بھارت کے ماتھے پر داغ

ترقی کے جدید ترین معیارات کو اپنانے کے باوجود بھارت اب تک بہت سی ایسی پریشانیوں سے نجات نہیں پاسکا ہے جو اُس کے ماتھے پر داغ کے مانند ہیں۔ سماجی برائیوں کا ایک دائرہ ایسا ہے جس سے باہر آنا بھارت کے لیے انتہائی دشوار ثابت ہو رہا ہے۔

گزشتہ دنوں پارلیمان میں ایک رکن نے بھارت میں خاتون سے زیادتی کے واقعے سے متعلق بیرون ملک بنائی جانے والی دستاویزی فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے اِسے بھارت کے خلاف سازش قرار دیا۔ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پارلیمان میں بیان دیا کہ وہ برطانوی نشریاتی ادارے ’’بی بی سی‘‘ کو حکم دیں گے کہ وہ اِس فلم کو ٹیلی کاسٹ کرنے سے باز رہے۔ حزب اختلاف کے غیر معمولی دباؤ پر حکومت نے یہ فلم بھارت میں ٹی وی پر ریلیز ہونے سے روک دی۔ اِس صورت میں ’’بی بی سی‘‘ کو سامعین کی بڑی تعداد سے محروم ہونا پڑا۔

بھارت کے سیاست دان بہت پتلی کھال کے ہیں۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر بِدَک جاتے ہیں اور ہر معاملے میں بیرونی ہاتھ یا سازش تلاش کرنے لگتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ بھارت کو ساری دنیا میں بدنام کرنے کی سازش پر عمل کیا جارہا ہے۔ جب بیرون ملک سے آنے والے سماجی محققین اپنی تحقیق میں بھارت کے معاشرتی مسائل کا ذکر کرتے ہیں، آلودگی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور ساتھ ہی کھلے علاقے میں رفعِ حاجت جیسے مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں تو قوم پرست عناصر یہ کہتے ہوئے لوگوں کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں کہ یہ سب کچھ بھارت کو بدنام کرنے کے لیے کہا جارہا ہے۔

’’بی بی سی‘‘ کی دستاویزی فلم میں ایک مرکزی ملزم کو یہ کہتے ہوئے بھی سُنایا گیا ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ یعنی نہ صرف یہ کہ وہ اپنے کیے پر نادم نہیں بلکہ اپنے سنگین جرم کا جواز بھی پیش کر رہا ہے۔ ایک وکیل صفائی نے بھی عدالتی کارروائی کے دوران کہا کہ اگر اُس کی بیٹی ایسا کرے (یعنی جرم میں ساتھ دے) تو وہ اُسے سرِ عام قتل کرنا پسند کرے گا!

یہ ایسے ریمارکس ہیں جو بھارت کے مردوں کو انتہائی سفّاک، مکّار اور بدمعاش ثابت کرتے ہیں۔ بھارت میں خواتین سے روا رکھے جانے والے بُرے سلوک کے بارے میں بہت سے لوگوں کی آراء خاصی واضح ہیں۔ ایک عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے مصنف نے لکھا ہے کہ جن مردوں کے بُرے سلوک کی بات ہو رہی ہے، وہ ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں۔

بھارت کے معاشرتی مسائل کو بہتر انداز سے حل کرنے کی ضرورت پر وزیراعظم نریندر مودی نے خاصا زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین سے بدسلوکی کو ہر قیمت پر روکنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا، تب تک معاشرے کا بگاڑ ختم نہیں ہوگا۔ انہوں نے خواتین سے زیادتی کو قوم کے لیے انتہائی شرم ناک قرار دیا ہے۔ انہوں نے خواتین کو پارلیمان میں نمایاں نمائندگی دینے کی بھی وکالت کی ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے رحمِ مادر میں بچے کی جنس معلوم ہوجانے پر لڑکی کو رحمِ مادر ہی میں قتل کرنے کا چلن اب ختم کیا جانا چاہیے۔ بھارت میں آج بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر غیر معمولی اور واضح فوقیت دی جاتی ہے۔

حکومت چاہتی ہے کہ خواتین سے امتیازی سلوک اور زیادتی جیسے معاملات پر قومی سطح کی بحث کی جائے اور شاید اِس کا وقت بھی آچکا ہے۔ بھارت میں زچگی کے دوران زچہ کی اموات کی شرح میں چند برسوں کے دوران نصف کی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ خواتین سے زیادتی کے واقعات تو بہت ہوتے تھے مگر پولیس کو رپورٹ کرنے کی ہمت کم ہی لڑکیاں کر پاتی تھیں۔ اب رپورٹنگ بڑھ گئی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ خواتین میں اپنے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے شعور کی سطح بلند ہوئی ہے۔ ایسی خواتین کم ہیں جن کی باضابطہ ملازمت یا بینک اکاؤنٹ ہے۔ جہیز اور گھریلو مسائل پر خواتین کو قتل کرنے کی مشق اب تک کمزور نہیں پڑی۔

بیشتر گھروں میں مردوں کا کنٹرول نمایاں ہے۔ خواتین کو خاصے دباؤ کے ساتھ زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔ ایسے میں لازم سا ہوگیا ہے کہ خواتین کی زندگی بہتر بنانے کے لیے قومی سطح پر بحث کی جائے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمان کے فورم کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ خواتین سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات، گھروں میں اُن سے بُرا سلوک، کام کے مقامات پر اُنہیں ہراساں کرنے کے واقعات اور عمومی سطح پر اُنہیں کمتر سمجھنا، ایسے مسائل ہیں جن کا حل کیا جانا ناگزیر ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ خواتین سے بہتر سلوک کی راہ ہموار کرنے کے معاملے میں اہل سیاست میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ بھارتی پالیسی سازی کے حوالے سے ایک کتاب کے مصنف مِہِر شرما کہتے ہیں کہ بھارت میں سیاست دانوں نے یہ وتیرہ بنالیا ہے کہ خواتین کے بیشتر معاملات درست کرنے کی اہمیت ہی سے انکار کردیا جائے۔ اُن کے نزدیک کسی مسئلے کے وجود سے انکار ہی اُس کے حل کا بہترین طریقہ ہے۔

ماہرِ عمرانیات دیپانکر گپتا کہتے ہیں کہ بھارت میں ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کسی پارٹی کا لیڈر کچھ کہتا ہے اور اُس کی پارٹی کے دیگر مرکزی عہدیداران اور کارکنان کچھ اور سوچ رکھتے ہیں۔ بہت حد تک اِسی مخمصے کا نریندر مودی کو بھی سامنا ہے۔ وہ خواتین کو انصاف دلانا چاہتے ہیں، اُن کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا چاہتے ہیں مگر اُن کی اپنی پارٹی میں ایسے لوگوں کی کمی ہے جو اِس معاملے میں اُن کے ساتھ قدم ملا کر چلنا چاہتے ہوں۔

ایک بڑا مسئلہ اور بھی ہے۔ بھارت کے لیڈر تمام اہم معاملات پر یکساں لگن اور دلچسپی کے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں۔ نریندر مودی نے تمام مذاہب کے احترام کی بات اُس وقت کہی جب امریکی صدر براک اوباما نے نئی دہلی کے دورے میں اُن سے یہ کہا کہ بھارت کو مذہبی بنیاد پر تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ اِس سے قبل دہلی کے الیکشن کے موقع پر مودی نے گرجا گھر جلائے جانے پر کوئی ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کیا تھا۔ یہ دو رُخا پن دور کیے بغیر کسی بھی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

ماحول کے بگڑتے ہوئے معیار اور آزادیٔ اظہار کے بارے میں جو لوگ کچھ کہنا چاہتے ہیں، اُنہیں خاموش کرانے میں زیادہ دلچسپی لی جارہی ہے۔ نریندر مودی اور اُن کی ٹیم نے اب تک آزادیٔ اظہار اور ماحول سے متعلق ایسی واضح پالیسی نہیں دی جس سے کوئی بڑی اُمید وابستہ کی جاسکے۔ نئی دہلی ایئر پورٹ پر حکام نے ماحول کے لیے کام کرنے والی ایک خاتون کو برطانیہ جانے سے روک دیا۔ یہ خاتون برطانیہ کی ایک پارلیمانی کمیٹی کو یہ بتانے والی تھیں کہ کان سے کوئلہ نکالنے کے ایک منصوبے سے بھارت کے ایک علاقے میں جنگل کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اور اُس کے مکین بھی متاثر ہوں گے۔ بھارت میں آج بھی لوگوں کو اپنے دل کی آواز لب تک لانے کی مکمل آزادی میسر نہیں۔ معاملہ ماحول کے لیے کام کرنے والی خاتون کو روکنے تک نہیں رُکا، بلکہ اُس کی تنظیم پر مالی پابندیاں بھی عائد کی گئیں۔ ۱۲؍مارچ کو دہلی ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ خاتون کو روکنے کا حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں۔

نیشنل سینسر بورڈ نے (جس میں اب بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق یا ہمدردی رکھنے والوں کی بھرمار ہے) جنوری میں ایک فیصلے کو برقرار رکھا جس کے تحت ایک مشہور میوزک وڈیو سے لفظ ’’بامبے‘‘ ہٹاکر ’’ممبئی‘‘ ڈالنا تھا۔ واضح رہے کہ بمبئی یا بامبے کو اب سرکاری طور پر ’’ممبئی‘‘ کہا جاتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے ایک اسٹیج شو کو یہ کہتے ہوئے رکوا دیا کہ اُس کی زبان بے ہودہ ہے۔ مشہور پبلشر پینگوئن نے جنوری میں معروف امریکی مصنف وینگی ڈینیگر کی کتابیں شائع کرنے سے محض اس لیے ہاتھ کھینچ لیا کہ ہندو انتہا پسندوں کو بھارت کے بارے میں وینگی ڈینیگر کے نظریات پسند نہیں۔

چند ایک معاملات ایسے ہیں جن کے باعث بھارت کو پریشانی تو ہوتی ہے مگر اُس کا شکایت کرنے کا جواز بھی بنتا ہے۔ ایک جرمن پروفیسر نے اپنے ان الفاظ پر بعد میں معافی مانگی کہ وہ کسی بھارتی طالب علم کو اپنا شاگرد (انٹرن) اِس لیے نہیں بناسکتا کہ بھارتی مرد خواتین سے زیادتی کے حوالے سے بدنام ہیں۔ معروف کالم نگار سوپن داس گپتا کا کہنا ہے کہ بھارت کے بارے میں دنیا بھر میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ یہ انتہائی غریب اور سماجی طور پر نہایت پسماندہ ملک ہے جہاں خواتین سے بُرا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور زیادتی کے حالیہ واقعات نے بھارت کا امیج مزید خراب کر دیا ہے۔ سوپن داس گپتا کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کا تاثر بہتر بنانا ہے اور دنیا بھر میں اُسے نیک نامی سے متصف کرنا ہے تو مسائل کو نظر انداز کرنے یا دبانے کے بجائے اُنہیں حل کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔ یہی ایک طریقہ ہے جس کے تحت بھارت کے لیے پیدا ہونے والے تاثر کی مشکلات ختم کی جاسکتی ہیں۔

20150314_ASC999_0

“India’s social ills: How to damage India’s reputation”. (“The Economist”. March 14, 2015)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*