
خود مختار نیپال میں بحرانوں کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ نیپال کو اس حال تک پہنچانے میں سب سے بڑا ہاتھ بھارت کی سازشوں کا ہے۔ حکومت کی صفوں میں غداروں کی موجودگی بھارتی مفادات کی تکمیل میں غیر معمولی حد تک معاون ثابت ہو رہی ہے۔ اس میں بہت حد تک حکومت کا بھی قصور ہے کہ وہ قومی مفادات کے دفاع کے حوالے سے خاطر خواہ حد تک بیدار نہیں رہی۔ ۱۹۵۰ء سے اب تک بھارت نیپال میں اپنے گماشتوں کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ نیپال ہر معاملے میں اس کا دست نگر ہوکر رہے۔ بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کی کوشش رہی ہے کہ ہمالیہ کی ترائی کی ریاستیں بھارتی مفادات کی نگران اور نگہبان رہیں۔ بھارتی حکمران جماعت کانگریس کے قائدین اپنے آپ کو ڈیموکریٹ سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہیں اپنے پڑوس میں پاکستان، نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی ترقی کسی طور گوارا نہیں۔
۱۹۵۰ء میں بھارت اور نیپال کے درمیان کئی معاہدے ہوئے جن کے نتیجے میں نیپال آج تک کمزور چلا آ رہا ہے۔ نیپال کے عوام اپنی مرضی کے مطابق حکومت منتخب نہیں کرسکتے ہیں۔ وہ مختلف گروہوں میں منقسم ہیں۔ بھارت سے طے پانے والے معاہدوں میں آئین ساز اسمبلی کے قیام کا نکتہ بھی شامل تھا۔ بھارت نے بظاہر نیپال کو انقلابی دور میں حمایت سے نوازا تاہم در حقیقت وہ اس ملک کو غلام بنانا چاہتا تھا۔ بھارت نے وزیر اعظم رانا موہن شمشیر کو مشکل گھڑی میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ ایک وفد بھی بھیجا گیا جس کے نتیجے میں جولائی ۱۹۵۰ء میں ایک خفیہ معاہدہ ہوا۔ چار ماہ بعد بھارت نے نیپال کے بادشاہ تری بھون کو فرار ہوکر دہلی پہنچانے میں مدد کی اور یوں ۱۹۵۰ء کا وہ معاہدہ ہوا جس نے نیپال کی سیاست اور قومی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آئین ساز اسمبلی کا قیام بھارت کے ایجنڈے پر سر فہرست تھا۔ بھارت نے رانا، بادشاہ اور نیپالی کانگریس کے سامنے متضاد سفارشات رکھیں جن کا بنیادی مقصد ان کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنا تھا۔
نیپال کی محب وطن قوتیں بھارتی طویل المیعاد عزائم کو بروئے کار لانے میں دیوار ثابت ہوئیں۔ انہوں نے بھارتی عزائم پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ نیپالی کانگریس کے لیڈر بی پی کوئیرالہ نے ملک کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ رائے دی کہ آئین کی تشکیل کے لیے آئین ساز اسمبلی تشکیل دینا لازم نہیں۔ نیپال کی قوم پرست قوتیں جاگ اٹھیں اور چین کا اثر و رسوخ بھی بڑھا، جس کے نتیجے میں بھارتی عزائم کی راہ میں دیوار کھڑی ہوئی اور آئین ساز اسمبلی کے قیام کی راہ مسدود ہوئی۔ نیپال کی محب وطن قوتیں کسی بھی بیرونی سازش یا مداخلت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے بے تاب تھیں۔
۵۹۔۱۹۵۸ء میں بادشاہ، سیاسی رہنمائوں اور محبت وطن قوتوں نے نیپال کے آئین کی تشکیل کا اعلان کیا اور پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے۔ نیپالی کانگریس نے دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ لوگوں نے اس جماعت کو یہ سوچ کر ووٹ دیے کہ یہ بادشاہ کی حامی ہے۔ بی پی کوئیرالہ وزیر اعظم بن گئے۔ وزیر اعظم اور بادشاہ میں مکمل ہم آہنگی دکھائی دی۔ ۱۹۵۹ء میں نیپال کے شاہ مہیندرا اور بی پی کوئیرالہ نے ملک کے دورے شروع کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دوروں میں ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی تھی۔ ان دوروں کے نتیجے میں دونوں کی دوستی مضبوط ہوگئی۔
بھارت نے بی پی کوئیرالہ سے دیرینہ مراسم کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور نیپال میں بھارت کے فوجی کیمپ کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ آبی وسائل پر کنٹرول بھی حاصل کیا۔ دوسری طرف نیپالی کانگریس میں کرپشن نے راہ پائی۔ اس کے کارکنان نے دیہی علاقوں میں دہشت کا بازار گرم کیا۔ جمہوری اقدار کے ساتھ ملک کو چلانا دشوار تر ہوتا گیا۔ پولیس اور انتظامیہ دہشت اور ناانصافی کا یہ تماشا خاموشی سے دیکھتی رہی۔ اگر کبھی کوئی شکایت درج کرائی جاتی تو کسی نہ کسی جعلی دستاویز کی مدد سے ملزم کو چھڑا لیا جاتا۔ جو بھی نیپالی کانگریس کی زیادتی کے خلاف آواز اٹھاتا اس پر تشدد ڈھایا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی دن بہ دن بدنام ہوتی گئی اور عوام اس کی حمایت سے دستبردار ہوتے گئے۔ ۱۹۶۱ء میں شاہ مہیندرا نے بھارتی مداخلت کی راہ روکنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ یہ اقدامات نیپالی کانگریس کے خلاف نہ تھے۔ نیپال کی قومی شناخت کو مستحکم کرنے پر خاص توجہ دی جانے لگی۔
بھارت نے نیپال کے معاملات میں مداخلت سے گریز کی راہ پر گامزن ہونا گوارا نہ کیا اور ۱۹۶۲ء میں بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے نیپالی کانگریس کے دوسرے بڑے لیڈر سبرنا شمشیر کو نیپال کے بادشاہ اور قومی شناخت کے خلاف عسکری مہم شروع کرنے کا آل انڈیا ریڈیو سے اعلان کرنے کی اجازت دی۔ ۱۹۴۷ء میں بھارت کی آزادی کے بعد انگریز تاجروں نے بہت سی املاک سبرنا شمشیر کو فروخت کی تھیں۔ ان پر سبرنا کو پچاس ملین تک ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ نہرو نے ٹیکس میں چھوٹ دے دی اور سبرنا نے وفادار رہنے کا وعدہ کیا۔ بھارت نے ۱۹۶۲ء میں جنوبی نیپال میں خونیں بغاوت کے لیے ہتھیار فراہم کرنا شروع کردیے۔ قوم پرستی اور قومیت کے مخالفین کے خلاف لڑائی میں نیپال کے عوام نے شاہ مہیندرا کا ساتھ دیا۔ ۱۹۶۲ء میں جب چین نے بھارت پر حملہ کیا تب نہرو نے اپنا پاؤں دوبارہ اپنی حدود میں کرلیا یہ بھارت کی گھنائونی سازش کی تاریخ ہے۔
نیپالی کانگریس کی نا اہل اور کرپٹ قیادت کے باعث ۱۹۹۶ء میں ماؤ نواز باغیوں نے سر اٹھایا۔ باغیوں نے شاہ مہیندرا سے ۱۹۹۹ء میں ایک معاہدے کی بات بھی کی۔ مگر یہ بات بھارت کو گوارا نہ تھی۔ اس موقع پر ’’را‘‘ نے ایک بار پھر نیپال کے معاملات میں مداخلت کا آغاز کیا۔ نیپالی کانگریس کے بھارت نواز رہنماؤں، باغیوں میں بھارت کی طرف جھکاؤ رکھنے والوں اور دوسرے عناصر سے کہا گیا کہ وہ مل جائیں۔ اور پھر ۲۰۰۵ء میں ان کے درمیان ایک ۱۲ نکاتی معاہدہ طے پاگیا۔
ماؤ نواز باغیوں نے نیپالی کانگریس اور یو ایم ایل کو فرنٹ پر رکھ کر بھارت کی مدد سے احتجاج شروع کیا۔ ماؤ نواز عناصر توسیع پسندی اور استعماریت کے مخالف قرار دیے جاتے ہیں تاہم انہوں نے بھارت کے ساتھ جو بارہ نکاتی معاہدہ کیا اس کے نتیجے میں وہ خود بھارت کے ایجنٹ اور کٹھ پتلی بن کر رہ گئے ہیں۔
شاہ مہیندار کی طرح ان کے بیٹے شاہ بریندرا بھی نیپال کے معاملات میں بھارت کی مداخلت کے شدید مخالف تھے اور یہی سبب ہے کہ بھارت کی حکمراں جماعت کانگریس ان سے ناراض رہی۔ بھارت کے معروف جریدے ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ نے ایک بے بنیاد رپورٹ شائع کی جس میں نیپال کی ملکہ ایشوریہ پر تامل باغیوں کو ۵۰ ملین رقوم فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اگر راجیو گاندھی تامل باغیوں کے ہاتھوں خود کش حملے میں ہلاک نہ ہوئے ہوتے تو بھارت شاہ بریندرا پر سری لنکا میں خانہ جنگی کو ہوا دینے اور تامل باغیوں کی مدد کا الزام بھی عائد کرچکا ہوتا۔ بھارت کی حکمراں جماعت کانگریس اور خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے نیپال کے خلاف نفرت کو پروان چڑھایا اور عالمی برادری میں اسے تنہا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ آثار بتاتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نیپال کے معاملے میں ویسی تنگ نظر نہیں جیسی کانگریس (آئی) ہے۔
بھارت کا شمار دنیا کے بدعنوان ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کے لیڈروں نے بیرون ملک اکاؤنٹس میں چارہزار ارب ڈالر جمع کرا رکھے ہیں۔ بھارتی خفیہ ادارہ اندرونی معاملات کو درست کرنے کے بجائے نیپال کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ جمہوریت کو فروغ دینے کے نام پر نیپال کے معاملات خراب کیے جارہے ہیں۔
۲۰ جنوری ۲۰۱۱ء کو نیپال کے غدار لیڈروں میں سے ایک جھلا ناتھ کھنال کو سُنساری میں ایک عام آدمی نے تھپڑ رسید کردیا۔ جس نے بھی یہ خبر سنی اس نے مسرت محسوس کی۔ کسی نے بھی دکھ کا اظہار نہیں کیا۔ بہتوں نے تو دیوی پرساد ریگمی کو مبارکباد بھی دی۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کی نظروں میں سیاست دانوں کی کیا وقعت رہ گئی ہے۔ ۲۰۰۵ء کے بعد نیپال میں کوئی بھی ایسی قوت نہیں رہ گئی جو سیاست دانوں کو بھرپور کرپشن سے روک سکے۔ ۱۰ فروری ۲۰۱۱ء کو جھلاناتھ کھنال ماؤ نواز باغیوںکی مدد سے وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر پارلیمنٹ کے اندر یا باہر سیاسی جماعتوں اور کمیونسٹوں کے درمیان اتفاق رائے میسر نہ آسکا۔ ایوان میں اکثریت حاصل کرنے پر بھی جھلا ناتھ کھنال کی بات نہ بن سکی۔ اور پھر انہیں مستعفی ہونا پڑا۔ ان کے مستعفی ہونے کے بعد ماؤ نواز لیڈر بابو رام بھٹا رائے نے ۲۹ اگست ۲۰۱۱ء کو وزیر اعظم کا منصب سنبھالا۔ اس سلسلے میں ماؤ نواز عناصر کو بھارت نواز میدھیشی پارٹی کی حمایت حاصل رہی۔
ڈاکٹر بابو رام بھٹا رائے ’’را‘‘ کی ہدایت کے تحت کام کرنے والے جارحانہ مزاج کے کمیونسٹ ہیں۔ تباہ کن قوم دشمن ایجنڈے کے باعث ان کا شمار ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنہیں لوگ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے لیے بابو رام بھٹا رائے نے ترائی میں بنیاد رکھنے والی میدھیشی پارٹی سے ہاتھ ملایا ہے اور چار نکاتی معاہدے پر اتفاق کیا ہے۔ یہی غلطی ان کے سیاسی زوال کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ میدھیشی پارٹی کو خوش کرنے کے لیے جے این یو نئی دہلی کی پیداوار بابو رام بھٹا رائے نے نیپال کی قومی شناخت کو نظر انداز کیا ہے اور ساتھ ہی بیشتر نیپالیوں کے جذبات اور احساسات کو بھی۔ نومبر ۲۰۰۵ء میں سات پارلیمانی جماعتوں کے اتحاد (ایس پی اے) اور ماؤ نواز باغیوں نے ایک بارہ نکاتی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کا بنیادی مقصد نیپال کو جمہوری ریاست میں تبدیل کرنا تھا۔ اس کے نتیجے میں اپریل ۲۰۰۶ء میں عوامی تحریک چلی جس کے نتیجے میں ایک آئین ساز اسمبلی معرض وجود میں آئی اور بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ ایک معروف بھارتی پروفیسر ایس ڈی منی نے کہا کہ بھارت نے بابو رام بھٹا رائے کو سیاسی محاذ پر آگے بڑھاکر اور وزیر اعظم کے منصب تک پہنچاکر اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کیا ہے اور نیپال کے سیاسی اور معاشرتی استحکام کو بابو رام بھٹا رائے کی کامیابی سے وابستہ کرنا بھارت کا بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی ترجیح اول تو پی ایل اے کے ارکان کو سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہونی چاہیے۔ (یونائٹیڈ وی بلاگ، فار اے ڈیموکریٹک نیپال، ۳۰ اگست ۲۰۱۱ء)
بھارت دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنے کی راہ پر گامزن ہے اس لیے اس کی اپنی شکست و ریخت کے آثار بھی نمایاں ہیں۔ راجیو ملہوترہ اور اروندن نیلاکندن نے اپنی کتاب ’’بریکنگ انڈیا‘‘ میں لکھا ہے کہ بھارت کی سالمیت کو تین عالمی نیٹ ورکس سے خطرہ ہے جو بھارت میں بہت عمدگی سے کام کر رہے ہیں۔ اول پاکستان سے منسلک اسلامی انتہا پسندی، دوم چین کے تعاون اور نیپال جیسے ممالک کی وساطت سے کام کرنے والے ماؤ اور مارکس نواز عناصر اور سوم مغربی جانب سے انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کے نام پر سرگرم جنوبی بھارت کے دراویڈین اور دلت گروپ۔ اس کتاب میں مغربی ممالک، چرچوں، تھنک ٹینکس، انسانی حقوق کے گروپس اور بعض امدادی تنظیموں کی مدد سے دراویڈین اور دلت لوگوں کو باقی بھارت سے الگ کرنے کی کوششوں پر زیادہ روشنی ڈالی گئی ہے۔
۱۹۵۰ء سے ۲۰۱۱ء تک کے حالات کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بدعنوان، نا اہل اور بھارت نواز سیاسی قائدین کی بد اعمالیوں سے بحرانوں کی راہ ہموار ہوتی رہی اور بھارت کو مداخلت کے مواقع ملتے رہے۔ نیپال میں آئین کئی بار مرتب کیا گیا ہے۔ مگر سیاسی قیادت کی بد اعمالیوں کے باعث کسی بھی آئین کو مکمل طور پر نافذ کیا جاسکا نہ مقبولیت دلائی جاسکی۔ ۲۰۰۵ء کی عوامی تحریک بھارتی ایماء پر چلائی گئی جس کا بنیادی مقصد آئین ساز اسمبلی کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھا۔ اس اسمبلی کے قیام کے لیے انتخابات منعقد ہوئے۔ اس عوامی تحریک کے ایجنڈے میں سیکولر ازم، فیڈرل ازم یا ری پبلکن ازم شامل نہیں تھا۔ امریکا اور بھارت کے خفیہ اداروں ’سی آئی اے‘ اور ’را‘ نے نیپال کے لالچی اور دولت کے بھوکے سیاسی قائدین کو خفیہ فنڈ فراہم کیے اور انہوں نے قیمت لے کر ان کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری قوم ڈوب رہی ہے۔ ’’ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘‘ کے مصداق ہماری قوم کو یہ نہیں پتا کہ ہمارا مقصد کیا ہے؟ بادشاہت اور جمہوریت کا امتزاج؟ جمہوریہ یا عوامی جمہوریہ؟ کسی بھی سیاسی رہنما کا ذہن اپنے حتمی مقاصد کے حوالے سے واضح نہیں۔
اگر ہم۔۔ نیپالی عوام اور جمہوری دنیا یہ چاہتے ہیں کہ نیپال میں حقیقی جمہوریت قائم ہو اور استحکام آئے تو اس کے لیے ہمیں متحرک ہونا پڑے گا۔ کسی بھی قوم پر محض طاقت یا جبر کے ذریعے حکومت نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں اس بحران کا کوئی نہ کوئی قابل قبول حل تلاش یا وضع کرنا ہوگا۔ اگر ہم ملک میں حقیقی استحکام چاہتے ہیں تو آئین ساز اسمبلی ختم کرکے تمام سیاسی جماعتوں اور علاقوں کی نمائندگی پر مشتمل قومی حکومت تشکیل دینا ہوگی۔ اور بہتر ہے کہ یہ سب کچھ ۱۹۹۰ء کے آئین کے تحت ہو۔ ایسا کرنے سے ایسے پارلیمانی انتخابات کی راہ ہموار ہوگی جن میں تمام جماعتوں کو نمائندگی دی گئی ہو۔ منتخب پارلیمنٹ میں ہم نیا آئین مرتب کرسکتے ہیں۔ اگر ہم غیر یقینی صورت حال میں آئین تیار کرنے پر بضد رہیں گے تو قوم کو شش و پنج ہی میں مبتلا رکھیں گے۔
جن سیاست دانوں کی نیت کا اعتبار نہیں، کردار پر کسی کو بھروسہ نہیں ان کے تیار کیے ہوئے آئین کی کوئی وقعت بھی نہ ہوگی۔ ایسے قائدین قوم پر بہتر انداز سے حکمرانی بھی نہیں کرسکتے۔ ہماری اپیل ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپریل ۲۰۰۶ء میں شاہ بریندرا سے طے پانے والے معاہدے سے رجوع کریں تاکہ ۱۹۹۰ء کے آئین کی روشنی میں ایک کل جماعتی کابینہ معرض وجود میں لائی جاسکے اور نئے انتخابات کی راہ ہموار ہو۔ سیاسی توازن قائم کرنے کے لیے لازم ہے کہ قومی شناخت، بادشاہت اور جمہوریت کے اداروں میں ہم آہنگی کو فروغ دیں۔ ہمیں تمام بیرونی سازشوں کو ناکام بنانے کے حوالے سے ہر وقت ہوشیار رہنا ہوگا اور قوم کو درست سمت فراہم کرنا ہوگی۔ سیاسی بحران کے حل کے سلسلے میں مزید متبادل تلاش کرنا خود کشی کے مترادف ہوگا۔
(درگھا راج پرسائے پارلیمنٹ کے سابق رکن ہیں۔ موصوف سے dirgarajparsai@gmail پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)
(بشکریہ: ہفت روزہ “Blitz” ڈھاکا۔ ۲۱ ستمبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply