
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک عادت اب سبھی جانتے ہیں۔ وہ پریشانی کو جھٹک دینے کا رجحان رکھتے ہیں۔ بھارت میں پانچ سو اور ہزار کے نوٹ تبدیل کرنے کا عمل کم و بیش پچاس دن جاری رہا۔ ان پچاس دنوں میں کروڑوں افراد پریشانی سے دوچار ہوئے۔ ملک بھر میں لاکھوں، بلکہ کروڑوں سودے بگڑگئے۔ نوٹ بدلوانے کے لیے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر اس کے باوجود نریندر مودی کو یقین ہے کہ ان کی جماعت (بھارتیہ جنتا پارٹی) ماہِ رواں میں ہونے والے ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ مودی نے گزشتہ ماہ اپنی آبائی ریاست میں ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی معیشت سب سے تیزی سے پنپتی ہوئی معیشت ہے اور سب سے زیادہ اوپن بھی ہے۔ حاضرین میں کئی ملکوں کے سربراہ اور کاروباری دنیا کے بڑے نام شامل تھے۔ مودی نے جو کچھ بھی کہا پانچ ہزار سے زیادہ سے مجمع کی طرف سے اُس کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔ امریکا کی ایک بڑی کمپنی کے سربراہ نے کہا کہ بھارت والے اب مودی کو امریکا ’’ایکسپورٹ‘‘ کردیں کیونکہ ہمیں بھی امریکی معیشت چلانے کے لیے ایسی ہی شخصیت درکار ہے۔
نریندر مودی کی باتوں سے اب تک امید جھلک رہی ہے۔ وہ ہر معاملے کو صرف مثبت نقطۂ نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں اور حوصلہ افزا باتیں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک کی اقتصادی حالت کچھ اور ہی فسانہ سنا رہی ہے۔ پانچ سو اور ہزار کے کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کے عمل نے بھارت بھر میں تجارتی اور صنعتی عمل کا دھڑن تختہ کردیا۔ چھوٹے دکانداروں کے ساتھ ساتھ درمیانے حجم کا کاروبار کرنے والوں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کم و بیش ۱۵؍لاکھ تجارتی و صنعتی اداروں کو نوٹ تبدیل کرنے کے عمل کے دوران شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ پورا پیداواری عمل متاثر ہوا۔ ہزاروں یونٹس بند رہے۔ ملک بھر میں پائی جانے والی بے روزگاری مزید شدت اختیار کرگئی۔ ہزاروں چھوٹی بڑی اشیاء کی فروخت میں اتنی کمی آگئی کہ بعض اداروں کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پر مجبور ہونا پڑا۔ گاڑیوں کی فروخت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ بھارت کے آٹھ بڑے شہروں میں ۲۰۱۶ء کی آخری سہ ماہی کے دوران معیشتی سرگرمیوں میں ۴۴ فیصد کی حد تک گراوٹ آئی۔ عالمگیر شہرت کی حامل پراپرٹی فرم ’’نائٹ فرینکل‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ ۸ نومبر کو ۵۰۰؍اور ۱۰۰۰ کے کرنسی نوٹوں کی تنسیخ نے مارکیٹ کو تقریباً ساکت کردیا۔ ملک بھر میں گردش کر رہے کم و بیش ۸۶ فیصد کرنسی نوٹ واپس لینے یعنی تبدیل کرنے کے عمل نے اچھی خاصی خرابی پیدا کی۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مودی سرکار کی طرف سے کرنسی نوٹ منسوخ کرکے تبدیل کرنے کے اقدام نے ملک بھر میں کروڑوں افراد کو شدید مشکلات سے دوچار کیا۔ خاص طور غریبوں کو زیادہ الجھن کا سامنا کرنا پڑا۔ جن کے گھر میں فوری ضرورت کے بیس تیس ہزار روپے تھے، ان کے لیے تو کئی مسائل کھڑے ہوئے۔ کرنسی نوٹ فوری تبدیل نہ کرائے جانے کی صورت میں وہ اپنے بہت سے کام معطل یا منسوخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ابتدا میں تو عوام کو غیر معمولی الجھن کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں نئے کرنسی نوٹ چھاپنے کا عمل تیز ہوا تو بینکوں پر دباؤ بھی کم ہوا اور عوام کو بھی سکون کا سانس لینے کا موقع ملا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس قدر پریشان کن صورت حال کے باوجود نریندر مودی کی مقبولیت میں بظاہر کچھ خاص کمی واقع نہیں ہوئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران انتہائی پرعزم اور پر اعتماد انداز سے کہا تھا کہ میں اگر کسی کو گولی مار دوں تب بھی میرے ووٹ بینک پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوگا، میں ہی جیتوں گا۔ کچھ کچھ ایسا ہی اعتماد نریندر مودی میں بھی دکھائی دیا ہے۔ اس بھرپور اعتماد کا سبب کیا ہے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ کرنسی نوٹ کی تبدیلی کو نریندر مودی کا ایک غلط اقدام تصور کیا جاتا رہا ہے، مگر رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ان کی مقبولیت پر بہت معمولی اثر مرتب ہوا ہے۔
بھارت میں رائے عامہ کے جائزوں کی روایت بہت کمزور رہی ہے۔ ہر اعتبار سے غیر جانب دار اور ٹھوس بنیاد پر کرائے جانے والے رائے عامہ کے جائزے برائے نام ہیں، ویسے آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں رائے عامہ کے دو تازہ جائزوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے حوالے سے پرعزم ہے۔ ان انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کی طرح غیر معمولی کامیابی کے ساتھ ایک بار پھر ماہرین اور تجزیہ کاروں کو حیران کرسکتی ہے۔ بی جے پی نے نومبر سے اب تک کسی بھی ریاست کے بلدیاتی انتخابات میں خراب کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے اور اب ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں بھی وہ انتہائی پر اعتماد ہے۔
کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کے فیصلے سے قبل بھی نریندر مودی نے کئی چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کامیاب ہوکر دکھایا۔ گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے انہیں مطعون کیا جاتا رہا ہے مگر امریکی ریسرچ فرم پیو نے بتایا ہے کہ ۲۰۱۵ء میں نریندر مودی کی مقبولیت ۸۷ فیصد کی قابل رشک سطح پر تھی اور ۲۰۱۶ء میں متاثر ہونے کے باوجود ۸۱ فیصد کی سطح پر رہی۔ یہ معاملہ بہت حد تک ذاتی ہے۔ نریندر مودی اپنی پارٹی یا اس کی پالیسیوں کے مقابلے میں زیادہ مقبول رہے ہیں، یعنی یہ ان کی اپنی شخصیت کا جادو ہے جو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔
بعض سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ نریندر مودی میں جادو ہے جو انہیں تنقید سے محفوظ رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ مودی نے سیاست دان کی حیثیت سے اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کیا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ لوگ کیا سننا چاہتے ہیں۔ وہ سادہ اور غیر مرصّع ہندی میں عوام کی بات کرتے ہیں۔ کرنسی نوٹ کی تبدیلی کے حوالے سے انہوں نے مختلف تقریروں کے ذریعے عوام کو یقین دلایا کہ وہ اُن کے حقوق کے علم بردار اور مالداروں یا دولت کے انبار لگانے والوں کے مخالف ہیں۔ انہوں نے خود کو ٹیکس چرانے والوں کے دشمن کے طور پر بھی شناخت کروایا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے لباس پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ اب تک انہوں نے سادگی کو اپنایا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کی طرف سے عوام میں کوئی بھی ایسا پیغام نہ جائے جو ان کی باتوں اور عمل کے خلاف ہو۔ وہ ماہانہ ریڈیو پروگرام ’’فرام دی ہارٹ‘‘ اور انٹرویوز کے ذریعے اپنا ما فی الضمیر بیان کرتے ہیں۔ انہیں پریس کانفرنس کرنا زیادہ پسند نہیں۔ انٹرویو کی صورت میں وہ اپنی بات زیادہ وضاحت سے اور سادہ زبان میں بیان کردیتے ہیں۔
نریندر مودی اس اعتبار سے بھی خوش نصیب ہیں کہ اُنہیں خاصی غیر متحد، کمزور اور منتشر حزب اختلاف کا سامنا ہے۔ کانگریس نے بھارت پر عشروں تک حکومت کی ہے، مگر اب اس کی صفوں میں انتشار ہے۔ ریاستی سطح پر کرپشن کی باتیں ہیں، نظریاتی شناخت کا مسئلہ بھی توانا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کانگریس میں یہ طے نہیں ہو پارہا کہ گاندھی خاندان کا کردار کس حد تک ہونا چاہیے۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی دیگر جماعتیں بھی خاصی کمزور ہیں۔ کانگریس میں انتشار نہ ہوتا تو شاید دیگر جماعتیں اُس کی چھتری تلے جمع ہوجاتیں۔ مگر اس وقت ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
میڈیا اور عدلیہ کے ذریعے مودی سرکار کو لگام دی جاسکتی ہے مگر اس معاملے میں بھی نریندر مودی خوش نصیب ہیں۔ میڈیا کے بعض ادارے نریندر مودی کے دوستوں کے ہیں۔ دیگر ادارے ایسے کاروباری اداروں کے ہیں جن کے مفادات حکومت سے جُڑے ہوئے ہیں۔ حکومت کو ناراض کرنے کی حماقت یہ کاروباری ادارے نہیں کرسکتے۔ ایسے میں اُن کی ملکیت والے ’’میڈیا آؤٹ لیٹس‘‘ حکومت کے خلاف کیوں کر جاسکتے ہیں؟
حکومت کی ناقص کارکردگی کے حوالے سے آواز بلند کرنے والے صحافی، بلاگر، وسل بلوئر اور سیاسی کارکن اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو لوگ کسی خرابی کی نشاندہی کرتے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ انہیں انٹر نیٹ پر ذلیل کیا جاتا ہے، مقدمات دائر کرکے پریشان کیا جاتا ہے۔ عدلیہ بہت سے معاملات میں حکومت سے ٹکراتی ضرور ہے مگر کوئی بڑا جھگڑا مول لینے سے گریز کرتی ہے۔ ۱۱ جنوری کو سپریم کورٹ نے عوامی مفاد میں دائر کی جانے والی ایک درخواست خارج کردی، جس میں درجنوں سرکاری افسران کی کرپشن کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ بات تو نریندر مودی کے حریف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مودی سرکار پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں کم بدعنوان ہے۔ مگر ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ بہت اچھا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب کچھ اچھا ہے۔ سرمایہ کار صرف وزیراعظم اور حکومت کی مقبولیت نہیں دیکھتے۔ وہ اور بھی بہت سے نکات پر نظر رکھتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بھارت کی حکومت لاکھ دعوے کرے، بھارتی معیشت اب بھی بہت حد تک الجھے ہوئے قوانین کی زَد میں ہے۔ سرکاری افسران سے معاملات طے کرنا آسان نہیں۔ اور پھر کارپوریٹ ٹیکس کی شرح بھی بہت بلند ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“India’s prime minister has a knack for shrugging off embarrassment”.
(“The Economist”. Jan.14, 2017)
Leave a Reply