مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی صورتحال

اسے بہت بری طرح پیٹا گیا تھا اور وہ شدید زخمی حالت میں پڑا تھا، فاروق ڈار کوفوجی جیب کے بمپر کے ساتھ باندھ کر جیپ کومقبوضہ کشمیر کے سب سے بڑے شہر سرینگر میں گھمایا گیا۔ بھارتی فوج نے اس پر یہ الزام لگایا کے وہ بھارتی فوجیوں پر پتھر پھینکتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتاہے۔

۹؍اپریل کو فاروق ڈار کی یہ ویڈیو انٹرنیٹ پر پھیل گئی اس ویڈیو کے پھیلتے ہی سرینگر میں غم و غصہ کی لہر دوڑگئی۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت انتخابات ہورہے ہیں اور ان انتخابات کو پُرامن رکھنے کے لیے بھا رتی فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے، انتہائی شرمناک بات تو یہ ہے کہ وادی میں رہنے والے شہریوں میں سے صرف سات فیصد کو حق رائے دہی دیا گیا ہے، بدقسمتی سے کپڑے کے کام سے وابستہ فاروق ڈار نے اپنا حق رائے دہی استعمال کر لیا تھا لیکن وہ پتھر مارنے والوں میں شامل نہیں تھا۔

بھارتی حکومت اس وقت بہت بھونڈے انداز سے باغیوں کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس میں کچھ کامیاب بھی ہوئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اپریل کے آخری ہفتے میں سوشل میڈیا پرپابندی عائد کی گئی اور موبائل ڈیٹا کو استعمال کرنے پر بھی پابندی لگائی گئی۔ ۲۲ مئی کو اس وقت لوگ مشتعل ہوگئے جب بھارتی حکومت کی طرف اس فوجی کو ایوارڈ سے نوازا گیا جس نے فاروق ڈار کو سڑکوں پر گھسیٹا تھا تاہم یہ واضح نہیں ہے کے اس کو تشدد کرنے پر ایوارڈ دیا گیا یا کشمیری مجاہدین کے خلاف آپریشن پر۔ بھارتی ذرائع ابلاغ بھی اس بھارتی فوجی کو ہیرو کے لقب سے یاد کر رہا ہے اور اس بربریت کادفاع کرتے ہوئے کہتا ہے کہ فوج نے فاروق ڈار کو اپنے بچاؤاور دفاع کے لیے انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔

کشمیر حالیہ دنوں میں جس بدامنی کا شکار ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں رہا۔ ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۰ء میں بھارت نے لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کو دو الگ الگ ریاست قرار دیتے ہوئے پاکستان پر سرحد پار سے مجاہدین کو مقبوضہ کشمیر بھیجنے کا الزام عائد کیا تھا اورمسلم اکثریتی کشمیر میں حالات معمول پر لانے کے لیے وادی میں ظلم کے پہاڑ توڑے تھے ایک محتاط اندازے کے مطابق بھارت نے اس وقت ۴۰ ہزارکشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس وقت بھی سرحدوں کے دونوں جانب اشتعال انگیزی جاری ہے لیکن وادی میں حالات زیادہ خراب نہیں ہیں۔ ۲۰۱۶ء جولائی میں بھارت نے ایک گوریلا کمانڈر کو ہلاک کر دیا تھا، اس کے بعد سے اب تک وادی میں بڑی تعداد میں مظاہرے ہورہے ہیں اور اس میں سینکڑوں مظاہرین شرکت کرتے ہیں، گوریلا کمانڈر کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد طالب علموں اور بھارتی فوج کے درمیان تصادم ہوئے اور پھر یہ پورے کشمیر میں پھیل گئے، مظاہرین میں زیادہ تر کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور مظاہرین اسکول یونیفارم میں ملبوس ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں بستے ہوتے ہیں۔

بھارتی حکومت مظاہرین اور گوریلا جنگ کے باغیوں میں فرق نہیں کر رہی ہے اور یہ مظاہرین پر ظلم ہے،پچھلے سال گرمیوں او ر خزاں کے موسم میں مظاہرین پربراہ راست شورٹ گن سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس سے درجنوں مظاہرین شہید ہوگئے۔ شورٹ گن جیسا خطرناک اسلحہ بھارتی فوجیوں نے اس سے قبل استعمال نہیں کیا لیکن اب کی بار مظاہروں اور احتجاج کی شدت بہت زیادہ ہے جس نے بھارت کے ہوش اڑا دیے ہیں اور اس نے باغیوں کو کچلنے کے لیے خطرناک اسلحہ استعمال کیا۔

گوریلا جنگجو وادی کے اندر موجود ہیں لیکن یہ پہلے کے مقابلے میں کم تعداد میں ہیں،ان میں زیادہ تر نوجوان ہیں یہ بھارتی فوجیوں کی رائفل چھین کے اوپر پہاڑوں میں بسیرا کرتے ہیں اور وہاں سے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی باغیانیہ سوچ لوگوں تک پہنچاتے ہیں، وادی کے لوگوں کی ہمدردیاں ان نوجوانوں کے ساتھ ہوتی ہیں ان جوانوں میں سے کبھی کوئی شہید ہوجاتا ہے تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ انھیں خراج عقیدت پیش کرنے نکلتے ہیں۔

بھارتی حکومت اس صورتحال سے پریشان ہے لیکن آزادی مانگنے کودہشت گردی یا تشدد نہیں کہا جاسکتا۔ جو نوجوان بھارتی فوجیوں کے ظلم کے جواب میں ان پر پتھر پھینکتے ہیں انہیں عسکریت پسندوں میں شمار کیا جاتا ہے اور کمزور ثبوت کی بنیاد پر بھارتی میڈیا یہ واویلا کرتا ہے کہ پاکستان مظاہرین کو ۵۰۰ روپے فی فرد مہیا کر رہا ہے، بھارتی حکومت مظاہرین اور جنگجوؤں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہی ہے اور احتجاج کی کم سے کم سزا موت ہے۔ ۲۱مئی کو جتندرا سنگھ نے مرکزی حکومت کے ایک وزیرسے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔لیکن حکومت کے کسی عہدیدار نے اس لیے ان سے بات نہیں کی کیونکہ وہ بھارتی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں۔وادی کشمیر کے عوام حریت کانفرنس کی بھر پور حمایت کرتے ہیں، حریت کانفرنس ۳۰ جماعتوں کا اتحاد ہے جو بھارت سے آزادی چاہتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ کشمیر میں امن و امان بھارت کے وادی سے چلے جانے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

۲۰۱۴ء میں قومی الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی فتح کے بعد مودی کو اقتدار ملا ہے، اس کے بعد سے وادی میں علیحدگی پسندوں کی حمایت میں تیزی آئی ہے۔ اس الیکشن میں کشمیریوں نے پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کو ووٹ دیا۔ پی ڈی پی کے مقاصد واضح نہیں تھے، پی ڈی پی نے ایک آزاد گروپ کی حیثیت سے انتخاب لڑا لیکن بعد میں بی جے پی سے اتحاد کر لیااس بات نے پی ڈی پی کے ووٹروں کو مایوس کر دیا اور وہ پی ڈی پی کی حمایت سے دستبردار ہوگئے۔

حسیب درابو جو کہ پی ڈی پی کے بانی ہیں انھوں نے اپنی پارٹی کا دفاع کرتے ہوئے کہا اس وقت مودی کے علاوہ کوئی بھی وادی میں امن نہیں لاسکتا اور بی جے پی نے درابو کو اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے ان سے اور حریت سمیت دوسری علیحدگی پسند جماعتوں سے بات کی جائے گی۔

دہلی کو چاہیے کہ وہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرے اس سے پہلے کے علیحدگی پسندحالات کو مزید خراب کریں اور بھارت پھر مذاکرات کرنے کے قابل بھی نہ رہے۔ موجودہ حالات یہ ہیں کہ اب سری نگر کے چپے چپے پہ آزادی کے نعرے کی گونج ہے، ۱۵مئی کو بھارت کے ایک نمائندہ وفد نے سری نگر میں سری پرتاپ کالج کا دورہ کیا، یہ کالج سری نگر میں اچھے کالجوں میں شمار ہوتا ہے۔ دورہ سے چند منٹ پہلے طالب علموں اور بھارتی فوج کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ وفد کے کالج پہنچنے کے بعد طالب علم کالج سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے رہے، وفد کے ارکان ٹوٹے ہوئے پل کو طے کر کے اور راستے میں لگائی گئی اسٹیل کی باڑوں سے الجھتے ہوئے کالج تک پہنچے جب کے فضا میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس پھیلی ہوئی تھی اور یہ مظاہرین کالج کے طالب علم نہیں تھے بلکہ عام شہری تھے،کالج کے پرنسپل کے منع کرنے کے باوجودڈاکٹریٹ ڈگری کے حامل طالبعلم مظاہرین کے حق میں اور بھارت کی ناکامی اور بربریت کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔

(ترجمہ: سمیہ اختر)

“‘India’s Kashmir problem is getting worse”. (“The Economist”. May 25, 2017)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*