
گزشتہ سے پیوستہ
انڈونیشیا پر ولندیزیوں کا قبضہ ۱۹۴۲ء تک قائم رہا۔ انہوں نے یہاں کم و بیش ڈھائی سو سال تک حکومت کی۔ ولندیزی سامراج کا یہ زمانہ انڈونیشیا کی تاریخ کا تاریک ترین دور ہے۔ انہوں نے اپنے عہد میں ملک میں تعلیم کو عام نہیں ہونے دیا۔ حصولِ آزادی کے وقت تک پورے ملک میں اعلیٰ تعلیم کا ایک ادارہ بھی نہیں تھا۔ بے شک ولندیزیوں نے شکر‘ چائے اور ربڑ کی کاشت کو بڑی ترقی دی‘ لیکن وہ تمام زمینیں جن پر اُن کی کاشت ہوتی تھی‘ ولندیزیوں کی ملکیت میں تھیں اور انڈونیشیا کے عوام ان کے فوائد سے محروم رہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمتوں میں بھی انڈونیشیا کے لوگوں کو کوئی بڑا عہدہ نہیں دیا جاتا تھا۔
ولندیزیوں نے اپنے دور میں انڈونیشیا میں سرکاری سرپرستی میں عیسائیت کی بھی خوب تبلیغ کی اور سماٹرا کے وسطی حصوں‘ سلیبیز کے بعض حصوں اور دور دراز جزیروں میں غیرمسلموں کی ایک کثیر تعداد کو عیسائی بنانے میں کامیاب ہو گئے اور اس طرح انڈونیشیا میں اچھا خاصہ ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا‘ جس پر ولندیزی اعتماد کر سکتے تھے۔
انڈونیشیا اور چین کے درمیان پرانے زمانے سے تجارتی تعلقات قائم تھے اور چینی تاجروں کی ایک اچھی خاصی تعداد انڈونیشیا میں آباد تھی۔ ولندیزی دور میں ان چینی تاجروں کی سرپرستی کی گئی اور ان کو زیادہ سے زیادہ مراعات دی گئیں۔ ان مراعات کی وجہ سے چینی تاجر انڈونیشیا کی تجارتی اور اقتصادی زندگی پر اس طرح قابض ہو گئے جس طرح برعظیم پاک و ہند میں برطانوی عہد میں ہندو بنگلا دیش اور پاکستان کی پوری معیشت پر قابض ہو گئے تھے۔
ولندیزیوں کی سیاسی غلامی‘ عیسائیت کی تبلیغ اور چینی باشندوں کی اقتصادی اجارہ داری نے انڈونیشیا کے عوام‘ بالخصوص مسلمانوں میں ولندیزیوں کے خلاف سخت نفرت پیدا کر دی اور اس طرح انڈونیشیا میں سیاسی بیداری کا آغاز ہوا۔
امام بونجول کی تحریکِ جہاد:
انیسویں صدی مسلم دنیا میں تجدید احیاے اسلام کی ایسی تحریکوں کا زمانہ ہے جن کی بنیاد جہاد پر تھی۔ لیبیا میں محمد بن علی سنوسی‘ سینیگال میں حاجی عمر تجانی‘ مالی میں احمد ولوبو‘ نائیجیریا میں عثمان واں فودیو‘ سوڈان میں مہدی سوڈانی‘ الجزائر میں امیر عبدالقادر‘ قفقاز میں امام شامل اور برعظیم پاک و ہند میں سید احمد شہید کی جہادی تحریکیں اسی صدی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان جہادی تحریکوں میں خودبخود آزادی کی تحریکیں اور سماجی بہبود کی اصلاحی تحریکیں شامل ہوتی گئیں۔ انڈونیشیا میں بھی سیاسی بیداری کا آغاز تحریکِ جہاد سے ہی ہوا۔
اس تحریک کے بانی شمالی سماٹرا میں آچے کے ایک ممتاز عالمِ دین امام بونجول (۱۷۷۲ء ۔ ۱۸۶۴ء) تھے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اسلامی شعائر کی حفاظت کے لیے ولندیزیوں کے خلاف جہاد لازم ہے۔ ان کی تحریک کا نعرہ یہ تھا: ’’موت برحق ہے اور ایک مسلمان کے لیے بہترین موت اسلام کے لیے جان دینا ہے۔‘‘ انہوں نے مجاہدین کی ایک باقاعدہ فوج تیار کی‘ جس نے مننگ کبائو کے ولندیزی فوجی اڈوں پر قبضہ کر کے اس علاقے سے ولندیزیوں کو نکال دیا۔ ۱۸۲۳ء سے ۱۸۳۷ء تک جنگ جاری رہی۔ اور اس کے اثرات جاوا میں بھی جا پہنچے۔ وہاں ماترم کے ایک شہزادے دیپو گورو نے ۱۸۲۵ء میں باقاعدہ جنگ شروع کر دی اور ولندیزیوں کو کئی عبرت ناک شکستیں دیں۔ ۱۸۳۰ء میں ولندیزیوں نے انہیں دعوت کے بہانے بلا کر گرفتار کر لیا اور مکاسر میں جلاوطن کر دیا۔ سماٹرا میں محمد سامان نے ۱۸۹۱ء تک سلسلۂ جنگ جاری رکھا اور بالآخر انہیں ولندیزیوں نے سازش کر کے قتل کرا دیا۔ اسی زمانے میں مننگ کبائو کے آخری حکمران سی سنگا منگاراجا مسلمان ہو کر تحریکِ مجاہدین میں شامل ہو گئے۔ وہ مدت تک برسرِ پیکار رہے‘ تاآنکہ ولندیزی سازش کا شکار ہو کر ایک حلیف حکمران کے ہاتھوں ختم ہو گئے (۱۹۰۷ء)۔ اس دور کے ایک اور ممتاز رہنما تیکوعمر جو آچے کے شاہی خاندان سے تھے۔ ۱۸۷۴ء میں آچے کے سلطان کو شکست ہوئی تو تیکوعمر نے بچی کھچی فوج کے منظم کر کے ولندیزیوں کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ ۱۸۹۹ء میں وہ ایک خونریز معرکے میں شہید ہو گئے۔ ان کی بیوہ اور تیکو محمد دائود نے لڑائی جاری رکھی۔ ۱۸۹۹ء میں تیکو عمر کی بیوہ اور ۱۹۰۷ء میں تیکو دائود قید ہو گئے اور آچے پر ولندیزیوں کے مکمل قبضے نے تحریکِ مجاہدین کو ختم کر دیا۔
تحریکِ مؤاخات (گوتنگ روبونگ):
