بھارتی حکومت وعدے پورے کرنے میں ناکام!

بھارتی حکومت کی اب تک کی کارکردگی وعدوں سے خاصی کم رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسے مکمل ناکام قرار دیا جاسکتا ہے۔ معیشت کو مستحکم کرنے کے حوالے سے اس کی کارکردگی عمدہ رہی ہے مگر جو کچھ کیا جانا چاہیے تھا وہ نہیں کیا جاسکا۔

کامن ویلتھ گیم بھارت میں ۳؍ اکتوبر سے شروع ہو رہے ہیں۔ ان کھیلوں کے لیے بھارتی حکومت نے اب تک جو تیاریاں کی ہیں وہ خاصی ناکافی دکھائی دیتی ہیں۔ دہلی میں تیار کیے جانے والے اسٹیڈیم کا حال یہ ہے کہ چھت سے پانی ٹپک رہا ہے۔ ایتھلیٹ ولیج میں کچن کی سہولت دستیاب نہیں۔ مون سون کی بارشوں کے دوران مچھروں کی افزائش روکنے کے لیے خاطر خواہ حد تک اسپرے نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب اسٹیڈیم کی تیاری میں مصروف ورکروں کا احتجاج بھی جاری ہے۔ دہشت گردی کا خطرہ بھی برقرار ہے۔ سیکورٹی کے معاملات کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ کا کہنا ہے کہ کامن ویلتھ گیم بھارت میں منعقد کیے جانے والے بہترین کھیل ثابت ہوں گے۔ اگر ایسا ہے تو بہترین کی تعریف کا نئے سرے سے تعین کرنا پڑے گا۔

ایک طرف کرپشن ہے اور دوسری طرف مختلف وزارتیں آپس میں متصادم ہیں۔ یہ ان کے لیے مفادات کی جنگ ہے۔ بیورو کریسی بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ مگر عام بھارتی باشندوں کو اس کھیل سے کچھ غرض نہیں۔ ویسے بھی یہ کامن ویلتھ گیمز کا معاملہ ہے، کرکٹ تو ہے نہیں جس کے سبھی دیوانے ہیں اور کہیں کوئی گڑبڑ ہو تو چڑھ دوڑتے ہیں۔ کسی کو بظاہر اس بات کی بھی پروا نہیں کہ بیرون ملک بھارت کے امیج کا کیا بنتا ہے۔ ان تمام باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت میں حکمرانی کا معیار کیا ہے اور ملک کے بیشتر حصوں میں کس طرح حکومت کی جارہی ہے۔

گزشتہ مئی میں کانگریس اور اس کے اتحادیوں کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی۔ امید تھی کہ معاملات بہتر ہوں گے کیونکہ کانگریس بہت سے شعبوں کی اصلاح کی پوزیشن میں تھی۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخابات میں بھرپور کامیابی نے اسے اپنے اتحادیوں سے بیزار کردیا اور اس نے کمیونسٹ جماعتوں سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔ انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارتی عوام کی نظر میں وزیر اعظم من موہن سنگھ اور کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اب بھی خاصے قابل احترام ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ معیشت کو دوبارہ استحکام کی راہ پر گامزن کرنے میں کانگریس اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ ۳۱؍ اگست کو وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا کہ معاشی نمو کی شرح ایک سال کے دوران ۸ فیصد رہی ہے۔ ایک سال قبل تک صورت حال بہت خراب تھی۔ معیشت کا حال برا تھا اور اہداف کا حصول قدرے ناممکن دکھائی دیتا تھا۔ ملازمت کے مواقع پیدا کرنے والا مینوفیکچرنگ کا شعبہ تیزی سے فروغ پاتے پاتے اچانک سکڑ سا گیا تھا مگر خیر اب اس شعبے کے پنپنے کی رفتار بارہ اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔

مشکل یہ ہے کہ بھارتی معیشت تو مجموعی طور پر ترقی کر رہی ہے تاہم چند ایک شعبوں کا حال اس قدر برا ہے کہ ان کی خرابی سے معیشت کی خرابی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ بھارتی حکومت اب تک مطلوب معاشی اصلاحات نافذ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کم رہی ہے۔ صحت عامہ کے شعبے کی اصلاح پر بھی توجہ نہیں دی جارہی۔ امریکا سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ بھی خطرے میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ پارلیمنٹ نے حال ہی میں اس حوالے سے ذمہ داری کا بل منظور کیا ہے جس کے تحت سرمایہ کار کمپنیوں کو کسی بھی بڑے حادثے کی صورت میں پندرہ ارب روپے تک ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا اور دوسری طرف ان کے عہدیداروں کو ۸۰ سال تک قید کی سزا دی جاسکے گی۔ اگر اس بل کو نافذ کردیا گیا تو مغربی سرمایہ کار سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے شعبے میں کچھ کرنے کی تحریک نہیں پاسکیں گے۔

ملک کے مختلف حصوں اور متنازع علاقوں میں سیکورٹی کے معاملات کو درست کرنے میں بھی حکومت بظاہر ناکام رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہلاکتوں کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے۔ چند ہفتوں کے دوران وہاں
۶۵ افراد مارے گئے ہیں۔ دوسری طرف مشرقی اور شمال مشرقی ریاستوں میں ماؤ نواز باغیوں نے سیکورٹی فورسز کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ سال بھر میں وہاں ماؤ باغیوں کے حملوں میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت ۹۰۰ سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

حکومت سے بہت سے غیر حقیقت پسندانہ توقعات بھی وابستہ کرلی گئی ہیں۔ کاروباری طبقہ چند ایک معاملات میں حکومت سے اصلاحات کا طالب تھا مگر اب تک حکومت نے کوئی بھی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے بڑے کاروباری اداروں کی تشفی ہو۔ ایک طرف مالیات کا شعبہ اصلاحات کا منتظر ہے اور دوسری طرف ریٹیل کے شعبے کی اصلاح بھی ناگزیر ہوچکی ہے۔ ان دونوں شعبوں میں خاطر خواہ اقدامات نہ کیے جانے سے کاروباری طبقے کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔ حکومت نے گڈز اینڈ سروسز ٹیکس کی وصولی کا معاملہ اپریل ۲۰۱۲ء تک مؤخر کردیا ہے۔ حکومت نے پٹرول پر سبسڈی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا مگر دباؤ پر ایسا کرنا ممکن نہ ہوسکا۔ مگر خیر اس کے باوجود عوام کو چند ایک معاملات میں حکومت سے مطلوبہ رعایت یا سہولت نہیں مل پا رہی۔

بنیادی تعلیم کو ملک کے تمام بچوں کے لیے عام بنانے کا قانون منظور ہوچکا ہے تاہم اسے مکمل طور پر نافذ نہیں کیا جاسکا۔ وزیر تعلیم کپل سبل کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے چند ایک مشکلات بھی درپیش ہیں۔ ریاستیں ایسا کوئی بھی قانون نافذ کرنے کے لیے تیار نہیں جس کے لیے انہیں فنڈنگ کرنی پڑے۔ وہ مرکزی حکومت کی طرف دیکھتی ہیں۔ یہ معاملہ انفرااسٹرکچر کا بھی ہے۔ مواصلات کے وزیر کمل ناتھ نے دہلی میں (جہاں کانگریس کی حکومت ہے) کامن ویلتھ گیمز کے موقع پر تیز رفتاری ترقیاتی کاموں کا وعدہ کیا ہے تاہم وہ ان وعدوں پر عمل کی پوزیشن میں نہیں۔

بھارت کا ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ وزیر اعظم من موہن سنگھ در حقیقت وزیر اعظم نہیں۔ ان کی بات سننے والے کم ہی ہیں۔ حکومت سونیا گاندھی چلا رہی ہیں۔ مرکزی کابینہ کے ارکان بھی من موہن سنگھ کے بجائے سونیا گاندھی کے بیٹے راہل گاندھی کی بات زیادہ سنتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ بھارت کا اگلا وزیر اعظم راہل گاندھی ہوگا۔

من موہن سنگھ کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ صفِ اول کے معیشت دان ہیں مگر وہ معیشت کی اصلاح میں ناکام رہے ہیں۔ دوسری طرف وہ لبرل بھی ہیں مگر کشمیر کے حوالے سے ان کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ کشمیر کے معاملے میں وہ اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارتے رہے ہیں۔ یہی کچھ ماؤ باغیوں کے معاملے میں ہوا ہے۔ شمال مشرقی بھارت کی شورش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سیکورٹی فورسز کے جانی نقصان کا دائرہ وسعت اختیار کر رہا ہے۔ انڈیا ٹوڈے نے ایک حالیہ سروے میں بتایا ہے کہ صرف ایک فیصد بھارتی من موہن سنگھ کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک میں من موہن سنگھ کو کم احترام مل رہا ہے، تاہم بیرون ملک ان کا امیج اتنا اچھا ہے کہ قائدین انہیں اپنا قائد مانتے ہیں!

راہل گاندھی کا معاملہ یہ ہے کہ انہیں کانگریس کی پالیسیوں سے کچھ خاص غرض نہیں۔ حکومت کی کارکردگی کے بارے میں زیادہ سوچنا وہ گوارا نہیں کرتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس کا امیج بہتر ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ دور افتادہ ریاستوں کے دورے پر رہتے ہیں۔ بہار اور مغربی بنگال کے آئندہ انتخابات پر ان کی نظر ہے۔ اگر کسی ریاست میں کوئی مقامی سطح کا مسئلہ بھی اٹھ کھڑا ہو تو وہ دوڑ پڑتے ہیں۔ اس صورت میں مقامی آبادی کے ووٹ بھی کانگریس کے حق میں جاتے دکھائی دیتے ہیں۔

کانگریس کو اس وقت جن معاملات پر زیادہ توجہ دینی چاہیے ان میں لینڈ ایکویزیشن بل بھی شامل ہے۔ اس بل کی منظوری سے حکومت بڑے صنعتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے سرکاری زمین بڑے پیمانے پر حاصل کرسکے گی۔ بھارت کو اس وقت بڑے صنعتی منصوبوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کیے جاسکیں۔

(بشکریہ: ’’دی اکنامسٹ‘‘۔ ۱۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*