
بھارت میں اسٹریٹجک تجزیہ نگاروں کے ایک آزاد گروپ نے حال ہی میں ’’اے فارن اینڈ اسٹریٹجک پالیسی فار انڈیا اِن دی ٹوئنٹی فرسٹ سینچری‘‘ کے عنوان سے رپورٹ میں لکھا ہے ’’جنوبی ایشیا میں بین المملکتی سیاست بھارت کی داخلی اور علاقائی سیاست پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ خطے میں بھارت کو جس قدر مزاحمت کا سامنا ہے اس سے وہ حقیقی توقیر سے محروم سا ہوگیا ہے۔ جنوبی ایشیا عالمی سطح پر بلند ہونے کی بھارتی خواہشات پر بُری طرح اثر انداز ہو رہا ہے‘‘۔
رپورٹ میں سِکّے کے دوسرے رُخ پر بحث نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت خطے کے چھوٹے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں اسے بھی مختلف سطحوں پر مزاحمت کا سامنا ہے۔ اس غیر متوازن اور پریشان کن پالیسی کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کرکے عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش بھارت کے اپنے معاملات میں خرابیاں پیدا کر رہی ہے۔ یہ صورت حال علاقائی اورعالمی سطح پر بہت کچھ کرنے کی بھارتی امنگوں کا گلا گھونٹ رہی ہے۔
نئی دہلی میں ایک تھنک ٹینک چلانے والے پروفیسر ایس ڈی مُنی نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشین اسٹڈیز کے وزیٹنگ ریسرچ فیلو بھی ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ نے حال ہی میں ایک ورکنگ پیپر شائع کیا ہے جس میں بھارت کو درپیش مشکلات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ہم اس ورکنگ پیپر کے مندرجات آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ پروفیسر ایس ڈی مُنی نے مالدیپ کی مثال پیش کی ہے۔
مالدیپ میں پہلی حقیقی سیاسی تبدیلی ۱۹۶۸ء میں شروع ہوئی جب بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور جمہوریہ کی بنیاد پڑی۔ مامون عبدالقیوم ۱۹۷۸ء میں مالدیپ کے تیسرے صدر بنے۔ ۱۹۸۰ء، ۱۹۸۳ء اور ۱۹۸۸ء میں ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش تین بار کی گئی۔ تختہ الٹنے کی تیسری کوشش کو ناکام بنانے اور مامون عبدالقیوم کو بچانے میں بھارتی بحریہ نے مرکزی کردار ادا کیا۔ مامون عبدالقیوم کی درخواست پر بھارتی بحریہ نے مالدیپ میں جو آپریشن کیا اُسے دنیا ’’سندھیا‘‘ (Sandhya) کے نام سے جانتی ہے۔ مامون عبدالقیوم نے جابرانہ طریقوں سے ملک کو چلانے کی کوشش کی اور جب عوام کی مزاحمت کا دائرہ وسیع ہوا تو انتخابات میں شکست کے بعد انہیں ۲۰۰۸ء میں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ۲۷ مواقع پر گرفتاری کے نتیجے میں ۹ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے والے محمد نشید (Nasheed) کو ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ’ضمیر کا قیدی‘ قرار دیا اور مالدیوین ڈیموکریٹک پارٹی کے محمد نشید نے مامون عبدالقیوم کے خلاف تحریک کی قیادت کی اور پھر ملک کے صدر کے منصب پر بھی فائز ہوئے۔
محمد نشید نے ۳ سال اور ۴ ماہ اقتدار کے ایوان میں گزارے۔ اس دوران انہوں نے خاصی جابرانہ پالیسیاں اپنائیں اور ان کے دور کو سنسنی خیز واقعات سے عبارت قرار دیا گیا۔ پھر لوگ ان کے خلاف بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور ۷ فروری ۲۰۱۲ء کو انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا جس کے بعد ان کے نائب صدر محمد وحید حسن مانک کو صدر کے منصب پر فائز ہونے کا موقع ملا۔ محمد نشید کے خلاف پولیس اور نیشنل ڈیفنس فورسز نے بغاوت کردی تھی۔ صدر وحید حسن مانک نے اقتدار کی تبدیلی کو پرامن قرار دیا ہے مگر معزول صدر اور ان کے حامی کہتے ہیں کہ وحید حسن نے بغاوت کی اور گن پوائنٹ پر حکومت تبدیل کی گئی۔
مالدیپ میں بھارت کے گہرے اسٹریٹجک اور معاشی مفادات ہیں۔ مالدیپ اُس بحری راستے پر واقع ہے جس سے ہر سال ہزاروں جہاز مال تجارت لے کر گزرتے ہیں۔ اِس بحری راستے سے کئی ممالک کی بحری افواج بھی گزرتی رہتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی افواج نے مالدیپ کے جنوبی جزیرے گان میں آپریشنل بیس بنائی تھی۔ ۱۹۷۶ء میں یہ آپریشن بیس مالدیپ کو اس وقت ملی جب امریکا نے گان کے جنوب میں ۶۰۰ میل کی دوری پر ڈیگو گارشیا میں آپریشنل بیس بنائی۔ ۱۹۷۷ء میں روس نے ڈیگو گارشیا کے امریکی بیس کے مقابلے میں بیس بنانے کے لیے مالدیپ سے رابطہ کیا مگر اُسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
۱۹۸۸ء میں مامون عبدالقیوم کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش بظاہر سری لنکا کے تاملوں کے ایک گروپ پیپلز لبریشن آرگنائزیشن آف تامل ایلم (PLOTE) نے کی تھی۔ ۲۰۰۱ء میں چینی وزیراعظم ژو رونگ ژی نے جب مالدیپ کا دورہ کیا تب دارالحکومت مالے سے ۴۰ کلومیٹر دور واقع جزیرے میراؤ میں چین کی آبدوزوں کے لیے ایک بیس بنانے پر بھی بات چیت ہوئی۔ یہ بیس تو نہ بن سکا مگر ہاں، چین اور مالدیپ کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ ضرور ہوگیا جو ۲۰۰۹ء تک برقرار رہا۔ بھارت نے اس وقت کے صدر محمد نشید کو اس بات کے لیے آمادہ کرلیا کہ بھارتی بحریہ آگے بڑھے اور خلا پُر کرے۔
بھارت نے ۱۹۸۸ء میں مالدیپ کے آئینی سربراہ کو بچایا تھا تاہم اس کے پالیسی ساز مالدیپ کو تزویراتی اثاثے کے طور پر استعمال کرنے کے نکتے سے ۲۰۰۸ء تک غافل رہے۔ یہ وہ سال تھا جب ممبئی پر بیرونی عناصر نے حملہ کیا۔ اب بھارت کے اسٹریٹجک ماہرین نے حکومت پر زور دینا شروع کیا کہ مالدیپ کی سرزمین پر انتہاپسند مضبوط ہوسکتے ہیں اس لیے مالدیپ کے ہاتھ مضبوط کرو۔ یوں ممبئی حملوں نے بھارت اور مالدیپ کو قریب کردیا۔
بھارت اور مالدیپ نے ایک دفاعی معاہدہ کیا۔ اگست ۲۰۰۹ء میں بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے مالدیپ کا دورہ کیا جس میں دفاعی معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ طے پایا کہ مالدیپ کے ۲۶ جزائر (Atolls) میں ۲۶ جدید ترین راڈار نصب کیے جائیں گے۔ یہ راڈار انڈین کوسٹل کمانڈ سے منسلک ہوں گے۔ یہ بھی طے پایا کہ بھارت بحری قزاقوں، اسمگلروں اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ایک ایئر ٹریفک مانیٹرنگ اسٹیشن بھی قائم کرے گا۔ بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے جب نومبر ۲۰۱۱ء میں مالدیپ کا دورہ کیا تب دونوں ممالک کے درمیان سلامتی کے معاہدے کو باضابطہ شکل دے کر اسے فریم ورک ایگریمنٹ فار ڈیویلپمنٹ کوآپریشن کا نام دیا گیا۔
محمد نشید کی برطرفی کے موقع پر بھارت کے پالیسی سازوں کے پایۂ استقامت میں لغزش آگئی۔ عوام کے منتخب صدر کو ہٹائے جانے کے عمل کو بھارت نے ابتدائی مرحلے میں مالدیپ کا اندرونی معاملہ قرار دے کر نظر انداز کیا۔ بھارتی قیادت نے اس تبدیلی کو پرامن اور آئین کے مطابق تصور کیا۔
