
سرکاری نام: ری پبلک انڈونیشیا
صدرِ مملکت: میگاوتی سیئیکارنو پتری (۲۰۰۱ء)
رقبہ: ۱۹ لاکھ ۱۹ ہزار ۴۴۰ مربع کلو میٹر
(۷ لاکھ ۴۱ ہزار ۹۶ مربع میل)
آبادی: تقریباً ۲۳ کروڑ ۴۸ لاکھ
شرح افزائش (آبادی): ۵ء۱ فیصد سالانہ
شرح پیدائش: ۲۲ فی ہزار
شرح امواتِ اطفال: ۲ء۳۸ فی ہزار
گنجائش: ۳۱۷ فی مربع میل
دارالحکومت: جکارتہ شہر (۸۸ لاکھ)‘ جکارتہ ضلع (ایک کروڑ ۷۹ لاکھ)
دوسرے بڑے شہر: سوربیا (۳۰ لاکھ)‘ بندوگ (۲۷ لاکھ)‘ میدان (۲۲ لاکھ)‘ سمارنگ (۱۳ لاکھ)
کرنسی: روپیہ=۱۰۰ سن
زبانیں: بہاسا انڈونیشی (قومی زبان)‘ جاوی‘ ولندیزی‘ انگریزی اور ۵۸۳ سے زیادہ زبانیں اور بولیاں
نسلیں: جاوی (۴۵ فیصد)‘ سندانی (۱۴ فیصد)‘ مدورسی (۵ء۷ فیصد)‘ ملاوی (۵ء۷ فیصد) اور دیگر ۲۶ فیصد۔
مذاہب: اسلام ۸۸ فیصد‘ عیسائی ۹ فیصد‘ ہندو ۲ فیصد‘ دیگر ایک فیصد
شرح خواندگی: ۸۴ فیصد
مجموعی قومی پیداوار: ۶۸۷ ارب ڈالر
فی کس آمدنی: تین ہزار ڈالر سالانہ
شرح افزائش (معیشت): ۳ء۳ فیصد
افراطِ زر: ۵ء۱۱ فیصد
بے روزگاری: ۸ فیصد
قابلِ کاشت رقبہ: ۱۰ فیصد
زراعت: چاول‘ اخروٹ‘ سویابین‘ تمباکو‘ کافی‘ ناریل‘ چائے‘ چینی‘ نیل‘ پام آئل‘ کالی مرچ‘ الائچی اور گرم مصالحہ‘ پولٹری‘ بیف‘ انڈے۔
صنعت: پیٹرولیم اور قدرتی گیس‘ خوراک سازی‘ پارچہ بافی‘ کان کنی‘ تیل کی صفائی‘ سیمنٹ‘ کھاد‘ پلائی وڈ‘ ربڑ‘ سیاحت۔
معدنیات: ٹین‘ تیل‘ کوئلہ‘ بکسائٹ‘ مینگانیز‘ تانبا‘ نکل‘ سونا اور چاندی۔
برآمدات: تیل اور گیس‘ بجلی کا سامان‘ پلائی وڈ‘ کپڑا‘ ربڑ‘ جوتے۔ مالیت ۵ء۵۶ ارب ڈالر
درآمدات: مشینری اور متعلقہ ساز و سامان‘ پلائی وڈ‘ کیمیکل‘ غذائی ضروریات
تجارتی ساتھی: جاپان‘ امریکا‘ سنگاپور‘ جنوبی کوریا‘ چین‘ ملائیشیا‘ آسٹریلیا
انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ یہ براعظم ایشیا کے جنوب مشرق میں ایک ایسا عجیب و غریب ملک ہے جو سترہ ہزار جزیروں پر پھیلا ہوا ہے۔ ان میں سے چھ ہزار جزیرے آباد ہیں اور باقی گیارہ ہزار جزیروں پر انسانی آبادی بالکل نہیں ہے یا بہت کم ہے۔ پہلے اس کا نام جزائر شرق الہند (East Indies) تھا‘ جسے ۱۹۲۱ء میں حریت پسندوں نے انڈونیشیا کا نام دیا۔ اس کے جزائر کو جغرافیائی لحاظ سے چار بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ مغربی جزائر‘ جن میں جاوا‘ سماٹرا‘ بنکا‘ مادورا‘ بورنیو‘ بلتیون وغیرہ شامل ہیں۔
۲۔ جزائر سوندا‘ جن میں مالی‘ لمبوک‘ سومبا‘ تیمور‘ روتی‘ فلورس اور سمباوا کے جزیرے شامل ہیں۔
۳۔ مشرقی جزائر‘ جن میں سلولیسی اور مالو کے جزائر شامل ہیں۔
۴۔ مغربی ایریان‘ نیو گنی وغیرہ۔
جغرافیائی خدوخال:
ارضی خدوخال کے اعتبار سے انڈونیشیا کے جزائر میں ساحلی میدان اور شکن دار پہاڑ پائے جاتے ہیں۔ جاوا اور سماٹرا میں بعض پہاڑی چوٹیاں سطح سمندر سے پانچ سو میٹر اونچی ہیں‘ جہاں سال بھر موسم خوشگوار رہتا ہے۔ مغربی جزائر کم گہرے سمندروں میں واقع ہیں‘ جن کی گہرائی بعض مقامات پر صرف دو سو فٹ رہ جاتی ہے اور ساحلوں سے متصل زمین اکثر دلدلوں پر مشتمل ہے‘ اسی لیے ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ چند لاکھ سال پیشتر یہ جزیرے براعظم ایشیا کا جزو تھے۔
آتش فشاں پہاڑوں کا سلسلہ خربوزے کی قاش کی طرح سماٹرا‘ جاوا اور مالوکا میں سے ہوتا ہوا شمال میں فلپائن تک چلا گیا ہے۔ ملک میں ایک سو سے زائد آتش فشاں پہاڑ بیدار ہیں (نصف تعداد جاوا میں)۔ ان سے دو قسم کا لاوا نکلتا ہے۔ تیزابی لاوا زمین کو بنجر اور اساسی لاوا زمین کو بے حد زرخیز بناتا ہے۔ بیشتر پہاڑوں پر گھنے جنگل ہیں۔ جھاڑیوں اور گھاس کے لمبے لمبے میدان بھی ہیں‘ جنہیں ’’سوانا‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں جھاڑیوں اور دیوقامت گھاس کے سوا کچھ نہیں اُگتا۔ چنانچہ دلدلوں کی طرح سوانا بھی انسانوں کے لیے بے سود ہے۔ انڈونیشیا کا ساحل دنیا کے سب سے لمبے ساحلوں میں شمار ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر موسم گرم رہتا ہے‘ لیکن سمندر کے قرب کے باعث منطقہ حارہ جیسی گرمی نہیں پڑتی۔ خطِ استوا پر واقع ہونے کی وجہ سے دن اور رات تقریباً برابر رہتے ہیں اور درجۂ حرارت بھی سال بھی قریب قریب یکساں رہتا ہے (اوسطاً ۸۰ درجہ فارن ہائیٹ)۔
تاریخی پس منظر:
انڈونیشیا میں انسانی آبادی انتہائی قدیم زمانے میں بھی موجود تھی۔ برفانی دور سے قبل یہ مجمع الجزائر باقی براعظم ایشیا سے ملا ہوا تھا۔ چنانچہ مختلف وقتوں میں ایشیا کے مختلف علاقوں اور نسلوں کے باشندے یہاں آتے رہے۔ بہرکیف اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ پتھر کے زمانے میں یہاں سیاہ فام بونے تھے جو آسٹریلیا کے قدیم وحشیوں سے مشابہ تھے۔ تقریباً آٹھ ہزار سال قبل اس علاقے میں بادامی رنگ کی ایک مخلوط نسل کے باشندے آئے‘ جن کا تعلق ہندوستان اور ہند چینی سے آنے والی مخلوط نسلوں سے تھا۔ یہ نسل جاوائی کہلائی۔ اس کے بعد ملیشیائی نسل کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا‘ جس میں کاکیشیائی‘ منگولی اور زنگی نسلوں کی آمیزش تھی۔ ان کی آمد پر ابتدائی سیاہ فام باشندوں نے بحرالکاہل کے مختلف جزیروں یا انڈونیشیا کے اندرونی علاقوں میںپناہ لی۔ گویا انڈونیشیا کے مختلف جزائر میں جو نسلیں آج پائی جاتی ہیں‘ انہوں نے مختلف نسلوں کی آمیزش سے اپنی موجودہ شکل اختیار کی ہے۔