تحریکِ مجاہدین کے زمانے ہی میں جاوا کے دیہاتیوں میں باہمی تعاون و امداد کے جذبے نے ایک مفید تحریک کی شکل اختیار کر لی‘ اس کے مطابق گائوں کے سب لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے‘ مشکل کام کو مل جل کر بلامعاوضہ انجا دیتے۔ ناگہانی مصائب کا مقابلہ کرتے اور اخلاق و کردار کو بلند رکھنے پر زور دیتے تھے۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ استعماری حکومت کی پیدا کردہ مشکلات کو اجتماعی تعاون سے حل کیا جانے لگا۔
ثامنی تحریک:
۱۸۹۰ء میں شمال مشرقی جاوا کے ایک باشندے ثامن نے یہ تحریک شروع کی۔ اس کے مطالبات میں جبری کاشت کا خاتمہ‘ ٹیکسوں میں کمی‘ کاشت کاروں کو اپنی مرضی کے مطابق کاشت کرنے اور پیدوار فروخت کرنے اور اپنی روایات کے مطابق اپنی معاشرتی اور اقتصادی تنظیم کرنے کی اجازت شامل تھی۔ یہ تحریک اتنی مقبول ہوئی کہ ۱۹۰۷ء میں حکومت نے اسے خطرناک قرار دیتے ہوئے اس کے متعدد رہنمائوں کو گرفتار کر لیا۔ اس پر اشتعال پیدا ہو گیا اور جگہ جگہ فسادات ہونے لگے۔ ۱۹۱۷ء میں فوج کی مدد سے اسے کچل دیا گیا۔
شرکت گانگ اسلام (اسلامی تجارتی انجمن):
۱۹۰۸ء میں سورا کارتا کے حاجی تمن ہدیٰ نے انجمن امدادِ باہمی کے اصول پر مسلمان تاجروں کی یہ انجمن ان چینی تاجروں کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی جو ولندیزیوں کے زیرِ سرپرستی تجارت و صنعت پر قابض ہو کر انڈونیشیوں کو معاشی وسائل سے محروم کرتے جارہے تھے۔ جب انجمن نے چینی تاجروں کے مقاطعہ کرنے کی مہم چلائی تو کشیدگی بڑھ گئی اور ۱۹۱۲ء میں جگہ جگہ مظاہرے اور فسادات ہونے لگے۔ ولندیزیوں نے چینیوں کی حمایت کرتے ہوئے انجمن کو خلافِ قانون قرار دیا اور اس کے رہنمائوں کو گرفتار کر لیا۔ چند ماہ بعد اس کے چند پرجوش نوجوان ارکان نے ملک کی پہلی سیاسی جماعت ’’شرکت اسلام‘‘ کی بنیاد رکھی۔
تعلیمی اور تہذیبی تحریکیں:
چونکہ ولندیزیوں نے سیاسی جماعتوں کا قیام خلافِ قانون ٹھہرا دیا تھا‘ لہٰذا قومی تحریک تعلیمی اور مذہبی تنظیموں کے سائے میں پنپنے لگی۔ ۱۹۰۷ء میں حاجی وحی الدین اور ڈاکٹر سوتومو نے بودی اوتومو (حیاتِ عالیہ) کی بنیاد رکھی‘ جس کے بنیادی مقاصد تعلیمی اور معاشرتی تھے۔ عورتوں کو تعلیم اور معاشرتی حقوق دلانے کے سلسلے میں رادن کارتینی نے بڑا کام کیا۔ ۱۹۱۲ء میں پتری مردیکا (آزادیٔ نسواں) کے نام سے ایک جماعت قائم ہوئی جو پرمپونان انڈونیشیا (انجمن خواتین انڈونیشیا) اور جمعیۃ العائشیہ جیسی جماعتوں کی پیشرو ثابت ہوئیں‘ جن کے پرچم تلے عورتوں نے جنگِ آزادی میں قابلِ فخر کام کیا۔
شرکتِ اسلام:
حاجی عمر سعید نے‘ جو ۱۹۱۲ء میں ’’شرکت گانگ‘‘ کے دوسرے رہنمائوں کے ساتھ قید کر لیے گئے تھے‘ رہا ہونے کے بعد ۱۹۱۳ء میں شرکتِ اسلام کی بنیاد رکھی۔ یہ جماعت بظاہر معاشرتی اصلاح کے لیے قائم ہوئی تھی‘ لیکن اس نے قومی بیداری کی تحریک میں بڑا اہم کام کیا۔ اس کا اصل مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو صحیح اسلامی تعلیمات سے واقف کر کے غیراسلامی طرزِ معاشرت کو مٹایا اور اسلامی اخوت اور بین الاسلامی اتحاد کو فروغ دیا جائے۔ کچھ عرصے بعد جب اسے عوام میں بے حد مقبولیت حاصل ہو گئی تو خالص سیاسی مطالبات کی طرف توجہ دی گئی۔ ۱۹۱۷ء میں مطلق العنان سامراجیت کے خلاف قرارداد منظور ہوئی۔ ۱۹۱۸ء میں لوگوں کو اپنے حقوق کی حفاظت اور سامراجی چیرہ دستیوں کو ختم کرنے کے لیے ولندیزیوں کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ ۱۹۱۹ء میں اس کے ارکان کی تعداد ۲۵ لاکھ سے متجاوز کر ہو گئی اور اس نے نمائندہ پارلیمنٹ کے قیام اور کامل آزادی کا مطالبہ پیش کرنے کے علاوہ عیسائی مبلغوں اور چینی تاجروں کے خلاف طاقت استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۱۹۲۰ء میں جماعت کے اشتراکیت پسند ارکان نے انتشار پھیلانے کی کوشش کی اور ناکام رہنے پر ’’اشتراکی شرکتِ اسلام‘‘ (بعد ازاں شرکت رعیت) کے نام سے اپنی الگ جماعت بنالی۔ ۱۹۲۶ء میں اشتراکیوں نے بغاوت کر دی‘ جسے کچلنے کے لیے ولندیزیوں نے انتہائی سختی اور تشدد سے کام لیا اور تمام جماعتیں ختم کر دیں۔ حالات معمول پر آئے تو شرکتِ اسلام کے مختلف انتہا پسند اور اعتدال پسند ارکان کے باہمی اختلاف نے اس کا شیرازہ بکھیر دیا۔
جمعیۃ محمدیہ:
شرکتِ اسلام پر جب سیاسی رنگ غالب آگیا تو اس کی توجہ تعلیمی‘ دینی اور معاشرتی اصلاح کی طرف کم ہونے لگی اور ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کے لیے ایک ذیلی جماعت قائم کی جائے۔ حاجی احمد وحلان کی جمعیۃ محمدیہ نے اسی ضرورت کو پورا کیا۔ ملک کے طول و عرض میں ’’مدارس محمدیہ‘‘ کے نام سے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے‘ جن میں دینی تعلیمات کے علاوہ عصری علوم و فنون کی تعلیم بھی جدید ترین اصولوں کے مطابق دی جاتی تھی۔ مقصد یہ تھا کہ وسیع پیمانے پر تعلیم کی اشاعت کے علاوہ ملک کو غیراسلامی (خصوصاً ہندوانہ اثرات) سے پاک کیا جائے اور جدید افکار کی روشنی میں اسلامی نظریات کا مطالعہ کر کے موجودہ مسائل کا حل نکالا جائے۔ ’’شرکتِ اسلام‘‘ کے زوال کے بعد‘ بلکہ جنگِ آزادی کے دوران بھی اس کی سرگرمیاں جاری رہیں اور آزادی کے بعد یہ ملک کی سب سے بڑی اسلامی جماعت ’’ماشومی‘‘ سے وابستہ ہو گئی۔
دوسری دینی جماعتوں میں شافعی مسلمانوں کی ’’نہضۃ العلما‘‘ (بانی: شیخ عبدالوہاب) اور انڈونیشی علما کی ’’جمعیۃ العلما‘‘ کے علاوہ مجلسِ خلافت‘ جمعیت اتحادِ اسلامی اور مؤتمر اسلامی شرق الہند بھی قابلِ ذکر ہیں۔ ان تنظیمات نے اسلامی اور بین الاسلامی اتحاد کو فروغ دینے میں بہت کام کیا۔
انڈونیشی مجلس:
ابتدائی سیاسی جماعتوں کی ناکامی کے بعد قومی تحریک زیادہ تر اُن طلبہ کے ہاتھ میں آگئی جو اعلیٰ تعلیم کے لیے ہالینڈ گئے اور قومیت اور اشتراکیت‘ دونوں سے متاثر ہوئے۔ ہالینڈ میں پیش آنے والی دشواریوں کو دور کرنے کے لیے انڈونیشی طلبہ نے ۱۹۰۸ء میں ’’جمعیۃ شرق الہند‘‘ قائم کی۔ ۱۹۲۴ء میں اس کا نام پرہمپنان انڈونیشیا (انڈونیشی مجلس) رکھا گیا اور اس کا ایک رسالہ انڈونیشیا مردیکا (آزاد انڈونیشیا) بھی جاری کیا۔ اس کا ایک بنیادی مقصد یہ تھا کہ باہمی سیاسی اختلافات کو دور کر کے آزادی کی کوشش کی جائے۔ محمد حتّا اس کے صدر تھے۔ محمد حتّا اور ان کے معاونین مثلاً سوکیمان اور شہر یرو وغیرہ کی مساعی سے یورپ کے کئی ممالک میں انڈونیشیا کے مطالبۂ آزادی کے حامی پیدا ہو گئے۔
انڈونیشی قومی پارٹی:
اُسی زمانے میں احمد سوکارنو نے ’’پارتائی نیشنل انڈونیشیا‘‘ کی بنیاد رکھی‘ جس نے بڑے جوش و خروش سے آزادی کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ ۱۹۲۸ء میں اس نے ایک ملک (انڈونیشیا)‘ ایک قوم (انڈونیشی) اور ایک زبان (بھاسا انڈونیشیا) کا نعرہ بلند کیا۔ دسمبر ۱۹۲۹ء میں حکومت نے اسے غیرقانونی جماعت قرار دے کر احمد سوکارنو سمیت اس کے کئی رہنمائوں کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد پارٹی کے ارکان دو فریقوں میں بٹ گئے۔ اعتدال پسندوں نے سارتونو کے زیرِ قیادت انڈونیشی پارٹی اور انتہا پسندوں نے‘ جن میں ہوتان شہریر ممتاز تھے‘ احرار پارٹی بنالی‘ جس نے آگے چل کر پندی دکان نیشنل انڈونیشیا (انڈونیشی قومی تعلیمی کلب) کی شکل اختیار کر لی۔
گاپی (وفاق احزابِ سیاسی):
ولندیزی حکومت نے قومی تحریکوں کا گلا گھوٹنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اعتدال پسند ’’عظیم تر انڈونیشیا پارٹی‘‘ اور اشتراکیت پسند ’’انڈونیشی عوامی تحریک‘‘ کی مفاہمت پسندی کے باوجود اس کی سخت گیری میں کمی نہ آئی۔ تمام ممتاز رہنما گرفتار ہو چکے تھے اور محبانِ وطن میں انتشار پھیل رہا تھا۔ انہیں دوبارہ منظم کرنے کے لیے حسن تہدن کی کوشش سے شرکت اسلام‘ عظیم تر انڈونیشیا پارٹی‘ انڈونیشی عوامی تحریک‘ اسلام پارٹی‘ عرب پارٹی اور کیتھولک پارٹی نے ایک وفاق قائم کیا جو ’’وفاق احزابِ سیاسی انڈونیشیا‘‘ (گاپی) کے نام سے مشہور ہے‘ جس حکومتی خود اختیاری کے لیے آئینی جدوجہد شروع کی۔
مجلس رعیت انڈونیشیا:
ستمبر ۱۹۳۹ء میں دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو گاپی نے حکومت پر زور دیا کہ فسطائیت کے مشترکہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انڈونیشیا کو حقِ خود اختیاری دیا جائے اور ’’فوکس راد‘‘ کی بجائے ایک منتخب پارلیمنٹ قائم کی جائے‘ جس کے سامنے حکومت جوابدہ ہو۔ یہ مطالبہ مسترد کر دیا گیا۔ اگست ۱۹۴۰ء میں جب ہالینڈ پر جرمنی کا قبضہ ہو گیا اور انگلستان میں ولندیزی جلاوطن حکومت قائم ہوئی‘ تب بھی انڈونیشیا کے بارے میں انتہائی مایوس کن طرزِ عمل اختیار کیا گیا۔ جنگ کے بعد سیاسی اصطلاحات پر غور کرنے کا وعدہ تو ہوا‘ مگر حقِ خود اختیاری دینے سے صاف انکار کر دیا گیا۔ ہالینڈ کے اس رویے نے مفاہمت پسند انڈونیشیوں کو بھی دلبرداشتہ کر دیا۔ چنانچہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے ’’مجلسِ رعیت انڈونیشیا‘‘ وجود میں آئی اور پوری قوم آزادی اور وطن کے نام پر اس کے پرچم تلے متحد و متفق ہو گئی۔
جاپانی قبضہ:
