
افغانستان میں طالبان نے جس تیزی سے پیش رفت یقینی بناتے ہوئے فتوحات حاصل کیں اور پورے ملک پر اپنا تصرف قائم کرلیا، اُس نے سبھی کو حیرت سے دوچار کیا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسلامی ریاست کے اصول یعنی شریعت کے قوانین نافذ کر دیے گئے ہیں (!) اور اس بدلی ہوئی صورتِ حال کا سب سے زیادہ بوجھ خواتین کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ کابل ایئر پورٹ کے اندر اور باہر دل دہلا دینے والے مناظر دکھائی دیے ہیں۔ کئی افغان باشندے ملک چھوڑنے کے معاملے میں ایسے بدحواس ہوئے کہ طیارے کے پہیوں اور دیگر مقامات پر لٹک گئے اور جب طیارے نے ٹیک آف کیا تو یہ سب زمین پر آرہے۔ اطلاعات ہیں کہ بہت سی ماؤں نے اپنے بچے امریکی فوجیوں کے حوالے کردیے کہ اُن کا تو انخلا ممکن بنائیں۔ افغانستان کے دارالحکومت میں شدید مایوسی، بدحواسی اور خوف کی فضا دکھائی دی۔ اس کے بعد کابل ایئر پورٹ پر دھماکے ہوئے۔ یہ گویا مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ تھا۔
طالبان قیادت نے اب تک یہ تاثر دینے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرچکے ہیں اور افغانستان کی تعمیر و ترقی میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، مگر طالبان جنگجوؤں کے حوالے سے اطلاعات ہیں کہ انہوں نے انتقامی کارروائی کے طور پر قتل بھی کیے ہیں اور امریکیوں اور اُن کی حکومت کے لیے کام کرنے والے افغانوں اور دیگر غیر ملکیوں کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ شمال کے پنجشیر صوبے سے مزاحمت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ یہ علاقہ اب تک طالبان کے کنٹرول میں نہیں آیا ہے۔ افسانوی شہرت کے حامل کمانڈر احمد شاہ مسعود کے صاحبزادے احمد مسعود نے سابق نائب صدر امر اللہ صالح سے ہاتھ ملایا ہے۔ احمد مسعود نے گفت و شنید کی پیش کش کی ہے مگر طالبان بضد ہیں کہ وہ ہتھیار ڈالیں۔ طالبان نے وادیٔ پنجشیر پر تصرف قائم کرنے کے لیے بہت سے جنگجو وہاں بھیجے ہیں۔ ابھی یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وادیٔ پنجشیر میں مزاحمت کس حد تک جاسکے گی۔
امریکی صدر جو بائیڈن پر ہر طرف سے تنقید ہوئی ہے کہ انہوں نے افغانستان سے امریکی و اتحادی افواج کے انخلا کے معاملے میں غیر معمولی عجلت پسندی دکھائی ہے اور اس عجلت کے ممکنہ نتائج کے بارے میں کچھ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ جو بائیڈن نے انخلا کی حتمی تاریخ ستمبر سے ۳۱؍اگست تک لانے میں بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کے انخلا کی حتمی تاریخ تبدیل کیے جانے کا طالبان کو غیر معمولی حد تک فائدہ پہنچا۔
افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز یا افغان نیشنل آرمی نے برسوں طالبان کا سامنا کیا ہے اور بہت بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان بھی برداشت کیا ہے۔ امریکیوں کا انخلا افغان نیشنل آرمی کے مورال کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ مینٹیننس اسٹاف کے انخلا نے افغان قومی فوج کو مفلوج کر ڈالا۔ افغان فضائیہ کے لیے لڑائی جاری رکھنا ممکن ہی نہ رہا۔ وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی کرپشن سے اَٹے نظامِ حکومت کے تحت نسلی، قبائلی اور گروہی بنیاد پر پائی جانے والی تقسیم کے باعث افغان قومی فوج تیزی سے بکھری اور تحلیل ہوگئی۔ صدیوں سے افغان باشندے اصلاً جمہوریت یا قومی مفادات کے بجائے قبائلی وفاداری کی بنیاد پر جنگیں لڑتے آئے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ افغان قومی فوج کو پیچیدہ جنگ کی تربیت دی ہی نہیں گئی تھی۔ اس حقیقت کا طالبان نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ امریکی قیادت نے سوچا تھا کہ انخلا پُرسکون انداز سے اور نظم و ضبط کے ساتھ ممکن ہوسکے گا۔ یہ اندازہ غلط نکلا۔ امریکیوں کا اندازہ تھا کہ افغان قومی فوج طالبان کو چند ماہ تک تو قابو میں رکھنے میں کامیاب رہے گی۔
طالبان کو افغانستان کے طول و عرض میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے کیونکہ لوگ بہت بڑے پیمانے پر پائی جانے والی بدعنوانی سے تنگ آچکے ہیں۔ امریکا اور اتحادیوں کے قبضے کے دوران عام افغان باشندوں کو بنیادی سہولتیں تک ڈھنگ سے میسر نہ ہوسکیں۔ جو کچھ امریکا اور اتحادیوں نے ملک چلانے کے نام پر پہلے حامد کرزئی اور بعد میں اشرف غنی کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومتوں کو دیا اُس کا بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہوگیا۔ کرپشن محض حکومتی مشینری تک محدود نہ تھی بلکہ افغان نیشنل آرمی میں بھی اعلٰی سطح پر کرپشن کا بازار گرم رہا۔ جب طالبان نے افغانستان میں حتمی نوعیت کی کارروائیوں کا ڈول ڈالا تب پاکستان کی ’’ڈیپ اسٹیٹ‘‘ نے انہیں بھرپور لاجسٹک اور دوسری مدد فراہم کی۔ افغانستان میں تزویراتی گہرائی پیدا کرنے کی دائمی آرزو و تلاش نے پاکستان کو طالبان کا اتحادی رکھا ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ نے ایک ایسی عبوری افغان حکومت کے قیام کی کوشش کی ہے، جس میں تمام فریقوں یا اسٹیک ہولڈر کی نمائندگی ہو۔ کابل میں وسیع البنیاد حکومت کے قیام کی کوششیں جاری ہیں اور پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے جلد کابل میں ہوں گے۔ برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل نِک کارٹر اس مرحلے پر جنرل باجوہ کی معاونت کے لیے تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔ جنرل نِک کارٹر ’’اصلاح یافتہ‘‘ طالبان کا بیانیہ آگے بڑھانے کے حوالے سے پرجوش و متحرک رہے ہیں۔
پاکستان طالبان کی ’’فتح‘‘ پر غیر معمولی انداز سے مسرّت کا اظہار کر رہا ہے۔ جو کچھ ہوا ہے وہ اپنی جگہ اہم سہی مگر اس سے معاشی سطح پر کوئی بہت بڑی ناموافق صورتِ حال بھی سامنے آسکتی ہے۔ ایسی کوئی بھی صورتِ حال کھیل کو تبدیل کرنے والے عامل کی حیثیت بھی اختیار کرسکتی ہے۔ افغانستان دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس کے سالانہ بجٹ میں غیر ملکی امداد کا تناسب ۶۰ فیصد تھا۔ یہ امداد اب بند ہوچکی ہے۔ پاکستان اس پوزیشن میں ہے ہی نہیں کہ افغانستان کو مالی امداد فراہم کرسکے۔ ایسے میں چین رہ جاتا ہے جو افغانستان میں بڑے پیمانے کی فنڈنگ کی گنجائش رکھتا ہے۔ چین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی واضح مقصد یا مفاد کے بغیر کچھ بھی خرچ نہیں کرتا۔ کیا چین افغانستان میں وسیع اور پرکشش معدنی ذخائر کے عوض کچھ خرچ کرنا پسند کرے گا؟ یورپی یونین نے ساری مالی امداد روک لی ہے اور اعلان کیا ہے کہ جب تک طالبان انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی سطح پر تسلیم شدہ معیارات کا احترام کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائیں گے تب تک اُن کی حکومت تسلیم نہیں کی جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ امریکا اور برطانیہ اپنے مفادات کی خاطر اصولوں پر کچھ سمجھوتا کرلیں۔ اسلامی تعاون کی تنظیم نے بھی اقوامِ متحدہ کی طرح بہت کچھ دینے کا اعلان کیا ہے۔
افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے اُس کے اسٹریٹجک اثرات ایک مدت تک برقرار رہیں گے۔ امریکا نے جس انداز سے افغانستان سے انخلا کیا ہے اس سے بین الاقوامی سطح پر کمٹمنٹس کے حوالے سے اُس کی اہلیت پر شک کرنے والوں کی تعداد بڑھے گی۔ چین، ایران، پاکستان اور روس … سبھی چاہتے تھے کہ امریکا اُن کے ’’پائیں باغ‘‘ سے نکل جائے۔ اب ترکی بھی اس گروپ کا حصہ ہے۔ ان تمام ممالک نے خلا پُر کرنے کی امید سے کابل میں اپنے سفارت خانے کھلے رکھے ہیں۔ افغانستان کی صورتِ حال خطے کی جغرافیائی و سیاسی صورتِ حال میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کے رونما ہونے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ اب بھارت کو بھی امریکا کے علاوہ ان تمام ممالک سے اپنے تعلقات کی نوعیت پر غور کرتے ہوئے بہت سی تبدیلیوں کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔
افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال بھارت کے لیے اسٹریٹجک سطح پر ایک بڑا دھچکا ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاد کے نام پر دہشت گردی کی گنجائش بڑھ سکتی ہے۔ چین کو اپنے مغربی صوبے سنکیانگ اور روس کو وسطِ ایشیا میں اسلامی انتہا پسندی کے مزید پنپنے کا خدشہ لاحق ہے۔ دونوں نے افغانستان سے پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ چین اس وقت معاشی طور پر مضبوط ہے مگر پھر بھی اس نے افغانستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے غیر معمولی احتیاط سے کام لیا ہے۔ پاکستان میں چین کے متعدد باشندے قتل کیے جاچکے ہیں۔ افغانستان تو اُس سے بھی زیادہ غیر مستحکم ہے گوکہ افغان سرزمین سی پیک کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے اور اس کے معدنی ذخائر میں بھی خاصی کشش ہے۔ چین نے بھارت کے پڑوسی ممالک میں اپنی جڑیں گہری اور مضبوط کرلی ہیں اور اس کے نتیجے میں بھارت کے مفادات اور اثرات کا دائرہ محدود ہوا ہے۔
پاک امریکا تعلقات کو بھی نظرِ ثانی کی ضرورت ہوگی۔ افغانستان سے امریکا اور اتحادی افواج کے انخلا اور وہاں طالبان کی حکومت کے قیام کی صورت میں بہت کچھ بدلے گا جسے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بہت سے امریکیوں کو جوہری پروگرام کے حوالے سے بھی خطے کی صورتِ حال سے پریشانی لاحق ہے۔ آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ نے کہا تھا کہ ’’پہلے پاکستان نے امریکا کی دولت سے افغانستان میں سابق سوویت یونین کو شکست دی اور اب وہیں امریکا کو امریکا ہی کی دولت سے ہرائے گا‘‘۔ افغانستان سے انخلا کے بعد اب امریکا کو چین کے توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم کا ڈٹ کر سامنا کرنے کے لیے وسائل مختص کرنے میں مدد ملے گی۔
افغانستان میں بھارت کے آپشن بہت محدود ہیں۔ اس وقت سب سے ضروری، بلکہ لازمی بات یہ ہے کہ تمام بھارتی باشندوں کو افغان سرزمین سے نکال لیا جائے۔ طالبان کے پہلے دورِ حکومت کے دوران بھارتی طیارے کی ہائی جیکنگ کے معاملے کی تلخ یادیں اب بھی باقی ہیں۔ اس کے بعد بھی بھارت نے افغانستان کا بنیادی ڈھانچا مضبوط بنانے پر توجہ دی۔ اس حوالے سے خطیر سرمایہ کاری کی جاچکی ہے۔ افغانستان میں صحتِ عامہ کی سہولتوں کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے تربیت فراہم کرنے میں بھی بھارت نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ افغان عوام میں بھارت کے لیے مثبت جذبات پائے جاتے ہیں۔ افغان پناہ گزینوں کو قبول کرنے سے بھارت کا امیج افغان عوام کی نظر میں مزید بہتر ہوگا۔ اگر طالبان حکومت قائم کریں تو اُسے قبول کرنے سے انکار کرنا بھارت کے لیے ممکن بھی نہ ہوگا اور اِسے دانش مندی بھی نہیں سمجھا جائے گا۔ حکومتِ کابل (اور ہاں، حکومتِ پاکستان) کا رویہ اس حوالے سے بہت اہم ہوگا۔ بھارت کو کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنا ہی پڑے گا۔ اس معاملے میں تاخیر سے افغانستان میں اس کے مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا۔
(مصنف بھارتی وزارتِ امورِ خاجہ کے سابق سیکرٹری اور سابق سفیر ہیں۔)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“India’s limited options in Afghanistan”. (“Indianexpress.com”. August 29, 2021)
Leave a Reply