ابتدائی عہد کے لوگ بالکل وحشی یا نیم وحشی تھے۔ مذہب مظاہر پرستی تھی۔ بھوت پریت کو بھی مانتے تھے‘ البتہ بت پرستی معدوم تھی۔ اس زمانے کے آخری دور میں وہ کھیتی باڑی کرتے تھے اور جانوروں کو چَراتے تھے۔ مُردوں کو زمین میں دفن کرتے تھے۔ جھونپڑیوں میں رہتے اور درختوں کی چھال کا لباس پہنتے تھے۔ ہڈیوں کے اوزار بناتے تھے اور مچھلیوں اور جانوروں کا شکار کرتے تھے۔ مجموعی طور پر اُن کی زندگی نہایت سادہ تھی۔ پوری آبادی کا ایک سردار (نگاری نگارا) ہوتا تھا‘ جسے دیوتا کا درجہ دیا جاتا تھا۔
انڈونیشیا میں تاریخی دور کا آغاز ہندوئوں کی آمد سے ہوتا ہے۔ ہندو اس ملک میں تجارت کی غرض سے آئے تھے اور اُن کی آمد کا زمانہ پہلی دوسری عیسوی کا ہے۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد بڑھنے لگی اور جاوا کے ان علاقوں میں ان کی نوآبادیاں قائم ہونے لگیں‘ جہاں گرم مصالحے پیدا ہوتے تھے۔ نوآبادیاں بڑھیں تو ریاستیں بن گئیں اور ریاستوں نے ترقی کر کے سلطنتوں کی شکل اختیار کر لی۔ ہندومت عام مذہب بن گیا۔ ہندوئوں نے یہاں اپنی تہذیب کو پوری طرح پھیلایا اور یوں انڈونیشیا میں ہندومذہب اور ہندو تہذیب کی جڑیں بہت مضبوط ہو گئیں۔
جاوا کا پہلا ہندو راجا آچی ساکا تھا۔ آٹھویں صدی میں سری و جایا کی وسیع سلطنت سماٹرا میں موجود تھی‘ جس کی حدود آگے چل کر بورنیو‘ فلپائن‘ سلولیسی‘ نصف جاوا‘ نصف فارموسا اور سیلون تک جا پہنچیں۔ سرکاری زبان سنسکرت تھی۔ جاوا کی ایک اور قابلِ ذکر سلطنت کیدیری تھی‘ جس کا زمانۂ عروج ۱۰۴۲ء تا ۱۲۲۲ء بتایا جاتا ہے۔ یہ مضبوط سلطنت مستقل نظم و نسق کی حامل اور ایک باقاعدہ ہندو تمدن کی مدعی تھی۔ ۱۲۲۲ء سے ۱۲۹۳ء تک سلطنت سنگو ساری کا دور رہا‘ جس کا تختہ رادن و جایا نے اُلٹ کر اُس دَور کی مشہور ترین سلطنت مجاپائت (کڑوا پھل) کی بنیاد رکھی اور کرتا راجا ساجایا دردانا کا لقب اختیار کیا۔ اس کا بیٹا جایا نگارا مجاپائت کا سب سے مضبوط حکمران تھا۔ اس نے کالی منتان کو بھی جاوا کی قلمرو میں شامل کر لیا۔ اس کے قابل وزیراعظم گجامد نے قریبی ممالک سے سیاسی اور تجارتی تعلقات بڑھائے اور بالآخر اُس کی کوششوں سے مجاپائت کا اقتدار پورے مجمع الجزائر پر چھا گیا۔ چودھویں صدی عیسوی کے آخر میں خانہ جنگیوں اور بغاوتوں نے اس سلطنت کو بہت کمزور کر دیا۔ ادھر جاوا اور سماٹرا میں اسلام ترقی کر رہا تھا اور نو مسلم حاکموں اور مبلغوں نے مضبوط تنظیمیں قائم کر لی تھیں۔ اسلام کو دبانے اور مسلمانوں کو کچلنے کے لیے ہندوراجا اور اس کے حاکموں کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو مسلمانوں نے متحد ہو کر مقابلہ کیا اور مجاپائت کا خاتمہ کر دیا۔ شاہی خاندان اور دوسرے امرا نے جاوا سے بھاگ کر بالی میں پناہ لی‘ جہاں کے ہندو آج بھی اپنی قدیم روایات کے حامل ہیں۔
اِشاعت اسلام کا دَور:
تیرہویں اور چودہویں صدی عیسوی اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ پہلی صدی ہجری (ساتویں صدی عیسوی) کے بعد اسلام کی اشاعت اور توسیع جس قدر تیرہویں اور چودہویں صدی میں ہوئی اتنی کسی اور زمانے میں نہیں ہوئی۔ اسی زمانے میں منگولوں نے اسلام قبول کیا اور مسلمانوں کے اثرات سائبیریا سے روس اور وسط یورپ تک پھیلے۔ اسی زمانے میں افریقہ میں صحراے اعظم اور اُس کے جنوبی علاقوں میں اسلام پھیلا۔ یہی وہ زمانہ ہے جس میں پورا ہندوستان مسلمانوں کے زیر اقتدار آیا‘ اور یہی وہ صدیاں ہیں جن میں انڈونیشیا اور ملائیشیا کے وسیع و عریض خطے میں اسلام پھیلا۔ تیرہویں اور چودہویں صدی کا زمانہ صرف اس لحاظ سے قابلِ ذکر نہیں کہ اس زمانے میں مسلمان سیاسی میدان میں نقطۂ عروج پر پہنچ گئے‘ اور ایشیا‘ یورپ اور افریقہ میں جتنے وسیع علاقے پر اُن کا اقتدار ہو گیا‘ اتنے وسیع علاقے پر نہ اس سے پہلے ان کا اقتدار قائم ہوا تھا اور نہ بعد میں قائم ہوا‘ بلکہ یہ دور اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس زمانے میں اسلام کی بھی توسیع و اشاعت ہوئی اور جو ملک مسلمانوں کے زیرِ اقتدار آئے‘ ان کی آبادی کی ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا اور وہ آج بھی مسلمان ہیں۔ مغربی افریقہ‘ بنگلا دیش‘ پاکستان‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا مسلمانوں کی پُرامن شاندار فتوحات کی نمایاں مثالیں ہیں۔
