
ایشیاکوبہت وسیع انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہے، یہاں علاقوں کو جوڑنے اور انفرااسٹرکچر کی ترقی کے لیے ممالک کے درمیان تعاون کے بہت وسیع مواقع موجود ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے اندازے کے مطابق خطے کے ترقی پذیر ممالک کو ہر برس انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ کرنے کو ایک اعشاریہ سات کھرب ڈالر کی ضرور ت ہے۔ یہ رقم ترقی کی رفتار برقرار رکھنے، غربت کے خاتمے اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے۔
جنگ عظیم دوئم کے بعد سے امریکا اور جاپان ایشیا میں ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے والے اہم ترین ممالک ہیں، بہرحال اس حوالے سے دیگر ممالک خاص کر جرمنی اور برطانیہ نے بھی حالیہ عرصے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔جاپان نے جنوبی ایشیائی ممالک خاص کر بھارت کی ترقی میں اہم ترین معاونت فراہم کی ہے۔ اس دوران چین خطے میں اہم تزویراتی اور معاشی کھلاڑی بن کر ابھرا اور اس نے ایشیا کو جوڑنے کا منصوبہ نئے سرے سے پیش کیا۔ بیجنگ نے خطے کو جوڑنے کے منصوبے کا آغاز کرکے نئی سیاسی سوچ کا مظاہرہ کیا، یہ چینی سرمائے سے بننے والا ایسا منصوبہ ہے جوبھارت کے گرد سیکورٹی ماحول کو تبدیل کرکے رکھ دے گا۔ بیجنگ کے بھارت کے پڑوسیوں سے بڑھتے تعلقات نئی دہلی کے لیے پریشان کن ہیں۔ ہر ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کی طرح چین بھی اپنے پڑوس میں اپنی موجودگی بڑھانا چاہتا ہے۔ چین کے جنوبی ایشیا میں بڑھتے اثرات کے تناظر میں بھارت کو اپنے سب سے بڑے پڑوسی سے تعلقات مستحکم رکھنے اور خطے میں اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے چیلنج کا سامنا ہے۔
بھارت نے چین کی تجارتی کوششوں کو اپنے مفادات کے خلاف اور تزویراتی مقاصد کے لیے بیجنگ کی پیش قدمی کے طور پر دیکھنا شروع کردیا۔ بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے۲۰۱۶ء میں لکھا کہ’’تزویراتی مفادات اور تجارتی راہداریاں بنانے کے درمیان زبردست تعلق دنیا بھر میں موجود ہے اوریہی کچھ ہمارے براعظم میں نظر آرہا ہے‘‘۔ سبرامنیم نے تجارتی راہداریوں کو اپنے اثرات بڑھانے کے لیے استعمال کرنے والوں کے خلاف احتیاط سے بات کی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے لیے چین کے بیلٹ روڈ منصوبے کو دوسرے ممالک اور ان کی خارجہ پالیسی پراثرانداز ہونے کے ہتھیار کے طور پر دیکھنا ایک عام بات بن گئی ہے۔ ۲۰۱۳ء میں اعلان کے بعد سے ہی ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے نے کافی شہرت حاصل کی، اس منصوبے کے حوالے سے مثبت اور منفی دونوں باتیں کی گئیں۔ اس منصوبے کا شمار تجارتی راہداری اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے لیے سرمائے کی فراہمی کے بڑے منصوبوں میں ہوتا ہے۔ ا س منصوبے سے جنوبی ایشیا اور بحرہند میں چین اور بھارت کے درمیان مسابقت میں اضافہ ہوجائے گا۔ بھارت نے جوابی پالیسی کے طور پر بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے خلاف انتہائی سخت موقف اختیار کیا۔ اس نے مئی ۲۰۱۷ء میں چین کی میزبانی میں ہونے والے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا بائیکاٹ کردیا۔ بھارت نے سرکاری اعلامیہ میں منصوبے کی شفافیت کے حوالے سے سوالات اٹھائے۔ نئی دہلی چین پاک اقتصادی راہداری کو اپنی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دے چکا ہے، بھارت نے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کو ایک منصوبہ سمجھنے کے بجائے اپنا ردعمل دے دیا۔ اس منصوبے کو مختلف دوطرفہ منصوبوں کی ماں سمجھنا زیادہ بہتر ہوگا، اس منصوبے میں بہت سے ایسے پراجیکٹس شامل ہیں، جن کا آغازبیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے قبل ہی ہوچکا تھا۔ بنگلادیش، چین، بھارت اور میانمار تجارتی راہداریوں پر کام کا آغاز نوے کی دہائی میں کرچکے تھے، اسی طرح چین کا اکیسویں صدی کا ’’میری ٹائم سلک روڈ پراجیکٹ‘‘ بحر ہند میں دوطرفہ انفرااسٹرکچر کے منصوبوں کا حصہ ہے، ا س کو چین نے کثیر ملکی منصوبہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
