
ابتدائیہ
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کا ممکنہ خاتمہ اور یکطرفہ منسوخی نہ صرف یہ کہ قانونی اور سیاسی لحاظ سے ایک ناممکن عمل ہے بلکہ اس میں بے شمار اقتصادی نقصانات بھی پوشیدہ ہیں، مزید برآں اس طرح کا کوئی بھی فیصلہ مشترکہ دریائی طاس میں ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے کا سبب بھی بن جائے گا۔ تمام بین الاقوامی معاہدوں کی طرح سندھ طاس معاہدے میں بھی ایسی قانونی دفعات موجود ہیں جو اس معاہدے کو از خود کامیابی سے چلا سکتی ہیں، لہٰذا اس معاہدے کو اْس وقت تک ختم نہیں کیا جاسکتا ہے جب تک دونوں فریق، پاکستان اور بھارت، اس معاملے میں باہمی رضامندی سے کوئی دوسرا معاہدہ نہیں کر لیتے۔ اگر قانونی طور پر دیکھا جائے تو یہ معاہدہ دوملکوں کے مابین ایک ایسی شراکت داری ہے جس سے از خود نکل جانے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ اس معاہدے میں فریقین کو نہ صرف وسیع بین الاقو امی ضمانت حاصل ہے، بلکہ ہر دو فریق کی طرف سے معاہدے کی پاسداری کرنے کا عہد بھی شامل ہے۔ اسی طرح اگر سیاسی حوالوں سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی بھی فریق کی طرف سے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی اسے دنیا بھر میں ذلت اور بے عزتی کے مقام تک گرا دے گی۔ اس مضمون میں تمام قانونی اور سیاسی پہلوؤں کی روشنی میں اس سوال کا جواب دیا جائے گا کہ بھارت کے لیے یہ بات کیوں ناقابلِ عمل ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرے۔ دورانِ مضمون یہ بات بھی بیان کی جائے گی کہ اگر بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ممکنہ طور پر اس کے پورے خطّے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
پس منظر
بھارت کی جانب سے پاکستان پر دبا ؤ ڈال کر ۵۶ سال پرانے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کے ہتھکنڈے اختیار کرنے کی پالیسی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ بیان جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’پانی اور خون ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے ہیں‘‘، کو ماضی اور حال میں بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی کوششوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں بھارت تسلسل کے ساتھ ذرائع ابلاغ میں اس معاہدے کو ختم کرنے کی مہم چلاتا رہا ہے۔ ان مہمات کے دوران اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کی طرف سے تکنیکی جائزوں کے نام پر بھارتی اخبارات و رسائل اور ٹی وی پروگرامات میں بھارتی حکومت کو اس معاہدے پر نظرثانی کرنے اور اسے ختم کر دینے کے مشورے سامنے آتے رہے ہیں اور میڈیا پر ان بیانات کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی جاتی رہی ہے۔ پاکستان میں اپنے فرائض ادا کرنے والے ایک سابق بھارتی سفیر پارتھا سارتھی فرما تے ہیں کہ ’’ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کیوں نہ ہم پاکستانیوں کو اس پانی کی فراہمی روک دیں جو ان کی پیاس بجھانے اور غلہ اُگانے کے لیے ضروری ہے ؟ ہمیں سنجیدگی سے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ ہم سندھ طاس معاہدہ کے دفعات کی پابندی کرتے رہیں؟ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی جواب دینے کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔
بھارت کی طرف سے ماضی میں اس معاہدے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ بھارت کے اس الزام کی بنیاد پر کیا جاتا رہا ہے کہ اس معاہدے میں پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی نہیں بنایا گیا ہے۔ کیونکہ یہ معاہدہ بھارت کو اس کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کشمیر سے گزرنے والے دریائے چناب اور جہلم پر پانی ذخیرہ کرنے کی محدود اجازت دیتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق بھارت کو اپنے مغربی دریاؤ ں پر 3.6MAF سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بات بہت ضروری ہے کہ ہم اس معاملے میں ایک انتہائی اہم نکتہ کا جائزہ لیں جس کی تشہیر بھارتی ذرائع ابلاغ میں نہیں کی جاتی، اور وہ ہے مقبوضہ کشمیر کی ریاست کا بھارتی حکومت سے رائلٹی کا تنازع۔
مقبوضہ کشمیر کو بجلی مہیا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ شمالی گرڈ ہے۔ اس گرڈ سے چندی گڑھ، دہلی، ہریانہ، ہماچل پردیش، مقبوضہ کشمیر، پنجاب، راجستھان، اتر پردیش اور اترنچل پردیش کے علاقے منسلک ہیں۔ بھارت کی مرکزی حکومت کی قیادت میں مقبوضہ کشمیر میں جتنے بھی پَن بجلی گھر لگائے گئے ہیں ان سے بننے والی بجلی کا صرف ۲۰ فیصد مقبوضہ کشمیر کو فراہم کیا جاتا ہے۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بننے والی بجلی کا ۸۰ فیصد شمالی گرڈ میں موجود دوسری ریاستوں کو دے دیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو اتنے مالی وسائل فراہم نہیں کیے جاتے جس سے کہ وہ خود اپنی ریاست میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرسکے۔ اس حقیقت کو سمجھ لینے سے بھارتی حکومت کا یہ پروپیگنڈا کہ ’’سندھ طاس معاہدہ کے تحت کم پانی ذخیرہ کرنے کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کا علاقہ بجلی کی کمی کا شکار ہے، لہٰذا اس معاہدے کو ختم کر دینا چاہیے‘‘، کی حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے اور ٹھوس شواہد سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ ایک بے بنیاد الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
بھارت کا سندھ طاس معاہدہ کو منسوخ کر دینے کی دھمکی دینے کا معاملہ حالیہ دنوں میں ایک بار پھر زور و شور سے شروع کیا گیا ہے تاہم اس دفعہ ایک مختلف عذر کے تحت۔ ۱۸؍ستمبر کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے اُڑی واقعہ کے تناظر میں، جس میں بھارت کے ۱۸ فوجی حریت پسندوں سے لڑائی میں مارے گئے تھے، بھارت نے پاکستان پر اس واقعہ میں تعاون کرنے کا الزام عائد کیا اور پاکستان کو سزا دینے کے لیے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدہ کی منسوخی کا اعلان کردیا۔ تاہم اس معاملے میں کئی وجوہات کی بنیاد پر بھارت انتہائی غلطی پر ہے۔ ماضی اور حال میں بھارت کے سندھ طاس معاہدہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے منسوخ کرنے کی کوششیں اس کی اسی شرارتی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو بین الاقو امی پانیوں میں اس کے جائز حق سے محروم کرنا ہے۔ یہ حکمتِ عملی بھارتی رہنماؤ ں کی علاقائی اور بین الاقو امی سیکورٹی معاملات کے طور طریقوں سے عدم واقفیت اور بین الاقو امی قوانین اور معاہدات کو توڑنے کے ردّعمل کے بارے میں ان کی کم اندیشی کو ظاہر کرتی ہے۔
اثرات
بھارت کی طرف سے ممکنہ طور پر سندھ طاس معاہدہ کی منسوخی کے ضمن میں اس معاملے کے سیاسی اور قانونی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کے معاشی اور ماحولیاتی اثرات کا تذکرہ کرنا بھی از حد ضروری ہوگا۔
سیاسی اثرات