بھارت کے وزیر اعظم نے مالدیپ کے نئے صدر کے نام خط میں کہا کہ سیکورٹی کے حوالے سے دونوں ممالک کے مفادات ایک ہیں۔ دونوں کو مختلف شعبوں میں تعاون کرنا ہے اور یہ کہ بھارت مالدیپ کی نئی حکومت کے ساتھ بھی کام کرنے کو تیار ہے۔ اس خط سے ظاہر ہوگیا کہ بھارت مالدیپ میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلی کو درست سمجھتا ہے اور نئی حکومت کو بھی تسلیم کرچکا ہے۔
کچھ ہی دنوں میں ثابت ہوگیا کہ محمد نشید کے خلاف بغاوت ہوئی تھی اور انہیں بزورِ طاقت ہٹایا گیا تھا۔ صورت حال بگڑی اور دارالحکومت مالے سمیت کئی جزائر میں معزول صدر کے حامیوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن سے امن و امان کی صورت حال پیدا ہوئی۔ بھارت کے لیے یہ لمحہ گویا پالیسی تبدیل کرنے کا تھا۔ ہوا کا رخ بدلتے ہی بھارتی قیادت نے محمد نشید کے حق میں بیان داغنا شروع کردیا۔ عالمی برادری کا بدلتا ہوا رویہ بھارتی رویے میں بھی تبدیلی کا نقیب بن گیا۔ برطانیہ نے کامن ویلتھ منسٹیریل ایکشن گروپ تشکیل دے کر اسے مالدیپ میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلی کے بارے میں تحقیقات کا ٹاسک سونپ دیا۔
بھارتی قیادت کے لیے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس نے محمد نشید کی برطرفی کی حمایت کی تھی۔ اب مخالفت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ محمد نشید کی طرز حکمرانی سے بھارت ابتدا ہی سے پریشان تھا۔ محمد نشید کی پالیسیوں سے خطے میں بھارت کے دشمن مستحکم ہو رہے تھے اور یوں اس کے مفادات پر زد پڑ رہی تھی۔
بھارت کے پالیسی سازوں اور اسٹریٹجک ماہرین کو خدشہ تھا کہ محمد نشید چین کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس سے کوئی ایسا معاہدہ کرلیں جس کے نتیجے میں اسے آبدوز اڈا بھی بنانے دیں اور جواب میں سلامتی سے بے فکر ہوجائیں۔ نئی دہلی میں ڈیفنس کرائسز مینجمنٹ گروپ نے جب مالدیپ کے حالات پر تبادلہ خیال کیا تب محمد نشید اور چینی قیادت میں قربت کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ ساتھ ہی ساتھ محمد نشید کی برطانیہ سے قربت کا بھی جائزہ لیا گیا اور اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ان کے گرد برطانوی مشیروں کا ٹولہ ہے۔ اجلاس میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا کہ برطانیہ اپنے یا امریکا کے مفادات کے لیے مالدیپ سے بحر ہند میں موجودگی مستحکم کرنے کے لیے بحری اڈے مانگ سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ اگر ایسا ہوا تو مالدیپ اور بھارت کے درمیان اسٹریٹجک تعاون داؤ پر لگ جائے گا۔
بھارتی پالیسی میں رونما ہونے والی غیر متوقع اور غیر متوازن تبدیلیوں نے مالدیپ سے اس کے تعلقات کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ بھارتی وزارت برائے امور خارجہ کے سیکرٹری نے وزیراعظم کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے مالدیپ کا دورہ کیا مگر بات نہیں بنی۔ اس کے بعد بھارت کے سیکرٹری خارجہ رنجن متھائی نے مالے کے دو دورے کیے مگر معاملات مزید بگڑ گئے۔
مالدیپ کا سیاسی بحران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہوتا گیا ہے۔ کل جماعتی مشاورتی کمیٹی بھی کوئی حل نکالنے اور قبل از وقت انتخابات کی راہ ہموار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بھارت نے مالدیپ کے معاملات میں گہری دلچسپی لی۔ بھارتی قیادت کے بیانات میں کہا گیا کہ مالدیپ میں قبل از وقت انتخابات ہونے چاہئیں اور ساتھ ہی ساتھ محمد نشید اور ان کے ساتھیوں کی سیکورٹی یقینی بنائی جانی چاہیے۔ اس نوعیت کے بیانات کو مالدیپ کی نئی حکومت نے اپنے ملک کے معاملات میں واضح مداخلت سے تعبیر کیا۔ نئے حکمراں اتحاد میں سخت گیر عناصر ملکی معاملات میں بھارتی مداخلت پر سیخ پا ہوئے۔ انہوں نے آل پارٹیز کنسلٹیٹیو کمیٹی میں بھارت کے سیکریٹری خارجہ رنجن متھائی کی شرکت کی بھی شدید مخالفت کی۔
رنجن متھائی کے جانے کے بعد مالدیپ کے وزیر داخلہ محمد جمیل نے کہا کہ جب تک بھارت مالدیپ کے معاملات میں مداخلت نہ کرے تب تک تو اس کی جانب سے کی جانے والی تمام کوششیں درست سمجھی جائیں گی تاہم بھارت کو یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ وہ کسی ایک پارٹی یا شخصیت کا دوست ہے۔
بنگلہ دیش کے معاملے میں بھارت نے یہی کیا۔ یہ شکایت عام ہوئی کہ حکومت سے حکومت کی سطح پر تعلقات استوار رکھنے کے بجائے بھارتی قیادت ایک خاص پارٹی کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ سرحدی جھڑپوں کے حوالے سے بنگلہ دیشی شاکی ہیں کہ بھارت کی بارڈر سیکورٹی فورس گولی چلانے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ بنگلہ دیشی عوام میں عام تاثر یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ادارہ ’’را‘‘ اپنے ایجنٹس اور تربیت یافتہ دہشت گردوں کے ذریعے بنگلہ دیش کے خلاف خفیہ آپریشن کر رہا ہے۔
بہت سی ہلاکتوں اور لاپتا ہونے کے واقعات کے پیچھے بھارتی ہاتھ ہونے کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ ایک صحافی کو اسی کے اپارٹمنٹ میں خنجر سے قتل کرنے اور سفارتی زون میں ایک سعودی سفارت کار کے قتل میں بھی بھارت کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
بنگلہ دیش کے ایک ٹیبلائڈ نے جو اسٹوری شائع کی ہے اس کے مطابق بھارتی خفیہ ادارے نے حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے ۷۵؍ارکان کو دہشت گردی کی تربیت دی اور ڈھاکا بھیجا۔ یہ تمام ارکان ڈھاکا میں سفارت کاروں کے علاقے میں دو مکانات میں سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ سب رات کی تاریکی میں اپنے ’’مشن‘‘ پر نکلتے ہیں اور کام ختم کرنے کے بعد سورج طلوع ہونے سے قبل اپنے اپنے ٹھکانے پر آ جاتے ہیں۔ یہ تمام افراد قتل اور اغوا کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ سعودی سفارت کار حلف بن محمد سالم العلی جب جماعت اسلامی کے ایک رہنما سے ملاقات کے بعد ان کے گھر سے نکلے تو کلنگ اسکواڈ کے چند ارکان نے انہیں گھیرلیا۔ انہیں اغوا کرکے قتل کرنے کے بعد ان کے گھر کے نزدیک پھینک دیا گیا۔ سعودی سفارتکار کی لاش جس جگہ سے ملی وہاں خون کا کوئی دھبا نہیں تھا۔
اس رپورٹ کو بنگلہ دیش کے مقامی زبانوں کے پریس اور سرکاری حلقوں نے نظر انداز کردیا ہے مگر جو لوگ حالات و واقعات کے سیاق و سباق پر نظر رکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیا اور کیوں ہو رہا ہے۔ جب وزیرِ ریلوے کے ڈرائیور نے ایک مالیاتی اسکینڈل کی نشاندہی کی تو اسے اغوا کرلیا گیا۔ BNP کے قانون دان، سابق رکنِ پارلیمنٹ اور آرگنائزنگ سیکرٹری (سلہٹ ڈویژن) الیاس علی کو ان کے بھتیجے سمیت اغوا کرنے کا معاملہ بھی خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔
(“India’s Deeply Disturbing…. Flip-Folp Neighbourhood Policy”…. Weekly “Holiday” Bangladesh. April 20th, 2012))
Leave a Reply