’’بیلٹ اینڈروڈ منصوبے‘‘ میں شامل جنوبی ایشیا سے گزرنے والی چار اہم تجارتی راہداریوں کا تجزیہ منصوبے کے حوالے سے بھارت کے خدشات سمجھنے میں مدد کرے گا۔ ان میں سی پیک، بی سی آئی ایم، ہمالیہ کی راہ داری اورمیر ی ٹائم سلک روڈکے منصوبے شامل ہیں۔ یہ چاروں تجارتی راہداریاں اور ان کا انفرااسٹرکچر براہ راست بھارت کے تزویراتی مفادات سے جڑا ہے۔یہ راہداریاں بھارت کی بحری اور بری سرحدوں کے قریب سے گزرتی ہیں اور اس کے سیکورٹی مفادات اور تزویراتی ماحول کو متاثر کرتی ہیں۔ بھارتی سرحدوں کے قریب موجود راہداریوں میں چین کی موجودگی خطے میں طاقت کا توازن تبدیل کرکے رکھ دے گی۔ بھارت کو خطے میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن اسے چینی سرمایہ کاری کے تزویراتی اثرات پر شدید تحفظات ہیں۔ نئی دہلی کو بنیادی خدشہ ہے کہ بیجنگ معاشی اثرات کے ذریعے اپنے تزویراتی مفادات کو پورا کرے گا۔ اس کی اہم مثال سری لنکا کی تزویراتی مقام پر واقعہ بندرگاہ ہمبنٹوٹا ہے، چین نے ۲۰۱۷ء میں سری لنکا کی حکومت پر دباؤ ڈال کر ہمبنٹوٹا کو ۹۹ برس کی لیز پر حاصل کیا، بندرگاہ کو چین سے قرضہ حاصل کرکے تعمیر کیا گیا، لیکن انتہائی بلند شرح سود کی وجہ سے سری لنکا قرض کی ادائیگی میں ناکام رہا۔
بھارت کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنے پڑوسی ممالک کے لیے بیلٹ اینڈروڈ منصوبے کا متبادل پیش کرنا پڑے گا۔ ابھی تک بھارت نے خطے کو جوڑنے کے منصوبے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے میں کوئی تیزی نہیں دکھائی ہے، بہرحال بھارت نے منصوبے کا متبادل پیش کرنے کے لیے اپنا اہم ترین اتحادی جاپان کوبنایا ہے اور اس منصوبے پر تھوڑی بہت پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ جنوبی ایشیا اور بحر ہند میں اپنی برتری کو برقرار رکھنے اور اپنے تزویراتی مقاصد کے حصول کے لیے نئی دہلی کوفوری طورپر چینی منصوبے کا متبادل فریم ورک دینے کی ضرورت ہے۔سال۲۰۰۰ ء میں چین نے اپنے مغربی علاقوں کی ترقی پر توجہ دینی شروع کی، اس وقت سے ہی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا آغاز ہوگیا تھا۔ نوے کے دہائی میں چین کے ساحلی علاقے ترقی کر گئے تھے، جس کے بعد سے ساحلی علاقوں اور مغربی و دیگر علاقوں کے درمیان معاشی فرق بڑھتا جارہا تھا۔ انفرااسٹرکچر پر سرمایہ کاری اور ٹرانسپورٹ کی بنیادی سہولت کی فراہمی مغربی علاقوں کی ترقی میں اہم ترین عنصر تھا۔ جس کے فوری بعد بیجنگ نے اپنی سرحدوں سے باہر کے خطے کو چین سے جوڑنے کے لیے انفرااسٹرکچر تعمیر کرنے کے منصوبے بنائے۔ ان میں وسطی ایشیا کو زمین، سمندر، ریلوے اور بندر گاہوں کے ذریعے یورپ سے جوڑنے کے منصوبے شامل تھے، خطے کو جوڑنے میں بنیادی اہمیت بندرگاہوں کے منصوبوں کو حاصل تھی۔ بیلٹ اینڈروڈ منصوبے میں متعدد ممالک کے درمیان جاری دوطرفہ منصوبوں کو یکجا کیا گیا، ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کا باقاعدہ اعلان چینی صدر شی جن پنگ نے۲۰۱۳ء میں کیا تھا۔ انہوں نے ستمبر۲۰۱۳ء میں کرغزستان کے دورے کے دوران’’سلک روڈ اکنامک بیلٹ‘‘ پر بات کی تھی۔ اس کے ایک ماہ بعد اکتوبر۲۰۱۳ء میں چینی صدر نے انڈونیشیا کی پارلیمان سے خطاب میں میری ٹائم سلک روڈ بنانے کی پیشکش کی۔ مشترکہ تعاون کے ذریعے سلک روڈ بحالی کی چینی پیشکش کئی مقاصد رکھتی تھی۔ اس منصوبے کے دو حصے تھے، پہلا جنوبی اور وسطی ایشیا کے زمینی راستے کے ذریعے چین کو یورپ سے جوڑنا، دوسرا راستہ سمندری راہداری تھی، یعنی بحرہند کے ذریعے چین کو یورپ سے جوڑنا۔ زمینی راستے کے حوالے سے بھارت ’’سی پیک‘‘ اور نیپال میں چینی سرمایہ کاری سے جاری منصوبوں پر شدید خدشات رکھتا ہے۔ جب کہ میر ی ٹائم سلک روڈ نئی دہلی کے لیے اس سے بڑا مسئلہ ہے، کیوں کہ بھارتی بحریہ کے لیے بہت اہم ہونے کے ساتھ بحر ہند بھارتی میری ٹائم سیکیورٹی اور تزویراتی مفادات کے لیے اہم ترین ہے۔ اگرچہ بیلٹ اینڈروڈ منصوبے کی کامیابی کے حوالے سے صورتحال غیر یقینی کاشکار ہے، لیکن پھر بھی اس منصوبے کے خطے کے لیے معاشی فوائد سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کئی ایشیائی ممالک کے لیے چینی سرمایہ انفرااسٹرکچر کے بڑے منصوبوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اہم ہے۔ انفرااسٹرکچر کے منصوبے بنانے کی پیشکش کرکے چین نے خطے کے قائد کا کردار ادا کرناشروع کردیا
ہے۔ چین اپنی معاشی طاقت کے ذریعے خطے کی تعمیرو ترقی میں کردار ادا کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔ کسی متبادل منصوبے کی عدم موجودگی میں چینی پیشکش انفرااسٹرکچر کے ضرورت مند چھوٹے ممالک کے لیے پرکشش ثابت ہوگی۔ چین کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ زیادہ ملازمتیں پیداکرنے اورخود کو جاپان اور امریکا کی طرح دوسروں کی ترقی پر خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرانے کے لیے اہم ہے۔ اس سے بیجنگ کو خود کو عوامی ضروریات پوری کرنے والا ملک دکھا کر اپنے لیے قائدانہ کردار حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
چینی وزیراعظم نے ۲۰۱۵ء میں پیپلز نیشنل کانگریس کے اجلاس میں اپنی سالانہ رپورٹ میں بیجنگ کے عالمی کردار کو واضح کیا، انہوں نے بتایا کہ چینی کمپنیاں بیرون ملک انفرااسٹرکچر کے منصوبے تعمیر کرنے کے ساتھ دیگر ممالک کی کمپنیوں کے ساتھ شرکت داری بھی قائم کررہی ہیں۔۲۰۱۳ء میں چین نے اپنی توجہ پڑوسی ممالک کی طرف کرتے ہوئے پرامن ترقی پرزور دیاتھا۔ ۲۰۱۵ء میں چین نے عالمی سطح پر جارحانہ انداز میں کردار ادا کیا، جنوبی ایشیا میں چین اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت نے بہت کچھ داؤ پر لگادیا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے قبل کبھی بھی بھارت نے پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کوخطرے میں محسوس نہیں کیا۔ اس حوالے سے جنوبی ایشیا کی ترقی پر خرچ کرنے والے جاپان اور دیگر اہم ممالک سے بھارت کو مسابقت کا احساس نہیں ہوتاتھا، لیکن چین کے عروج نے بھارت کی پریشانی میں اضافہ کردیا ہے۔ بھارت کوخدشہ ہے کہ بیجنگ کے اثرات خطے میں نئی دہلی کے قائدانہ کردار کو متاثر کریں گے۔
جنوبی ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے سفارتی اثرات عالمی سطح پر بڑی طاقت کا کردار ادا کرنے کی خواہش کا عکاس ہیں۔کسی ابھرتی ہوئی طاقت کی طرح چین بھی موجودہ نظام پر اعتراض کرتے ہوئے اس کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ چین کو فائدہ پہنچنے والی کوئی بھی تبدیلی بھارت کے اسٹرٹیجک اور قومی مفاد بری طرح متاثر کرے گی۔ چین نے ابتدائی طور پر کچھ سرکاری دستاویزات جاری کرکے بیلٹ اینڈروڈ منصوبے کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کی،لیکن ان دستاویزات میں منصوبے کی تفصیلات کا ذکر نہیں تھا،جس کے دو برس بعد صدر شی نے سلک روڈ منصوبے کا اعلان کیا۔ مارچ۲۰۱۵ء میں چینی حکومت نے ’’سلک روڈ اکنامک بیلٹ اور اکیسویں صدی میں میر ی ٹائم سلک روڈ کی مشترکہ تعمیر‘‘ کے عنوان سے جاری دستاویزات میں اپنی حکمت عملی کا اعلان کیا۔
