپنی ان معاشی اور تکنیکی مجبوریوں کو سمجھتا ہے، جس کی وجہ سے خطے میں میری ٹائم سلک روڈ جیسے منصوبے پیش کرنے کی بھارتی صلاحیت محدودہوجاتی ہے،اس مسئلہ کے حل کے لیے بھار ت کو خطے میں موجود اتحادیوں کے ساتھ تعاون کی سوچ کو اپنانا ہوگا۔نئی دہلی نے پہلے ہی جاپان کے ساتھ مل کر چینی انفرااسٹرکچر منصوبوں کے متبادل پر کام کا آغاز کردیا ہے۔ جاپان کے ساتھ شراکت داری معیاری انفرااسٹرکچر اوربھارت کی مشرقی ایشیا پالیسی کا امتزاج ہے۔ بھارت اور جاپان واضح کرچکے ہیں کہ دونوں ممالک اسٹرٹیجک اقتصادی منصوبوں پر کام کرنے کاسیاسی عزم رکھتے ہیں، اب سارا معاملہ ان منصوبوں پر عمل درآمد کا رہ جاتا ہے۔ جاپان اور بھارت نے اپنی انڈوپیسفک پالیسیوں کی بنیاد پر جنوبی ایشیا اور بحر ہند میں انفرااسٹرکچر منصوبوں پر کام تیز کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں دونوں ممالک نے ایشیا افریقا راہداری کا اعلان کیا، چاہ بہار کی ایرانی بندرگاہ کی مشترکہ تعمیر اس منصوبے کا حصہ ہے۔ممکنہ طو ر پر سری لنکا کو بھی اس منصوبے کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔جاپان اور بھارت میانمار سمیت جنوب مشرقی ایشیا اور بحرہند کے ممالک کے ساتھ تعاون کے مزید منصوبوں کا جائرہ لے رہے ہیں، لیکن دونوں ممالک کی جانب سے منصوبے چننے اور ان پر عمل درآمد کرنے میں پہلے ہی کافی تاخیر ہوچکی ہے۔ایشیا افریقا راہداری کا اعلان۲۰۱۶ میں کیاگیا، جبکہ اس کی دستاویزات کا اجرا ۲۰۱۷ میں کیاگیا۔جس کے بعد سے جاپان اور بھارت منصوبوں کے چناؤ اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی واضح پیش رفت نہیں کرسکے ہیں۔ درحقیقت بھارت کو جاپان سے ہٹ کر بھی سوچنا ہوگا اوربحرہند میں موجود چھوٹے جزائر پرمشتمل اپنے پڑوسی ممالک سے تعلقات کو مزید بہتر بنانا ہوگا۔ بھارت کو لازمی طور پر آسیان ممالک سمیت خلیج بنگال اور بحرہند میں موجود ریاستوں کے ساتھ مل کر ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی قابلیت حاصل کرنی ہوگی۔بھارت کو لازمی طور پر تین ملکی تعاون کے مواقع تلاش کرنے ہوں گے، جس سے اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے خطے کو جوڑنے کا مشترکہ مقصد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
بھارت اور جاپان پہلے ہی ایشیا افریقا راہداری کا اعلان کرچکے ہیں، اس منصوبے سے بحر ہند کے ذریعے دو براعظموں کو جوڑنے میں مدد ملے گی۔خطے میں جاپان اور بھارت کے فطری اتحادی بن کر ابھرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ نئی دہلی اور ٹوکیو کو اپنے پڑوس میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی پر شدید تحفظات ہیں،جنوبی بحیرہ چین(بحرہند اورجاپان کے درمیان اہم ترین تجارتی راستہ) میں چین کا جارحانہ رویہ جاپان کے لیے سنگین مسئلہ ہے۔مشرقی بحیرہ چین میں موجود کچھ جزائر جاپان اور چین کے درمیان متنازع علاقہ ہے۔ چین جنوبی ایشیا میں بھی جاپان کا اہم حریف بن کر ابھرا ہے، ٹوکیو جنوبی ایشیا میں جاری ترقیاتی منصوبوں کااہم ترین سرمایہ کار رہا ہے۔ جاپان بھی بھارت کی طرح بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر تحفظات رکھتا ہے، جس میں ناقابل برداشت قرضوں کا بوجھ، ملکوں کی خودمختای کو نظرانداز کرنا اور شفافیت کا فقدان شامل ہیں۔جاپان کو خوف ہے کہ طاقتور چین تجارتی معاملات پر اپنی سوچ کو مسلط کرے گا اور خطے میں موجود سکیورٹی صورتحال کو بدل کررکھ دے گا،ان وجوہات کی وجہ سے جاپان طاقتور چین کو اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے خلاف تصور کرتا ہے۔ نئی دہلی اور جاپان کوچین کی جانب سے تنازعات کے حل کے لیے رائج طریقوں کو نظرانداز کرنے پر بھی تحفظات ہیں۔
بیجنگ نے۲۰۱۶ میں بحیرہ جنوبی چین کے بارے میں انٹرنیشنل ٹربیونل کے فیصلے کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ بھارت اور جاپان کے مشترکہ اسٹرٹیجک مفادات چینی منصوبوں کا متبادل پیش کرنے کی اہمیت کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ سمندری علاقے کچھ اہم مواقع فراہم کرتے ہیں، بھارت بھی بحرہند کے ممالک کے ساتھ شراکت داری اور تعاون کو بڑھا رہا ہے۔مثال کے طور پر بھارت جاپان کے ساتھ مل کر جزائر پرترقیاتی منصوبوں اور سمندری راہداریوں کی تعمیر کے لیے کام کررہا ہے۔ آبدوز شکن جنگی تکنیک میں مہارت کے لیے بھارت نے امریکا کے ساتھ تعاون میں اضافہ کیا ہے۔اس کے ساتھ ہی بھارت نے سمندر میں اپنی برتری بہتر بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے فرانس کے ساتھ تعاون میں اضافہ کیا ہے۔جس میں بحرہند کے آرپار پیچیدہ فوجی مشقیں اور معلومات کا تبادلہ کرنا شامل ہیں۔ بھارت کو مزیدسمندری علاقوں تک اپنی رسائی بڑھانے کے لیے امریکا، فرانس، جاپان اور آسٹریلیا جیسے اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنا ہوگا۔اس کے ساتھ ہی بھارت کو انڈونیشیا، سنگاپور اور برطانیہ جیسے ممالک کے ساتھ ممکنہ تعاون کی راہوں کو تلاش کرنا ہوگا۔
خطے کے بدلتے ہوئے سکیورٹی ماحول کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کو نئے تصورات کے بارے میں سوچنا اور بحث کرناہوگا۔ اس حوالے سے آسانی پیداکرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا اور بوجھ کو برابر تقسیم کرنے کا معاملہ اہم ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو بیرون ملک اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے ایک آلے کے طور پر دیکھا جارہاہے۔بھارت، جاپان اور امریکا جیسے ممالک انتہائی اعلی سطح پر ان منصوبوں کے بارے میں سخت خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔سیاست اوریہ منصوبے ایک پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہوچکے ہیں۔جیو پولیٹیکل مفادات اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر بھارتی تحفظات کے پیش نظرچین اور بھارت کے درمیان اس منصوبے پر تعاون کے امکانات بہت کم ہیں۔جنوبی ایشیا اور بحر ہند میں چین کے ساتھ جیوپولیٹیکل مسابقت بڑھنے کے خطرے کے پیش نظربھارت مشترکہ کوششوں میں اضافہ کرنے کی اہمیت کا ادراک رکھتا ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ بھارت کو موقع دیتا ہے کہ وہ خطے کو ترجیح دینے کی پالیسی کوپھر سے اہمیت دے۔ بی سی آئی ایم جیسے منصوبے کے حوالے سے، جس میں بھارت اور چین دونوں شریک ہیں، نئی دہلی مذاکرات کی رفتار آہستہ رکھنے کی پالیسی جاری رکھے گا۔ایسے ادارے جن کے ممبران میں چین اور بھارت شامل ہیں میں بھی دونوں ممالک کے درمیان تعاون محدود ہونے کا امکان ہے، بلکہ بداعتمادی میں اضافہ دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی مثبت پیش رفت کو روک دے گا۔جب بھی چین کی جانب سے نئی دہلی کو میری ٹائم سلک روڈ جیسے منصوبوں میں شرکت کی دعوت دی جائے گی توبھارت ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئے گا،کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ یہ منصوبہ بھارت کے اسٹرٹیجک مفاد میں نہیں۔بھارت کے جاپان جیسے ممالک خاص کر خلیج بنگال میں موجودریاستوں سے تعاون میں اضافہ ہوجائے گا،جس تعاون کا حصہ چین نہیں ہوگا۔سب سے اہم ترین یہ کہ بھارت کوخطے میں چینی مقاصد اوراہداف کا غلط اندازہ لگانا چھوڑنا ہوگا۔جب چین اپنی سرحدوں سے سیکڑوں میل دور ترقیاتی منصوبوں پر کامیابی کے ساتھ کام کررہا ہے توبھارت کو بھی اپنی رفتار بڑھانی ہوگی۔ بھارت تاحال اپنی سرحدوں کے اندر ترقیاتی منصوبے بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔نئی دہلی بین الاقوامی سطح پر ترقیاتی منصوبے تشکیل دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔خطے میں اقتصادی راہداریوں اور انفرااسٹرکچر کی اپنی ترجیحات کے تحت تعمیر کے لیے بھارت کو مشترکہ کوششیں کرنے اور قابل عمل حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔بھارت کو اپنی داخلی انفرااسٹرکچر اور ترقیاتی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ خطے میں تبدیلی کا باعث بننے والے چینی منصوبوں کا متبادل بھی پیش کرنا ہوگا۔بھارت کو ناصرف اپنے پڑوس میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کاجواب دینا ہوگا بلکہ دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کرخطے کو جوڑنے کے لیے تعاون کرنا ہوگا۔