بھارت: زرعی اصلاحات، کسانوں کا احتجاج

جب بات مطالبات کے لیے آواز بلند کرنے کی آجائے تو بھارت کے ۱۵ کروڑ کسان کسی بھی لحاظ سے شرمیلے نہیں۔ حال ہی میں کیے جانے والے مظاہروں میں ملک کے دور افتادہ علاقوں سے بڑی تعداد میں کسان دہلی آئے اور احتجاج کیا۔ انہوں نے بے لباس ہوکر، خود کو زندہ دفن کرکے اور دیگر بہت سے طریقوں سے اہل وطن کو اپنی پریشانی اور بدحواسی دکھانے کی کوشش کی۔ احتجاج کرنے والے کسانوں نے کھوپڑیاں بھی دکھائیں جو حالات سے تنگ آکر خودکشی کرنے والے ان کے بھائیوں کی تھیں۔ احتجاج کرنے والوں نے چوہے اور انسانی فضلہ کھاکر بھی اپنے دگرگوں حالات کی طرف باقی ملک کو متوجہ کرنا چاہا۔

رواں سال بڑے پیمانے پر کیے جانے والے احتجاج کا مدار نمائشی قسم کے معمولات سے بہت ہٹ کر اور بڑھ کر کسانوں کی تعداد پر رہا ہے۔ نومبر کے اواخر سے ہزاروں کسانوں نے ٹریکٹرز، مویشی اور بوریا بستر لے کر دہلی کے شمالی دروازوں پر ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ پولیس نے ان کسانوں کو آنسو گیس اور آبی توپوں سے منتشر کرنے میں ناکام ہونے کے بعد اب خندقوں اور خاردار تاروں کی باڑ کے پیچھے پناہ لے رکھی ہے۔ کئی مقامات پر کنٹینر اور فولادی تار لگاکر راستے بند کردیے گئے ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کا سیدھا سا مطالبہ یہ ہے کہ ستمبر میں پارلیمان سے منظور کیے جانے والے متنازع قوانین واپس لیے جائیں یا ان میں خاطر خواہ ترمیم کی جائے۔

زرعی اور معاشی امور کے ماہرین نے حکومت کی متعارف کرائی ہوئی اصلاحات کا عمومی سطح پر خیر مقدم کیا ہے۔ بہت سے کسان بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ ریاستی سطح کے سوشلزم اور قلت کے دور (۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کی دہائی) کے قوانین کو تبدیل کرکے ہی عالمی مارکیٹس کے اس دور میں بھارتی زراعت کو اپ ڈیٹ کرکے زیادہ کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مودی کی اصلاحات سے سرکاری کنٹرول والی تھوک مارکیٹ کی اجارہ داری پر ضرب لگنے والی ہے۔ ان اصلاحات سے ذخیرہ اندوزوں کی حوصلہ شکنی ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسانوں اور ان کی پیداوار سے مستفید ہونے والوں کے درمیان رابطے بڑھیں گے۔ ماہرین باسی قوانین اور باسی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔ بھارت بھر میں کسانوں نے فصلوں کے تنوع پر توجہ دی ہے۔ حکومت پر ان کا انحصار کم رہا ہے۔ دہلی کے شمال اور مغرب سے تعلق رکھنے والے اناج اگانے والے علاقوں کے کسان حکومت کی طرف سے فراہم کیے جانے والے زر اعانت کے عادی ہوچکے ہیں۔ ایک طرف زمین سے پانی نکالنے کا عمل جاری ہے اور دوسری طرف بجلی بھی مفت فراہم کی جارہی ہے۔ بیج بھی کم نرخوں پر ملتے ہیں اور کھاد بھی۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں سے حکومت ہر سال اناج خریدتی ہے۔ ۲۵ ؍ارب ڈالر سے زائد فوڈ سیکورٹی یقینی بنانے پر صَرف کیے جاچکے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں اس قدر اناج اگایا جاتا ہے کہ بھارت کے برآمد کنندگان کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ چاول برآمد کرتے ہیں۔ حکومت اپنے ہی ۸۱؍کروڑ شہریوں کو کم نرخوں پر چاول بیچتی ہے۔ جون تک حکومت نے ۹ کروڑ ۷۰ لاکھ ٹن اناج جمع کیا تھا۔

