
انڈونیشیا کی صدارت حاصل کرنے سے متعلق پروبووو سبیانتو کی کوشش پر آخری پردہ گرچکا ہے۔ ۲۱؍اگست کو آئینی عدالت نے پرابووو کے اس دعوے کو یکسر مسترد کردیا کہ ۲۲ جولائی کے صدارتی انتخاب میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی تھی۔ فیصلہ آتے ہی عدالت کے باہر پرابووو کے حامیوں اور پولیس کے درمیان تصادم شروع ہوگیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے۔ آئینی عدالت کے فیصلے سے اکتوبر میں وکٹر جودو ودودو (جو ’جوکووی‘ کے نام سے معروف ہیں) کی صدارت کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ تین ہفتوں تک ججز نے فریقین کے وکلا کے دلائل سُنے اور دھاندلی کے دلائل کے طور پر پیش کیے جانے والے اخباری تراشے بھی دیکھے۔
اس مقدمے کے حوالے سے عدلیہ بھی دباؤ میں تھی۔ گزشتہ جون میں چیف جسٹس Akil Mochtar ایک فیصلے پر اثر انداز ہونے کے عوض ۵۰ لاکھ ڈالر لیتے ہوئے پکڑے گئے تھے اور اب وہ عمر قید کاٹ رہے ہیں۔ آئینی عدالت کے چیئرمین ہمدان زولوا کو اچھی طرح معلوم تھا کہ انہیں انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں اور قوم کی توقعات پر پورا اترنا ہے۔ اس فیصلے سے عدالت کی ساکھ بہت حد تک بحال ہوئی ہے اور انڈونیشیا میں آئینی اور جمہوری اداروں کی جڑیں اور گہری ہوئی ہیں۔
انڈونیشیا میں جمہوریت کو مستحکم تر کرنے میں ایک اور اہم کردار الیکشن کمیشن نے ادا کیا ہے۔ چند ایک مقامات پر دھاندلی ضرور ہوئی مگر وہ اس نوعیت کی نہیں تھی کہ حتمی نتائج پر اثر انداز ہوسکتی۔ اس دھاندلی کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر غیر معمولی دباؤ تھا۔ اس پر میڈیا میں بھی تنقید ہوئی مگر بین الاقوامی مبصرین نے مجموعی طور پر الیکشن کو شفاف قرار دیا اور الیکشن کمیشن کی کارکردگی کو سراہا۔ دھاندلی کے الزامات کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاجی لہر اٹھی مگر الیکشن کمیشن نے نومنتخب صدر جوکووی کی حمایت جاری رکھی۔ یہ ایک بڑا امتحان تھا جس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہا۔
انڈونیشیا کے الیکشن کمیشن کو بہتر کارکردگی کے قابل ہونے میں خاصا وقت لگا ہے۔ ۱۹۹۹ء میں سوہارتو کے زوال کے بعد سے ملک میں انتخابی اور انتظامی اصلاحات کا جو سلسلہ شروع ہوا اسی کے تحت الیکشن کمیشن کی بھی اصلاح ہوئی۔ آئینی عدالت کی طرح الیکشن کمیشن بھی ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے جو کرپشن سے تنگ آئے ہوئے عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ سوہارتو کے بعد جو انتشار پیدا ہوا پرابووو نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پوزیشن مستحکم کی۔ پرابوو بھی سابق جنرل ہیں۔ انہوں نے خود کو ایک فیصلہ کن لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ غیر ملکی اثرات کے خلاف وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں خاصے کامیاب رہے ہیں۔ وہ ڈرامائی انداز اختیار کرنے کے حوالے سے معروف ہیں۔ ایک بار وہ ایک جلسے کے لیے اسٹیڈیم میں گھوڑے پر سوار ہوکر داخل ہوئے۔
آسٹریلیا کی مردوخ یونیورسٹی میں انڈونیشیا سے متعلق امور کے ماہر پروفیسر ویدی ہادز کہتے ہیں۔ ’’لوگوں نے اس بات کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا تھا کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پرابووو ناپسندیدہ عناصر کا سہارا لینے اور مخالفین کو دھمکانے کی بھی کوشش کریں گے۔ وہ چونکہ ریٹائرڈ جرنیل ہیں اس لیے فوج میں بھی ان کے روابط ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ وہ فوج پر دباؤ ڈال کر پارلیمانی اور جمہوری اداروں کو دباؤ میں لینے کی کوشش کرتے۔ مگر اپنی تمام کوششوں اور ہتھکنڈوں کے باوجود پرابووو عوام کی بھرپور حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ان کے اور جوکووی کے درمیان ووٹوں کا فرق ۸۵ لاکھ کا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پرابووو کی طرف سے دھاندلی کے الزام میں صداقت کس حد تک ہوسکتی ہے۔‘‘
جوکووی کے لیے بنیادی چیلنج کرپشن ختم کرنے کا ہوگا۔ انڈونیشیا میں کرپشن اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سرکاری مشینری میں رشوت لینا اب بھی کوئی بہت ناپسندیدہ بات نہیں۔ جوکووی پر عوام نے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اب انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ملک کو درست سمت میں لے جانے اور کرپشن سے پاک کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں۔ راجا رتنم اسکول آف انٹر نیشنل اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر نواب عثمان کہتے ہیں: ’’انڈونیشیا کے عوام چاہتے ہیں کہ کرپشن پر خاطر خواہ حد تک قابو پایا جائے۔ اگر یہ ایک مسئلہ حل ہوگیا تو عوام کو بہت حد تک سکون ملے گا اور جمہوری اداروں پر ان کا یقین کئی گنا ہوجائے گا۔ کرپشن پر قابو پانے میں کامیابی کی صورت میں انڈونیشیا ایک کامیاب مسلم جمہوریہ کی حیثیت سے ابھرے گا۔‘‘
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رینکنگ کے مطابق ۱۷۷ ملکوں میں طاقت کے غلط استعمال اور رشوت ستانی کے اعتبار سے انڈونیشیا ۱۱۴ ویں نمبر پر ہے۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں اختیارات کا ارتکاز ختم کردیئے جانے کے بعد سے انڈونیشیا میں کرپشن بڑھی ہے۔ سرکاری افسران جکارتہ سے فاصلہ رکھتے ہوئے اب مقامی طور پر معاملات طے کرتے ہیں اور اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ طاقت کا یہ عدم ارتکاز ہی ہے جس نے جوکووی کو سراکارتہ کے میئر کے منصب سے عالمی سطح پر شہرت پانے کے قابل بنایا۔
جوکووی کو کرپشن ختم کرنے سے متعلق کمیشن کے ساتھ مل کر کام کرنا پڑے گا۔ اس معاملے میں ان کے عزم اور سکت کا امتحان قوم کے لیے غیر معمولی دلچسپی کا حامل ہوگا۔ لوگ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ کرپشن کے مسئلہ کو کس طور لیتے ہیں اور عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے معاملے میں کیا کرسکتے ہیں۔ جوکووی کو کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے خصوصی مہم چلانی پڑے گی تاکہ عوام کو اندازہ ہو کہ ان کا فیصلہ درست تھا اور اب ملک میں حقیقی تبدیلی آنے والی ہے۔
جوکووی اس وقت عوام کی توقعات کا مرکز ہیں۔ انہیں ثابت کرنا ہے کہ عوام نے ان پر بھروسہ کرکے غلط نہیں کیا۔ عوام چاہتے ہیں کہ انڈونیشیا کا ایک نیا امیج ابھرے۔ دنیا کو معلوم ہو کہ انڈونیشیا ایک ایسا ملک ہے جو جمہوری اقدار کو بہتر انداز سے اپنانے کی بھرپور صلاحیت اور سکت رکھتا ہے۔
جوکووی کو پاور ٹرانزیشن ٹیم میں متنازع شخصیات کو شامل کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ انہوں نے ۱۹۸۰ء میں لامپنگ میں قتل عام کے مشتبہ ملزم اور سیاسی کارکن منیر سعید طالب کے معاملے میں ملوث جنرل عبداللہ محمود ہینڈرو پرویونو کو پاور ٹرانزیشن ٹیم کا مشیر تعینات کرکے تنقید کو دعوت دی ہے۔
ہینڈورو پرویونو ۱۹۸۹ء میں فوج کے کمانڈر تھے جب لامپنگ میں احتجاج کرنے والوں کو بڑی تعداد میں قتل کیا گیا تھا۔ معروف سیاسی کارکن منیر سعید طالب جب جکارتہ سے ایمسٹرڈیم جانے والی فلائٹ میں زہر دے کر مارے گئے تھے تب ہینڈرو پرویونو سرکاری خفیہ ایجنسی کے سربراہ تھے۔ اُن کے ایک معاون پر مقدمہ چلا اور وہ بعد میں بری بھی ہوگیا تاہم سابق انٹیلی جنس چیف کو اب بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جوکووی نے یہ کہتے ہوئے ہینڈرو پریونو کا دفاع کیا ہے ان پر کبھی کوئی الزام باضابطہ عائد نہیں کیا گیا۔ انڈونیشیا میں غیر معمولی مہارت رکھنے والے پروفیشنلز کی کمی نہیں۔ ایسے میں مشتبہ ماضی رکھنے والے کسی شخص کا انتخاب عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔
انڈونیشیا جیسے ملک میں کوئی بھی شخص آسانی سے کسی بڑے منصب تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور خاص طور پر ایسی صورت میں کہ جب اُس کا سیاسی پس منظر بھی زیادہ مستحکم نہ رہا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ سابق صدر میگھا وتی سوئیکارنو پتری نے جوکووی کو اس منصب تک پہنچنے میں غیر معمولی مدد فراہم کی ہے۔ ان کا اور سوئیکارنو پتری کا تعلق اُسی طرح دیکھا جاتا ہے جس طرح بھارت میں من موہن سنگھ اور سونیا گاندھی کا تعلق دیکھا جاتا ہے۔ عبداللہ محمود ہینڈرو پرویونو کا شمار سوئیکارنو پتری کے عزیز ترین دوستوں میں ہوتا ہے اور خیال کیا جارہا ہے کہ جوکووی نے ان کا تقرر سوئیکارنو پتری کو خوش کرنے کے لیے کیا ہے۔
یہ سوچنا بے بنیاد ہوگا کہ جوکووی انڈونیشیا کی اشرافیہ کو نظر انداز کرکے اپنی بات منوانے میں کامیاب رہیں گے۔ وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ اگر انہیں بہتر انداز سے حکومت کرنی ہے تو اشرافیہ کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا اور اس کی بہت سی باتیں ماننا بھی پڑیں گی۔ اپنی انڈونیشین ڈیموکریٹک پارٹی کو حکمراں اتحاد کی قیادت کے قابل بنائے رکھنے کے لیے بھی انہیں بہت جدوجہد کرنا پڑے گی۔ مگر سوال صرف اشرافیہ کو خوش رکھنے اور سیاسی تکڑم لڑانے کا نہیں۔ انہیں ملک کو اقتصادی طور پر مستحکم کرنے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنا لازم ہے۔ ایسا کئے بغیر ملک میں حقیقی ترقی کی راہ ہموار نہ ہوسکے گی۔ عوام چاہتے ہیں کہ ملک میں مالیاتی استحکام آئے جس کے نتیجے میں روزگار کے بہتر اور زیادہ مواقع پیدا ہوں۔ ایسا کرنے کی صورت میں جوکووی کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور وہ اقتدار کے ایوان میں زیادہ دیر تک ٹکے رہ سکیں گے۔ انڈونیشیا میں افلاس زدہ افراد کی تعداد کم نہیں۔ وہ جوکووی کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
(زرینہ بانو فری لانس رائٹر ہیں)
“Indonesia: Prabowo’s last stand”.
(“Al-Jazira” Qatar. August 22, 2014)
Leave a Reply