اس دوران بھارت کو اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے حوالے سے کسی بڑی پیشرفت سے قبل نئی دہلی اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو خطرے میں محسوس نہیں کرتا، اسی طرح بھارت اور جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والے جاپان کے درمیان کو ئی مسابقت نہیں ہے۔ چین کا ابھرنا جنوبی ایشیا میں صرف ایک اہم کھلاڑی کا اضافہ نہیں ہے، بلکہ چین کا بڑھتا ہوااثرورسوخ خطے میں بھارت کا قائدانہ کردار خطرے میں ڈال دے گا۔موجودہ بھارتی حکومت اپنے پڑوسی ممالک میں آنے والی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی اہمیت سے واقف ہے، لیکن حکومت کو بوجھ کوتقسیم کرنے جیسی نئی سوچ اپنانے کی ضرورت ہوگی۔نئی دہلی کو انڈمان،نیکوبار جزائر اور بحرہند میں توانائی منصوبوں جیسے اسٹرٹیجک اثاثوں پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔بھارت کے یکطرفہ اقدامات انتہائی محدود وسائل کی و جہ سے پڑوسی ممالک کے سامنے چینی منصوبوں کا قابل عمل متبادل پیش کرنے کے لیے کافی نہیں ہوسکتے۔ اندرون ملک انفرااسٹرکچر کی شدید کمی کی وجہ سے بھارت کی جنوبی ایشیا اور بحرہند میں بڑے منصوبوں پر کام کرنے کی صلاحیت انتہائی محدود ہوجاتی ہے،نئی دہلی کو ان منصوبوں پر تنہا کام کرنے کی ضرورت بھی نہیں اور وہ ایسا کر بھی نہیں سکتا ہے۔
خوش قسمتی سے بھارت،جاپان اور دیگر ممالک کے مشترکہ اسٹرٹیجک مفادات ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ بھارت کو اپنے اندرونی انفرااسٹرکچر کی تعمیر و ترقی اور چینی منصوبوں کا متبادل پیش کرنے کے لیے جاپان جیسے اتحادی ممالک سے مددحاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔بھارت کے پاس اپنے راہداری منصوبے، ان پر عمل درآمد کا طریقہ اور مقاصد کا واضح بلیو برنٹ ہونا چاہیے۔آسٹریلیا،فرانس، امریکا،جرمنی اور برطانیہ بھارت کو خطے میں قائدانہ کردار ادا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ ممالک بہت سارے امور میں تکنیکی مہارت رکھتے ہیں، جس سے کسی حد تک خطہ فائدہ بھی اٹھارہا ہے۔بھارت کوآسٹریلیا،فرانس، امریکا،جرمنی اور برطانیہ سے ہرممکن فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مشترکہ مفادات کے لیے تعاون کرنا چاہیے،تاکہ اسٹرٹیجک راہداری منصوبوں کے مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔بھارت اور اس کے اتحادی ممالک خطے میں امن و سلامتی کے مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے مل کر وسائل فراہم کرسکتے ہیں۔جب بھارت چینی منصوبوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے اتحادی ممالک کی تلاش کررہا ہے تو ایسے میں نئی دہلی کوخطے میں متعلقہ منصوبوں، ان کی نوعیت اور گنجائش کے بارے میں پتاہونا بہت ضروری ہے۔اب تک بھارت ردعمل کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جو ناکافی ہے۔اگر بھارت چین کی جانب سے عالمی طاقت بننے کے لیے کیے گئے اقدامات کا جواب دینے کا سلسلہ جاری رکھے گا تو اپنے محدود وسائل سے بھی محروم ہوجا ئے گا۔ بھارت کولازمی طور پر اپنی اسٹرٹیجک ترجیحات کا تعین کرکے سمجھداری پرمبنی ایک مشترکہ فریم ورک بنا ناہوگا۔خطے میں اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ کے لیے وسائل کی فراہمی کا بوجھ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اٹھانا ہوگا۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اور اس جیسے دیگر منصوبے دنیا بھر سے ایشیا کو جوڑنے کے ساتھ نئی علاقائی سرحدوں کا تعین بھی کررہے ہیں، جس سے نمٹنے کے لیے پالیسی سازوں کو نئی سوچ کی ضرورت ہے۔بھارت اور چین کے درمیان دوطرفہ، پڑوسی ممالک میں اور عالمی سطح پر جاری مسابقت اور سفارت کاری آنے والے کئی برسوں کے لیے ایشیا کے نئے سکیورٹی اسٹرکچر کو تشکیل دے گی اورخطے میں اہم معاشی اور اسٹرٹیجک راستوں کا تعین کرے گی۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“India’s answer to the belt and road:A road map for South Asia”.(“carnegieindia.org”.Aug. 21, 2018)
Leave a Reply