بھارت کی جمہوریت ،انتہا پسندی کی جانب گامزن

صدر کی تقرری کے لیے بھارت کی بر سر اقتدار جماعت بی جے پی نے اپنے امیدوار کا انتخاب بہت سمجھ داری کے ساتھ کیا ہے: رام ناتھ کووند، جو کہ نا صرف پارٹی کے ایک ہندو اتحادی گروپ کا پرانا جانثارہے بلکہ دلت(ہندو معاشرے کی سب سے حقیر اور نچلی ذات ) بھی ہے۔رام ناتھ پارٹی کی مذہب پرست بنیاد اور دلت( جو بھارت کی آبادی کا۲۰ فیصد ہیں) دونوں کو متوجہ کرے گا۔پارلیمان میں بی جے پی اور ان کے اتحادیوں کی قوت دیکھ کر یہ بات تو واضح ہے کہ ان کی برتری یقینی ہے۔

اپنی حمایت میں اضافہ کے لیے بی جے پی ہمیشہ نئے راستے تلاش کرتی رہتی ہے مگر وہ سارے مثبت نہیں ہوتے۔ صحافی رانا ایوب، جو کہ بی جے پی کی نقاد ہیں،انہوں نے ٹوئیٹر پر امیدوار کے اس انتخاب کو آڑے ہاتھوں لیا اور تنقید کا نشانہ بنایا۔پارٹی کے نمائندے نے۸ گھنٹے سے بھی کم وقت میں پولیس میں رپورٹ درج کروادی اور پارٹی کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ ذات پات کے نظام کی بنیاد پر نفرت پھیلا رہی ہیں حالانکہ ٹویٹ میں ایسی کوئی بات موجود نہیں تھی۔

نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے تواتر کے ساتھ ریاستی و قومی سطح پر انتخابی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ حزب اختلاف اس وقت الجھن کا شکار ہے،۲۰۱۹ء میں بھی بی جے پی کی جیت کے آثار نمایاں ہیں۔مگر بی جے پی تنقید کے معاملے میں بہت حساس نظر آتی ہے۔

پریس کی جانب سے نریندر مودی کے لیے پریشانی کے محرکات نہ ہونے کے برابر رہے ،کیوں کہ بھارتی ذرائع ابلاغ کے با اثر افراد بی جے پی کے چاہنے والوں میں سے ہیں اور اکثر حکومت کی حمایت پر مجبورہیں۔کیوں کہ حکومتی اشتہارات کے لیے کوئی خاص قانونی حد نہیں اور نہ ان پر کوئی خاص نگرانی ہے۔ مودی صاحب کی تصویر ہر جگہ موجود ہے: بل بورڈ پر، اخبارات میں، ٹی وی پروگراموں میں، اخبارات خصوصی اشاعت چھاپ رہے ہیں، جن میں نریندر مودی کے ترقیاتی کاموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ جون کے پہلے ہفتے میں ٹی وی پر چلنے والے پانچ بڑے اشتہارات میں سے ۳ وہ تھے جن میں حکومت کے ترقیاتی کاموں کا ذکر تھا، اور یہ اشتہار تقریباً تیس ہزار کی تعداد میں چلائے گئے۔ تو ایسے منافع کو چھوڑنا میڈیا والوں کے لیے آسان نہیں۔

صرف میڈیا ہی تنہا نہیں بلکہ سی بی آئی، وزارت مالیات ، ٹیکس حکام اور یہاں تک کہ مقامی پولیس پربھی حکومت کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔جب سے عام آدمی پارٹی نے ۲۰۱۵ء کے انتخابات میں مقامی اسمبلی میں کامیابی حاصل کی ہے، تب سے اس کے سربراہان کو مختلف قسم کی قانونی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں ان کی بہترین اصلاحات نے بہت داد وصول کی، مگر د ہلی حکومت کو انتظامی امور کے لیے بیوروکریٹس نہیں مل رہے کیوں کہ کوئی بھی اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ بی جے پی نے رواں سال کے آغاز میں عام آدمی پارٹی کو دہلی کے میونسپل انتخابات میں شکست دی تھی، کیوں کہ ووٹروں نے ان کا ساتھ چھوڑ کر اس پارٹی (بی جے پی) کی حمایت شروع کردی، جسے کام کرنے کے لیے زیادہ مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

جون کے آغاز میں سی بی آئی نے این ڈی ٹی وی(ٹی وی چینل جو حکومتی نمائندوں اور اس کے تنقید نگاروں کو اپنا موقف پیش کرنے کے لیے یکساں موقع فراہم کرتا ہے ) کے مالکان کی جائیدادپر چھاپے مارے۔ ایجنسی کے مطابق یہ تحقیقات اس قرضے کے حوالے سے تھیں جو چینل نے ۹سال قبل لیا تھا۔ اسے چند مہینوں میں ہی اتار دیا گیا تھا اور بینک کو کوئی شکایت بھی نہیں تھی، مگر ان کا اصرار تھا کہ بینک کو مزید منافع وصول کرنا چاہیے۔ بعض مبصرین کے مطابق یہ کوئی اتفاق نہیں تھا، کیوں کہ چھاپوں سے چند روز قبل ہی بی جے پی کے ایک نمائندے نے چینل پر دورانِ گفتگو حکومت مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کا الزام عائدکیا تھا۔

قانون نافذ کرنے والے ایک اور ادارے کی جانب سے بھی این ڈی ٹی وی کو تحقیقات کا سامنا ہے۔دہائی قبل ایک عالمی کمپنی، GE نے چینل کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر ۱۵۰ ملین ڈالر کے شئیرز خریدے تھے۔یہ منصوبہ ناکام رہا اور کمپنی کو نقصان ہوا ۔ بھارت کی مالیاتی کمیشن(اداروں) نے اس معاملے کو ایک بین الاقوامی سطح کا منی لانڈرنگ کیس سمجھا اور ان کی خواہش تھی کہ اس پر چینل کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔

یہ تیزی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حکومت کے ان حامیوں اور ہندو انتہا پسندوں کے خلاف نہیں دکھائی جو گزشتہ کئی ماہ سے جبری طریقوں کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کے متاثرین بھارت کی آبادی کا ۱۴؍فیصد مسلم اقلیت ہیں،جن میں تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے جانوروں کے تاجر شا مل ہیں ،یا پھر کرکٹ کے وہ شائقین جو غلط ٹیم کے لیے نعرے بلند کررہے تھے ۔انڈیا پاکستان کے فائنل میچ کے بعد ۲۱؍ افراد پر ان کے پڑوسیوں کی جانب سے مقدمہ کیا گیا کہ وہ جشن منا رہے تھے۔ان پر colonial sedition law کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور ریمانڈ پر حراست میں لیا گیا۔

نریندر مودی پر عوامی جذبات کوبھڑکانے کا الزام نہیں لگایا جاسکتا،مگر ان کی حکومت نے قومی و ریاستی سطح پر ایسے قوانین کا اجرا کیا ہے، جن سے انتہاپسندی کو تقویت مل رہی ہے۔ جیسے کہ مویشیوں کی تجارت پرپابندی عائد کردی گئی ہے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ تاج محل’’ بھارت کی تہذیب و ثقافت ‘‘کی نمائندگی نہیں کرتا، کیوں کہ یہ سترہویں صدی میں ایک مسلمان بادشاہ نے اپنی بیوی کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ بعض اقلیتی اور سیکولر طبقے خوفزدہ ہیں کہ بھارت کی سالمیت خطرے میں ہے۔ دہلی کی ایک سوسائٹی کی میزبان کا کہنا ہے کہ ’’ہم پاکستان جیسے ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔

مودی کی اس انتہا پسندی پر عدم توجہی کی ایک وجہ وہ دباؤ ہے جو ان پراس بنیاد پرست ہندو تنظیم کی جانب سے ہے جس سے وہ خود تعلق رکھتے ہیں۔ مذہبی ہندو انتہا پسندوں نے پچھلی دہائیوں میں سیکولر طبقے کے خلاف جدوجہد کے ذریعے اپنے آپ کو مستحکم کیا ہے۔ اور انہوں نے مودی کی انتخابی مہم میں بھرپور کردار ادا کیا ۔ اب وہ اپنا حصہ لینا چاہتے ہیں۔

(ترجمہ: عبدالرحمن کامران)

“India’s raucous democracy is becoming more subdued”. (“The Economist”. June 24, 2017)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*