گزشتہ ہفتے بھارت کے آرمی چیف جنرل دیپک کپور کے ریمارکس سے اس بات کی توثیق ہو گئی ہے کہ بھارت ایک نیا فوجی ڈاکٹرائن ترتیب دے رہا ہے اور انہوں نے اس کے چند اہم نکات بھی بیان کیے ہیں۔ اس بیان میں ظاہر کی گئی اسٹریٹجک ماحول میں تبدیلیوں میں پاکستان کے لیے اہم مضمرات بھی ہیں جو اس ملک کے سکیورٹی اہلکاروں کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔
نومبر میں بھارت کے آرمی چیف نے برصغیر میں ایک محدود ایٹمی جنگ کے امکان کی بات کی تھی۔ ان کے حالیہ بیان سے مزید ظاہر ہوتا ہے کہ:
٭ بھارتی آرمی چیف اپنے ۵ سال پرانے ڈاکٹرائن پر نظرثانی کر رہے ہیں تاکہ چین اور پاکستان کے ساتھ جنگ کے چیلنج سے نمٹا جاسکے۔
٭ ۵ ’’جارحانہ شعبے‘‘ نئے ڈاکٹرائن کا تعین کریں گے:۔
۱۔ ’’دو محاذوں‘‘ پر جنگ کے امکان سے نمٹنا۔
۲۔ غیرمتناسب اور غیرروایتی قسم کے فوجی اور غیرفوجی دونوں خطرات کا جواب دینا۔
۳۔ خلیج فارس سے آبنائے ملاکا تک بھارت کے مفادات کے تحفظ کے لیے ’’اسٹریٹجک رسائی اور حدود سے باہر صلاحیتوں‘‘ میں اضافہ کرنا۔
۴۔ تینوں سروسز کے درمیان ’’آپریشنل تعاون‘‘ حاصل کرنا۔
۵۔ ٹیکنالوجی میں مخالفین کے مقابلے میں برتری حاصل کرنا۔
ڈاکٹرائن سے شدید اضطرابی خواہش اور رقابت نظر آتی ہے۔ اضطرابی خواہش اس لیے کہ اس کے اغراض و مقاصد ایسے رجحان کی عکاسی کرتے ہیں جس کی بنیاد ’’بڑی طاقت‘‘ بننے پر ہے‘ جو چین جیسے ملک کی حریف اور بیک وقت دو محاذوں پر مقابلہ کر سکے۔ یہ سب کیسے اور کیونکر حاصل کیا جاسکتا ہے؟ یہ الگ معاملہ ہے۔
بھارتی ڈاکٹرائن امریکی پینٹاگان کے ۴ سالہ دفاعی ریویو (Quadrennial Defence Review) جو ہر ۴ سال بعد تیار کیا جاتا ہے‘ کی بھی نقل ہے اور مانگے تانگے سے ایک سپرپاور کی زبان بھی استعمال کی گئی ہے تاکہ ’’حدود سے باہر‘‘ صلاحیتیں ظاہر کرنے کی ضرورت دکھائی جائے اور ’’اسٹریٹجک رسائی‘‘ حاصل کی جاسکے۔ یہ رویہ کسی بھی ڈاکٹرائن کا ایک فرضی اصول ہے۔
اس سے بعض دوسرے سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ وہ کون سے مفادات ہیں جن کا ان صلاحیتوں کے ذریعے دفاع کیا جاسکتا ہے؟ بحر ہند میں قریبی ممالک کا تحفظ‘ مگر کس سے؟ کیا ’’اسٹریٹجک رسائی‘‘ کا حصول خلیج فارس کے دیگر ملکوں کے اسٹریٹجک مفادات کے خلاف نہیں؟
ڈاکٹرائن کے متعدد پہلو پاکستان کیلئے اہم مضمرات کے حامل ہیں جن کے جائزہ کی ضرورت ہے۔ ’’سرد آغاز‘‘ والا ڈاکٹرائن پاکستان کے اس مؤقف کا جواب ہے کہ جنگ چاہے جتنی بھی ’’محدود‘‘ کیوں نہ ہو‘ وہ ایٹمی ہتھیاروں والے ملکوں کے درمیان ممکن نہیں۔ یہ ایک ایسا مؤقف ہے جس کی اہمیت دونوں ہمسایوں کے درمیان ۰۲۔۲۰۰۱ء میں فوجی اسٹینڈ آف سے ظاہر ہوئی تھی۔
۰۲۔۲۰۰۱ء میں بھارت کی سفارت کاری اور آپریشن پارا کرم کی ناکامی کے بعد ڈاکٹرائن کا اعلان پہلی بار ۲۰۰۴ء میں کیا گیا تھا جس کا مقصد ایک ایسے کیس کی تیاری تھا کہ بھارت کے پاس ایک جنگی آپشن بھی موجود ہے۔
ڈاکٹرائن کا مقصد پاکستان اور دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ ایک ’’محدود جنگ‘‘ کی صلاحیت بھارت کو اس قابل بنا دے گی کہ ایٹمی حدود پار کیے بغیر اس کی فورسز پاکستان کے خلاف ۹۶ گھنٹوں کے اندر جارحانہ حملہ کر دیں گی۔
’’سرد آغاز‘‘ اسٹریٹجی میں محدود جنگ کا تصور ایک خطرناک اسٹریٹجک سوچ ہے‘ جیسا کہ پاکستان کے آرمی چیف نے واضح کیا ہے کہ ایٹمی ماحول میں روایتی فورس کے استعمال کے محرکات ایک خطرناک مہم کے راستے کی طرف جاتے ہیں جس کے نتائج کا تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
محدود جنگ کا تصور برصغیر کو ایک پھسلواں ڈھلوان کی طرف لے جائے گا اور اس کے پھیلائو کے خطرے میں اضافہ کر دے گا۔ بھارت کی حکمتِ عملی کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف روایتی حملے میں حیران کن تیزی ظاہر کی جائے۔ اسے یہ حقیقت نظر نہیں آتی کہ کسی بحران کی صورت میں ایٹمی حد کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔
اگر اس پر عمل شروع ہوا تو ’’سرد آغاز‘‘ ڈاکٹرائن پاکستان کو مجبور کر دے گا کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو جوڑے بغیر رکھنے کی پالیسی کا دوبارہ جائزہ لے اور اپنی اسٹریٹجک صلاحیت انتہائی تیاری کی حالت میں رکھی‘ جس میں ایٹمی ہتھیاروں کو ڈلیوری نظام تک پہنچانا بھی شامل ہے۔ عمل اور ردعمل کا چکر برصغیر کو ایک خطرناک صورتحال میں لے آئے گا۔
اسی طرح بھارت کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ میزائل ڈیفنس شیلڈ اور پرتھوی ایئر ڈیفنس کی صلاحیتیں حاصل کر کے ٹیکنالوجی میں سبقت لے جائے۔ ہو سکتا ہے کہ بھارت محسوس کر رہا ہو کہ اینٹی بیلسٹک میزائل (ABM) جو اس وقت صرف امریکا‘ روس اور اسرائیل کے پاس ہے‘ کے حصول سے وہ اس قابل ہو جائے گا کہ پاکستان کی میزائل کی صلاحیتوں کو ختم کر دے گا۔ یہ ایک خطرناک سوچ ہو گی۔
بیلسٹک میزائل ڈیفنس (BMD) کی صلاحیتیں حاصل ہو جانے سے یہ خطرہ بڑھ جانے کا امکان ہے کہ BMD کی آڑ میں پیش بندی کے بہانے کے طور پر روایتی یا ایٹمی جنگ کی جاسکتی ہے۔ ’’سرد آغاز‘‘ ڈاکٹرائن کے ضمن میں اس قسم کی صلاحیت سے فوجی کارروائی کے امکان میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس سے پاکستان کو تحریک ملے گی کہ وہ اپنے میزائلوں کی تعداد میں اضافہ کرے اور پیش بینی کی آڑ میں حملے سے ان اثاثوں کی تباہی کو روکنے کے لیے اپنی آپریشنل تیاری بڑھائے۔ یہ بھی امکان ہے کہ BMD نظام کو بے اثر کرنے کے لیے پاکستان دیگر جوابی اقدامات کرے۔
یہ ایک مہنگی اور غیرضروری ہتھیاروں کی دوڑ ہے۔ ایک زیادہ بہتر آپشن وہ ہے جو اسٹریٹجک استحکام کے متعلق اسلام آباد نے نئی دہلی کو پیش کیا تھا‘ جو ایٹمی مزاحمت کو مستحکم کر سکتا ہے‘ بشرطیکہ باہمی معاہدے کے تحت خطے میں BMD نظام کو نہ آنے دیا جائے۔
جہاں تک ’’چین سے خطرے‘‘ کا تعلق ہے‘ بھارتی ڈاکٹرائن کی سرد جنگ جیسی زبان وقت کا ساتھ دیتی نظر نہیں آتی۔ اس سے دہلی کی اس دیرینہ خواہش کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ چین کے ساتھ برابری کا کردار ادا کرے اور بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کوکم کرنے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو استعمال کرے‘ لیکن اس قسم کی حکمت عملی کی تکمیل کے لیے اس وقت بین الاقوامی ماحول سازگار نہیں ہے۔ اپنے پیشرو کے برعکس اوباما انتظامیہ ایسی نظر نہیں آتی کہ وہ چین کو حدود کے اندر رکھنے کیلئے اس قسم کے پاور سینٹرز استعمال کرے۔ اس کے بجائے وہ بیجنگ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں دلچسپی ظاہر کر رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات آج عالمی معیشت کے لیے بہت اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔
جب بھارتی ڈاکٹرائن کے تمام پہلوئوں کا اسلام آباد میں جائزہ لیا جائے گا تو پاکستان کو بھی اپنے آپشنز پر نظرثانی کرنا پڑے گی اور آپریشنل منصوبوں کو نئی شکل دینا ہو گی۔ اسٹریٹجک اندازوں میں بھارتی صلاحیتوں اور ا س کے ارادوں کا نہایت احتیاط سے جائزہ لینا ہو گا۔
(بشکریہ: ’’خلیج ٹائمز‘‘)
Leave a Reply