ان دستاویزات میں خطے میں تعاون کے ذریعے روایتی تجارت کے فروغ، انفرااسٹرکچر کی تعمیر، ثقافتی روابط بڑھانے اور مواقع پیدا کرنے پر زور دیا گیا۔ چین نے جیو پولیٹکل تبدیلی کی وضاحت کرتے ہوئے چینی اصول ’’تعاون کے ذریعے سب کی جیت‘‘پر عمل کرنے پر زوردیا۔ خطے کو جوڑنے کے لیے انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے چار ترجیحات بیان کی گئیں، جس میں ٹرانسپورٹ، بندرگاہ، ایوی ایشن اورتوانائی کے انفرااسٹرکچر شامل ہیں۔ دستاویزات میں مواصلاتی سلک روڈ کی ضرورت کا بھی ذکرکیا گیا، مواصلاتی سلک روڈ میں مختلف ممالک کے درمیان آپٹیکل کیبل اور زیر سمندر کیبل نیٹ ورکس کی تنصیب کے ساتھ سیٹلائٹ بھیجنے کے منصوبے شامل ہیں۔ دستاویزات میں کچھ اہم مسائل کے بارے میں بات ہی نہیں کی گئی۔ جیسا کہ منصوبوں کے انتخاب کے طریقہ کار، مشاورت کی نوعیت اورمذاکرات کے دورانیے کا ذکر نہیں کیا گیا، جس سے بظاہر لگتا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے اعلان کے کئی برس بعد بھی چین کے پاس کوئی مکمل منصوبہ موجود نہیں ہے اوربیجنگ عالمی برادری کے ردعمل کے مطابق اپنی حکمت عملی بنارہا ہے۔
ایک نامکمل منصوبے کے ساتھ چین کادیگر ممالک سے مذاکرات کا آغاز کرنا بھارت سمیت دنیا بھر میں شک کے نظر سے دیکھا جا تا ہے۔منصوبہ آگے بڑھنے کے ساتھ ہی اس کے مقاصد، طریقہ کار اورشفافیت کے فقدان کے حوالے سے دیگر ممالک کے خدشات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ان خدشات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے چین کا کہنا تھا کہ’’ہمیں سرد جنگ کی ذہنیت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے، ہمارا اس منصوبے کے ذریعے خطے پر اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کرنے کاکوئی خفیہ تزویراتی ایجنڈا نہیں ہے، اس منصوبے سے دوسرے ممالک کی خودمختای کو کوئی خطرہ نہیں ہے‘‘۔تمام تر خامیوں کے باوجود چین مسلسل بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو خطے میں اپنے اثرات بڑھانے اورقائدانہ کردار حاصل کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔
صدر شی جن پنگ نے جب ۲۰۱۳ء میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اعلان کیا توواشنگٹن میں ’’شٹ ڈاؤن‘‘ جاری تھا، جس کی وجہ سے امریکی صدر نے ایشیا کا دورہ منسوخ کردیا، جس سے ایشیا میں امریکی کردار کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔ بیجنگ نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خلا کوپر کردیا اور خود کو ایشیا کی’’نئی قیادت‘‘ کے طور پر متعارف کروایا۔ ۲۰۱۴ء کے وسط میں صدر شی جن پنگ نے ’’ایشیا صرف ایشیائی افراد کے لیے‘‘ کا بیان مسلسل دینا شروع کردیا۔ چین نے علاقائیت کو فروغ دیا اورخود کو خطے کے ممالک کے مسائل حل کر نے والا ملک بنا کر پیش کیا۔صدر شی جن پنگ نے ۲۰۱۴ء میں لکھا کہ ’’ایشیا کے معاملات چلانے کے لیے، ایشیا کی سلامتی کے لیے اور ایشیا کے مسائل کے حل کے لیے ایشیا ئی افراد ہی موزوں ہیں، چین ایشیا کی سلامتی کے تصور کا زبردست حامی ہے اور اس تصور کو عملی شکل دینے کے لیے کام بھی کررہا ہے‘‘۔ پیغام بہت واضح ہے کہ ایشیائی ممالک کو تعمیر اور ترقی کے معاملات میں بیرون ایشیا ممالک پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے اور تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے پس پردہ پیغام بھی بہت واضح تھا کہ چین خطے کی قیادت کرنے کے لیے تیار ہے۔
