
معاشی مضمرات
سندھ طاس معاہدے میں بھارت کے چیف مذاکرات کار نَرنجن ڈی گلہاٹی معاہدے پر دستخط کے بعد کہتے ہیں، ’’ہمیں دوسری طرف کے مفادات کا بھی خیال رکھنا ہوگا، انہیں بھی زندہ رہنے کا حق ہے اور ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔ ان کو بھی پانی ملنا چاہیے اور ہمیں بھی پانی ملنا چاہیے‘‘۔ بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں نے آبپاشی کے میدان میں ترقی کی ہے کیونکہ سندھ طاس معاہدے کے مطابق پانی کی جو تقسیم طے ہوئی ہے اس نے قابلِ اعتماد طریقے سے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے تاکہ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں زراعت ترقی کرسکے۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں بھارتی اور پاکستانی پنجاب میں آنے والا سبز انقلاب سندھ طاس معاہدے کا ہی مرہونِ منت ہے۔ اس معاہدے کا مقصد بھارت اور پاکستان میں ۳ کروڑ ایکڑ زمین کو سیراب کرنا تھا۔ اب اگر بھارت معاہدہ منسوخ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پورے اقتصادی منصوبے کو ایک شدید دھچکا لگے گا جو پنجاب کے دونوں حصوں میں آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ سندھ طاس معاہدے کے اقتصادی فوائد کو سمجھنے کے لیے یہ اَز حد ضروری ہے کہ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۶۰ء کے درمیانی عرصہ میں اُس تاریخی پیش رفت کو بھی سمجھا جائے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدے کی تشکیل کی وجہ بنا۔ ۱۹۵۱ء میں ڈیوڈ للی انتھال نے تعمیر نو اور ترقی سے متعلق بین الاقوامی بینک International Bank for Reconstruction and Development (IRBD) جس کا موجودہ نام ورلڈ بینک ہے، کو اپنی رپورٹ میں پاکستان کے لیے سندھ طاس کے پانیوں کی اقتصادی اہمیت کے بارے میں خصوصی طور پر بات کی۔ اس کے الفاظ درج ذیل ہیں: ’’۱۹۴۷ء کی تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کو پنجاب اور سندھ میں آبپاشی والی زمین کا بڑا حصہ ملا، جبکہ ان زمینوں کو پانی دینے والی نہریں جن بڑے دریا ؤ ں سے نکلتی ہیں وہ سب بھارت اور کشمیر کے ساتھ رہ گئیں۔ یہ بات کوئی نہیں جانتا ہے کہ تقسیمِ ہند کے دوران پاکستان کے لیے زندگی یا موت کی حیثیت رکھنے والے اہم ترین معاملے میں اتنی لا پرواہی کیوں برتی گئی؟ مغربی پنجاب اور سندھ کی زمینیں خوراک پیدا کرنے والی کارآمد زمینوں کے لحاظ سے دنیا کی بہترین زمینوں میں شامل ہوتی ہیں لیکن آبپاشی کے لیے پانی کی غیر موجودگی کے باعث یہ سب ایک صحرا میں تبدیل ہوجائیں گی۔ ۲ کروڑ ایکڑ زمین ایک ہفتے میں سوکھ کر بنجر ہو جائے گی اور کروڑوں افراد بھوک سے مر جائیں گے‘‘۔
دونوں ملکوں کے عوام کے لیے پانی اور خوراک کی پیداوار کی ضرورت کا خیال کرتے ہوئے، ۱۹ ستمبر ۱۹۶۰ء کو طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے بعد ایک بین الاقوامی کنسورشیم تشکیل دیا گیا تاکہ پاکستان اور بھارت میں دریائی پانی سے متعلق امور کی ترقی کے لیے بنیادی ڈھانچہ کے قیام میں مالی معاونت کی جاسکے۔ اس مقصد کے لیے سندھ طاس ترقیاتی فنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا، جس کے لیے ابتدائی سرمایہ آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، مغربی جرمنی، برطانیہ اور امریکا نے فراہم کیا۔ اس کنسورشیم کو مضبوط کرنے کے لیے آسٹریا، بیلجئم، فرانس، اٹلی، جاپان اور ہالینڈ نے بھارتی اور پاکستانی پنج سالہ منصوبے کے لیے مالی وعدوں کا اعلان کیا۔ ان چھ ملکوں نے مشترکہ طور پر۰ ۸ کروڑ ڈالر قرض اور گرانٹ کی شکل میں بھارت اور پاکستان کو فراہم کیے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کو مشترکہ سرمایہ کاری کا بین الاقوامی منصوبہ بھی کہا جاسکتا ہے، جو دونوں ملکوں میں خوراک کی پیداوار اور ماحول کی حفاظت میں اعانت کے لیے بنایا گیا ہے۔
اس معاہدے کے ذریعے سندھ طاس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب ، جبکہ طاس کے کل چھ اہم دریاؤں میں سے تین دریاؤں بیاس، ستلج اور راوی کو کلیتاً بھارت کو دے دیا گیا اور دیگر تین دریا یعنی چناب، سندھ اور جہلم کے معاملے میں بھارت کو معمولی حقوق دیے گئے ہیں، اور اسے پابند کیا گیا ہے کہ ان دریاؤں کے پاکستان کی طرف بہاؤ میں رکاوٹ نہ ڈالے تاکہ پاکستان بغیر کسی تعطل کے ان دریاؤں کے پانی کو استعمال کرسکے۔ معاہدے کے بعد بھارت نے انڈس سسٹم کے اُس کو ملنے والے تینوں مغربی دریاؤں پر بڑی بڑی نہریں اور ڈیم تعمیر کر لیے تاکہ چندی گڑھ، ہریانہ، ہماچل پردیش، مقبوضہ کشمیر، پنجاب اور راجستھان کو بجلی اور پانی فراہم کیا جاسکے۔ تقسیم ہند کے فوری بعد، بھارتی پنجاب میں آبپاشی اور پانی ذخیرہ کرنے کے بنیادی ڈھانچے کو وسعت دینے کے لیے کثیرالمقاصد منصوبوں کا آغاز کردیا گیا تھا۔ سندھ طاس کے بھارتی علاقے میں نہروں کے اس نئے نظام کی بدولت سیراب ہونے والے علاقے کے رقبہ میں تیزی سے اضافہ ہوا جو ۱۹۴۷ء میں ۲۲ ملین ہیکٹرز سے بڑھ کر ۲۰۰۰ء میں ۵۵ ملین ہیکٹرز تک پہنچ گئی۔ سندھ طاس معاہدے کے فوری بعد کے دور میں بھارتی حکومت نے اپنے مشرقی دریاؤں بیاس، راوی اور ستلج کو نہروں کا جال بچھا کر اور دریاؤں کا رُخ موڑ کر ایک دوسرے سے ملا نے کے منصوبوں پر کام شروع کردیا۔ دریاؤں کو ایک دوسرے سے ملا نے کا مقصد یہ تھا کہ دریائے بیاس کے فاضل پانی کو دریائے ستلج میں منتقل کردیا جائے، اس مقصد کے لیے بیاس-ستلج لنک منصوبہ شروع کیا گیا جو بھارت میں دریاؤں کو باہم ملا نے کا سب سے بڑا منصوبہ تھا۔ نہروں کا جال بچھانے اور دریاؤں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کے نتیجے میں بھارت میں سبز انقلاب آگیا۔ ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کی دہائیوں میں جو ملک غذائی قلت کا شکار تھا اور جہاں بار بار قحط پڑا کرتے تھے وہ ملک غلّہ کی پیداوار میں نہ صرف یہ کہ خود کفیل ہو گیا بلکہ دنیا کے کئی ملکوں کو خوراک برآمد کرنے والا ملک بھی بن گیا۔ بھارت کے دونوں مشرقی اور مغربی دریاؤں پر قائم ہونے والے پَن بجلی کے کئی منصوبے سندھ طاس نظام کی کامیابی کی ایک الگ کہانی ہے۔ اسی طرح پاکستان نے بھی بیرونی سرمایہ کاری کی مدد سے نہروں کا وسیع نیٹ ورک تعمیر کرنے سے متعلق اقدامات کیے ہیں۔ نہری آبپاشی کے نظام کو منسلک کرنے کے دیگر بڑے منصوبوں کے علاوہ دریائی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے تین بڑے ذخائر یعنی دریائے سندھ پر چشمہ اور تر بیلا ڈیم جبکہ دریائے جہلم پر منگلا ڈیم تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان ڈیموں کا بنیادی مقصد ان علاقوں کو پانی پہنچانا ہے جو پہلے اُن دریاؤں سے پانی حاصل کرتے تھے جو سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے بھارت کے پاس چلے گئے ہیں۔
