بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک بار پھر مندر کی سیاست شروع کردی ہے۔ ۲۰۱۹ء میں عام انتخابات ہونے ہیں۔ اس سے قبل بی جے پی چاہتی ہے کہ عام ہندوؤں کے جذبات کو اپیل کرنے والی باتیں کرکے ووٹ بینک کو کسی نہ کسی طور برقرار رکھا جائے۔ بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت کو مختلف نعروں کے ذریعے ایک طرف دھکیلا جاتا رہا ہے۔ جن اہم معاملات کو بنیاد بناکر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے، اُن میں رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کا معاملہ بھی نمایاں ہے۔
………………………………
اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں منعقد کی جانے والی ایک ریلی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایودھیا میں جہاں بابری مسجد ہوا کرتی تھی وہاں رام جنم بھومی مندر تعمیر کرنے کے حوالے سے خصوصی آرڈیننس جاری کیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کی قیادت میں اقتدار کے ساڑھے چار سال مکمل کرنے والی حکومت کو اب تسلسل سے ہم کنار رہنے کے حوالے سے حزب اختلاف کے ہاتھوں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ بی جے پی محسوس کرتی ہے کہ آئندہ سال کے عام انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کرنا آسان نہ ہوگا۔
ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، روزگار کے مواقع کی کمی، کسانوں میں پایا جانے والا شدید اضطراب اور معاشرے میں ذات پات کی بنیاد پر موجود تقسیم کے حوالے سے شدید انتشار … یہ سب مل کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
۲۰۱۴ء کے عام انتخابات میں عوام نے کانگریس کی قیادت میں یونائٹیڈ پروگریسیو الائنس کی حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہوکر بی جے پی کو مینڈیٹ سے نوازا تھا۔ بی جے پی کی قیادت نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ معاملات کو درست کیا جائے گا، اچھے دن یقینی بنائے جائیں گے۔ بہر کیف، اب یہ بالکل واضح ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ایک بار پھر منتخب ہونے کے لیے رام جی کا سہارا لے رہی ہے۔ بات پھر مندر کی سیاست تک آگئی ہے۔
انتہا پسندی کی سوچ کے ساتھ سیاست کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے اب سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ سپریم کورٹ کہتی ہے کہ وہ یہ طے کرے گی کہ کون سا بینچ کب رام جنم بھومی مندر کی تعمیر کے کیس کی سماعت کرے گا۔ جنوری میں سماعت کا امکان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل رام جنم بھومی مندر کی تعمیر سے متعلق کیس کا حتمی فیصلہ متوقع نہیں۔
۲۰۱۴ء کے بعد سے اب تک بھارتیہ جنتا پارٹی کو ضمنی انتخابات میں شکست کا سامنا رہا ہے۔ حال ہی میں جنوبی ریاست کرناٹک کے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو غیر معمولی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ اب پارٹی میں اس حوالے سے شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ یہ خیال کھل کر ظاہر کیا جارہا ہے کہ عام انتخابات میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس حوالے سے ابھی سے تیاری کرنا پڑے گی۔ بی جے پی نے پہلے بھی رام مندر کی سیاست کے کاندھے پر سوار ہوکر اقتدار کے ایوان تک سفر کیا تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ پارٹی پھر مندر کی سیاست کو گلے لگانے کی تیاری کر رہی ہے۔ چار پانچ سال کے دوران بھارت میں ہندو انتہا پسندی کی لہر رہی ہے۔ بی جے پی نے بظاہر پوری تیاری کرلی ہے کہ رام جنم بھومی مندر کے ایشو کو آئندہ عام انتخابات تک بھرپور توجہ کے ساتھ زندہ رکھا جائے اور عوام کے ذہنوں پر دوبارہ مسلط کیا جائے۔ کانگریس اور دیگر جماعتوں نے رام جنم بھومی مندر کے معاملے میں کھل کر موقف نہیں اپنایا۔ بی جے پی رام مندر ایشو کے معاملے پر دیگر سیاسی جماعتوں کے مبہم اور تذبذب پر مبنی رویے کو اپنی مرضی کے مطابق اپنے مفاد کے لیے بروئے کار لانا چاہتی ہے۔
رام مندر کے مسئلے پر بی جے پی کو مزید مضبوط ہونے کا موقع اس لیے ملا ہے کہ کانگریس نے ہندُتوا کے ایجنڈے پر خاصی نرمی اور کمزوری دکھائی ہے۔ کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی کو ’’جنیو دھاری‘‘ برہمن کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ بی جے پی نے مذہبی معاملات میں کانگریس کے کمزور موقف سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ کانگریس کو بھارت میں GOP (گرینڈ اولڈ پارٹی) کی حیثیت حاصل ہے۔ بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ مذہب کے معاملے پر کھل کر سامنے نہیں آسکتی۔ ہندُتوا کبھی کانگریس کا ایجنڈا نہیں رہا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہمیشہ یہ نکتہ ذہن نشین رکھا ہے کہ کانگریس نے اقلیتوں کو ساتھ ملاکر چلنے کی کوشش کی ہے۔ بی جے پی کی طرف سے یہ بات زور دے کر کہی جاتی رہی ہے کہ کانگریس نے ہمیشہ اکثریت یعنی عام ہندوؤں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں تساہل اور تغافل کا مظاہرہ کیا ہے۔ کانگریس نے رام مندر کے انتہائی حساس ایشو پر بھی عام ہندوؤں کے جذبات کو اپیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اب بی جے پی اس صورتِ حال کا پھر بھرپور فائدہ اٹھانے کی تیاری کر رہی ہے۔
بی جے پی کے ناقدین اور غیر جانب دار مبصرین کہتے ہیں کہ رام مندر کی سیاست سے بی جے پی کو فائدہ ضرور پہنچے گا مگر بہت زیادہ نہیں، کیونکہ دیہی آبادی کو رام مندر کی تعمیر سے زیادہ اس بات سے غرض ہے کہ پینے کا صاف پانی ملے، صحت کی بنیادی سہولتیں ملیں، تعلیم کا بہتر انتظام ہو، بجلی آئے، ایندھن ملے، سڑکیں تعمیر کی جائیں اور کسانوں کے معاشی مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے تاکہ اُن میں خود کشی کا رجحان کمزور پڑے۔
وزیر مملکت برائے صحت و خاندانی بہبود انوپریہ پٹیل نے پارلیمان کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں ایک تحریری جواب میں کہا تھا کہ ملک بھر میں بنیادی صحت کے ۲ء۶۱ فیصد مراکز ایسے ہیں، جن میں صرف ایک ڈاکٹر تعینات ہے اور ۶۹ء۷ مراکز ایسے ہیں، جن میں کوئی ڈاکٹر تعینات نہیں۔ ۲۰۱۷ء کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر میں غذائی قلت سے دوچار بچوں کی نصف تعداد بھارت سے تعلق رکھتی ہے۔ بھارت صحت کے شعبے پر خام قومی پیداوار کا صرف ایک اعشاریہ دو فیصد خرچ کرتا ہے جو ضرورت سے بہت کم ہے۔
فراہمی و نکاسیٔ آب سے متعلق امور پر کام کرنے والے ادارے ’’واٹر ایڈ‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت کے دیہی علاقوں میں کم از کم ۶ کروڑ ۳۴ لاکھ افراد پینے کے صاف پانی تک رسائی سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ یہ تعداد کسی بھی ملک میں پینے کے صاف پانی تک رسائی سے محروم افراد کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
کسانوں کے خراب حالات بھارت کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۹۹۸ء سے اب تک ۳ لاکھ سے زائد کسان مالی مشکلات سے تنگ آکر خود کشی کرچکے ہیں۔ موسمی حالات کی خرابی سے فصل کے بگڑ جانے پر قرضے ادا کرنے کے قابل نہ رہنے والے کسان خود کشی کرلیتے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی جامع حکمتِ عملی اب تک مرتب نہیں کی جاسکی ہے۔ گزشتہ برس حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ۲۰۱۳ء سے اب تک ۱۲؍ ہزار سے زائد کسان خود کشی کرچکے ہیں۔
بھارت میں اب تک خام قومی پیداوار بڑھانے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ مجموعی قومی پیداوار کا بڑھنا کسی بھی اعتبار سے بھرپور قومی ترقی کا ضامن نہیں ہوا کرتا۔ سوال پالیسیوں میں توازن کا ہے۔ بی جے پی کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ بنیادی مسائل حل کرنے پر توجہ دے اور رام مندر کی تعمیر کا معاملہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دے۔ نریندر مودی نے ۲۰۱۴ء میں جن اچھے دنوں کی آمد کی نوید سنائی تھی، وہ اچھے دن اب تک نہیں آئے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“India’s ruling party back to temple politics ahead of 2019 elections”. (“southasianmonitor.com”. November 28, 2018)
Leave a Reply