
چین کے ۱۴ ہمسایا ممالک میں بھوٹان واحد ملک ہے جس سے اس کے سفارتی تعلقات نہیں۔ ’’بڑا بھائی‘‘ بھارت اب تک بھوٹان کو بیرونی دنیا سے رابطوں سے روک رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ۱۹۴۹ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت بھوٹان کے تمام امور کی ذمہ داری بھارت نے اپنے سر لی تھی۔ مگر اس معاہدے پر ۲۰۰۷ء میں نظر ثانی کی جاچکی ہے، جس کے تحت بھوٹان اب بہت حد تک بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر کھڑا ہے۔ ’’امور خارجہ میں بھارت بھوٹان کی راہ نمائی کرے گا‘‘ کے بجائے اب معاہدے میں ’’دونوں ممالک قومی مفادات کے امور میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے‘‘ کے الفاظ شامل کردیے گئے ہیں۔ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی مرضی اب تک چل رہی ہے اور بھوٹان اپنی آزاد حیثیت کے مطابق کام نہیں کر پایا ہے۔
چین چاہتا ہے کہ بھوٹان سے اس کے سفارتی تعلقات قائم ہوں۔ وہ اس چھوٹی سی ریاست کو بھارت کے سائے سے نکالنا بھی چاہتا ہے۔ گزشتہ جون میں بھوٹان میں انتخابات ہوئے تھے۔ اس کے بعد ’’فرسٹ پوسٹ‘‘ کے اسٹاف رپورٹر نے لکھا تھا کہ اب تک تو جنوبی ایشیا میں آخری دوست بھوٹان سے بھارت کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ بھارت تجارتی معاملات میں بھوٹان کو زیرِنگیں رکھنا چاہتا ہے، جس کے باعث بھوٹان میں بھارت کے خلاف رائے عامہ پنپ چکی ہے اور اس سے چین کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے جو بھوٹان کو اپنے دوستوں کے حلقے میں شامل کرنا چاہتا ہے۔
بھوٹان کی حکومت سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کے لیے بھارت نے گزشتہ برس ملک کی تاریخ کے دوسرے پارلیمانی انتخابات کے بعد قدرتی گیس اور مٹی کے تیل پر سے سبسڈی ہٹالی۔ اس کے نتیجے میں بھارت سے فراہم کی جانے والی دونوں اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ ملک بھر میں بھارت کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں۔ نئی دہلی چاہتا تھا کہ تھمپو میں حکومت تبدیل ہوجائے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ بھارت کی حمایت یافتہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے الیکشن جیتا اور اس کے سربراہ شیرنگ توگے وزیر اعظم بنے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ پیس اینڈ پروسپیرٹی پارٹی کے وزیر اعظم جگمے تھنلے بھارت کو ناراض کرنے والی پالیسیاں تیار کرکے چین سے دوستی کی پینگیں بڑھانا چاہتے تھے۔ جگمے تھنلے کا تعلق شاہی خاندان سے ہے۔ سابق بادشاہ جگمے وانگ چُک نے امور مملکت کے معاملے میں ان کی تربیت کی تھی۔ پارلیمانی جمہوریت متعارف کرائے جانے کے بعد سے وہ پیس اینڈ پروسپیرٹی پارٹی کی قیادت کرتے آئے ہیں۔ بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے کہ بھارت نے گزشتہ عام انتخابات کے موقع پر جو کچھ کیا، اسے بھوٹان کے معاملات میں مداخلت ہی کہا جاسکتا ہے۔ بھارت نے گیس اور مٹی کے تیل پر سے سبسڈی ہٹاکر وزیر اعظم جگمے تھنلے کے لیے مشکلات پیدا کیں کیونکہ وہ چین کی طرف جھکتے جارہے تھے۔ برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں بھوٹانی وزیر اعظم نے چینی ہم منصب وین جیا باؤ سے بھی ملاقات کی تھی، جو نئی دہلی کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ اس ملاقات میں وین جیا باؤ نے بھوٹان سے سفارتی تعلقات استوار کرنے اور سرحدی تنازعات طے کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ اس کے بعد چین کے نائب وزیر خارجہ فو ینگ نے بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو کا دورہ کیا تھا۔ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ ترین سفارتی رابطہ تھا۔ یہ سب کچھ بھارت کے لیے سخت ناپسندیدہ تھا۔ بھوٹان نے چین سے ۲۰ بسیں درآمد کیں تو بھارت کو یہ عمل شدید ناگوار گزرا۔ بھارتی میڈیا میں بھی تبصرے کیے گئے کہ بھوٹان کو چین کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہیے اور یہ کہ چین سے تجارت بھوٹان کا دردِ سر نہیں۔ یعنی یہ کہ اُسے صرف بھارت کی طرف دیکھتے رہنا چاہیے۔
بھارت اب تک بھوٹان میں واقع چُکھا ہائڈرو پاور پلانٹ میں پیدا ہونے والی بجلی کا بڑا حصہ انتہائی کم نرخ پر لیتا رہا ہے۔ بھوٹان کے سابق وزیراعظم جگمے تھنلے نے جب بجلی کے نرخ بڑھانے کی بات کی تو بھارت سیخ پا ہوگیا۔ اسے توقع نہ تھی کہ بھوٹان کا وزیراعظم نرخ بڑھانے کی بات کرے گا۔ بھوٹان میں بھارت کے خلاف جذبات پنپتے اور بھڑکتے رہے۔ عام تاثر یہی تھا کہ بھارت کسی نہ کسی طور ہر معاملے میں بھوٹان کو اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھنا چاہتا ہے۔ بھوٹان کے سیاسی تجزیہ کار وانگچا سانگلے نے اپنے بلاگ میں لکھا: ’’بھارت آخر کیوں نہیں چاہتا کہ بھوٹان اور چین کے درمیان بے ضرر نوعیت کے سفارتی تعلقات ہوں؟ ابھی کل ہی میں نے سنا ہے کہ کوئی بھارتی بیورو کریٹ کہہ رہا تھا کہ بھوٹانی قیادت بے ایمان ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کون سا ملک ہے جو اپنی روح کسی اور ملک کے حوالے کردیتا ہے؟ بھوٹان کے لوگ بازاری نہیں کہ کوئی بھی قیمت لگائے اور خرید لے۔‘‘ انہوں نے بھارتی قیادت اور میڈیا سے کہا کہ وہ بھوٹان کے لوگوں سے دوستوں جیسا سلوک روا رکھیں، شطرنج کا مہرہ نہ سمجھیں۔ چینی میڈیا نے بھی بھارت کو اسی طرح لتاڑنا شروع کردیا ہے۔ چین کے ایک مشہور ٹیبلائڈ نے بھوٹان کے انتخابات پر اثر انداز ہونے والے بھارتی اقدامات کی مذمت کی ہے اور ساتھ ہی بھوٹان چین تعلقات پر شک کرنے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
شنگھائی انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل اسٹڈیز میں اسٹریٹجک افیئرز کے اسکالر لوئی ژونگ یی نے ٹیبلائڈ میں شائع ہونے والے مضمون میں لکھا ہے کہ بھارت کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ چین اور بھوٹان کے تعلقات مستحکم ہوں اور سرحدی تنازعات ختم کر دیے جائیں۔ یہ مضمون گلوبل ٹائمز آف چائنا نے بھی شائع کیا ہے۔ لوئی ژونگ یی نے یہ بھی لکھا ہے کہ بھوٹان میں بھارت کے سفیر پون کمار کو محض اس لیے استعفیٰ دینا پڑا کہ وہ بھوٹان اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی راہ میں دیوار کھڑی کرنے میں ناکام رہے تھے۔ پون کمار کے جانشین وی وی ہرن نے، جو نیپال میں قائم مقام سفیر کے طور پر بھی کام کر رہے تھے، گاجر اور چھڑی والی حکمت عملی اپنائی اور شیرنگ توگے کی انتخابی فتح یقینی بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
دنیا بھر میں یہ تصور دم توڑ رہا ہے کوئی ریاست کسی بڑی پڑوسی ریاست کی دست نگر ہوکر رہے۔ ایسے میں بھوٹان اور بھارت کا تعلق بہت منفرد قسم کا ہے۔ بھوٹان کی قیادت اور عوام کو اس بات سے بے حد پریشانی لاحق ہے کہ بھارت نے اب تک نو آبادیاتی دور کا طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے۔ بھوٹان اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں بھارت نے جو کچھ کیا، وہ دوسرے کمزور پڑوسیوں کے لیے پیغام تھا کہ اگر انہوں نے بھارت کے مفادات کو داؤ پر لگانے کی کوشش کی تو انجام اچھا نہ ہوگا۔
(“India opposes Bhutan’s diplomatic ties with China”. “Weekly Holiday” Dhaka. Feb.14,2014)
Leave a Reply