
دنیا بھرکی جمہوری ریاستیں بھارت پر بے باکانہ اعتماد کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ واشنگٹن ہو یا ٹوکیو، کینبرا ہو یا لندن، ہر ایک بھارت کو چین کے مقابل ایک ناقابلِ تردید قوت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ چین اور بھارت، دونوں ایشیائی ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی ایک ارب سے زائد ہے۔ دنیا بھر کا کوئی بھی دوسرا ملک ایک ارب سے زائد باشندوں پر مشتمل نہیں ہے۔ گزشتہ برس امریکا کے محکمہ دفاع نے اپنی پیسیفک کمانڈ کا نام تبدیل کرتے ہوئے انڈو پیسیفک کمانڈ رکھا ہے: جس سے ایک نیا علاقائی سیاسی نقشہ سامنے آتا ہے، جوخطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے بھارت کو چین کے مدِمقابل لانے کا واضح پتا دیتا ہے۔ رواں سال ستمبر میں ٹیکساس ریلی کے موقع پر بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمراہ نظر آئے۔ یورپ بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس کی تحسین کرتا ہے، حقیقت جبکہ اس کے برعکس ہے۔
بھارت میں مغربی سرمایہ کاری اب تزویراتی، جذباتی، ذہنی اور مالی جہتوں پر مشتمل ہے۔ اس سرمایہ کاری سے یقینی طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب نریندر مودی کے بھارت میں اقلیتی حقوق کو لاحق خطرات اور جمہوری اقدار کی پامالی جیسے تاریک پہلوؤں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ رواں سال کے اوائل میں جب سے نریندر مودی پوری قوت سے دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں، ان کی حکومت کے خطرناک پہلو تیزی سے سامنے آنے لگے ہیں۔
رواں برس کے ماہِ اگست کی ۵ تاریخ کو انہوں نے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کی مخصوص آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے شہری حقوق اور آزادیوں کو بری طرح پامال کرنے کا آغاز کیا اور کئی کشمیری رہنماؤں کو کسی بھی عدالتی کارروائی کے بغیر پسِ زنداں ڈال دیا۔ حزبِ اختلاف کی سیاسی قیادت، انسانی حقوق کے کارکنان اور دہلی میں موجود غیر ملکی صحافیوں کو ان علاقوں کا دورہ کرنے سے روک دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کی ریاست آسام میں بھی شہریت کی چھان پھٹک کا عمل شروع کردیا گیا جس سے ریاست کے قریب ۲۰ لاکھ باشندے غیر قانونی مہاجر قرار پاتے ہیں اور جوبھارت میں رہنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ یہ عمل بھی بھارت میں کافی اضطراب کا باعث بن رہا ہے۔ مودی سرکار کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ قدم عدالتِ عظمیٰ کے حکم کی تعمیل میں اٹھایا ہے۔ تاہم اب ان مبینہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے لیے عارضی پناہ گاہ بنانے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
یہ عمل ملک بھر میں پھیلائے جانے کی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ یہ مہم بھارت کی مسلم اقلیت کے لیے انتہائی بھاری ثابت ہوگی۔ بھارتی انتظامیہ ایک نیا قانون لانے کی تیاری میں بھی ہے، جس کے ذریعے ہمسایہ ممالک میں ظلم و جبر سے تنگ فرار شدہ ہندو افراد کو بھارتی شہریت کا حق خود بخود حاصل ہو جائے گا۔ یعنی اس طرح صرف مسلمانوں پر ہی غیر قانونی تارکِ وطن کی تلوار لہراتی رہے گی۔ بھارتی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے بابری مسجد کی جگہ ہندو مندر تعمیر کیے جانے کی اجازت کے فیصلے سے اس احساس میں مزید پختگی آئے گی کہ بھارت کی سیاسی ہوائیں آج کل مسلمانوں کے لیے سازگار نہیں ہیں۔
بھارتی قوم پرست حلقے اگرچہ ذرائع ابلاغ پر کافی پُرجوش دکھائے دیتے ہیں اور وہ نریندر مودی کی بڑھتی ہوئی بے باکی پر اس کی بلائیں لے رہے ہیں لیکن بھارت کے متعدد اہلِ دانش اس صورتِ حال کو خطرناک بتا رہے ہیں۔ امریکا میں مقیم نوبل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات امرتیا سین نے نیو یارکر جریدے کو بتایا کہ ’’ان کے دوست فون پر حکومت پہ تنقید کرنے سے کتراتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’لوگ ڈرے ہوئے ہیں، اس سے پہلے میں نے ایسا کبھی نہیں دیکھا‘‘۔ ایک معروف بھارتی علمی شخصیت پرتاب بھانو مہتا، جنہوں نے بڑھتی ہوئی عدالتی فرماں برداری (اور کسی حد تک ذرائع ابلاغ) کے خطرات کو بھانپ لیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ ’’بھارت کے تمام آزاد اداروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے‘‘۔ اپنے دفاع میں مودی سرکار اپنی واضح مقبولیت کو پیش کر سکتی ہے، رواں سال کے انتخابات میں وہ یہ ثابت بھی کر چکے ہیں۔
حکومت کو اس وقت کاروباری حلقوں کی حمایت بھی حاصل ہے، جو کارپوریٹ ٹیکس میں کمی اور کاروباری مشکلات اور رکاوٹوں کے خاتمے کے حکومتی وعدے پر اس کے احسان مند ہیں۔ غریب افراد کے طرزِ زندگی میں بہتری کے لیے اٹھائے گئے اقدامات، جیسا کہ ٹوائلٹس کی تعمیر وغیرہ کو بہت زیادہ سراہا جارہا ہے، یہ عمل سراہے جانے کے قابل بھی ہے۔ تاہم معیشت اب سست روی کا شکار ہے۔ دہلی اور دیگر کئی بھارتی شہر ہولناک ہوائی آلودگی کا شکار ہیں۔ ان حالات میں یہ رائے بالکل بھی درست نہیں ہے کہ مودی کا طاقتوراور مضبوط انداز معاشی نمو کے لیے کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔
بھارت میں انسانی حقوق کی دگرگوں صورتِ حال پر ٹرمپ انتظامیہ کی معنی خیز خاموشی صرف سفارتی و تزویراتی وجوہات کے سبب نہیں ہے، یہ اس سے کہیں آگے کی بات ہے۔ ٹرمپ اور مودی، دونوں کئی اہم حوالوں سے آئیڈیالوجیکل بھائی ہیں، انہیں اپنے اکثریتی نمائندہ ہونے پر اصرار ہے، اقلیتی حقوق کے بارے میں لبرل طبقوں کی حساسیت کی تحقیر کرتے نظر آتے ہیں، یہ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف سخت اقدامات اٹھائیں گے اور دونوں نے کسی حد تک اپنی سیاسی قوت کو مضبوط کرنے کے لیے اسلامی شدت پسندی کا خوف اپنے عوام میں جاگزیں کرنے کی کوشش کی ہے۔
نریندر مودی کے کئی ایک ہمنوا کہتے ہیں کہ ان کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ وہ ’’عام آدمی‘‘ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح شہری اشرافیہ کی آراء کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ مودی انتظامیہ نے ایک موقف اسرائیل سے بھی مستعار لیا ہے اور وہ غیر ملکی ناقدین کے جواب میں عذر پیش کرتے ہیں کہ ’’وہ انتہائی سخت ہمسایوں میں گھرے ہوئے ہیں‘‘۔ اس بات میں کوئی زیادہ شک نہیں ہے کہ بھارت کے ہمسایہ ممالک بشمول پاکستان، میانمار، سری لنکا اور چین میں اقلیتی نسلی و مذہبی گروہوں کے حالات بھارت سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں، اس کے باوجود بھارت اپنے آپ کو ایک بردبار، برداشت پر مائل اور کثیرالمذہبی جمہوریت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ لیکن مودی انتظامیہ کے ہندو قوم پرستانہ اقدامات سے بھارت کا یہ تاثر خطرے سے دوچار ہے۔ تاہم چین سے خوفزدہ مغرب ابھی کچھ عرصہ مزید بھارت پر مہربان رہے گا۔
یہ بات انتہائی اہم ہے کہ مودی اقدامات پر مغرب کے انتہائی سست ردِ عمل کی کوئی نہ کوئی قیمت چکانا پڑے گی۔ مغرب اس اطمینان بخش سراب میں ہے کہ جمہوری بھارت مطلق العنان چین کے مقابلے میں ایک متبادل آئیڈیالوجیکل ماڈل کے طور پر کام کرے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا لبرل ازم کی طرف جھکاؤ مطلق العنانیت کے عالمی رجحان کو مزید قوت بخشنے جارہا ہے۔
“India’s Narendra Modi has had a free pass from the west for too long”.(“Financial Times”. Nov. 11, 2019)
Leave a Reply