انڈونیشیا آج آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے‘ لیکن تیرہویں صدی عیسوی سے قبل وہاں ایک بھی مسلمان نہیں تھا۔ لوگ یا تو ہندو تھے یا مظاہر پرست۔ اسلام کا یہاں قدم جمانا اور پھر تمام جزائر پر چھا جانا جہاں ایک عجیب اور مہتمم بالشان واقعہ ہے‘ وہاں غیرمسلموں کے اس دعوے کا موثر جواب بھی ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا‘ کیونکہ انڈونیشیا کو مسلمان حملہ آوروں نے فتح نہیں کیا‘ بلکہ مسلمان مبلغوں اور تاجروں نے مختلف جزیروں میں راجائوں‘ امیروں اور عوام کو دینِ حق کی تبلیغ اور اپنے اوصافِ حمیدہ سے متاثر کر کے اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ جس طرح برعظیم پاک و ہند میں اولیا اﷲ اور بزرگانِ دین نے اپنی تبلیغی کاوشوں سے اسلام کی اشاعت کی‘ اسی طرح انڈونیشیا اور ملائیشیا میں بھی اسلام انہیں بزرگوں کی بدولت پھیلا۔ یہ بزرگ یا تو عرب تھے یا بھارتی علاقے گجرات کے رہنے والے مسلمان تاجر۔
مبلغینِ اسلام کا کردار:
ان مبلغوں میں ایک مولانا ملک ابراہیم ہیں۔ انہوں نے ۱۳۹۱ء میں جاوا میں تبلیغِ اسلام کا کام شروع کیا۔ مولانا ابراہیم گجرات کاٹھیاواڑ کے ایک تاجر تھے۔ مشرقی جاوا کی بندرگاہ گریسک کے ہندو راجہ نے ایک مرتبہ ان سے علاج کروایا اور جب وہ اچھا ہو گیا تو ان کے ہاتھ پر اُس نے اسلام قبول کر لیا۔ مولانا ملک ابراہیم نے راجا کا اسلامی نام رادن رحمت رکھا۔ ملک ابراہیم کا ۱۴۱۹ء میں انتقال ہو گیا۔ گریسک میں ان کی قبر آج تک موجود ہے۔ ملک ابراہیم مولانا مغربی کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ وہ اور راجا رادن رحمت جاوا کے ان مشہور ولیوں میں شمار کیے جاتے ہیں جو ’’سونان‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں اور جنہوں نے اس جزیرے میں اسلام پھیلایا۔ جاوا میں اسلام پھیلانے والے ان نو اولیاے کرام کے نام یہ ہیں:
۱۔ مولانا ملک ابراہیم یا مولانا مغربی۔
۲۔ رادن رحمت‘ جن کا مزار سورا بایا کے قریب نمپل کی پہاڑی پر ہے۔ وہ سونان نمپل کے نام سے مشہور ہیں۔
۳۔ مخدوم ابراہیم جن کو سونان بونانگ بھی کہا جاتا ہے‘ یہ رادن رحمت کے لڑکے تھے۔
۴۔ رادن پاکو۔ یہ سونان گیری کے نام سے مشہور ہیں۔
۵۔ فتح اﷲ یا سونان گننگ جاتی۔
۶۔ سونان قدس‘ جن کا مزار سمیرانگ کے قریب ہے۔
۷ سونان موریا۔
۸۔ سونان درجات۔
۹۔ سونان کالی جاگا۔
ایک اور نامور مبلغ رادن فاتح تھے‘ جن کی قیادت میں مبلغینِ اسلام نے ۱۴۲۸ء میں مجاپائت کے حکمران کو شکست دی اور جاوا میں پہلی اسلامی سلطنت قائم کی۔
جاوا میں پہلی مسجد دیماک کے مقام پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد سے تبلیغی جماعتیں جاوا کے مختلف حصوں میں بھیجی جاتی تھیں۔ جس مقام کے لوگ اسلام قبول کر لیتے‘ وہاں مسجد اور مدرسہ قائم کر لیتے۔ تبلیغ کا یہ سلسلہ سولہویں صدی کے وسط تک جاری رہا‘ یہاں تک کہ انڈونیشیا کے باشندوں کی اکثریت مسلمان ہو گئی اور ملک میں تقریباً بیس مسلم ریاستیں قائم ہو گئیں۔ ان ریاستوں کے حکمران جو سلطان کہلاتے تھے‘ خود بھی تبلیغِ اسلام کے کام سے گہری دلچسپی رکھتے تھے‘ اور بعض حکمران تو ایسے تھے کہ انہوں نے تاج و تخت چھوڑ کر خود کو تبلیغِ اسلام کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان نیک حکمرانوں میں مغربی جاوا کے علاقہ بامتن کے سلطان پاتح ہلا (فتح اﷲ) کا نام بہت مشہور ہے۔ انہوں نے تخت و تاج چھوڑ کر ۱۵۵۲ء سے ۱۵۷۰ء کے دوران‘ اپنی وفات تک‘ اٹھارہ سال مسلسل اسلام کی تبلیغ کی۔ چنانچہ اُن کا شمار جاوا کے نو اولیا میں ہوتا ہے۔ پانچ ہلا کے فرزند سلطان حسن الدین نے بھی اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آخر میں خود کو تبلیغِ اسلام کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس طرح ان حکمرانوں نے اسلام سے اپنی والہانہ محبت کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخِ اسلام میں کم ملے گی۔
مجمع الجزائر میں سب سے پہلے سماٹرا نے اسلامی اثرات قبول کیے۔ بارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں آچے کے کچھ باشندے شیخ عبداﷲ عارف کی کوششوں سے مسلمان ہوئے۔ ان کے خلیفہ شیخ برہان الدین نے مغربی اور جنوبی سماٹرا میں دین کی وسیع اشاعت کی۔ انہوں نے ایک مدرسہ قائم کیا‘ جہاں نو مسلموں کو دینی تعلیم دی جاتی تھی اور تبلیغ کے اصول سکھائے جاتے تھے۔ ان نومسلم مبلغوں نے مختلف علاقوں میں جاکر اسلام کا پیغام پہنچایا اور آچے کا پورا علاقہ اسلام کے زیرِ اثر آگیا‘ حتیٰ کہ یہاں ۱۲۰۵ء میں پہلی اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ چودہویں صدی عیسوی میں شیخ اسماعیل کے زیرِ قیادت کچھ مبلغین حجاز سے پہنچے‘ جن کی مساعی سے سمدرا‘ آرو اور میننگ کبائو کے راجا اور باشندے مسلمان ہو گئے۔ پندرہویں صدی میں پالم بانگ اور لمپانگ کے راجائوں اور باشندوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔
بورنیو میں اشاعتِ اسلام کا آغاز پندرہویں صدی کے آغاز میں ہو چکا تھا‘ مگر مجاپائت کے خاتمے پر یکے بعد دیگرے بنجرماسین‘ دامک‘ برونی اور سکدانہ کے حکمران اور عوام مسلمان ہوتے گئے۔ برنیو میں مبلغین کے سردار شیخ شمس الدین حجاز سے آئے تھے۔ ان کے ہاتھ پر سکدانہ کے راجا نے اسلام قبول کیا اور سلطان محمد صفی الدین کا لقب پایا۔
جزیرہ سلولیسی میں اسلام بورنیو کے نومسلموں کی بدولت پھیلا۔ سب سے پہلے مکاسر اور بوگی قومیں اور پھر اہلِ منہاسہ مسلمان ہوئے۔ مؤخرالذکر کو پرتگالیوں نے عیسائی بنا لیا تھا۔ مکاسر کے نو مسلم خاص طور پر بڑے پُرجوش مبلغ ثابت ہوئے۔
جزائر مالوکا (ملاکا) میں اسلام کی ابتدا پندرہویں صدی عیسوی سے ہوئی‘ جب ایک عرب مبلغ شیخ منصور نے تدورے کے راجا کو مسلمان کر کے ان کا نام سلطان جلال الدین رکھا۔ اسی زمانے میں ترناتے کے راجا نے بھی مسلمان ہو کر اپنا نام سلطان زین العابدین رکھا۔ اس کے جانشین سلطان باب اﷲ کی کوششوں سے جزائر مالوکا میں دور دور تک اسلام پھیل گیا۔
جزائر سوندا میں تبلیغ کا فرض مکاسر کے منظم اور پُرجوش مبلغین نے انجام دیا۔ سولہویں صدی میں سمباوا اور اس کے بعد فلورس‘ تیمور اور سمبا میں بھی اسلام پھیل گیا۔ اس طرح مبلغوں کی ایک منظم تحریک نے‘ جس کے پاس سیاسی اقتدار تھا نہ عسکری طاقت‘ ایسی قوموں کو مسلمان کر لیا جو بڑی بڑی سلطنتوں کی مالک اور اپنے مذہب اور تہذیب و معاشرت کی سختی سے پابند تھیں۔
اسلامی سلطنتیں:
انڈونیشیا میں مسلمانوں کی پہلی سلطنت سماٹرا کے علاقہ سمدرا میں قائم ہوئی جس کا راجا مسلمان ہو کر سلطان ملک الصالح کے نام سے مشہور ہوا۔ ملک الصالح اور اس کے جانشینوں نے اسلام کی ترقی و اشاعت میں بڑا حصہ لیا۔ ۱۳۴۶ء میں ابنِ بطوطہ سمدرا پہنچا تو ملک الصالح کا پوتا سلطان زین العابدین حکمران تھا۔ ابنِ بطوطہ نے اس سلطنت کی خوشحالی‘ تجارت کی ترقی‘ امن و امان اور دینی امور میں حکمرانوں کی دلچسپی کی بہت تعریف کی ہے۔ پندرہویں صدی کے وسط میں یہ سلطنت ملکّا کے سلطان کے زیرِ اقتدار آگئی۔
سماٹرا کی دوسری اہم سلطنت آچے ۱۴۹۶ء میں قائم ہوئی (ابھی ہندوستان میں ظہیرالدین بابر کی آمد میں ۳۰ سال باقی ہیں۔ یہاں لودھی خاندان کی حکومت ہے) اس سلطنت کا بانی عنایت اﷲ شاہ تھا۔ جب ۱۸۷۴ء میں ولندیزیوں نے اس پر قبضہ کر لیا تو آچے کے باشندوں نے جہاد کا اعلان کر دیا اور ۱۹۰۷ء تک مسلسل برسر پیکار رہے۔ آچے مسلمانوں کی بڑی طاقتور سلطنت تھی۔ اس کے بادشاہوں نے ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح کے لیے بہت کام کیا اور علوم و فنون کو فروغ دیا۔
۱۶۴۸ء میں مسلمانوں کی ایک سلطنت جنوب مشرقی سماٹرا میں قائم ہوئی‘ جس کا صدر مقام پالم بانگ تھا اور بانی ابراہیم۔ ۱۸۱۲ء میں سلطان بہائو الدین احمد نے ولندیزیوں کے مقابلے میں انگریزوں کی بالادستی تسلیم کر لی‘ لیکن جب ۱۸۲۵ء میں انگریز یہاں سے دستبردار ہو گئے تو ولندیزیوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔
جاوا میں پہلی اسلامی حکومت اگرچہ امپل میں قائم ہوئی تھی‘ جس کے حاکم مشہور ولی رادن رحمت تھے‘ لیکن مسلمانوں کی پہلی سلطنت دیماک تھی‘ جسے ۱۴۲۸ء میں مجاپائت حکمرانوں کو شکست دے کر رادن فاتح نے قائم کیا۔ ۱۵۲۰ء میں رادن یونس کی حکومت جاپارا سے گریسک تک پھیلی ہوئی تھی اور مادورا اور پالم بانگ بھی اس کے زیرِ اثر تھے۔ اس کے جانشین ترنگانوں کے عہد میں ماترن‘ پسوردان اور پاجانگ کے علاقے بھی فتح ہوگئے۔ ترنگانوں کے لڑکے شہزادہ مومن کی سعی سے دیماک میں اسلامی علوم کو بہت ترقی ہوئی اور ہندو اثرات زائل کر کے اسلامی زندگی اختیار کرنے پر خاص زور دیا گیا۔ یہ سلطنت ۱۵۷۸ء تک باقی رہی۔
سولہویں صدی عیسوی میں ترنگانوں کے بہنوئی پاتح ہلا (فتح اﷲ) نے مغربی جاوا میں سلطنت بانتن کی بنیاد رکھی۔ فتح اﷲ اور اس کے جانشینوں کے عہد میں اسلام کی اشاعت تیزی سے ہوئی‘ عربی علم و ادب کی سرپرستی کی گئی‘ تجارت کو بہت ترقی ملی اور بانتن گرم مصالحوں کی تجارت کا مرکز بن گیا۔ ۱۵۹۵ء میں ولندیزی تاجر یہاں پہنچے اور جلد ہی انہوں نے بٹاویا میں اپنا تجارتی مرکز اور قلعہ تعمیر کر کے بانتن پر بالادستی قائم کر لی۔ عبدالفاتح آگنگ (۱۶۵۱ء تا ۱۶۵۸ء) نے بانتن کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرنے کی کوشش کی‘ مگر داخلی اختلافات اور سازشوں نے اسے کامیاب نہ ہونے دیا۔ اس کی وفات کے ساتھ ہی بانتن کی آزادی بھی ختم ہو گئی۔ (۱۶۵۸ء عبدالفاتح کی وفات اور ہندوستان میں اورنگزیب عالمگیر کی تخت نشینی کا سال ہے)۔