پانی سے متعلق بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے نتیجے میں سندھ طاس کے علاقوں میں سیراب ہونے والی زمین میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، جو دونوں ممالک کی زرعی معیشتوں کی تیز رفتار ترقی کا باعث بنی۔ ٹیوب ویل اور دیہاتوں میں بجلی کی آمد سے زیر زمین پانی کو استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی ہوئی جس نے پاکستان اور بھارت میں زرعی پیداوار میں اضافہ کردیا۔ پاکستان کی زرعی پیداوار تو بڑھ گئی مگر فی یونٹ پانی کے استعمال سے حاصل ہونے والی پیداوار میں بھارت کے مقابلے میں کافی کمی واقع ہوئی ہے، مثال کے طور پر اگر پاکستانی پنجاب میں پانی کی پیداواری شرح 0.5Kg/m3 ہے تو بھارتی پنجاب کے بھکرا نہری نظام میں یہ شرح 1.0Kg/m3 ہے۔
للی انتھال کے تعمیری منصوبے کا بنیادی مقصد بھارتی اور پاکستانی پنجاب میں ایسے قوانین اور ضابطے وضع کرنے پر زور دینا تھا جس سے زمین کی سطح پر موجود پانی کی فراہمی کے ذریعے خوراک اور توانائی کی پیداواری ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ اس منصوبے کو ور لڈ بینک اور سندھ طاس کے دوسرے ملکوں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اگرچہ اس بات کی شکایت موصول ہوئی ہے کہ سندھ طاس کا پانی استعمال کرنے والے دونوں اہم ملک یعنی بھارت اور پاکستان، نہری نظام کی مناسب صفائی اور دیکھ بھال نہیں کر رہے ہیں ، جس کی وجہ سے ان نہروں کی کارکردگی میں کمی آئی ہے، تاہم سندھ طاس کے دونوں ملکوں میں موجود آبپاشی اور پَن بجلی کے بنیادی ڈھانچے کے قیام کی اصل وجہ ۱۹۶۰ء میں طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ ہی ہے۔ اگر اس معاہدے کو تحلیل کرنے کی کوشش کی گئی تو دونوں ملکوں کے آبی وسائل کا نظام ایک نئے تنازعہ کا شکار ہو جائے گا، جہاں ایک ملک کی آبادی کو خوراک دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ دوسرے ملک کی آبادی کو فاقہ کا شکار کردیا جائے اور صرف اپنے ملک میں بجلی دینے کا مطلب ہوگا کہ دوسرے ملک میں تاریکی پھیلا دی جائے۔
ماحولیاتی مضمرات
ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے پانی کو روک کر اسے ایک صحرا میں تبدیل کرنے کی خواہش کو اگر عملی جامہ پہنایا گیا تو اس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اور بھارتی پنجاب میں سیلاب کی صورتحال پیدا ہوجائے گی اور بھارت کے اس اقدام کے نتیجے میں جو ماحولیاتی تباہی پھیلے گی، وہ دونوں ملکوں کے کروڑوں انسانوں کوبے گھر کردے گی اور اس کے نتیجے میں بیرونی مداخلت ناگزیر ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کاسندھ طاس کے بالائی علاقوں میں بڑے بڑے ڈیم بنا کر بجلی بنانے اور دریائے سندھ، جہلم اور چناب کا پانی روکنے کی کوشش کرنے کا عمل پورے خطّے کے ماحولیات کو تباہی سے دوچار کرنے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ دریاؤں کے پانی کا رُخ موڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر بھاری مشینری کی تنصیب سے پانی کی گردش، زمین اور ماحول کے مطابق اس کی تقسیم، گلیشئر کا پگھلنا اور بارش کا فطری دورانیہ سمیت پورا ماحول اس سے متاثر ہوگا۔ مزید برآں، موسمیاتی تبدیلی اور پانی کے وسائل پر اس کے اثرات کے بارے میں بین الملکی معلومات کے تبادلے کے بغیر اس طرح کا بھارتی اقدام سندھ طاس کے تمام ملکوں کے ماحول پر شدید اثرات مرتب کرے گا۔ سندھ طاس معاہدے میں خطّے کی ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی کوئی مناسب فریم ورک موجود نہیں ہے۔ اس پر مزید یہ کہ مشترکہ پانی کے وسائل پر جاری دو طرفہ تعاون کو ناکام بنانے کی بھارتی کوشش اگر کامیاب ہوگئی تو یہ اقدام نہ صرف پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوگا، بلکہ خود بھارت کے اپنے مفاد کے لیے بھی تباہی کا باعث بنے گا۔