۲۰۱۳ ء کے بعد سے چین تقریباً ہر دوطرفہ بات چیت میں بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ پر گفتگو کررہا ہے، تاکہ منصوبے کے حوالے سے مثبت تاثر کو مضبوط کیا جاسکے۔ منصوبے کی ساکھ قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا چین کے لیے آ سان راستہ تھا، لیکن پھر بھی منصوبے کی تفصیل اور شفافیت کے حوالے سے کافی خدشات موجود رہے۔ اگرچہ بیجنگ نے ہر فورم پربین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن پھر بھی چین ۲۰۱۷ء سے قبل بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں کر پایا۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں چین کے پہلے سے جاری منصوبوں کو یکجا کرکے ایک پیکیج بنایا گیا اور اس کو نئے کثیر الملکی منصوبے کے طور پر پیش کیا گیا۔ بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے حوالے سے سب سے پہلا معاہدہ سی پیک کا تھا، اس حوالے سے اب بھی کئی راہداریوں اور بندرگاہوں کے منصوبوں پر بات چیت جاری ہے اور معاہدے کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی ہے۔ گوادر کی بندگاہ سی پیک کا حصہ ہوتے ہوئے بھی چین کی میری ٹائم سلک روڈ کے نقشے میں کہیں نظر نہیں آتی۔تسلسل کی کمی اور منصوبے پر عمل درآمدسے متعلق تفصیلات کی عدم موجودگی کی وجہ سے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے حوالے سے کئی سوالات نے جنم لیا۔ بڑھتے ہوئے خدشات کی وجہ سے ہی چین نے ۲۰۱۷ء میں پہلے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا انعقاد کیا۔ مئی ۲۰۱۷ء میں ہونے والا فورم بیجنگ کی جانب سے منصوبے کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی سب سے بڑی سفارتی کوشش تھی۔ فورم بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور حاضری بھی زبردست رہی۔ چینی حکام کے مطابق ’’بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں ۱۳۰ ممالک کے۱۵۰۰ وفود نے شرکت کی، جس میں۲۹سربراہان مملکت بھی شامل تھے‘‘۔ اس حوالے سے کچھ مبصرین نے چینی حکام پر اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا الزام بھی لگایا۔ اپنے افتتاحی خطاب میں چینی صدر شی جن پنگ کا کہنا تھا کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے روٹ میں شامل ممالک کے ساتھ ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۶ء کے درمیان چین نے ۳ کھرب ڈالر سے زائد کی تجارت کی، چین منصوبے میں شامل ممالک میں مزید ۵۰؍ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، جس سے ایک لاکھ ۸۰ ہزار نوکریاں پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں چین کے اہم ترین کردارکی وجہ اس کے پاس اضافی سرمائے کی موجودگی ہے۔ امریکا، جاپان اور بھارت میں سے کوئی بھی چین کی طرح راہداریوں کی تعمیر کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کے قابل نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق چین مختلف منصوبوں پر تقریباً ۴ کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، اس سے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے حوالے سے چینی سوچ سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ جاپان اور اس کے اتحادی مل کر بھی تجارتی راہداریوں کی تعمیر کے معاملے میں چین کے سرمائے کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ترقی پذیر ممالک میں منصوبوں کی تعمیر میں سرمائے کی فراہمی کے علاوہ بھی کئی چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے۔ چین نے بیرون ملک سرمایہ کاری اور منصوبوں کے انتخاب پر مکمل طور پر اپنا کنٹرول قائم رکھا ہے۔ جب کہ اتحادی ممالک کی منصوبوں کے انتخاب اور اس پر عمل درآمدکے حوالے سے اپنی ترجیحات ہوں گی، اس حوالے سے کوئی بھی مشاورتی عمل منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر کاباعث ہوگا۔
