تفصیلات سے قطعٔ نظر انڈونیشیا میں ایک انتہائی فحش رقص کا رواج ہے‘ جسے رقص نہیں سمجھا جاتا ہے بلکہ بالینیوں کی ایک محترم رسم خیال کیا جاتا ہے۔ اس رقص کو Joged bumbung یا Bomboo dance کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ رقص ان سیکڑوں رقص میں سے ایک ہے‘ جو انڈونیشیا کے متعدد جزائر میں رائج ہیں اور جن پر پابندی عائد ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ اس کے لیے قانون سازی کے معاملے پر قومی پارلیمنٹ میں غور ہو رہا ہے۔ یہ بل جسے کئی مسلم جماعتوں کی حمایت حاصل ہے‘ ایسے تمام رویے اور تصاویر غیرقانونی قرار دے گا جو جنسی اعتبار سے اشتعال انگیز ہیں۔ وہ خواتین جو اپنی ٹانگیں اور دوش کو کھلا رکھتی ہیں اور وہ فنکار جو اپنے کاموں میں فحاشی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ ان پر ناشائستگی کا مقدمہ چلے گا اور انہیں دو ارب روپیہ (۰۰۰,۲۰,۲ ڈالر) کا جرمانہ ہو سکتا ہے یا ۱۲ سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اعلانیہ بوس و کنار کو غیرقانونی تصور کیا جائے گا اور یہی قانون دوسری حرکتوں کے لیے بھی ہو گا جسے Pornoaksi خیال کیا جائے گا۔ Pornoaksi ایک ناشائستہ اصطلاح ہے‘ جسے قدامت اراکینِ پارلیمنٹ نے وضع کیا ہے جس کا مطلب ہے ’’فحش حرکتیں‘‘۔ بل میں یہ جملہ بھی شامل ہے کہ ’’معاشرے کے تمام عناصر پر اس طرح کی حرکتوں کی رپورٹ دینا لازم ہے‘‘۔ اس بل سے یہ خطرہ لاحق ہے کہ اس کا استعمال بے جا کیا جائے گا۔ ایک بالینی شاعرہ اور سماجی کارکن Cok sawitri جو اس مجوزہ قانون کے خلاف ہے‘ کا کہنا ہے کہ ’’یہ بل بالی کے ۸۰ فیصد آرٹ کا خاتمہ کر دے گا۔ لوگ اس کام کو کرتے ہوئے ڈریں گے‘ جو برسوں سے ان کی زندگی کا معمول رہا ہے‘‘۔
۱۹۹۸ء میں صدر سوہارتھو کی بے دخلی کے بعد سے انڈونیشیا جو کہ آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک ہے‘ قدرے کھلے معاشرے کا حامل ملک ہو گیا ہے جہاں پریس بھی پہلے کے مقابلے میں آزاد ہو گیا ہے اور سیاسی آزادی کے حوالے سے بھی خوب باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن اس نئے لبرل معاشرے میں جنسی مناظر پر مبنی ویڈیو فلموں‘ رسالوں اور اخباری میگزینوں کا بھی چلن عام ہو گیا ہے۔ یہ چیزیں ہر ایک کو بڑے پیمانے پر دستیاب ہیں‘ جو انہیں خریدنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک VCD کی اوسط قیمت ۵ ہزار انڈونیشی روپیہ ہے۔ رات گئے ٹیلی ویژن پروگرام Live نشر کیے جاتے ہیں اور دن میں بھی جنسی اعتبار سے ایسے سنسنی خیز ڈرامہ سیریل پروگرام کو ویڈیو پر اسکول کے بچے گروپ میں بیٹھ کر دیکھتے ہیں اور پھر دیکھنے کے فوراً بعد جوڑے کے ساتھ غائب ہو جاتے ہیں۔ ایک نیم برہنہ میگزین ‘Play boy’ کا پہلا انڈونیشیائی ایڈیشن ۷ اپریل کو شائع ہونا تھا۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے انڈونیشیائی باشندے اپنا شدید ردِعمل دکھائیں گے‘ جو ملک کے اخلاقی سمت کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ جنسی مواد کی دستیابی اس سطح پر پہنچ چکی ہے‘ جسے خطرناک سطح کہا جاسکتا ہے۔ Juniwati Masjchun Sofwan جو انسدادِ فواحش کمیٹی کے سربراہ ہیں‘ کا کہنا ہی کہ ’’یہ ایک سماجی بیماری بن چکی ہے‘‘۔ لیکن مجوزہ قانون کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ناقص علاج ہے۔ ایک نیوز میگزین Tempo جس نے اس مسئلے کو کافی وسیع کوریج دی ہے‘ کے مدیر Bambang Harymurti کا کہنا ہی کہ ’’مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی قانون نہیں ہے بلکہ مسئلہ اس کے نفاذ کا ہے۔ بل ہر ایک کو قانون کے نفاذ کی اجازت دیتا ہے نہ کہ صرف پولیس کو‘‘۔ ایزابیل یحییٰ کے معاملے کو لے لیجیے جس نے ستمبر میں انڈونیشی آرٹسٹ Davy Linggar کو اپنا فوٹو پوز دیا۔ یہ ۳۰ سالہ ماڈل‘ پینٹنگ میں غیرواضح طور پر ننگی تھی۔ محاذ برائے دفاعِ اسلام (Islamic Defenders Front) کے مشتعل کارکنوں کے ہجوم نے مطالبہ کیا کہ جکارتہ کی ایک نمائش میں آویزاں یہ پینٹنگ اتاری جائے اور پھر انہوں نے پولیس کو بھی اس کے لیے شکایت کی۔ واضح رہے کہ یہ محاذ ایسے رضاکاروں پر مبنی ہے جو بارز و ڈسکوز کو اپنے حملوں کا نشانہ بناتا ہے۔ حکام نے یحییٰ پر کریمنل کوڈ کے تحت ناشائستگی کا جرم عائد کیا۔ اس وقت اسے ایک سال کی ممکنہ سزا کا سامنا ہے۔ لیکن نئے قانونِ انسدادِ فحش کی رو سے مبینہ جرم کی سزا سات سال کی قید ہو گی۔ یحییٰ کا کہنا ہے کہ ’’بعض مخصوص گروہ کے لیے یہ پیسہ کمانے کا ایک دوسرا ذریعہ ہو گا۔ اس کا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ دوسروں کا یہ کہنا ہے کہ لیجسلیٹرز برہنگی کے خلاف مہم کے بہانے دراصل اپنے اسلامائزیشن کے پروگرام کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہری مورتی جو کہ مسلمان ہے‘ کا کہنا ہے کہ ’’بل اس شریعت ایجنڈے کا آغاز ہے جو عورتوں کو گھروں کے اندر رکھنا چاہتا ہے‘‘۔ ایک قدرے باخبر صحافی Leo Batubara جو کہ انڈونیشی پریس کونسل کا ایک رکن ہے‘ کا کہنا ہے کہ ’’ہم طالبان کے راستے پر چل پڑے ہیں‘‘۔ یہ ممکن نہیں ہے ایک ایسے ملک میں جو کہ اگرچہ مسلم اکثریتی ملک ہے مگر جہاں اعتدال پسندوں کا غلبہ ہے اور جن کے آبائو اجداد نے ۱۹۴۵ء کے آئین میں اسلامی قانون کی شمولیت کی مخالفت کی تھی۔ موجودہ صدر سوسیلو بمبانگ پودھویونو جو کہ ایک اعتدال پسند مسلمان ہیں اور مذہبی رواداری کے علمبردار ہیں‘ نے کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ اس بل پر ان کا موقف کیا ہے۔ بہرحال گزشتہ ہفتے وہ اپنے اسلامی اسناد کو نکھارتے ہوئے نظر آئے جب انہوں نے ایک موقع کی نشاندہی کی جہاں ایک رقاصہ اپنے کھلے پیٹ کے ساتھ صدارتی محل میں مدعو کی گئی۔ یودھویونو نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’میں واقعتا پریشان ہو گیا یہاں تک کہ میں نے گلوکارہ کو فن کے مظاہرے سے پہلے ہی گھر چلے جانے کے لیے کہا‘‘۔ غیرمسلموں اور شہری آزادی کے حامل گروہوں کی جانب سے مزاحمت نے پارلیمنٹ کے اراکین کو اس بل پر نظرثانی کے لیے مجبور کیا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جسے وہ جون تک مکمل کر لینے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ لیکن بااثر مسلم تنظیموں کی جانب سے سخت پابندی عائد کرنے کے واسطے دبائو بہت مضبوط ہے۔ ملک کی دوسری سب سے بڑی مسلم تنظیم محمدیہ کے چیئرمین دین شمس الدین کا کہنا ہے کہ ’’اخلاقی اباحیت پسندی کی جانب اس بہائو کو ہمیں روکنا ہے‘‘۔ شمس الدین جیسے رہنما اس طرح کے کسی ارادے کا انکار کرتے ہیں کہ وہ شریعت کو مسلط کرنا چاہتے ہیں یا یہ کہ غیرمسلموں کو ہدف بنانا چاہتے ہیں۔ وہ اس دعوے کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ حقوق چھین لیے جائیں گے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد عورتوں اور بچوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ برہنگی مخالف اتحاد کی ایک رکن Santi Soekanto کا کہنا ہے کہ ’’برہنگی اور فواحش کا خاتمہ پریس کی آزادی پر حملہ نہیں ہے۔ بہت سارے ممالک قوانین کی کوئی نہ کوئی شکل رکھتے ہیں‘ جو صنعت کو ضابطے میں کستا ہے‘‘۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ قانون پہلے ہی سے کتابوں میں موجود ہے‘ جسے نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کہ برہنگی پر نیا قانون برہنگی کی واضح تعریف سے عاری ہے اور اسے تعبیر کے رحم و کرم پر چھوڑنا Franz Magnis-Suseno جو کہ ایک عیسائی پادری ہیں‘ کا کہنا ہے کہ ’’بل اس میں ذوق نہیں کرتا ہے کہ کیا چیز ننگاپن ہے‘ کیا چیز ہیجان خیز ہے اور کیا چیز ناشائستہ ہے یا یہ قدرے مضحکہ چیز ہے‘‘۔
اس طرح کے ابہام نے بعض کمیونٹی رہنمائوں کو مثلاً I.Gusti Nagurah Harta پریشان کیا ہے۔ ایک بالینی جو ہندو اکثریت والے جزیرہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس قانون کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ میں میری مراد ہے Nagurah Hurta سے‘ ان کا کہنا ہے کہ یہ بل بھرپور طور سے تیسرا بالی بم ثابت ہو گا اور یہ ان کوششوں کو سبوتاژ کر دے گا جو معیشت کو معمول پر لانے کے لیے کی جارہی ہیں‘ جسے گزشتہ چار برسوں کے دوران ہونے والے دو تباہ کن بم دھماکوں نے برباد کر کے چھوڑ دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جسے ناقابلِ قبول لباس یا رویہ خیال کیا جاتا ہے ان پر سخت قسم کی پابندیاں عائد کر کے صرف سیاست ہی کو تباہ نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ ہماری ثقافت‘ آرٹس نیز رقص اور تخلیق کو بھی خطرے سے دوچار کر دیا جائے گا۔ بلکہ اس طرح ہم سے ہمارا طریقۂ زندگی اور جینے کا حق بھی چھین لیا جائے گا‘‘۔ ایک چھوٹے سے Tegalcangkring نامی بالینی گائوں میں جوں ہی Joged bumbung رقص ختم ہوا‘ ناظرین میں سے کوئی بھی بہت زیادہ پُرجوش دکھائی نہیں دیا۔ مرد قطار میں باہر نکلنے لگے جب کہ بہت ساری عورتیں اور بچے رقاصہ کو اس کی کارکردگی پر شاباشی دے رہے تھے۔ ایک ماں نے چھوٹا سا عطیہ پیش کیا لیکن پھر اپنا ہاتھ مذاق کے طور پر پیچھے کھینچ لیا‘ یہ کہتے ہوئے کہ بہتر ہے کہ میں محتاط رہوں۔ اس نے مسکرا کر کہا کہ اگر برہنگی مخالف نیا قانون پاس ہو گیا تو میں گرفتار کر لی جائوں گی۔ بالینی ہنوز مذاق کے موڈ میں ہو سکتے ہیں لیکن پریشانی یہ ہے کہ اگر یہ قانون بغیر کسی ترمیم کے پاس ہو جاتا ہے تو مسکراہٹیں بہت شاذ ہو جائیں گی۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ میگزین۔ شمارہ۔ ۱۰ اپریل ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply