جدید معجزات ظہور کرتے ہی کرتے ہیں۔ دس سال قبل جب ایشیا کے مالی بحران نے انڈونیشیا کی معیشت کو تباہ کر دیا تھا اُس وقت بہت سے ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ ملک غیر مستحکم ہو جائے گا، اگرچہ شکست و ریخت سے دوچار پھر بھی نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس انڈونیشیا جو اسلامی دنیا میں سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے مسلم دنیا کے لیے مشعل آزادی و جمہوریت بن کر اُبھرا ہے۔ مہذب دنیا کے زیادہ تر لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہر مسلمان کو دہشت گرد کے طور پر متعارف کرانا ایک انتہائی سنگین غلطی ہے۔ کیا ہوا؟ اور کیوں دنیا نے اس کا نوٹس نہیں لیا؟ یہ قصہ اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنا کہ خود انڈونیشیا ہے۔ انڈونیشیا کے حالات کے ایک ممتاز ماہر Benedict Anderson انڈونیشیائی فطرت کا سرا جاوائی ثقافت میں قرار دیتے ہیں خاص طور سے وایانگ (Wayang) مذہبی روایت میں۔ ’’مشرق قریب کے عظیم مذاہب کے مقابلے میں وایانگ مذہب کا کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ کوئی پیغام نہیں ہے،کوئی بائبل نہیں ہے اور نہ کوئی مصلح ہے۔ نہ ختم ہونے والا تنوع اور تمام کرداروں کی حساس انفرادیت نشاندہی کرتی ہے کہ وایانگ انسانی زندگی کی نیرنگیوں کا مظہر ہے جیسا کہ جاوائیوں نے اسے محسوس کیا۔۔۔‘‘ مختصر یہ کہ جاوائی ثقافت انڈونیشیا کو مختلف النوع آوازوں پر متوجہ ہونے کی صلاحیت عطا کرتی ہے جنہیں جمہوریت نے جنم دیا ہے۔ اختلافات حل کرنے کے لیے انڈونیشیا کی ایک مضبوط روایت Mufakat اور Musyawarah سے معنون رہی ہے اس کا مطلب مشورہ اور اتفاق رائے ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ روایت ہمیشہ تشدد کی روک تھام میں کامیاب نہیں رہی ہے۔ خصوصاً اُس بہیمت کو روکنے میں جس کا اظہار ۱۹۸۶ء میں صدر سکارنو کے خلاف بغاوت کے بعد ہونے والے قتل کے واقعات میں ہوا۔
۱۰ سال قبل بھی مالی بحران کے دوران چینی مخالف فسادات دوبارہ پھوٹ پڑے۔ جس کے سبب بہت سے چینیوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ آج بہرحال وہ تمام چینی واپس آ چکے ہیں۔ ایک نمایاں پیش رفت یہ ہوئی کہ چینی زبان اور ثقافت کو جو برسوں سے دبائو کا شکار تھی آزادانہ اظہار کی اجازت مل گئی۔ اس کے برعکس کردوں کی زبان و ثقافت کو آزادی عطا کرنے کے حوالے سے ترکی کا تصور کیجیے جو تنظیم اسلامی کانفرنس کا ایک بہت ترقی یافتہ ملک ہے۔ حتیٰ کہ انڈونیشیا کا ریکارڈ زیادہ نمایاں نظر آتا ہے جب ہم اس کا موازنہ امریکا سے کرتے ہیں۔ امریکی گیارہ ستمبر کے بعد سے اپنے یہاں جمہوریت کی رجعتِ قہقری کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن انڈونیشیا بھی بالی میں ایک سال سے بھی کم عرصے میں یعنی ۱۳ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں بم دھماکوں کی زد میں آیا اس کے باوجود انڈونیشیا نے اپنی جمہوریت کو پہلے سے زیادہ مستحکم کیا ہے۔
بجا طور سے Freedom House نے ۲۰۰۵ء میں یہ اعلان کیا کہ انڈونیشیا نے ’’جزوی آزادی‘‘ سے ’’آزادی‘‘ کی جانب پیش رفت کی ہے۔ صدر سوسیلو بمبانگ یودھو یونو اس نمایاں کامیابی کے لیے بہت ہی زیادہ مدح و ستائش کے مستحق ہیں۔ ان کی قیادت میں بہت ہی دیرینہ اور تکلیف دہ اچے تنازعہ پرامن طریقے سے حل ہوا۔ اس کا کچھ کریڈٹ تو ۲۰۰۱ کے سونامی کو بھی جاتا ہے جس نے ہزار ہا اچے باشندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جس کے بعد یہ کامیابی سامنے آئی۔ لیکن سری لنکا بھی اسی شدت کے ساتھ سونامی کی زد میں آیا لیکن یہاں سنہالی تامل تنازعہ اس کے بعد سے مزید تیزی کا شکار ہو گیا۔ آج انڈونیشیا کی جمہوریت کو سب سے عظیم خطرہ امریکا سے درپیش ہے اس کے باوجود کہ زیادہ تر امریکی انڈونیشیا کی جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ انڈونیشیائی مسلمان واضح طور سے غزہ میں فلسطینیوں کی زبوں حالی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ عراق و افغانستان میں امریکی جارحیت کے بھیانک نتائج دیکھ رہے ہیں اور امریکا کا سکوت بھی اچھی طرح ان کی نظر میں ہے جب ۲۰۰۶ء میں لبنان پر بے دریغ بمباری ہو رہی تھی۔ بہت سارے سینئر امریکی اس بات پر حیران ہوئے کہ ترکی نے جو نیٹو کا ایک دیرینہ رکن ہے اور سیکولر ریاست ہے عراق پر حملے کے لیے امریکی افواج کو اپنا فوجی اڈہ فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اگر ترکی کا نسبتاً زیادہ سیکولر معاشرہ امریکا مخالف جذبات میں بہہ سکتا ہے تو انڈونیشیائی معاشرہ کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ درحقیقت ایک عظیم کشمکش جاری ہے ان لوگوں کے مابین جو انڈونیشیا کو مزید بنیاد پرست معاشرہ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں اور جو اسے حسبِ روایت جاوائی ثقافت کا حامل ایک کھلا اور متحمل معاشرہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ بہت سارے امریکی اور یورپی انڈونیشیا (اور جنوب مشرقی ایشیا) میں معتدل مسلمانوں کی آواز کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنی پالیسیوں سے جنہیں اسلام مخالف تصور کیا جاتا ہے اعتدال پسند عناصر کو اکثر نقصان پہنچاتے ہیں۔ انڈونیشیا کو فوجی امداد کے حوالے سے امریکا کا مؤقف اس کی ایک مثال ہے۔
کئی سالوں سے امریکی سینیٹ کے بعض ارکان انڈونیشیا کے تئیں تنبیہی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اس طرح کہ اس کی فوجی امداد بند کر رکھی ہے اور امریکا میں انڈونیشیائی فوج کے افسران کی ٹریننگ کے عمل کو کافی حد تک کم کر دیا ہے۔ امریکا کی یہ تنبیہی پالیسیاں خود شکستگی سے دوچار ہونے والی ہیں۔
حالیہ سالوں میں انڈونیشیائی فوج نے تیسری دنیا کی دوسری افواج کے لیے ایک ماڈل فراہم کیا ہے کہ کس طرح مکمل جمہوریت کی جانب انتقال اقتدار کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ فوجی بغاوت کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سینیئر جنرلز مثلاً بمبانگ جنہوں نے امریکی ملٹری کالجز میں تعلیم پائی ہے ایک مطمئن جمہوری رہنما کے طور پر انڈونیشیا واپس لوٹ آئے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ اس بات سے بے خبری کے ذریعہ کہ انڈونیشیا کس قدر تبدیل ہو گیا ہے انڈونیشیا کی جمہوری پیش رفت کو خطرے سے دوچار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اسلامی دنیا میں بطور مشعلِ آزادی اور امید اس کے کردار کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ بارک اوباما اگر صدارتی انتخاب جیت جاتے ہیں تو متحمل انڈونیشیا کو یاد رکھیں گے جہاں وہ پروان چڑھے ہیں اور اس ملک کے لیے اپنی پالیسیوں کو اس کے حالات کے مطابق وضع کریں گے۔
نوٹ: کیشور محبوبانی لی کنوان ییئو اسکول آف پبلک پالیسی، نیشنل یونیورسٹی سنگاپور کے ڈین ہیں ان کی تازہ ترین تصنیف The New Asian Hemisphere: The Irresistible Shift of Global Power to the East. ہے۔
(بشکریہ: ’’ڈیلی ٹائمز‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۱۸ ستمبر ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply