جبکہ بھارت کی نیک نامی دنیا میں حالیہ سالوں میں ڈرامائی طور پر بڑھی ہے تاہم قریبی ہمسایہ ممالک میں اس کے اثرات اس کے عالمی اثرات سے میل نہیں کھاتے ہیں۔ دیر سے ہی سہی‘ اب یہ عیاں ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت اپنی حقیقی قیادت منوانے میں ناکام رہا ہے یا خطے میں واقعات کو حتمی شکل دینے سے عاجز رہا ہے۔ اس کے باوجود کہ بڑی طاقتوں نے اپنی ترجیحات کی عالمی اسکیم میں بھارت کا مقام بہت اونچا کر دیا ہے۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور فرانسیسی صدر جیک شیراک دونوں نے ابھی حال میں بھارت کا دورہ کیا ہے اور اس کے ساتھ اہم معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ دورہ کرنے والوں میں بعض دوسری اہم شخصیات بھی شامل ہیں یعنی روس‘ آسٹریلیا اور فن لینڈ کے وزرائے اعظم نیز چین کے نائب وزیرِ خارجہ۔
امریکا‘ فرانس اور روس‘ بھارت کو جوہری پلانٹس اور مواد بیچنے کے لیے بُری طرح بے تاب ہیں اور اس کے ساتھ ہی کھربوں ڈالر مالیت کے اسلحے بھی۔ بھارت کے سابق خارجہ سیکرٹری‘ مکچند دوبے کا خیال ہے کہ بھارت اپنے قریبی ہمسایہ ممالک کے ساتھ پائے جانے والے مسائل پر قابو نہیں پاسکا ہے۔ ادھر چند سالوں سے بھارت نے پاکستان کے استثنیٰ کے ساتھ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کو بھی نظرانداز کیا ہے اور مسائل کو سنگین ہونے دیا۔ یہ معاملہ بالخصوص نیپال‘ بنگلا دیش اور سری لنکا کے ساتھ رہا‘ جہاں بھارت کو اپنی قیادت منوانے کے مواقع میسر تھے۔ ایک عظیم تضاد یہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی بنانے والے جنہوں نے سالہا سال سے اپنے چھوٹے پڑوسیوں کو مونرو (Monroe) فلسفے کے بھارتی ایڈیشن کی بنیاد پر اپنے گھر کا صحن سمجھتے رہے ہیں اب یہ دیکھ رہے ہیں کہ بھارت کے اثرات اس کی سرحدوں سے باہر ماند پڑ رہے ہیں۔ بھارتی پالیسی کی خامی اس کے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں مضمر ہے‘ جہاں بھارت کو بطور ’’بڑا بھائی‘‘ ناپسند کیا جاتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت کے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ مسائل‘ اس کے بڑی طاقتوں کے ساتھ بالخصوص امریکا کے ساتھ تعلقات بڑھنے کی وجہ سے سنگین ہوئے ہیں۔ نیپال میں حالیہ واقعات اس کی ایک مثال ہیں۔
فروری ۲۰۰۵ء میں شاہ گیانندرا کو مطلق اختیار حاصل ہو جانے کے بعد سے نئی دہلی نے ایک آزاد روش اختیار کرنے کی کوشش کی جس کا مرکز و محور جمہوریت کی بحالی تھا۔ اس نے دو ستونوں پر مبنی مشہور جڑواں فارمولا پر پہلے زور دیا کہ نیپال کو ’’آئینی شہنشاہیت‘‘ اور ’’کثیر الجماعتی جمہوریت‘‘ دونوں کی ضرورت ہے۔ اس کی یہ پالیسی واشنگٹن کی پالیسی سے قریب تھی اور یہ واشنگٹن کے ساتھ نیپال کی مائو نواز کمیونسٹ پارٹی کی دشمنی میں بھی برابر کی شریک ہے‘ جس کی باغیانہ سرگرمیوں کی وجہ سے جیسا کہ محل کا کہنا ہے کہ دوسری چیزوں کے علاوہ انتظامی طور سے موثر شہنشاہیت کا بھی جواز باقی رہتا ہے۔ امریکا کی طرح بھارت نے بھی راجہ سے اپیل کہ وہ سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کریں اور قومی اسمبلی اور ملکی آئین کو بحال کریں۔ بھارت نے شاہ کو اسلحے بھی فراہم کیے۔ بہرحال شاہ نے بھارت کے مشورے پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ بھارت نیپال عوامی یکجہتی فورم کے رہنما آنند سوروپ شرما کا کہنا ہے کہ ’’تبدیلیاں گزشتہ سال کے آخر میں دیکھنے میں آئیں۔ بادشاہ بہت زیادہ ہٹ دھرمی پر اُتر آئے اور غیرمقبول ہو گئے۔ اس کے بعد قومی دھارے کی ۷ سیاسی جماعتیں اور مائو انتہا پسند جو نیپالی سیاست کے دو اہم دھڑے ہیں‘ نے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا‘‘۔ بھارت کی سیاسی جماعتیں نیپال کی جماعتوں کے ساتھ جن کے اچھے تعلقات ہیں‘ گزشتہ نومبر میں دونوں دھڑوں کے درمیان ایک اہم معاہدے کو طے کرانے میں کامیاب ہوئیں۔ اس معاہدے کے تحت مائو نواز گروہ تشدد ترک کرنے اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر رضامند ہو گیا تاکہ نئے دستور ساز اسمبلی کے قیام کے مطالبے پر مبنی ایک پُرامن تحریک چلائی جائے۔ بھارتی حکومت نے اپنا پلڑہ نومبر کے معاہدے کی طرف ڈال دیا۔ ورما کا کہنا ہے کہ ’’مائو نوازوں کی جذباتی مخالفت پر مبنی سابقہ پالیسی کے مقابلے میں یہ ایک صحتمندانہ تبدیلی تھی‘‘۔ بھارت کی سابقہ پالیسی غیرضروری طور پر سکیورٹی فورسز سے متاثر تھی اور نیپالی مائو نوازوں اور بھارت کے نکسل گوریلائوں کے درمیان بڑھتے ہوئے روابط کے ایک نامعقول خوف کے زیرِ اثر تھی۔
نکسلی بھارتی سرزمین کے ۱/۴ حصوں پر فعال ہیں لیکن نیپالی سرحدوں سے بہت دور ہیں۔ امریکا نے دریں اثناء مائو نوازوں کے خلاف اپنا موقف سخت کر لیا جو کہ وزارتِ خارجہ کی دہشت گرد تنظیموں کی واچ لسٹ میں ۲۰۰۲ء ہی سے شامل ہیں۔ حال ہی میں امریکی کارگزار جن میں امریکی سفیر برائے نیپال James Moriarty اور وزارتِ خارجہ کے افسر Donald Camp بھی شامل ہیں‘ نے مائو نوازوں اور نومبر معاہدے کے خلاف بہت سخت باتیں کی ہیں۔ یہ نئی دہلی کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ کس طرح واشنگٹن کو سخت موقف اختیار کرنے سے روکے جس کی وجہ سے معاہدہ کو نقصان پہنچ رہا ہے اور مطلق شہنشاہیت کی حکمرانی طول پکڑ رہی ہے۔ ایک سفارتی ذریعہ نے جس نے اپنا نام پردۂ خفا میں میں رکھنے پر اصرار کیا ہے‘ کا کہنا ہے کہ ’’بھارت اس ذمہ داری کے حوالے سے بیدار نہیں ہے۔ یہ حالیہ ایٹمی معاہدے اور کانگریس میں اس کی منظوری کے حوالے سے اس قدر فکرمند ہے کہ نیپال میں امریکا کو مصروف نہیں رکھ پایا‘‘۔ حالانکہ ایسا کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ سات سیاسی جماعتوں کے اتحاد اور مائو نوازوں نے ۶ اپریل کو عام ہڑتال کا اعلان کیا ہے‘ جس کا مقصد مطلق شہنشاہیت کے خاتمے کے مطالبے پر زور دینا ہے۔ راجہ پر مستقل دبائو کے نتیجے میں جدید پارلیمانی جمہوریت کی طرف منتقلی کے عمل کی سولہویں سالگرہ اور ہڑتال کی تاریخ ایک ہی بنتی ہے۔ جب تک بھارت اپنی حیثیت منوانے کی کوشش نہیں کرتا ہے‘ نیپال کی بعض اہم سیاسی جماعتوں پر امریکا کا دبائو ان کے احتجاجی منصوبے کو سبوتاژ کر سکتا ہے اور رہنمائوں کے اتحاد میں شگاف ڈال سکتا ہے جو ان کی قیادت کر رہے ہیں۔ بھارت کو بنگلا دیش کے ساتھ کچھ دوسرے مسائل کا سامنا ہے۔ چار سالوں کے دوران اس کے تعلقات بنگلا دیش کے ساتھ تواتر کے ساتھ خراب ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین کئی مسائل ہیں۔ دریا کے پانی کی تقسیم کا مسئلہ ہے‘ دونوں کی سرزمین میں ایسے زمینی علاقوں تک رسائی کا مسئلہ ہے جو ایک دوسرے کے گھیرے میں ہیں نیز تجارت‘ ٹیرف کی رکاوٹوں‘ دوہرے ٹیکس اور کچھ دوسرے معاملات کا مسئلہ ہے۔ حالیہ مہینوں میں دونوں ممالک کے سرحدی محافظین کے مابین بارہا جھڑپیں ہوئی ہیں۔ بھارت نے بنگلا دیش پر الزام لگایا ہے کہ وہ سرحد پار غیرقانونی داخلے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ بنگلا دیش اس الزام کو رد کرتا ہے۔ ادھر تعلقات اس وقت مزید خراب ہو گئے‘ جب بھارت نے بنگلا دیش پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا۔ ۲۰۰۵ء میں بھارت نے ڈھاکہ میں منعقد ہونے والی جنوبی ایشیا کے سات ممالک پر مشتمل تنظیم سارک کی کانفرنس میں شرکت کے اپنے پروگرام کو منسوخ کر دیا۔ اس کے بعد سے بھارت نے تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی ہے مگر نیم دلی سے۔ بنگلا دیش کی وزیراعظم خالدہ ضیاء نے حال ہی میں بھارت کا دورہ کیا ہے۔ جناب دوبے کا کہنا ہے کہ ’’دونوں ممالک نے اگرچہ دہشت گردی کے خلاف ایک اعلامیہ پر دستخط کیے اور ٹرانزٹ سہولیات پر بھی ایک معاہدہ کیا ہے لیکن دونوں کوئی حقیقی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کوئی حقیقی مصالحت یا ذہنی تال میل نہیں ہوئی ہے۔ یہ صرف باہمی تعاون کے ویژن کی بنیاد پر ممکن تھا۔ یہ بھارت کا فرض تھا کہ وہ اس ویژن کو فروغ دیتا۔ وہ اس امتحان میں ناکام ہو گیا‘‘۔ بنگلا دیشی وزیراعظم نے خصوصی طور سے بھارت سے یہ درخواست کی کہ وہ بنگلا دیشی برآمدات کو اپنے یہاں ڈیوٹی سے مبرّا کر دے لیکن بھارت نے انکار کر دیا۔ بھارت کو اس طرح کے یکطرفہ اقدام سے بہت کم نقصان ہو گا۔ اس کی معیشت بہت بڑی اور مضبوط ہے جس کی بنا پر بنگلا دیش کے ساتھ مسابقت کو برداشت بھی کر سکتا ہے اور اس کی برآمدات کو جذب کر سکتا ہے۔ لیکن بدلے کا وہی پرانا ذہن (غیرمساوی ممالک کے مابین بھی) موجود ہے۔ بھارت Non-Tariff رکاوٹوں کو ختم کر سکتا تھا۔ مثلاً چمڑے کی مصنوعات کا معاملہ ہے‘ جسے فروخت ہونے سے قبل سندِ تصدیق (Certification) کے لیے پہلے چنئی بھیجا جاتا ہے جو کہ ۱۵۰۰ کلو میٹر دور ہے۔ دوبے کا کہنا ہے کہ یہ بالکل غیرضروری ہے اور اس کا مقصد درآمدات کی شدت کے ساتھ حوصلہ شکنی کرنا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ ۳۰ مارچ ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply