
بھارت میں عام انتخابات کے نتائج دیکھ کر سیاسی مبصرین اور بالخصوص نریندر مودی کے ناقدین کی رائے یہ ہے کہ اب بھارت کی سیاسی ثقافت مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی۔ نریندر مودی دوسری بار وزیراعظم بنے ہیں اور اُن کے پہلے دورِ حکومت کی کارکردگی دیکھتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ اب بھارت کے مسلمانوں کے لیے بھی مسائل بڑھ جائیں گے۔
نریندر مودی کے دوسری بار وزیراعظم بننے پر بھارتی مسلمانوں میں بجا طور پر خوف پایا جاتا ہے۔ اُنہیں اندازہ ہے کہ دوسری بار بھرپور انتخابی کامیابی بھارتیا جنتا پارٹی کے کارکنوں اور قیادت کی طرزِ فکر و عمل میں مسلمانوں کے حوالے سے مزید سختی پیدا کرے گی۔ پہلے دورِ حکومت میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلمانوں کے لیے غیر لچک دار رویہ اپنایا تھا۔ انتہا پسندی عروج پر تھی۔ نئی دہلی کے نواح میں گڑ گاؤں کے علاقے میں مقامی کونسل کے سربراہ شہزاد خان کہتے ہیں کہ بھارت میں مسلمان محفوظ نہیں۔ مسائل بڑھ گئے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد کم و بیش بیس کروڑ ہے۔ اتنی بڑی اقلیت ہونے کے باوجود اُنہیں مسائل کا سامنا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر بھارتی مسلمان خود کو مزید الگ تھلگ محسوس کر رہے ہیں۔ اُن کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو کچھ پچھلے دور میں ہوا اب اُس سے زیادہ ہوگا۔
حالیہ انتخابات کے حوالے سے جو مہم چلائی گئی تھی وہ کئی حوالوں سے انتہائی نوعیت کی تھی۔ ایک طرف تو آسام میں بسنے والے بنگالی مسلمانوں کو بنگلادیشی قرار دے کر انہیں ملک سے نکالنے پر زور دیا گیا اور دوسری طرف گاندھی جی کو قتل کرنے والے نتھو رام گوڈسے کو حقیقی محب وطن قرار دینے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ نتھو رام گوڈسے نے بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی کو اس لیے قتل کیا تھا کہ اُس کے خیال میں وہ مسلمانوں کے مطالبات کو کچھ زیادہ اہمیت دے رہے تھے اور اُن کی طرف جھک گئے تھے۔
انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر پیدا کرنے کی بھرپور کوشش سے بھارتیا جنتا پارٹی نے کسی بھی مرحلے پر گریز نہیں کیا۔ اس کے باوجود قوم نے بی جے پی کو پسند کیا اور ۲۷ کروڑ ووٹروں نے بی جے پی کو مینڈیٹ سے نوازا جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔
آج کے بھارت میں مسلمانوں کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والے مسائل سے متعلق کتاب کی مصنفہ نازیہ ارم کہتی ہیں ’’پانچ سال قبل جب بھارتیا جنتا پارٹی نے ووٹ مانگے تھے تب اُس کے سامنے ترقی کا ایجنڈا تھا۔ اِس نکتے پر زور دیا گیا تھا کہ بھارت کو نئی زندگی بخشی جائے گی۔ قوم کو یقین دلایا گیا تھا کہ ترقی کا نیا دور شروع ہوگا، جس کے نتیجے میں عوام کو بھرپور زندگی بسر کرنے کا موقع ملے گا۔ ہمیں یقین تھا کہ پانچ سال قبل بی جے پی نے اقتدار ملنے کے بعد جو کچھ کیا تھا اُس کی روشنی میں اِس بار قوم غلطی نہیں کرے گی، یعنی حساب مانگے گی اور ووٹ کے ذریعے فیصلہ سنائے گی۔ مگر افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہم غلطی پر تھے‘‘۔
اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بھارت میں واضح ہندو اکثریت اور مسلم اقلیت کے درمیان کشیدگی رہی ہے اور دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے اندرونی اختلافات بھی کم نہیں رہے، مگر پھر یہ انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ بی جے پی کے گزشتہ دور میں گائے کی حفاظت کے نام پر میدان میں نکلنے والے انتہا پسندوں کے ہاتھوں ملک بھر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ دور میں گائے کی حفاظت کا ذمہ لینے والے انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں ۳۶ مسلمان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
گڑ گاؤں میں دوسرے علاقوں سے آنے والے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ لوگ مقامی فیکٹریز میں ہندوؤں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ گڑ گاؤں صنعتی علاقہ ہے جس میں آئی ٹی کی بہت سی فرمز بھی کام کرتی ہیں۔ اس علاقے میں مسلمانوں کے لیے نماز پڑھنے کی جگہ بھی کم پڑتی جارہی ہے۔ مساجد میں زیادہ گنجائش نہیں، جس کے باعث مسلمان سڑکوں پر یا کھلے مقامات پر نماز ادا کرتے ہیں۔ اس پر بہت سے ہندوؤں کو اعتراض ہے۔ مسلمانوں کو نئی مساجد تعمیر کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی۔
کھلے مقامات پر نماز ادا کرنے کے خلاف مہم چلانے والے ہندو قوم پرست گروپ کے سربراہ راجیو متل کا کہنا ہے کہ ہماری مہم دراصل ٹاؤن پلاننگ کے اصولوں کے مطابق ہے۔ ہم اس بات کے خلاف نہیں کہ مسلمان نماز پڑھیں۔ ہمارا زور اس بات پر ہے کہ وہ مساجد میں یا پھر نماز کے لیے مختص دیگر مقامات ہی پر نماز ادا کریں۔
بھارتیا جنتا پارٹی کے بہت سے کارکن اور قائدین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حال ہی میں ختم ہونے والے نریندر مودی کے پہلے دورِ وزارتِ عظمیٰ کے دوران ہندو مسلم فسادات کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہی۔ اُن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں سے نفرت کی لہر نہیں پائی جاتی۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بہت سی تنظیموں اور گروپس کی رائے البتہ کچھ اور ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پچھلے دورِ حکومت میں مسلمانوں کو نشانے پر رکھنے کی روش پروان چڑھائی گئی اور اُن کے خلاف نفرت میں بھی اضافہ ہوا۔ نریندر مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اُن کے گزشتہ دورِ حکومت میں مجموعی طور پر فضا ایسی رہی کہ مسلم مخالف جذبات کو کھل کر پنپنے کا موقع ملا اور اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مسلمان خود کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ انتہا پسند ہندو اب بہت کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ وہ اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے میں ذرا بھی باک محسوس نہیں کرتے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ساؤتھ ایشین ڈائریکٹر میناکشی گانگولی کہتی ہیں ’’فسادات سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اب کسی بھی وقت کسی بھی مسلمان کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ سبزی بیچنے والے مسلمانوں کو بھی گھیر کر تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ بہت سے مسلمان گھر سے کھانا لے کر نکلتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں گائے کا گوشت چیک کرنے کے نام پر تلاشی لینے کے عمل میں اُنہیں تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ انتہا پسند ہندو یہ محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں کسی بھی معاملے میں اختلافی آواز اٹھانے کا پورا حق ہے اور اس معاملے میں وہ تشدد کی راہ پر گامزن ہونے سے ذرا بھی گریز نہیں کرتے۔ دوسری طرف مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو پورا یقین ہے کہ اگر اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا تو ریاست کسی بھی مرحلے پر مداخلت نہیں کرے گی‘‘۔
حالیہ انتخابی مہم نظریاتی اعتبار سے غیر معمولی تھی۔ کانگریس کے ششی تھرور کہتے ہیں کہ یہ بھارت کے لیے نظریاتی اور روحانی شناخت کا معاملہ تھا۔ اُن کا استدلال ہے کہ بی جے پی نے بھارت کی نظریاتی شناخت کو انتہائی مسخ کردیا ہے۔ نریندر مودی کے پہلے دورِ حکومت میں جو کچھ ہوا، اُس کے مقابلے میں اب بہت زیادہ ہوگا۔ بہت جلد بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہوگا اور ایسے میں انتہا پسندی کا جن پوری طرح بوتل سے باہر آگیا تو خرابیاں بڑھ جائیں گی۔
بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے دور میں بھارتی قوم پرستی جس نوعیت کی تھی وہ اب کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ تب قومی سوچ غالب تھی، جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے پنپنے کی گنجائش تھی اور لوگ تمام باتیں بھول کر بھارت کا سوچتے تھے۔ بی جے پی نے ہندو انتہا پسندی کو اس قدر پروان چڑھایا ہے کہ اب بھارت کا سیکولرازم داؤ پر لگ چکا ہے اور بھارت کے ہندو ریاست ہونے کا بھرپور تاثر ابھر کر سامنے آچکا ہے۔
جواہر لعل نہرو مجموعی طور پر اس بات کے حق میں تھے کہ بھارت میں تمام مذاہب کے لوگ مل کر رہیں اور ملک کی بہبود کے لیے کام کریں۔ دوسری طرف ونایک ساورکر تھے جو اگرچہ ملحد تھے مگر ہزاروں سال سے اس خطے میں بسے ہوئے ہندوؤں کو ملک کی سب سے بڑی حقیقت کے طور پر تسلیم کرانے کے حق میں تھے اور اُن کے نظریے کی روشنی میں بھارت میں صرف ہندوؤں کے لیے گنجائش تھی، مسلمانوں کے لیے ذرا بھی گنجائش نہ تھی۔ ساورکر کے نظریے کے مطابق صرف ہندوؤں کو بھارت کی سرزمین پر رہنے کا حق تھا اور اس کا سبب یہ تھا کہ اُن کے دیوی دیوتاؤں، رسوم و رواج اور ثقافت کا تعلق بھارتی سرزمین سے تھا۔ دوسری طرف مسلم اور مسیحی اُن کی نظر میں بھارت میں رہنے کے حق دار نہ تھے کیونکہ اُن کی مقدس سرزمین عرب تھی یا پھر فلسطین۔ اور یہ کہ اُن کے خدا کی سرزمین بھی بھارت نہ تھی۔