چین نے اپنی کوششوں کو بڑھاتے ہوئے سلک روٹ فنڈ، چینی ترقیاتی بینک، ایکسپورٹ امپورٹ بینک اور دیگر اداروں کے ذریعے مزید سرمایہ کاری کرنے کاوعدہ کیا ہے۔ منصوبوں پر عمل درآمد میں حائل رکاوٹیں، بین الاقوامی معیار کے مطابق کام نہ کرنا، انتہائی بلند شرح سود اور قرضوں کا بھاری بوجھ چینی کوششوں کو ناکام بناسکتے ہیں، ایسے میں چین کے پاس اضافی سرمائے کی موجودگی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اعتماد کے فقدان اور شفافیت کی کمی کی وجہ سے چین بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں سب کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ فورم میں بڑی تعداد میں شرکا کی موجودگی کے باوجود چین تمام قوموں کی جانب سے دستخط شدہ مشترکہ اعلامیہ جاری کرانے میں ناکام رہا۔ اعلامیے پر صرف ۳۰ ممالک کی جانب سے دستخط کیے گئے، جن میں بھارت کے پڑوسی میانمار، پاکستان اور سری لنکا بھی شامل تھے۔ چینی تجزیہ نگار کے مطابق ’’اس صورتحال سے ظاہر ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو آگے بڑھانے میں روس، کرغزستان، تھائی لینڈ، پاکستان اور انڈونیشیا سب سے زیادہ تعاون کررہے ہیں‘‘۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا اور جاپان نے فورم میں شرکت کرتے ہوئے بھی مشترکہ اعلامیہ پر دستخط نہیں کیے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ممالک بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور چینی عزائم کے حوالے سے شدید خدشات رکھتے ہیں۔ چین نے فورم کے انعقاد سے ایک دن قبل نیپال کی حمایت حاصل کی اوربھارت کے ۶ پڑوسی ممالک پاکستان، سری لنکا، بنگلادیش، نیپال، میانمار اور افغانستان کے ساتھ نئے معاہدوں پر دستخط بھی کیے۔ پاکستان، سری لنکا اور نیپال کی قیادت نے فورم سے خطاب میں صدرشی جن پنگ کو خطے میں قائدانہ کردار ادا کرنے پر مبارکباد دی اور اپنے اپنے ممالک میں چینی سرمایہ کاری کاخیر مقدم کیا۔
حقیقت میں بھارت کی غیر موجودگی کی وجہ سے چین کوجنوبی ایشیائی ممالک کی طرف سے زبردست حمایت حاصل کرنے کا موقع مل گیا، اس حوالے سے کئی چیزیں اہم ہیں۔ بھارت اپنے پڑوسی ممالک میں ترقیاتی کام کرانے کی پیشکش کرنے میں ناکام رہا تھا۔ اس ناکامی کی وجہ سے چھوٹے پڑوسی ممالک نے دوسری ابھرتی طاقت کواپنے ہاں خوش آمدید کہا اور ایک ایسی مسابقت کا حصہ بن گئے، جس کے نتیجے میں طاقت کا توازن بدل جائے گا۔ اس صورتحال نے پڑوسی ممالک کے ساتھ بھارت کے اسٹرٹیجک تعلقات کی کمی کو واضح کردیا۔ اگرچہ وزیراعظم مودی نے ’’پڑوسی سب سے اہم‘‘ کی پالیسی اپنا کر اس غلطی کو درست کرنے کی کوشش کی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ چین نے بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں بھارت کو شریک کرانے کے لیے جارحانہ کوششیں کیں۔نئی دہلی کی فورم میں موجودگی دو وجوہات کی بنا پر اہم تھی، پہلی یہ کہ فورم میں بھارتی حکومت کی موجودگی سے لگتا کہ اس نے خطے میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو تسلیم کرلیا ہے۔ اگر بھارت فورم میں شرکت کرکے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا تو اس سے پڑوس میں چین کے بڑھتے اثرات پر اس کے خدشات کمزور ہونے کا تاثر جاتا۔ دوسری یہ کہ دیگر اہم ایشیائی ممالک کے ہمراہ بھارت کی فورم میں موجودگی سے صدر شی جن پنگ کا ’’ایشیا صرف ایشیائی افراد کے لیے‘‘والا بیان عملی طور پر اہمیت اختیار کرجاتا۔ بہرحال اپنے پڑوس میں چین کے راہداری اور انفرااسٹرکچر منصوبوں کے حوالے سے بھارت میں مزاج تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ چین کی سفارتی یقین دہانیاں بھارت کے اسٹرٹیجک خدشات کو دور کرنے کے لیے کافی نہیں تھیں، جس کے بعد نئی دہلی نے فورم میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جنوبی ایشیا اور بحر ہند میں چین کے انفرااسٹرکچر منصوبوں میں مسلسل اضافے کے بعد بھارت میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مضمرات پر گفتگو کا آغاز ہوا۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ سیاسی طور پر بھارت میں مسلسل زیر بحث رہا، بھارت میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور مئی کے فورم میں شرکت کرنے کے حق میں اور مخالفت میں سیاسی آوازیں کافی مضبوط رہیں۔ شرکت کے حامیوں کا کہنا تھا کہ بھارت بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ بن کر فائدہ حاصل کرسکتا ہے، اس منصوبے سے مقامی انفرااسٹرکچر پراجیکٹ کے لیے سرمایہ حاصل کرنے میں مدد ملے گی، اس کے علاوہ ملک اور تجارتی راہداریوں سے کٹے ہوئے جنوب مشرقی علاقے کو معاشی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔منصوبے میں شرکت کی حامیوں کا مزید کہنا تھا کہ تجارتی راہداریاں’’انڈوپیسفک‘‘خطے میں زبردست تحرک پیدا کریں گی،نئی دہلی کو اپنی معاشی ترقی کے لیے اس پر غور کرنا چاہیے، اس موقع کو نظر انداز کرنے پر بھارت پیچھے رہ جائے گا۔ ان تمام ممکنہ فوائد کے باوجود بھارت میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے مخالفین کی جیت ہوئی۔ بھارت کو چینی سرمائے سے جاری بیلٹ اینڈ روڈمنصوبے کے حوالے سے کچھ بنیادی خدشات لاحق ہیں۔نئی دہلی کو خدشہ ہے کہ چینی سرمائے سے تعمیر ہونے والا انفرااسٹرکچر تسلیم شدہ عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے، یہ منصوبہ بھارت کی خودمختاری اور سیکیورٹی مفادات کو متاثر کرتا ہے، خاص کر چین اور پاکستان کے درمیان زیر تعمیر منصوبوں کے علاقے پر بھارت کا دعویٰ ہے۔ اس منصوبے سے چین کو زبردست سیاسی و جغرافیائی طاقت ملتی ہے اور وہ بھارت کے پڑوسی ممالک کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے لیے اپنی معاشی اور سفارتی طاقت استعمال کر سکتا ہے، جس سے بھارت کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں موجود نہ ہونے کے باوجود وہاں بھارتی موقف چھایا رہا۔ کیا بھارت کو فورم میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی کے سوال کے جواب میں بھارتی وزارت خارجہ نے منصوبے پر شدید خدشات کا اظہار کردیا۔ وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق’’ہمارا مضبوط یقین ہے کہ خطے کو جوڑنے کے منصوبوں کی بنیاد تسلیم شدہ عالمی معیار،اچھی انتظامیہ،قانون کی بالادستی، مساوات اور شفافیت پر ہونی چاہیے، ان منصوبوں کو مالی قواعد کا پابند ہونا چاہیے اور منصوبوں کے ذریعے قوموں کو ناقابل برداشت قرض تلے دبانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ماحولیات کاتحفظ، منصوبوں کی مالیت کا تخمینہ لگانے میں شفافیت، مقامی آبادی کی مدد کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی بہت اہم ہے، ان منصوبوں میں حاکمیت اور علاقائی خودمختاری کا خیال رکھا جانا بھی ضروری ہے‘‘۔ بھارتی حکومت کے بیان کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ اچھی انتظامیہ،قانون کی حکمرانی اور شفافیت کے اصول پر پورا نہیں اترتا۔ بیان سے پتا لگتا ہے کہ منصوبے میں شریک ممالک کے لیے قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہے، مثال کے طور پر سری لنکا پر چین کا بڑھتا ہوا قرض ناقابل برداشت قرضے کے خدشات کو ہوا دیتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات اور تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے حوالے سے چین کا رویہ ناقابل برداشت قرض کے خطرے کو بڑھا رہا ہے، جس کا کئی ممالک شکار ہوسکتے ہیں، ہمبنٹوٹا ناقابل برداشت قرض کی زبردست مثال ہے۔ جس کی وجہ سے چین کو بحرہند میں اہم معاشی اور تزویراتی فوائد حاصل ہوگئے۔
بھارت نے جون ۲۰۱۷ء میں امریکا سے دوطرفہ مذاکرات کے دوران بھی چینی منصوبے پر خدشات کا اظہار کیا، اسی لیے بھارت اور امریکا کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’’ہم دونوں ممالک شفاف ترقیاتی منصوبوں اور ذمے دارانہ قرض کی فراہمی کے ذریعے علاقے میں تجارتی راہداری تعمیر کرنے کی حمایت کرتے ہیں، ان منصوبوں کی تعمیر میں دوسرے ممالک کی خودمختاری، علاقائی سلامتی، قانون کی بالادستی اور ماحول کا خیال رکھا جانا بھی ضروری ہے۔ ہم تمام ممالک سے ان اصولوں کی پاسداری کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں‘‘۔ چین کی جانب سے ان معاشی منصوبوں کو متنازع علاقوں کے حوالے سے موقف تبدیل کرانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، جس پر بھارت کے خدشات میں اضافہ ہورہا ہے۔ بھارت کے مئی ۲۰۱۷ء کے بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ چین نے علاقائی سلامتی کو مکمل طور پر نظرانداز کردیا ہے، خاص طور پر سی پیک منصوبہ، جو کشمیر کے متنازع علاقے سے گزر رہا ہے۔ بھارت کے مطابق یہ اس کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شرکت سے کشمیر پر اس کے موقف کو نقصان پہنچے گا، کیوں کہ بیجنگ کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت کرتا ہے۔ سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے دیگر منصوبوں میں علاقائی خودمختاری کے حوالے سے بھارت کے خدشات کو مکمل نظرانداز کردیا گیا ہے۔ بھارت کے مشرقی علاقے اروناچل پردیش اور شمالی علاقے لداخ پرچین کا دعویٰ ہے، ۱۹۶۲ ء کی بھارت اور چین جنگ لداخ اور ارونا چل پردیش کے لیے ہی لڑی گئی تھی۔ سرحدی اور متنازع علاقوں میں چین کی جانب سے انفرااسٹرکچر منصوبوں کی تعمیر بہت سے بھارتیوں کو بیجنگ سے مزیدشاکی کردیتی ہے۔ بھارت چین کی جانب سے اپنے پڑوسی ممالک میں منصوبوں پرکام کرنے پر سخت پریشان ہے،کیوں کہ ان منصوبوں سے چین کو اہم حریف بھارت پر تزویراتی برتری حاصل ہوسکتی ہے۔ بھارت اور چین سرحدی کشیدگی کے تناظر میں بیجنگ کو بھارت کی علاقائی خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے، تاکہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مثبت تاثر ابھر سکے۔ بھارت کے پڑوس میں چین کی بڑھتی ہوئی تزویراتی موجودگی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کے خلاف نئی دہلی کی مزاحمت کو شدید بنا رہی ہے۔ بنگلادیش، نیپال اور میانمارسے زمینی راستوں اور سری لنکا اور مالدیپ سے سمندری راستوں کے ذریعے چین کے بڑھتے تعلقات پر بھارت کو شدید تحفظات ہیں۔ بحرہند چین کی میری ٹائم سلک روڈ اور بھارتی بحریہ کے لیے اہم ترین علاقہ ہے، بھارت کو سب سے زیادہ خدشات اس منصوبے پر ہی ہیں۔نئی دہلی نے نا صرف اپنے پڑوس میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی پر خدشات کا اظہار کرناشروع کردیا ہے بلکہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے پر بھی اپنا موقف بیان کررہا ہے۔ (۔۔۔جاری ہے!)
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“India’s answer to the belt and road: A road map for South Asia(“carnegieindia.org”.Aug. 21, 2018)
Leave a Reply