اس وقت سندھ طاس کے علاقے میں کئی اہم اور متوقع ماحولیاتی خطرات ایسے ہیں جن کی وجہ سے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ دونوں ممالک اس معاملے میں بین الملکی تعاون سے جدا نہ ہوں، بلکہ ان سے منسلک رہیں۔ کوہِ قراقرم کا گلیشئر ان میں سے ایک اہم معاملہ ہے۔ یہ بات اس خطے کے لیے کافی خوش قسمتی کا باعث ہے کہ اس خطّے میں موجود قراقرم گلیشئر کو بین الاقوامی اداروں نے مستحکم قرار دیا ہے۔ اس کے مقابلے میں نیپال اور بھوٹان سے گزرنے والا ہمالیہ گلیشئر مستقل طور پر پگھل رہا ہے۔ قراقرم کے اس مظہر کو Karakoram Anomaly ’’قراقرم کا غیر معمولی رویہ‘‘ کہتے ہیں، کیونکہ دنیا بھر کے گلیشئر کے پگھلنے اور سکڑنے کے مقابلے میں قراقرم کے نہ پگھلنے کا طرزِعمل غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ ایک ماحولیاتی صحافی کے مطابق، ’’پاکستان کے علاقے میں موجود پہاڑی سلسلے جسے وسطی قراقرم نیشنل پارک کہا جاتا ہے، میں ۷۱۱ گلیشیئر ہیں، جو کہ یورپ کے کوہِ الپس کے گلیشئر کی تعداد سے دو گنا زیادہ ہیں۔ وسطی قراقرم میں گلیشئر کا پھیلاؤ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل قریب میں پانی کا بہاؤ بڑھ جائے گا، جس کے بعد سرحد کے دونوں جانب کشمیر کے پہاڑوں سے پانی کی فراہمی میں کمی آجائے گی۔ اس صورتحال کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پانی کی تقسیم کے بارے میں موجود واحد دو طرفہ معاہدے کو بھارت کی طرف سے جلد بازی میں منسوخ کرنا ممکنہ طور پر طویل مد تی ماحولیاتی انتظام میں رکاوٹ پیدا کرنے کا باعث بن جائے گا۔
دو طرفہ تشویش کی ایک اور اہم وجہ سندھ طاس کے علاقے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی ہے۔ جنوبی ایشیا میں ایندھن کے جلنے اور بلا روک ٹوک صنعتی اخراج نے پہلے ہی گلیشئر اور بارش کے نظام کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے اور یہی دونوں سندھ طاس میں پانی کے بہاؤ کے اہم ذرائع ہیں۔ ’’بحر ہند کے براؤ ن بادل‘‘ یا ’’ایشیائی براؤ ن بادل‘‘ کا نام فضائی آلودگی کی اس تہہ کو دیا گیا ہے جو جنوبی ایشیا کے بعض حصوں کا احاطہ کرتا ہے، جس میں شمالی بحر ہند، بھارت اور پاکستان شامل ہیں۔ ۱۹۹۹ء میں بحر ہند پر ماحولیاتی آلودگی کے تجربے کے پہلے مرحلے کی مہم کے دوران آلودگی کی اس تہہ کا مشاہدہ کیا گیاتھا۔ اس تجربے نے اس بات کی تصدیق کی کہ زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور ہائیڈرولوجیکل سائیکل (یعنی پانی کا سمندر کی سطح سے بخارات بن کر فضا میں اٹھنا، ان بخارات کا ٹھنڈا ہوکر بادل کا حصہ بننا، بادلوں کا ہوا کے ذریعے دنیاکے مختلف حصوں میں جانا اور بارش برسانا اور پھر زمین اور علاقے کے مطابق اس بارش کی تقسیم، بارش کا دورانیہ، گلیشیئر کا پگھلنا وغیرہ) میں براہ راست تعلق ہے۔ ۲۰۰۲ء میں ایشیائی براؤ ن بادل کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں سی این این نے سائنسدانوں کے حوالے سے بدلتے ہوئے موسم کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ موسم کی تبدیلی سے برصغیر کے ایک علاقے، جیسے بنگلادیش، نیپال اور شمال مشرقی بھارت میں شدید سیلاب آسکتا ہے، جبکہ پاکستان اور شمال مغربی بھارت میں خشک سالی پیدا ہوسکتی ہے۔۲۰۱۰ء میں آنے والے تباہ کن سیلاب سمیت حالیہ ماحولیاتی رجحانات نے ان انتباہ کو بہت حد تک درست ثابت کردیا ہے۔ اسی طرح ۲۰۰۰ء کے بعد سے بارشوں کے موسم میں خشک سالی کا ایک سلسلہ شمال مغربی بھارت اور پاکستان پر مشتمل سندھ طاس کے علاقوں کو متاثر کر رہا ہے۔ ۲۰۱۵ء میں ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق غلہ پیدا کرنے والے بھارتی علاقے پنجاب اور ہریانہ میں پچھلے ۱۱ سالوں میں بالترتیب پانچ اور چھ مرتبہ خشک سالی پیدا ہوچکی ہے۔ ان حقائق سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سندھ طاس کے علاقوں میں مون سون کی بارشوں میں بتدریج کمی ہونے کی وجہ سے خوراک کی پیداواری صلاحیت داؤ پر لگ چکی ہے۔ اس صورتحال میں اگر بھارت سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرتا ہے تو یہ اوپر بیان کردہ ماحولیاتی خطرے کے تناظر میں صرف اور صرف پہلے سے موجود ماحولیاتی مسائل کو بڑھانے کی وجہ بنے گا، کیونکہ دونوں میں سے کوئی ملک خواہ کتنے بھی ڈیم بنا لے، ہائیڈرولوجیکل سائیکل کو اپنے تابع نہیں کرسکتا ۔
حرفِ آخر
بھارت کی طرف سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس بات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ وہ پانچ دہائی پرانے پانی کے دو طرفہ معاہدے کو ختم کرکے پاکستان کا ہاتھ مروڑ دے گا۔ تاہم اگر اس سارے منصوبے کو تجزیاتی تحقیق کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ یہ کہنا جتنا آسان ہے، اس پر عمل کرنا اتنا ہی زیادہ تباہ کن ثابت ہوگا۔ بھارت کی یہ خواہش سیاسی، قانونی، معاشی اور ماحولیاتی سمیت دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں سے ناقابلِ عمل ہے۔ قانونی طور پر سندھ طاس معاہدہ ایک ایسا راستہ ہے جس سے واپسی ممکن نہیں ہے، اور اس پر دستخط کرکے بھارت نے خود اس کی دفعات کی پاسداری کرنے کا اقرار کیا ہے۔ مزیدبرآں، مروجہ بین الاقوامی قوانین نے ایسے اصول و ضوابط قائم کر دیے ہیں جو آبی گزرگاہ کے بالائی حصے اور نچلے حصے کی طرف آباد ملکوں کے حقوق و فرائض کا تعین کرتے ہیں۔ تاکہ بین الاقوامی دریائی پانی کے حصول میں آبی گزرگاہ کے نچلے حصے میں آباد ممالک (یہاں یہ ملک پاکستان ہے) کو نقصان سے محفوظ کیا جاسکے۔ بھارت چونکہ خود چین کے مقابلے میں آبی گزرگاہ کے نچلے حصے میں واقع ہے، لہٰذا وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ پاکستان کے حصے کے پانی کو آبی گزرگاہ کے بالائی سطح پر روکے یا اس کا رُخ موڑ کر معاہدہ کی خلاف ورزی کرے اور اس طرح خود چین کے لیے ایک غلط مثال قائم کرے۔
بھارت اور پاکستان دونوں کی آبپاشی کی ضروریات کے لیے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے حوالے سے دیکھا جائے تو سندھ طاس معاہدے سے خطّے کو بے شمار معاشی فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے موجودہ پَن بجلی گھروں میں سے بیشتر کو اسی معاہدے کے فریم ورک کے تحت نصب کیا گیا ہے اور اسے چلایا جا رہا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کا مطلب آبپاشی اور پَن بجلی کے بنیادی ڈھانچے میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا بہت بڑا نقصان ہے۔ اگر معاہدے کی منسوخی کی کوششیں جاری رہیں تو اس سے مستقبل میں ماحولیاتی تعاون کے حوالے سے ہونے والی کوئی بھی بات چیت کو اس کے آغاز سے قبل ہی ایک سنگین دھچکے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نوٹ: یہ مضمون انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز، اسلام آباد کے شائع کردہ ریسرچ جرنل ’’ریجنل اسٹڈیز‘‘ سے ترجمہ کیا گیا ہے۔
Leave a Reply