۱۹۴۲ء کے اوائل میں انڈونیشیا پر جاپان کا قبضہ ہو گیا۔ انڈونیشی عوام ولندیزی استبداد سے اس قدر نالاں تھے کہ انہوں نے جاپانیوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھا۔ جاپانیوں نے بھی تالیفِ قلوب سے کام لیتے ہوئے جنگ کے بعد آزادی دینے کا وعدہ کیا۔ تمام سرکاری عہدوں پر انڈونیشیوں کو مقرر کیا۔ حکومت کے ساتھ ساتھ تجارت اور صنعت پر بھی ولندیزیوں اور چینیوں کا تسلط ختم کر کے انڈونیشیوں کو اپنے قومی وسائل سے مستفید ہونے کا موقع دیا اور تمام اسیر رہنمائوں کو رہا کر دیا گیا۔ ان رہنمائوں میں سوکارنو جاپان کے حامی‘ لیکن حتّا اور شہریر اس کے مخالف تھے۔ حتّا کو یقین تھا کہ آخری فتح اتحادیوں کو ہو گی۔ آخر طے پایا کہ سوکارنو اور حتّا تو کھلم کھلا جاپانیوں سے تعاون کریں اور شہریر خفیہ تحریکیں چلائیں۔ ۱۹۴۳ء میں جاپانیوں نے ’’پوتیرا‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا‘ جس کے مرکزی بورڈ کے صدر سوکارنو اور نائب صدر حتّا تھے۔ پیٹا (PETA) کے نام سے ایک رضاکار فوج بھی تیار کی گئی جس کے تمام عہدے دار انڈونیشی تھے۔ اسے جاپانیوں نے فوجی تربیت دی‘ تاکہ اتحادیوں کے حملے کے وقت اس سے کام لیا جائے۔ ادھر شہریر‘ شریف الدین اور آدم ملک وغیرہ نے خفیہ تنظیموں کا ملک بھر میں جال پھیلا دیا اور ’’پیٹا‘‘ میں بھی بہت اثر و رسوخ پیدا کر لیا۔ مقصد یہ تھا کہ جاپان کی شکست کے وقت آزادی کے لیے عملی جدوجہد کی جائے اور اتحادیوں سے بہتر شرائط طے ہو سکیں۔ جاپانیوں نے ان تنظیموں کو ختم کرنے کی بہت کوشش کی‘ مگر ناکام رہے۔ ۱۹۴۴ء میں حکومتِ جاپان کی طرف سے ملک کو آزادی کے لیے تیار کرنے کی غرض سے مختلف تدبیریں اختیار کی گئیں۔ مارچ ۱۹۴۵ء میں ’’انڈونیشی مجلس براے اہتمام آزادی‘‘ کی تشکیل ہوئی تاکہ آزاد جمہوریہ کا دستور تیار کیا جاسکے۔ سیاسی سرگرمیوں کی عام اجازت دے دی گئی۔ مجلس نے سوکارنو کی تجویز پر آزاد انڈونیشیا کی فکری اساس کے لیے مندرجہ ذیل پانچ اصول (پنج شیلا) طے کیے:
(۱)اﷲ پر ایمان (۲)قومی آزادی (۳)جمہور کی حکومت (۴)دین انسانیت یا بین الاقوامیت (۵)معاشرتی انصاف
جولائی ۱۹۴۵ء میں دستور کی اہم دفعات پر اتفاق ہو گیا۔ جاپانیوں نے فیصلہ کیا کہ اگست کے آخر میں آزادی کا اعلان کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اختیارات منتقل کرنے کے لیے ملک کے ہر حصے کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بھی قائم کر دی گئی‘ لیکن ۱۴ اگست کو جاپان نے ہتھیار ڈال دیے اور انڈونیشیا میں ان کی حیثیت اتحادیوں کے ایجنٹ کی ہو گئی۔
اعلانِ آزادی:
۱۷ اگست ۱۹۴۵ء کو انڈونیشی رہنمائوں نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ ’’مجلس براے اہتمام آزادی‘‘ نے ۱۸ اگست کو آزاد حکومت کی صدارت اور نائب صدارت کے لیے علی الترتیب سوکارنو اور حتّا کو منتخب کیا۔ مملکت کا دستور اساسی نافذ کیا گیا اور جمہوریہ انڈونیشیا وجود میں آگئی۔ یوگ یکارتا صدر مقام قرار پایا۔ ملک آٹھ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ مغربی جاوا‘ وسطی جاوا‘ مشرقی جاوا‘ سماٹرا‘ کالی منتان‘ سلاویسی‘ مالوکا‘ سوندا صغیر۔ ہر صوبے کے لیے وہیں کے باشندے کو گورنر مقرر کیا گیا اور نظم و نسق میں مدد دینے کے لیے مرکزی مجلس کے تحت صوبائی مجالس قائم ہوئیں۔
۲۹ ستمبر ۱۹۴۵ء کو انگریزی فوج انڈونیشیا کے ساحل پر اتری۔ جنوب مشرقی ایشیا میں اتحادیوں کے انگریز سپہ سالار اعلیٰ مائونٹ بیٹن اور ولندیزی شرق الہند کے ڈپٹی گورنر جنرل فان موک کے باہمی مشورے سے اس فوج میں ولندیزی سپاہ بھی شامل تھی۔ فوجی ہیڈ کوارٹر پر امریکی‘ برطانوی اور ولندیزی جھنڈے لہرائے گئے۔ یہ اس امر کا اظہار تھا کہ جمہوریہ انڈونیشیا محض جاپانیوں کی تخلیق ہے‘ ورنہ یہاں جائز حکومت ولندیزیوں ہی کی ہے۔ ولندیزی گورنر جنرل فان موک بھی انگریز فوجوں کے ساتھ آپہنچا تھا اور ولندیزی فوجیں بڑی تعداد میں داخل ہو رہی تھیں۔ جمہوریۂ انڈونیشیا نے اس پر سخت احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس کی حکومت کو فوراً تسلیم کیا جائے‘ ولندیزیوں کو ملک سے نکال دیا جائے اور انگریز فوجیں اتحادیوں کے ساتھ سابقہ اعلان کے مطابق اپنی سرگرمیاں جنگی قیدیوں کی رہائی اور جاپانیوں کو غیرمسلح کرنے تک محدود رکھیں۔ انگریزوں نے یہ مطالبات مسترد کر دیے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ولندیزی سپاہی ظلم و جبر پر اتر آئے۔ وہ جسے چاہتے‘ گولی مار دیتے اور جب چاہتے‘ گھروں میں گھس کر لوٹ مار کرنے لگتے۔ جب یہ صورتحال ناقابلِ برداشت ہو گئی تو انڈونیشی فوجی دستے‘ جو بڑے بڑے شہروں میں قابض تھے‘ حرکت میں آگئے اور انگریزی اور ولندیزی افواج سے تصادم شروع ہو گیا۔ جاوا‘ سماٹرا اور بالی میں شدید لڑائیاں ہوئیں۔ سب سے خونریز جنگ سورا بایا میں ہوئی جہاں حریت پسندوں نے انگریزوں کی بری‘ بحری اور فضائی قوت سے ٹکرا کر شہر پر قبضہ کر لیا۔ اس شکست سے نہ صرف انگریزوں کے وقار کو صدمہ پہنچا بلکہ بین الاقوامی رائے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
چنانچہ دسمبر ۱۹۴۵ء میں روس نے انڈونیشیا کا مسئلہ سلامتی کونسل (اقوامِ متحدہ) میں پیش کرنے کا اعلان کر دیا۔ انگریزوں نے مجبور ہو کر ولندیزیوں کو مصالحت کا مشورہ دیا۔ نومبر ۱۹۴۵ء میں ولندیزی سلطنت کے اندر رہتے ہوئے‘ انڈونیشیا کی نیم خودمختار ریاست قائم کرنے کی پیشکش کی گئی‘ جسے جمہوری کابینہ کے صدر شہریر نے مسترد کر دیا۔ اس کے بعد ایک طرف تو دونوں فریقوں میں تصادم اور مقبوضہ علاقے کے عوام پر ولندیزیوں کے جور و ستم جاری رہے اور دوسری طرف مشاورتی مجلسیں بھی برپا ہوتی رہیں۔
اگست ۱۹۴۶ء میں ولندیزی پارلیمنٹ کے مقرر کردہ کمیشن نے جمہوری حکومت کو تسلیم کر لیا۔ ۱۴ اکتوبر کو عارضی صلح نامے پر دستخط ہوئے۔ ۱۵ نومبر کو جمہوریہ انڈونیشیا اور ہالینڈ کے درمیان معاہدہ مرتب کرنے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی انڈونیشیا سے انگریزی فوج کا انخلا بھی ہونے لگا۔ انگریزوں نے جاتے وقت ملک کا پورا نظم و نسق ولندیزی حکومت کے حوالے کر دیا۔
۱۹۴۷ء‘ ۲۵ مارچ کو ’’راضی نامہ لنگا جاتی‘‘ کی رو سے ولندیزی حکومت نے جاوا اور سماٹرا میں جمہوریہ انڈونیشیا کے اقتدار کو تسلیم کیا اور طے پایا کہ جمہوریہ انڈونیشیا‘ بورنیو اور باقی ماندہ جزائر پر مشتمل ایک جمہوری وفاقی مملکت ریاست ہاے متحدہ انڈونیشیا کے قیام میں ہالینڈ اور انڈونیشیا کی حکومتیں تعاون کریں گی‘ جو زیادہ سے زیادہ یکم جنوری ۱۹۴۹ء تک قائم ہو جائے گی‘ ولندیزی انڈونیشی یونین ریاست ہاے متحدہ انڈونیشیا اور ہالینڈ پر مشتمل ہو گی‘ جس کی سربراہ ہالینڈ کی ملکہ ہو گی‘ مشترکہ مفاد سے متعلق امور‘ بالخصوص خارجہ‘ دفاع اور بعض مالیاتی و معاشی امور یونین طے کرے گی‘ امن و امان قائم ہونے کے بعد ولندیزی فوجیں نکال لی جائیں گی اور اس معاہدے کے بارے میں اختلافِ راے ہونے پر ثالث کا فیصلہ قابلِ قبول ہو گا۔
اس راضی نامے کی مختلف شقوں کی تاویل پر بہت جلد اختلاف شروع ہو گیا۔ اہم ترین اختلاف جاوا اور سماٹرا میں ولندیزی فوجیں رکھنے کے بارے میں تھا۔ تاج شاہی کی سربراہی کی آڑ لے کر ولندیزی یکم جنوری ۱۹۴۹ء تک پورے انڈونیشیا پر اپنا مکمل اقتدار قائم رکھنے پر مصر تھے اور اس سلسلے میں جنگ پر بھی آمادہ تھے۔ جنگ ٹالنے کے لیے شہریر اور پھر اُن کے مستعفی ہونے پر شریف الدین نے ولندیزیوں کو کئی مراعات دینے کی پیشکش کی‘ مگر فان موک نے الٹی میٹم دے دیا کہ یا تو جمہوری حکومت ولندیزیوں کی اطاعت کرے یا جنگ۔
۲۰ جولائی ۱۹۴۷ء کو ولندیزیوں نے ’’راضی نامہ لنگا جاتی‘‘ منسوخ کر کے بری‘ بحری اور فضائی حملے شروع کر دیے اور دو ہفتے کے اندر مشرقی اور مغربی جاوا کے اکثر اہم مقامات پر قبضہ کرنے کے بعد شمالی علاقے کی طرف بڑھنے لگے۔ انڈونیشیا کی تمام جماعتیں اور افراد باہمی اختلافات کو بھول کر اور اپنی تمام اقتصادی‘ معاشرتی اور تعلیمی سرگرمیاں ترک کر کے میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ سلامتی کونسل نے جنگ بند کرنے کی اپیل کی۔ ولندیزی فوجوں نے ۵ اگست کو جنگ بندی کا حکم دیا۔ سلامتی کونسل نے ایک مصالحتی کمیٹی قائم تو کی مگر اس کے ارکان اکتوبر کے آخر میں انڈونیشیا پہنچے۔
اقوامِ متحدہ کے تسائل اور کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ولندیزیوں نے نہ صرف فان موک لائن کے نام سے من مانی حد بندی کر لی‘ بلکہ اپنی پیش قدمی بھی جاری رکھی اور جمہوریہ کے علاقوں کی مکمل معاشی ناکہ بندی کر دی۔ مصالحتی کمیٹی کی کوشش سے ۱۷ جنوری ۱۹۴۸ء کو ’’راضی نامہ رینول‘‘ طے پایا جس کے مطابق جمہوریہ کا قبضہ جاوا اور سماٹرا کے کچھ حصوں پر رہ گیا اور وفاقی حکومت میں اس کی حیثیت براے نام رہ گئی۔ جمہوریہ کے حق میں اس معاہدے کی صرف ایک شق تھی اور وہ یہ کہ چھ ماہ بعد اور ایک سال کے اندر اندر عام راے شماری سے معلوم کیا جائے گا کہ جاوا‘ سماٹرا اور مادورا کے علاقے جمہوریہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا نہیں۔ مجموعی طور پر یہ راضی نامہ حریت پسندوں کے لیے انتہائی مایوس کن تھا۔ چنانچہ شریف الدین نے استعفا دے دیا۔ ماشومی اور قومی پارٹی کی حمایت سے ۲۹ جنوری ۱۹۴۸ء کو محمد حتّا نے وزارت تشکیل دی‘ تاکہ راضی نامے کو عملی شکل دینے کے لیے ولندیزیوں سے مذاکرات شروع کیے جائیں۔ لیکن ولندیزی حکومت نے مذاکرات کا انتظار کیے بغیر اپنے مقبوضہ علاقوں میں یک طرفہ راے شماری شروع کرا دی اور وفاق کے ماتحت پندرہ ریاستیں قائم کر دیں‘ جن میں بالواسطہ حکومت کا اصول اس طرح اختیار کیا گیا کہ بظاہر تو یہ خودمختار معلوم ہوں‘ لیکن حقیقت میں تمام اختیارات ولندیزیوں کے ہاتھ میں رہیں۔ ۹ مارچ کو فان موک نے اعلان کیا کہ جمہوریہ انڈونیشیا کی شرکت کا مزید انتظار ممکن نہیں اور معاہدے کی خلاف ورزی کے بارے میں جمہوریہ کے احتجاجات کی پروا نہ کرتے ہوئے مئی ۱۹۴۸ء میں عارضی وفاقی حکومت قائم کر دی گئی۔
اسی دوران میں جبکہ جمہوریہ انڈونیشیا کو ولندیزیوں کی نئی جارحیت کا مقابلہ درپیش تھا‘ شریف الدین نے اشتراکیت پسند جماعتوں کے اتحاد سے عوامی محاذ قائم کر لیا اور راضی نامہ رینول کی تنسیخ اور تمام غیرملکی املاک کی ضبطی کا مطالبہ کرتے ہوئے حتّا وزارت کے خلاف بغاوت کر دی اور کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ عوام کی اکثریت نے اشتراکیوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا‘ کیونکہ وہ اس نازک دور میں خانہ جنگی کو تحریکِ آزادی کے لیے خطرناک محسوس کرتے تھے۔ کئی خون ریز جھڑپوں کے بعد اکتوبر ۱۹۴۸ء کو باغی لیڈر شکست کھا کر گرفتار ہو گئے اور انہیں سزاے موت دے کر کچھ عرصے کے لیے اشتراکی سرگرمیوں کا انسداد کر دیا گیا۔
سلامتی کونسل کی مصالحتی کمیٹی نے ولندیزی حکومت اور جمہوریہ انڈونیشیا کے درمیان مفاہمت کرانے کے لیے جون ۱۹۴۸ء میں ’’دوبوئی۔ کر چلی‘‘ منصوبہ پیش کیا‘ جسے جمہوریہ نے تو قبول کر لیا‘ لیکن ولندیزیوں نے مسترد کر دیا۔ ادھر معاشی ناکہ بندی سے جمہوریہ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ ستمبر ۱۹۴۸ء میں مصالحتی کمیٹی کی ایک اور کوشش ناکام رہی۔ نومبر میں ہالینڈ کے وزیرِ خارجہ سٹیکر نے انڈونیشیا آکر مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا‘ مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ ۱۸ دسمبر کو ولندیزیوں نے جمہوریہ کے علاقوں پر اپنی پوری طاقت سے حملہ کر دیا اور ایک ہفتے کے اندر یوگ یکارتا کے علاوہ جاوا اور سماٹرا کے کئی اہم مقامات پر قبضہ کر لیا۔
سوکارنو‘ حتّا‘ شہریر اور کئی دوسرے رہنما گرفتار کر لیے گئے‘ لیکن ان کا یہ پیغام پورے ملک میں پھیل چکا تھا کہ آخری فتح حاصل ہونے تک ہر قیمت پر جنگ جاری رہے۔ فوجی اور نیم فوجی تنظیموں‘ طلبہ اور خواتین کی جماعتوں‘ معاشرتی اور دینی مجلسوں‘ غرضیکہ ہر طبقے اور ہر نقطۂ نظر کے لوگوں نے غیرملکی سامراج کے خلاف صحیح معنوں میں عوامی جنگ شروع کر دی۔ انہوں نے ولندیزیوں کا مکمل مقاطعہ کیا اور ان کی جنگی کارروائیوں میں ہرممکن رکاوٹ پیدا کی۔ ماشومی پارٹی کے صدر سوکیمان کی حزب اﷲ اور شہریر کی سپل وانگی جیسی منظم رضا کار فوجوں کے علاوہ جگہ جگہ عوام کی دفاعی تنظیموں نے ولندیزی فوج کا مقابلہ کیا اور فان موک لائن کے اندر دور تک گھس کر متعدد مقامات پر قبضہ کر لیا۔ یوگ یکارتا پر ولندیزیوں کے قبضے کے بعد وزیرِ مالیات ظفر الدین نے‘ جو ماشومی پارٹی کے رہنمائوں میں سے تھی‘ یکی تنگی میں جمہوریہ کی عارضی حکومت قائم کر لی تھی۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ اور دوسرے حریت پسند ممالک سے اپیل کی۔ عالمی رائے عامہ نے ولندیزی جارحیت کا بڑا گہرا اثر قبول کیا اور شدید ردِعمل کا اظہار کیا‘ لیکن جب امریکی نمائندے کی درخواست پر سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا تو بڑے ممالک کی سیاست بازی نے کسی قرارداد کو موثر طور پر عمل میں نہ آنے دیا۔ ہالینڈ نے فان موک کے بجائے سابق وزیراعظم بیل (Beal) کو گورنر جنرل مقرر کر کے اور بھی سخت گیرانہ پالیسی اختیار کی۔ جمہوریہ کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے ان کے حملوں اور مقاومت میں انڈونیشی عوام کی سرگرمیوں میں پہلے سے کہیں زیادہ شدت پیدا ہو گئی۔ جنگ کی وسعت میں اضافہ ہونے کے باعث حالات بے حد نازک ہو گئے‘ آخر ۲۸ جولائی ۱۹۴۹ء کو سلامتی کونسل نے فریقین کو جنگ بندی‘ قیدیوں کی رہائی‘ ۱۵ مارچ تک سابقہ راضی ناموں کی اساس پر عارضی وفاقی حکومت کے قیام‘ یکم اکتوبر تک دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کی تکمیل‘ اور یکم جولائی ۱۹۵۰ء تک ریاست ہاے متحدہ انڈونیشیا کو تمام اختیارات منتقل کرنے کا حکم دیا اور اس سلسلے میں بین الاقوامی کمیشن بھی مقرر کر دیا گیا۔ ہالینڈ نے ایک بار پھر ٹال مٹول سے کام لینا چاہا‘ لیکن مارچ ۱۹۴۹ء میں انہی کی بنائی ہوئی وفاقی مشاورتی مجلس نے سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق مطالبہ کیا کہ جمہوری لیڈروں کو فوراً رہا اور یوگ یکارتا میں جمہوری حکومت بحال کر دی جائے۔
سلامتی کونسل کے اصرار پر بالآخر ہالینڈ مذاکرات کے لیے تیار ہو گیا اور ۷ مئی ۱۹۴۹ء کو جنگ بندی‘ جمہوریہ کی بحالی اور ہیگ میں گول میز کانفرنس کے انعقاد کے بارے میں ایک بیان جاری کیا گیا۔ ۱۸ جون کو سلطان یوگ یکارتا نے ریزیڈنسی میں جنگ بند کرنے کا اعلان کیا اور یکم جولائی کو ولندیزی فوجوں نے یوگ یکارتا سلطان کے حوالے کر دیا۔
۱۹۴۹ء‘ ۶ جولائی کو سوکارنو اور دوسرے رہنما رہا ہو کر یوگ یکارتا پہنچ گئے۔
۱۱ اگست کو جاوا اور ۱۵ اگست کو سماٹرا میں جنگ بندی ہو گئی اور انڈونیشی وفد اقتدارِ اعلیٰ کی منتقلی کے لیے ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے ہیگ روانہ ہو گیا۔ اس میں وفاقی حکومت کی طرف سے سلطان حمید اور جمہوریہ انڈونیشیا کی طرف سے محمد حتّا شریک تھے۔ ۲۲ اگست سے ۲ نومبر تک کانفرنس جاری رہی اور طے پایا کہ ۳۰ دسمبر سے قبل ہالینڈ مجمع الجزائر میں اپنا اقتدار اعلیٰ غیرمشروط طور پر جمہوریہ ریاست ہائے متحدہ انڈونیشیا کو منتقل کر دے گا اور اس کا قبضہ صرف مغربی نیو گنی پر برقرار رہے گا۔ ۲۷ دسمبر ۱۹۴۹ء کو اقتدار منتقل ہوا اور مسلمانوں کی ایک نئی آزاد ریاست وجود میں آگئی۔
آزادی کے بعد:
تین سو سال کی غلامی سے نجات ملنے اور حصولِ آزادی کے بعد جو خاص خاص سیاسی اور اقتصادی حالات پیش آئے‘ یہاں انہیں اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے:
۱۹۴۹ء‘ ۱۴ دسمبر۔ سوکارنو کو صدر منتخب کیا گیا۔ محمد حتّا وزیراعظم نامزد ہوئے۔ جکارتہ وفاقی دارالحکومت قرار پایا۔
۱۹۵۰ء‘ ۲۰ جولائی۔ قومی سیاسی پارٹی ’’ماشومی‘‘ کے ایما پر تمام ریاستیں ایک متحدہ مملکت کی تشکیل پر رضا مند ہو گئیں۔ ۱۴ اگست کو نیا وحدانی آئین منظور ہوا۔ ۱۵ اگست کو جمہوریہ انڈونیشیا وجود میں آگئی۔ ۲۹ دسمبر کو اسے اقوامِ متحدہ میں رکنیت حاصل ہو گئی۔
۱۹۵۳ء‘ اپریل۔ پارلیمنٹ نے انتخابات کا قانون منظور کیا‘ جس کے تحت ستمبر ۱۹۵۵ء میں انتخابات منعقد ہوئے۔ پارلیمنٹ کی ۲۷۳ نشستوں میں سے ماشومی نے ۵۷‘ قومی پارٹی نے ۵۷‘ نہضۃ العلما نے ۴۵ اور کمیونسٹ پارٹی نے ۳۹ نشستیں حاصل کیں۔ چنانچہ ماشومی کے حزب اختلاف میں رہتے ہوئے باقی جماعتوں کی مخلوط وزارت قائم ہوئی۔
۱۹۵۹ء۔ صدر سوکارنو نے دستور ساز اسمبلی‘ اور پھر ۱۹۶۰ء میں پارلیمنٹ توڑ دی۔ نیا دستور نافذ کیا گیا‘ جس سے صدر سوکارنو کو انقلاب کا عظیم قائد قرار دیا گیا۔
۱۹۶۳ء۔ سوکارنو نے پارلیمنٹ سے خود کو تاحیات صدر منتخب کرالیا۔ صدر سوکارنو کی اس حرکت پر اُن کے تمام ساتھی ان سے الگ ہو گئے۔ برطانیہ نے بورنیو اور ملایا کے اشتراک سے ملائیشیا کی ایک نئی مملکت قائم کی‘ جس پر احتجاج کرتے ہوئے انڈونیشیا اقوامِ متحدہ سے مستعفی ہو گیا۔ امریکا نے انڈونیشیا کی امداد بند کر دی۔ دوسری طرف روس نے امداد کے بہانے اشتراکی عناصر کو ابھارنا شروع کیا۔
۱۹۶۵ء۔ ۳۰ دسمبر کو کمیونسٹوں نے حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور چھ جرنیلوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حکومت نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا اور ہزاروں کمیونسٹوں کو ہلاک کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فوج نے صدر سوکارنو کے اختیارات بھی سلب کر لیے۔
۱۹۶۶ء‘ ۱۲ مارچ کو جنرل سوہارتو نئے صدر مملکت مقرر ہوئے۔ قومی محاذ توڑ دیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی خلافِ قانون قرار دے دی گئی۔ ۱۱ اگست کو ملائیشیا کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے گئے۔
۱۹۷۸ء۔ صدارتی انتخابات سے پہلے طلبہ کے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ سیکڑوں طلبہ گرفتار ہوئے۔ یونیورسٹیاں بند ہو گئیں۔ جنرل سوہارتو تیسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ مرکزی جاوا میں ایک آتش فشاں پھٹ پڑا اور مشرقی تیمور میں قحط۔ دس ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
۱۹۸۰ء۔ اخبارات پر سخت سنسر شپ عائد کر دی جاتی ہے۔
۱۹۸۲ء‘ مئی۔ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہئے۔ جنرل سوہارتو کی پارٹی اکثریت سے جیت گئی۔ حزب اختلاف نے دھاندلیوں کا الزام لگایا۔
۱۹۹۷ء۔ انڈونیشیا کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اکثر بینک دیوالیہ ہو گئے اور کرنسی یعنی روپے کی قدر بہت گھٹ گئی۔ حکومت کے خلاف عوامی تحریک چلی۔ طلبہ نے پارلیمنٹ کا گھیرائو کر لیا اور جنرل سوہارتو کے استعفا کا مطالبہ کیا۔
۱۹۹۸ء‘ ۲۱ مئی۔ جنرل سوہارتو نے ۳۲ سالہ اقتدار کے بعد انضمامِ حکومت نائب صدر یوسف جیبی کے حوالے کی۔
۱۹۹۸ء‘ ۲۱ مئی کو طلبہ اور عوام کے سخت احتجاجی مظاہروں سے مجبور ہو کر جنرل سہارتو نے اقتدار چھوڑ دیا اور یوں اس کی ۳۲ سالہ فوجی حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ نائب صدر بی جے جیبی نے صدارت کا عہدہ سنبھالا۔
۱۹۹۹ء‘ ۱۲ ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی فوجیں صوبہ مشرقی تیمور میں داخل ہوئیں۔ ۲۰ مئی ۲۰۰۲ء کو مشرقی تیمور کی علیحدگی پسندی کی تحریک امریکا اور دوسری مغربی طاقتوں کے دبائو اور مدد سے کامیاب ہوئی۔
۱۹۹۹ء‘ ۲۰ اکتوبر۔ نئے قومی الیکشن عبدالرحمن واحد انڈونیشیا کی بڑی سیات جماعت ’’ڈیموکریٹ پارٹی‘‘ کی رہنما میگاوتی سوکارنو پتری کو شکست دے کر صدر منتخب ہوئے۔ ان کے عہد میں شمالی سماٹرا کا صوبہ آچے علیحدگی پسندی کی تحریک کی وجہ سے انڈونیشیا کا بہت بڑا مسئلہ بن گیا۔ آچے کی آبادی نصف کروڑ کے لگ بھگ ہے اور بیشتر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ صوبہ تیل کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ صدر واحد نے علیحدگی یا آزادی کا مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر دیا‘ البتہ نفاذِ شریعت کے مطالبے پر ریفرنڈم کرانے پر آمادہ ہو گئے۔
۲۰۰۰ء کا پورا سال بدامنی کا سال تھا۔ فسادات‘ ہنگامہ آرائی‘ جگہ جگہ بم دھماکے‘ پکڑ دھکڑ‘ جلائو گھیرائو روز مرہ کا معمول بن گئے۔ ۴ جون کو علیحدگی پسندوں نے اریان جاوا (جسے مغربی پاپوا بھی کہا جاتا ہے) کی مکمل آزادی کا اعلان کر دیا۔ صدر واحد نے اس صوبے کی علیحدگی اور آزادی بھی تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس صوبے میں تانبے کے کافی ذخائر اور سونے کی کانیں ہیں۔ مشرقی تیمور میں چونکہ عیسائیوں کی اکثریت تھی‘ اس لیے مغربی طاقتوں نے اس کی علیحدگی کی حمایت کی تھی‘ لیکن اریان جاوا کے علیحدگی پسندوں کو بین الاقوامی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔
۲۰۰۰ء کا ایک اور اہم واقعہ یہ ہے کہ بدعنوانی اور ۵۷۰ ملین ڈالر کے غبن کے الزام میں سابق صدر سوہارتو پر عدالتِ عالیہ پر مقدمہ چلایا گیا‘ لیکن وہ عدالت میں علالت کے بہانے پیش نہیں ہوئے۔
۲۰۰۱ء میں خود صدر عبدالرحمن واحد کے خلاف نااہلی اور بدعنوانی کے عام الزامات کے تحت عوام کی احتجاجی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ ان کے خلاف ایک اور بڑا الزام یہ تھا کہ وہ صوبہ آچے‘ اریان‘ جاوا‘ جزائر ملوکا اور بالخصوص بورنیو میں بدامنی اور خانہ جنگی کو روکنے میں ناکام رہے۔ چنانچہ جولائی ۲۰۰۱ء میں صدر واحد استعفا دینے پر مجبور ہو گئے۔ ان کی جگہ نائب صدر میگاوتی سوکارنو پتری نے صدارت کی کرسی سنبھالی۔
۲۰۰۲ء‘ ۱۲ اکتوبر کو جزیرہ بالی کے ایک نائٹ کلب میں زبردست دھماکہ ہوا جس سے ۲۰۰ افراد وہیں ہلاک ہو گئے۔ ہلاک شدگان میں زیادہ تر وہ لوگ تھے جو بیرونی ممالک سے سیاحت کی غرض سے آئے ہوئے تھے۔ حکومت نے پوری تحقیقات کے بعد جمعیۃ الاسلامیہ کے دو ارکان امروزی بن نور ہاشم اور امام سمودرا کو بم دھماکے کا مجرم قرار دیا۔ ان دونوں حضرات پر القاعدہ کے بھی رکن ہونے کا الزام ہے۔ ان دونوں کو سزاے موت سنائی گئی۔ جمعیۃ الاسلامیہ کے سربراہ ابو بکر بشیر کو چار سال قید کی سزا سنائی گئی‘ جس پر امریکا اور برطانیہ نے انڈونیشیا کی حکومت سے احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے الزام میں ملوث بڑے مجرم کو بھی پھانسی کی سزا دی جائے۔
۲۰۰۳ء‘ مئی میں صدر میگاوتی نبے صوبہ آچے میں فوجی قانون نافذ کر دیا اور وہاں کی تحریکِ آزادی کو سختی سے کچلنے کے لیے فوجی اقدامات کیے۔ اس سختی کے باعث آچے کے علیحدگی پسندوں نے ہتھیار ڈال دیے اور انڈونیشیا کی حکومت سے معاہدۂ امن کر لیا۔ علیحدگی پسندی کی تحریک جو ۱۹۷۶ء سے چل رہی تھی‘ بالآخر ختم ہوئی۔ اس تحریک کے دوران بارہ ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔
۲۰۰۳ء‘ اگست میں جکارتہ کے میریٹ ہوٹل میں ایک کار بم دھماکہ ہوا جس سے سولہ افراد ہلاک اور ۱۵۰ سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔
غرضیکہ برادر مسلم ممالک انڈونیشیا بھی دورے مسلم ممالک کی طرح‘ مختلف النوع مصائب و مشکلات میں محصور رہتا ہے۔ یہ آفات زیادہ تر مغربی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ ہیں۔ ملک ۱۹۴۹ء میں آزاد ہوا‘ لیکن آج تک آزادی کا ایک سانس بھی نصیب نہ ہو سکا۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’میثاق‘‘۔ لاہور)
Leave a Reply