کون ہندوستانی ہے اور کون نہیں، اس حوالے سے ہندوؤں میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ساورکر کی نظر میں صرف ہندوؤں کو ہندوستان میں رہنے کا حق تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہر ہندو کو عسکری تربیت حاصل کرنی چاہیے۔ ان کے نظریات کے مطابق معرض وجود میں آنے والی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سوچ میں اب تھوڑی بہت تبدیلی واقع ہوچکی ہے۔ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے بہت سے اذہان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کو نظر انداز کرکے بھارت کو مکمل تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کی نظر میں مسلمان اور مسیحی بھی اپنے مذہب کے ساتھ ملک کا لازمی حصہ ہیں اور اُنہیں تسلیم کیا جانا چاہیے۔
انتہا پسند اور بنیاد پرست ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ جواہر لعل نہرو نے سیکولر ازم کی بات صرف اس لیے کی تھی کہ مسلمانوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے جاسکیں۔ اُن کے خیال میں مسلمانوں کو شرعی اصولوں کے مطابق شادی کی اجازت دے کر یا کشمیریوں کے لیے زیادہ خود مختاری کا اعلان کرکے صرف ووٹ بٹورے جاسکتے ہیں، بھارت کی حقیقی خدمت نہیں کی جاسکتی۔
آج بھارتی معاشرہ مکمل طور پر تبدیل ہوچکا ہے۔ جواہر لعل نہرو نے ہندو قوم پرستی کی شکل میں ابھرنے والی انتہا پسندی کو کچلنے کے لیے آر ایس ایس پر پابندی سمیت بہت سے اقدامات کیے۔ یہ تمام اقدامات اب کچرا کنڈی کی نذر ہوچکے ہیں۔ آج کے بھارت میں سیکولرازم کے پنپنے کی گنجائش برائے نام دکھائی دے رہی ہے۔ مجموعی سوچ انتہا پسندی کی ہوچکی ہے۔ بی جے پی اس سوچ کو مزید پروان چڑھانے پر تُلی ہوئی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ کبھی کبھی کوئی ہندو مسلم فساد ہو جاتا تھا۔ اب یہ سب کچھ یومیہ بنیاد پر ہو رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جہاں جہاں ہندو اکثریت ہے وہاں مسلم اور دیگر غیر مسلم طلبہ کو واضح طور پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پوری کوشش کی جاتی ہے کہ وہ دب کر رہیں، اُن کی شخصیت مسخ ہوجائے۔ نازیہ ارم نے اپنی کتاب کی تیاری کے لیے درجنوں طلبہ اور ان کے والدین سے گفتگو کی۔ انہیں بتایا گیا کہ تعلیمی اداروں کو انتہا پسندوں نے خصوصی طور پر نشانہ بنایا ہے۔ بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ بہتر انداز سے تعلیم مکمل نہ کرسکیں اور اُن میں مجموعی طور پر خوف کا ماحول برقرار رہے۔ اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروں میں بھی یہی ماحول پنپ رہا ہے۔ ایک دور تھا کہ کسی بھی معاملے پر ہندو مسلم فساد ہوتا تھا تو کچھ دن بعد معاملات معمول پر آجاتے تھے اور سب پھر مل جل کر رہنے لگتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب مسلمانوں میں الگ تھلگ رہنے کا رجحان خطرناک حد تک پروان چڑھ چکا ہے۔ وہ ہندوؤں سے واضح طور پر الگ رہنے پر مجبور ہیں۔ نازیہ ارم کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک چینل اور سوشل میڈیا نے معاملات کو انتہائی بگاڑ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر وقت کوئی نہ کوئی اِشو زندہ رکھا جاتا ہے۔ پوری کوشش کی جاتی ہے کہ ہم آہنگی کی فضا کسی بھی طور پیدا ہی نہ ہو۔ اختلافی اُمور کو ہوا دی جاتی ہے۔ ملک کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہاں تو ہمیشہ کشیدگی ہی برقرار رہتی ہے۔ نازیہ کہتی ہیں کہ بھارت میں بہت کچھ خطرناک حد تک بدل چکا ہے۔ کل تک لوگ ساتھ رہتے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ کھاتے بھی تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب صرف شکوک ہیں، نفرت ہے اور کشیدگی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“India’s Muslims quiver in the new dawn of an emboldened Narendra Modi”. (“theguardian.com”. May 26, 2019)
Leave a Reply