۱۵۷۸ء میں پاجانگ کے تخت پر سنوباتی بیٹھا‘ جس کا تعلق ماترم کے قدیم حکمران خاندان سے تھا۔ اس نے اپنی سلطنت کو بڑی وسعت دی۔ ۱۶۱۳ء میں اس کا پوتا سسرنگ سنگ سلطان آگنگ (اعظم) کے لقب سے تخت پر بیٹھا اور واقعی انڈونیشیا کا ایک عظیم حکمران ثابت ہوا۔ اس نے دوسری ریاستوں پر اقتدار قائم کر کے ایک مضبوط اور وسیع سلطنت قائم کی۔ اس نے ایک طرف تو جاوا کی باقی ماندہ ہندو ریاستیں ختم کیں جو مجاپائت خاندان کی بحالی کے لیے سازشوں میں مصروف تھیں اور دوسری طرف بٹاویا پر حملہ کر کے ولندیزی قلعے کو مسمار کر دیا اور ولندیزی کو جاوا سے باہر نکال دیا۔ اس کی زندگی میں ولندیزیوں کو دوبارہ جاوا میں قدم رکھنے کی جرأت نہ ہوئی۔ سلطان آگنگ نے اسلامی قوانین نافذ کیے اور لوگوں کی زندگی کو اسلامی سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ اس کا نصب العین یہ تھا کہ انڈونیشی جزائر کو متحدہ کر کے ایک ملک اور ایک قوم بنا دیا جائے جس کی حکومت‘ معاشرت اور تہذیب و ثقافت کی اساس اسلام ہو۔ ۱۶۴۵ء میں سلطان کی وفات کے بعد اُس کے نااہل جانشین ہمنگ کورت اول نے اس کی تمام مساعی پر پانی پھیر دیا۔ اس نے قدیم ہندو رسوم و رواج کو پھر زندہ کیا اور ولندیزیوں سے معاہدہ کر کے انہیں متعدد مراعات دے دیں۔ رفتہ رفتہ ولندیزیوں کا تسلط بڑھتا گیا‘ حتیٰ کہ ۱۷۵۵ء میں ماترم کی یہ سلطنت ولندیزیوں کے زیرِ اقتدار دو ریاستوں‘ سوراکارتا اور یوگ یکارتا میں منقسم ہو گئی۔
سماٹرا اور جاوا کے علاوہ ریونیو‘ سلولیسی اور مالوکا میں مسلمانوں کی کئی سلطنتیں قائم ہوئیں۔ بورنیو میں بنجر ماسین‘ سکدانہ اور برونی کی سلطنتوں نے شہرت حاصل کی۔ اسلام کی اشاعت اور اسلامی سلطنتوں کے قیام سے انڈونیشیا میں زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا۔ یہاں کے لوگوں پر ہندو تہذیب اور ہندو دھرم کا بڑا گہرا اثر تھا۔ مسلمان ہونے کے بعد وہ اسلام کے شیدائی بن گئے۔ اگرچہ قدیم رسم و رواج اور تہذیب و معاشرت کی کئی چیزیں باقی رہ گئیں‘ لیکن بنیادی طور پر اُن کی حالت بدل گئی۔ عقائد و نظریات میں ایک اساسی تبدیلی پیدا ہوئی۔ حکومت اور معاشرت میں اصلاح ہوئی۔ ذات پات کی تقسیم ختم ہوئی‘ تہذیب و ثقافت کا انداز بدلا۔ فنونِ لطیفہ نے نئی شکل اختیار کی۔ علم و ادب اور زبان میں اسلامی رنگ آگیا اور دین سے وابستگی نے ملی مقاصد اور جذبات و احساسات میں ہم آہنگی پیدا کر دی۔
ان سلطنتوں کے قیام کا زمانہ اقوامِ مغرب کی آمد کا زمانہ تھا۔ گویا انڈونیشیا کی یہ سلطنتیں ہندوستان کی مغلیہ سلطنت کی معاصر تھیں۔ مغربی اقوام کی عسکری طاقت اور جدید ترین اسلحے کا مقابلہ کرنا بہت دشوار تھا۔ اس کے باوجود بعض حکمرانوں نے اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے پوری طاقت سے مقابلہ کیا اور آچے کی سلطنت تو بیسویں صدی کے اوائل تک مغربیوں سے برسرِ پیکار رہی۔
مغربی طاقتوں کی آمد:
جزائر انڈونیشیا قدیم زمانے ہی سے ’’گرم مصالحوں کے جزائر‘‘ کے نام سے مشہور تھے اور دور دراز کے ممالک مثلاً عرب‘ ہندوستان اور چین کے تاجران سے تجارت کرتے تھے۔ ۱۲۹۲ء میں مارکو پولوچین سے لوٹتے وقت سماٹرا آیا تو یورپی اقوام پہلی مرتبہ ان جزیروں سے آشنا ہوئیں۔ ۱۴۹۸ء میں واسکوڈی گاما نے راس امید کی طرف سے مشرق بعید جانے کا راستہ دریافت کیا تو فرنگی تاجروں کے لیے مشرق کا دروازہ کھل گیا۔ واسکوڈی گاما کی واپسی پر حکومت پرتگال نے لوپیز ڈی سیکوئیرا کو چند تجارتی جہاز دے کر روانہ کیا جو سماٹرا ہوتے ہوئے ملایا کی بندرگاہ ملکّا میں لنگر انداز ہو گیا۔ ملکّا کے سلطان محمد کو ہندوستان میں پرتگالیوں کے کارناموں کا حال معلوم تھا‘ چنانچہ اس نے تمام جہاز رانوں کو گرفتار کر لیا۔ ۱۵۱۱ء میں شاہ پرتگال کے حکم سے ہندوستان کے پرتگالی گورنر البوقرق نے ملکا پر حملہ کر کے وہاں پر پرتگالی حکومت قائم کر لی۔ اس کے بعد وہ انڈونیشیا میں عربوں اور ہندوئوں کی تجارت کو ختم کرنے کے لیے جزائر مالوکا کی طرف بڑھا۔ اس نے جزیرہ امبون پر قبضہ کیا اور دوسرے جزائر کے حکمرانوں سے معاہدے کر کے ساحلی علاقوں پر تجارتی کوٹھیوں کے نام سے قلعے تعمیر کر لیے۔ اور ترناتے کو اپنا مرکز قرار دیا۔ رفتہ رفتہ پرتگالی ترناتے‘ تدورے اور دوسرے جزائر پر بھی قابض ہو گئے۔ ۱۵۲۵ء میں ایک ہسپانوی بیڑے نے مالوکا کے چند جزیروں پر قبضہ کر لیا تو پرتگال سے لڑائی چھڑ گئی۔ اس میں ہسپانویوں کو شکست ہوئی اور ۱۵۴۰ء میں وہ یہاں سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ ۱۵۹۵ء میں پرتگالی تاجر جاوا پہنچے‘ لیکن وہاں طاقتور سلطنتیں قائم تھیں‘ اس لیے انہوں نے فی الحال صرف تجارت سے غرض رکھی۔ انہی دنوں میں ولندیزی تاجروں کی انڈونیشیا میں آمد سے ان کے ساتھ جنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کشمکش میں ولندیزیوں کو کامیابی حاصل ہوئی اور جزیرہ تیمور کے کچھ حصوں کے سوا تمام مقبوضہ جزائر پرتگال کے ہاتھ سے نکل گئے۔
اپنے مختصر عہدِ حکومت میں پرتگالیوں کے سامنے صرف دو مقاصد تھے: اول گرم مصالحے کی تجارت سے زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانا اور دوسرے اپنے مذہب (کیتھولک عیسائیت) کو پھیلانا۔ گورنر اور دوسرے پرتگالی افسر بے حد متعصب‘ تندخو اور بے رحم تھے اور اُن کا طرزِ عمل نہایت جابرانہ تھا۔ بایں ہمہ انہوں نے یہاں کے تمدن کو ایک حد تک متاثر کیا۔ یورپی طرز کے مکانات کی تعمیر‘ جہاز سازی اور جہاز رانی کے نئے طریقے‘ یورپی طرزِ تعلیم اور تمباکو‘ مکئی اور کوکو وغیرہ کی کاشت انڈونیشیا نے ان ہی سے سیکھی۔
ولندیزیوں کا عہدِ حکومت:
سترہویں صدی ہالینڈ کا عہدِ زریں تھا‘ ثقافتی زندگی اور مادی دولت دونوں کے اعتبار سے۔ یہ دولت زیادہ تر انڈونیشیا سے چلی آرہی تھی‘ جہاں ولندیزی تاجر اپنے ملک سے پچیس گنا بڑی سلطنت کی بنیاد رکھ رہے تھے۔
ولندیزی تاجروں نے سب سے پہلے ۱۵۹۸ء میں انڈونیشی ساحل پر قدم رکھا۔ ان جزیروں سے تجارت اتنی منافع بخش ثابت ہوئی کہ متعدد نئی تجارتی کمپنیاں وجود میں آگئیں اور پانچ سال کے مختصر عرصے میں ۷۰ سے زیادہ ولندیزی جہاز وہاں پہنچے۔ لیکن جلد ہی نہ صرف تجارتی رقابت نے ان کمپنیوں کو ایک دوسرے سے جھگڑنے پر مجبور کر دیا‘ بلکہ دیسی حکمرانوں اور پرتگالیوں سے بھی باقاعدہ جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر ولندیزی حکومت کے حکم سے ’’ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ قائم کی گئی‘ جسے مشرقی ممالک سے تجارت کی اجارہ داری اور متعدد مراعات کے علاوہ بحری اور بری فوج رکھنے‘ قلعے بنانے‘ نو آبادیاں بسانے‘ جنگ اور صلح کے معاہدے کرنے‘ سکے ڈھالنے اور عاملہ‘ عدلیہ اور مقننہ کے جملہ اختیارات دے دیے گئے۔
انڈونیشی حکمرانوں میں سے سلطان بانتن نے سب سے پہلے ولندیزیوں کو تجارتی مراعات دی تھیں‘ لیکن جلد ہی ان کی خودسری نے سلطان کو سختی پر مجبور کیا اور ولندیزی بانتن سے جکارتا چلے گئے۔ وہاں انہوں نے امیر جکارتا کے حکم کے خلاف ایک قلعہ تعمیر کرنا شروع کیا۔ امیر نے سلطان سے مدد چاہی اور ان دونوں کی فوجوں سے ولندیزی شکست کھا کر امبون چلے گئے۔ بدقسمتی سے ۱۶۱۹ء میں یہ دونوں فرماں روا آپس میں الجھ کر تباہ ہو گئے۔ ولندیزی واپس آگئے اور انہوں نے قلعہ پھر تعمیر کر لیا اور اس کے گرد بٹاویا کا شہر بسایا۔ اب وہ جاوا کی سب سے بڑی سلطنت ماترم کے خلاف سازشیں کرنے لگے‘ جس کے دانشمند اور باحوصلہ فرماں روا سلطان آگنگ نے فوج کشی کر کے قلعہ مسمار کر دیا اور ولندیزیوں کو جاوا سے نکال دیا۔ سلطان آگنگ کی وفات کے بعد ولندیزیوں کی پھر بن آئی اور نئے حکمران سے ہر طرح کی مراعات حاصل کر کے انہوں نے اپنے قدم بڑی مضبوطی سے جما لیے۔ اب وہ دوسرے جزائر کی طرف متوجہ ہوئے اور ان پر آہستہ آہستہ قابض ہوتے چلے گئے‘ مثلاً مکاسر (۱۶۱۴ء)‘ باندرا (۱۶۱۲ء)‘ تدورے (۱۶۵۴ء)‘ ہلما ہیرا (۱۶۷۶ء)‘ ترناتے‘ امبون‘ بورو اور سیرام (۱۶۸۳ء)‘ نیوگنی (۱۶۸۵ء)‘ بورنیو (۱۷۳۳ء)‘ بالی (۱۷۴۳ء)‘ تیمور (۱۷۴۹ء)۔ ۱۷۵۵ء میں سلطنت ماترم کو ولندیزیوں کے زیرِ اقتدار دو ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور یوں تقریباً ایک سو سال میں پورے مجمع الجزائر پر اُن کا تسلط قائم ہو گیا۔ انہوں نے مجمع الجزائر کو چھ صوبوں (امبون‘ باندرا‘ ترناتے‘ مکاسر‘ مالوکا اور مادورا) میں تقسیم کر کے بٹاویا کو اپنا مرکز مقرر کیا۔
انقلابِ فرانس (۱۷۸۹ء) کے بعد ہالینڈ پر فرانس کا قبضہ ہو گیا (۱۷۹۵ء)۔ فرانس کے شاہی خاندان نے انگلستان میں پناہ لی اور ہالینڈ میں جمہوریہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نئی حکومت نے کمپنی کو توڑ کر اُس کی تمام املاک اور سمندر پار کے مقبوضات کو اپنی تحویل میں لے لیا (۱۷۹۸ء)۔ ادھر نپولین سے برطانیہ کی جنگ چھڑ گئی۔ ۱۸۱۱ء میں ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ منٹو نے ایک طاقتور بیڑا شرق الہند کی طرف روانہ کیا‘ جس نے ملایا پر قبضہ کر نے کے بعد مجمع الجزائر سے ولندیزیوں کو نکال دیا۔ ۱۸۱۶ء تک برطانوی حکومت کی طرف سے سٹیمفورڈ ریفلز (Stamford Raffles) یہاں کا گورنر رہا۔ اسے ’’باباے سنگاپور‘‘ کہا جاتا ہے‘ اور اس کے نام پر انڈونیشیا میں پیدا ہونے والا سب سے بڑا پھول ’’ریفلز‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کا مختصر دورِ حکومت اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس نے ایک مستحکم انتظامیہ اور عدلیہ قائم کرنے کے علاوہ بعض مفید زرعی اصلاحات بھی نافذ کیں۔ ولندیزی دور میں عوام کو اپنی ساری پیداوار مقررہ نرخوں پر جاگیرداروں اور امرا کے ذریعے حکومت کے حوالے کرنا پڑتی تھی۔ ریفلز نے براہِ راست کاشت کاروں سے رابطہ پیدا کیا اور یوں وہ ایک حد تک امرا کے ظلم و ستم سے بچ گئے۔ اس کے علاوہ اس نے ملک کی تعلیمی ترقی اور معاشرتی اصلاح پر بھی توجہ دی‘ جسے ولندیزیوں نے کبھی قابلِ اعتنا نہیں سمجھا تھا۔
ہالینڈ میں نپولین کے زوال کے بعد ایک بار پھر قدیم شاہی خاندان کی حکومت قائم ہو گئی۔ ۱۸۱۶ء میں ایک عہدنامے کی رو سے سیلون‘ ملایا اور شمالی بورنیو پر برطانیہ کا‘ اور جاوا‘ سماٹرا وغیرہ مشرقی جزائر پر ہالینڈ کا قبضہ و اقتدار تسلیم کر لیا گیا۔ رفتہ رفتہ انڈونیشیا کے مختلف جزیرے ہالینڈ کے تصرف میں آگئے۔ سماٹرا میں خاصے عرصے تک ان کا مقابلہ کیا گیا‘ بالخصوص آچے کے حریت پسند ۱۹۰۷ء تک جنگ میں مصروف رہے‘ لیکن بالآخر تمام انڈونیشی جزائر پر ہالینڈ کی استعماری حکومت قائم ہو گئی اور اُن کا نام ولندیزی شرق الہند رکھا گیا۔
۱۸۴۸ء میں ہالینڈ کی پارلیمنٹ نے ’’قانون شرق الہند‘‘ منظور کیا‘ جس کے مطابق گورنر جنرل کو تاج کا نمائندہ اور اس کے سامنے جوابدہ ٹھہرایا گیا۔ پانچ ولندیزی اور دو انڈونیشی ارکان پر مشتمل گورنر جنرل کی کونسل (Raad von Indie) تشکیل دی گئی۔ حکومت کے سات شعبے مالیات‘ اقتصادی امور‘ مواصلات‘ تعمیرات‘ تعلیم‘ عدالت اور مذہبی امور قائم کیے گئے‘ جن میں آگے چل کر جنگی امور اور مال گزاری کے دو اور شعبوں کا اضافہ کر دیا گیا۔ مقبوضہ علاقہ آٹھ صوبوں اور ۳۶ ریزیڈنسیوں میں منقسم تھا۔ صوبے کا حاکم اعلیٰ گورنر تھا اور اس کی حدود میں واقع دیسی ریاستوں پر بھی گورنر کی نگرانی قائم تھی۔ شروع شروع میں ولندیزی مقامی حکمرانوں کے توسط سے حکومت کرتے تھے‘ جن کی تعداد ۲۸۲ تھی۔ ہر ریاست میں ولندیزی ناظم مقرر تھا اور دراصل وہی ریاست کا حقیقی حکمران ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ مقامی حکمرانوں کے اختیارات سلب ہوتے گئے اور ۱۹۰۷ء میں انہیں ایک معاہدے پر دستخط کرنا پڑے‘ جس کی رو سے گورنر جنرل انہیں مقرر اور معزول کر سکتا تھا اور اس کے احکام کی تعمیل ان پر فرض تھی۔ ولندیزی شرق الہند میں عدالتی نظام دو حصوں میں منقسم تھا۔ اگر کسی مقدمے میں سب فریق ملکی ہوتے تو دیسی عدالت میں مقامی قانون (عادات) کے مطابق سماعت ہوتی تھی اور اگر ایک فریق بھی ولندیزی‘ یورپی یا چینی ہوتا تو ولندیزی عدالت میں ولندیزی قانون کے مطابق۔ تمام عدالتیں عدالتِ عالیہ کے ماتحت ہوتی تھیں۔ چونکہ ’’عادات‘‘ کی بنیاد رسوم و رواج‘ معاشرتی ضروریات اور مذہبی اثرات پر ہے‘ اس لیے مختلف عدالتوں کے اختیارات‘ دائرۂ عمل اور طرزِ کار میں یکسانی نہ تھی‘ جس سے طرح طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہوتی رہتی تھیں۔
۱۹۱۵ء میں ووکس راد (Voksraad) کے نام سے ایک نئی کونسل قائم کی گئی‘ جس کے ارکان کی تعداد ۳۸ تھی۔ اس کی حیثیت محض مشاورتی مجلس کی تھی‘ جس سے گورنر چاہتا تو مشورہ کر لیتا۔ ۱۹۲۲ء اور ۱۹۲۵ء میں ارکان کی تعداد اور اختیارات میں اضافہ کیا گیا‘ لیکن عوام سیاسی حقوق سے محروم ہی رہے۔ ۱۹۲۷ء میں کونسل ۶۱ ارکان پر مشتمل تھی‘ جس میں ملکی ۳۰ تھے‘ لیکن ان میں سے ۲۰ حکومت نامزد کرتی تھی۔
ولندیزیوں کا مقصد تھا کہ جزائر شرق الہند میں تجارتی اجارہ داری حاصل کر کے زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جائے۔ اس کے لیے مقامی حکمرانوں کی طاقت ختم کر کے اپنا اقتدار قائم کرنا ضروری تھا۔ شروع شروع میں اتنے وسیع ملک پر براہِ راست قبضہ کر کے حکومت کا انتظام چلانا ان کے بس میں نہ تھا‘ لہٰذا انہوں نے حکمرانوں کی نااہلی اور باہمی ناچاقی سے فائدہ اٹھایا اور طرح طرح کی ریشہ دوانیوں سے مختلف ریاستوں پر اثر قائم کرتے گئے۔ بالآخر یہ صورت پیدا ہو گئی کہ حکمران ان کے آلۂ کار بن گئے اور وہ بھی اُن کے محدود مفادات کی حفاظت کرنے لگے۔ رعایا کے مفاد کا کسی کو خیال نہ تھا اور وہ دوہری چیرہ دستی کا شکار بنی رہی۔ اس کے علاوہ ولندیزیوں کی حکمتِ عملی سے مقامی امرا اور عہدے داروں کا ایک نیا طبقہ ظہور میں آیا‘ جو اپنی دولت اور عہدوں کو ولندیزیوں کا عطیہ سمجھتے ہوئے عوام کے مقابلے پر ہمیشہ اپنے غیرملکی آقائوں کا دَم بھرتے تھے۔ انہی کی طرح چینی تاجر بھی ولندیزیوں کے منظورِ نظر تھے۔ براے نام قیمت پر کل پیداوار کی خرید‘ جبری بیگار‘ محصولوں اور ٹیکسوں کی بھرمار اور طرح طرح کی کاروباری پابندیوں نے عوام کی معاشی حالت تباہ کر کے رکھ دی۔ ادھر زراعت کا جو جابرانہ نظام قائم کیا گیا وہ کاشت کاروں کے لیے حد درجہ تباہ کن تھا۔ اس کے مطابق ۱۸۷۷ء سے ۱۹۱۵ء تک امرا موروثی جاگیریں پاکر حکومت کے ایجنٹ بنے رہے اور کاشت کار مجبور تھے کہ ایجنٹ جس چیز اور اس کی جتنی مقدار کی کاشت کا حکم دیں‘ اس کی تعمیل کریں اور پوری پیداوار ایجنٹ کی من مانی قیمتوں پر فروخت کر دیں۔ اس کا لازمی نتیجہ افلاس اور فاقہ کشی تھا۔ لوگ مجبور ہو کر اپنی اراضی بیچنے لگے‘ جسے بہت کم قیمت پر ولندیزی خریدتے چلے گئے۔ اس طرح ولندیزیوں کے وسیع ’’فارم‘‘ وجود میں آئے‘ جہاں مقامی باشندوں کو نہایت معمولی اجرت پر ملازم رکھا گیا اور اس کے علاوہ تعمیری کاموں کے لیے بیگار بھی لازمی قرار پائی۔ عوام کی مالی حالت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ۱۹۴۰ء میں چالیس ہزار گلڈر سے زیادہ سالانہ آمدنی والوں میں ۲۲۰ ولندیزی‘ ۴۸ چینی اور صرف ۴ انڈونیشی تھے۔ دس ہزار گلڈر تک سالانہ آمدنی والوں میں ۱۷۲۲۶ ولندیزی‘ ۲۵۵۶ چینی اور ۱۵۳۴ انڈونیشی تھے۔ یہ امراء کی حالت تھی‘ ورنہ عوام کی فی کس اوسط آمدنی ۶ روپے سے زیادہ نہ تھی۔ ۱۹۴۰ء میں صرف ۱۷۸۶ انڈونیشی طلبہ ہائی اسکول کی تعلیم پارہے تھے۔ جکارتا کے لاء کالج اور آرٹس کالج اور بندونگ کے ٹیکنیکل اسکول میں ان کی مجموعی تعداد صرف ۴۰ تھی۔ تعلیم یافتہ انڈونیشی زیادہ سے زیادہ کلرکی حاصل کر سکتے تھی۔ اعلیٰ درجے کی ملازمتوں پر ۱۹۴۰ء میں صرف ۲۲۱ انڈونیشی فائز تھے۔ ولندیزیوں نے اپنے پرتگالی پیش روئوں کی طرح عیسائیت کی تبلیغ کو بھی اپنی حکومت کے مقاصد میں اہم جگہ دی۔ اس میں اُن کا سیاسی مفاد بھی مضمر تھا‘ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ لوگوں کے عیسائی ہونے سے ان کا اقتدار مستحکم ہو جائے گا۔ غرض کہ جزائر شرق الہند میں ولندیزیوں نے اپنے سیاسی اور معاشی مفاد کے تحفظ کے لیے جو حکمتِ عملی اختیار کی وہ عوام کے ہر ممکن استحصال پر مبنی تھی۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ولندیزیوں کی روش نوآبادیوں میں برطانویوں سے بالکل مختلف تھی۔ انگریز اپنی ایشیائی نوآبادیوں میں زندگی کا بہترین حصہ گزارنے کے باوجود اپنے وطن کے خواب دیکھتے اور چھٹیاں تک ولایت میں جاکر گزارنا پسند کرتے تھے۔ اس کے برعکس انڈونیشیا میں آباد ہونے والے ولندیزیوں نے صحیح معنی میں اسے اپنا وطن بنا لیا‘ بالکل اسی طرح جیسے یورپ سے آنے والے مختلف ممالک کے باشندوں نے امریکا کو۔ آزادی کے وقت کئی ولندیزی گھرانے وہاں ۱۵۰ برس سے آباد تھے۔ ان لوگوں کو آج بھی یہ احساس ہے کہ انڈونیشیوں نے ان سے ان کا ملک چھین لیا‘ جس کی انہوں نے ساڑھے تین سو برس کی جدوجہد سے کایا پلٹ دی تھی۔ انہوں نے زراعت کے میدان میں نئے نئے تجربات کیے۔ بوگور میں زرعی تحقیق کا مرکز قائم کیا۔ ۱۷۱۱ء میں کافی کی پیداوار شروع ہوئی جو اٹھارہویں صدی کے اواخر میں اہم ترین برآمدی فصل بن گئی۔ آسام کی چائے کی کاشت کا کامیاب تجربہ ہوا اور اس پر اتنی توجہ دی گئی کہ آج چائے پیدا کرنے والے ملکوں میں انڈونیشیا تیسرے نمبر پر ہے۔
انیسویں صدی میں شمالی سماٹرا کے جنگل صاف کر کے اعلیٰ سائنسی طریقوں سے کام لیتے ہوئے تمباکو کی کاشت کی گئی‘ جسے آج دنیا بھر میں ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں مغربی افریقہ سے روغنی کھجور اور جنوبی امریکا سے سیمل (ریشمی کپاس) اور سنکونا کے پودے منگوا کر وسیع پیمانے پر اُن کی کاشت کی گئی۔ بوگور میں طرح طرح کے تحقیقی تجربات کے بعد اعلیٰ قسم کا ربڑ پیدا کیا جانے لگا۔ ککائو اور سسیال کی کاشت بطور خاص کی گئی۔ کساوا سے بھی ولندیزیوں ہی نے انڈونیشیا کو آشنا کیا تھا‘ جو آج چاول اور مکئی کے بعد اُن کی بنیادی غذا بن چکی ہے۔ ولندیزیوں کا ایک بڑا کارنامہ یہ تھا کہ جنگلوں کو صاف کر کے کاشت کے لیے وسیع رقبے نکالے گئے۔ دلدلوں کو سائنسی تجربات کے بعد زراعت کے قابل بنایا۔ صنعت اور تجارت کو توسیع دی گئی۔ ماہی گیری پر اتنی توجہ دی گئی کہ جگہ جگہ تالابوں اور دھان کے کھیتوں میں مچھلیاں پالی جانے لگیں۔ ماہرینِ ارضیات نے طرح طرح کی معدنیات کا سراغ لگایا۔ پیٹرولیم‘ قلعی‘ باکسائٹ‘ نکل‘ مینگنیز‘ نمک‘ آیوڈین اور چونے کے علاوہ سونے اور چاندی کی بھی کانیں دریافت ہوئیں۔ نئے نظام آب پاشی نے بعض علاقوں کو دنیا کا سب سے زیادہ زرخیز خطہ بنا دیا۔ مختصر یہ کہ ملک کے تمام قدرتی وسائل دریافت کیے گئے اور ان سے بدرجۂ اتم فائدہ اٹھایا گیا۔
اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ اپنے طویل دورِ حکومت میں ولندیزیوں نے صرف اپنی نفع اندوزی پیشِ نظر رکھی‘ جبکہ عوام کی فلاح و بہبود سے انہیں کوئی غرض نہ تھی۔ اگر کبھی ملک میں اصلاحات بھی نافذ کیں تو مقصد عوام کی بہبود کے بجائے اپنے اقتدار کا استحکام تھا۔ غرض کہ انہوں نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس سے انڈونیشی بنیادی انسانی حقوق سے بہرہ ور ہوتے یا اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکتے۔
(خود اعتمادی اور خود اختیاری حاصل کرنے کے لیے انڈونیشی عوام کو برعظیم پاک و ہند کے عوام کی طرح غیرملکی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے لیے سخت اجتماعی جدوجہد کرنا پڑی۔ انڈونیشیا کی تحریکِ آزادی کا بیان آئندہ شمارے میں ملاحظہ کیجیے!)۔۔۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’میثاق‘‘۔ لاہور)
Leave a Reply