زرِ اعانت کی پالیسی زیادہ دیر تک کارگر نہیں رہ سکتی۔ خطرات سے پاک زرعی نظام ان کسانوں کے لیے کسی حد تک لت کی شکل اختیار کرچکا ہے، جو ہر حال میں بہت زیادہ منافع کمانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ۱۹۷۰ء کے عشرے میں پنجاب کی زرعی زمین نصف چاول اور گندم کی کاشت کے لیے مختص تھی۔ اب ان دونوں ریاستوں میں کم و بیش ۸۰ فیصد رقبہ ان دونوں فصلوں کے لیے وقف ہوچکا ہے۔ کسی بھی دوسری لت کی طرح اس لت کے بُرے نتائج بھی نمایاں ہیں۔ ایک طرف تو زیر زمین پانی خطرناک حد تک کم ہوچکا ہے اور پھر چاول کی فصل کا کچرا جلانے سے زمین بھی خراب ہوتی ہے اور فضا بھی آلودہ ہوتی ہے۔

۱۹۶۰ء سے ۱۹۹۰ء تک ’’سبز انقلاب‘‘ نے پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کے لیے خوش حالی یقینی بنائی۔ اس دوران اناج کی پیداوار تگنی، چگنی ہوگئی، مگر خیر اب یہ نمو رک چکی ہے۔ کسانوں کو یہ غم ستائے جارہا ہے کہ ان کے تعلیم یافتہ بچوں کا کیا ہوگا، نوکری کیسے ملے گی، ڈھنگ سے جینا اُن کے لیے کیسے ممکن ہوگا۔ پنجاب کے کسانوں کو اب ہر وقت اپنے معیارِ زندگی کی بلندی برقرار رکھنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔ پنجاب میں بھی شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان آمدن کا فرق بڑھتا ہی جارہا ہے۔

بھارتی صوبے پنجاب کے کسان تبدیلی تو چاہتے ہیں اور اس کے خواب بھی دیکھتے ہیں، مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اس بات سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں کہ زراعت میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ان کی ترقی اور خوشحالی برقرار نہ رہ سکے گی۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی زرِ اعانت کا خاتمہ ہوگا۔ اور یہ سوچنا بھی غیر منطقی نہیں کہ وہ وقت شاید اب آہی چکا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ایک طرف تو معیشت پریشانی کی حالت میں ہے اور دوسری طرف ملک بھر میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے کسانوں سے وعدہ کیا تھا کہ پانچ سال میں ان کی آمدن دگنی ہوجائے گی۔

جب کسانوں کا احتجاج شروع ہوا تب مودی کابینہ کے بعض ارکان نے کسانوں کو برملا احمق قرار دے کر معاملات کو مزید بگاڑ دیا۔ مودی کے رفقائے کار نے یہاں تک کہا کہ کسانوں کو قوم کے دشمن بائیں بازو کے لوگوں نے ورغلایا ہے۔ احتجاج کرنے والوں میں اکثریت چونکہ سکھوں کی تھی اس لیے میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی گئی کہ احتجاج کرنے والوں میں علیحدگی پسند اور دہشت گرد بھی شامل ہیں!

معاملات ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر مودی سرکار نے چند ایک معمولی سی رعایتوں کا اعلان کیا ہے مگر اس اعلان سے اب تک کچھ فائدہ نہیں پہنچا۔ مودی سرکار اگر اس بحران کو تھوڑی بہت عزت کے ساتھ ختم کرنا چاہتی ہے تو ایک ہی راستہ ہے … یہ کہ کسان جن قوانین کے خلاف مورچہ لگائے بیٹھے ہیں ان کا نفاذ فوری طور پر روک دیا جائے۔

بھارت میں پہلے بھی بڑے پیمانے پر احتجاجی تحریکیں چلتی اور دم توڑتی رہی ہیں۔ گزشتہ برس شہریت کے متنازع قانون کے خلاف بھی ملک بھر میں احتجاج کی لہر اٹھی تھی، مگر کورونا وائرس کی وبا نے مہربانی کی کہ آکر اس تحریک کو ختم کیا اور مودی سرکار کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔

دہلی کا محاصرہ ختم ہو رہا ہے مگر بھارت کے حکمرانوں کو سیکھنا ہوگا کہ اس متنوع اور پُرشور ملک میں پورے ملک کے باشندوں کے لیے یکساں نوعیت کے قوانین نافذ نہیں کیے جاسکتے۔ اور یہ بھی کہ لوگوں کے دل جیتے بغیر کوئی قانون بنایا تو جاسکتا ہے، نافذ نہیں کیا جاسکتا۔

(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)

“India’s government is undermining its own agricultural reforms”.(“The Economist”. Dec. 16, 2020)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*