سندھ طاس معاہدہ کو یکطرفہ طور پر منسوخ کر نے کے نتیجے میں بھارت دو طرفہ بات چیت میں سودے بازی کی پوزیشن سے گر جائے گا۔ پانی کی تقسیم کے باہمی سمجھوتے کی حیثیت سے اس معاہدے نے مختلف وقت اور حالات میں کامیاب ثالثی، معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنانے سے متعلق ضابطہ کار طے کرنے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان اعتماد سازی سے متعلق اہم قدم اُٹھانے کی ایک مثال قائم کی ہے۔ جنوبی ایشیا کے دو روایتی حریف ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق یہ وہ واحد معاہدہ ہے، جس پر ۵۶ سالوں سے تمام تر سفارتی بحرانوں اور جنگوں کے باوجود کامیابی سے عملدرآمد ہوتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے کو مختلف حیلوں بہانوں سے منسوخ کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں بھارت کو اندرون اور بیرونِ ملک انتہائی بری شہرت ملے گی۔
معاہدہ منسوخ کرنے کی بھارتی دھمکیوں کے تناظر میں کچھ اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں، جیسے کہ :
۰- بھارت کے اس معاہدے کو ختم کرنے کی صورت میں بین الاقو امی برادری کا ردّعمل کیا ہوگا ؟
۰-معاہدے سے بھارت کے نکل جانے کی صورت میں علاقائی امن و سلامتی پر اس کے کیا اثرات مرتّب ہوں گے ؟
علاقائی اور بین الاقو امی ذرائع ابلاغ کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بھارت نے اُڑی واقعہ کے تناظر میں یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کی جو دھمکی دی ہے، اس پر بین الاقو امی برادری کا ردّعمل پہلے ہی سے تنقیدی رہا ہے۔
امریکا اور چین سمیت کئی ملکوں نے اس بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر منسوخ کردیا جائے اور بھارت اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے کو باہمی طور پر حل کریں۔۱۹۴۷ء کی خونریز تقسیمِ ہند کے بعد کے سالوں میں سندھ طاس معاہدہ پہلا اور واحد مصالحتی ماڈل ہے جو اب تک کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس معاہدے کی سب سے بڑی کامیابی اس کی بین الاقوامی دریاؤ ں کے پانی کی تقسیم کے تنازعات کو گزشتہ پانچ دہائیوں سے زائد عرصے سے حل کرتے چلے آنا ہے۔ ۱۹۴۷ء کی تقسیمِ ہند کے بعد یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ دونوں ملکوں کے مابین ممکنہ طور پر پانی کی جنگیں شروع ہوجائیں گی، یہاں تک کہ ۱۹۶۰ء میں سندھ طاس معاہدہ عمل میں آیا، جس نے دریاؤں کے پانی کی تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے دونوں ملکوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک مستقل انڈس کمیشن (PIC) Commission Permanent Indus قائم کیا۔ سالہا سال تک دو طرفہ آبی تنازعات کو مستقل انڈس کمیشن کے ذریعے سے حل کیا جاتا رہا ہے، جبکہ زیادہ سنگین نوعیت کے تنازعات کو ثالثی کے لیے یا تو تیسرے فریق کے پاس بھیج دیا جاتا ہے یا پھر ثالثی کی عالمی عدالت International Court of Arbitration (ICA) سے رجوع کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین آبی تنازعات کو حل کرنے کے لیے سندھ طاس معاہدے کے تحت بنایا گیا، یہ پورا طریقہ کار معاہدے کے جامع اور مثالی ہونے کو ظاہر کرتا ہے، جس نے وقت گزرنے کے ساتھ اس معاہدے کی کامیابی کو ثابت کیا ہے۔ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دونوں ممالک پانی کی تقسیم کے معاملے میں وقتاً فوقتا کئی لڑائیاں لڑ چکے ہوتے جس سے لازمی طور پر اس پورے خطّے کی امن اور سلامتی خطرے میں پڑ جاتی۔
معاملے کا دوسرا سیاسی پہلو یہ ہے کہ اگر بھارت سندھ طاس معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکل جاتا ہے تو اس سے خطّے کے دوسرے ملکوں کے لیے ایک غلط مثال قائم ہوجائے گی کہ وہ بھی اپنے مفاد کی خاطر بین الاقوامی معاہدوں سے نکل سکتے ہیں۔ دریائے سندھ کی گزرگاہ کا ۸فیصد حصہ چین میں ہے۔ دریائے سندھ اور دریائے ستلج دونوں کا آغاز چین سے ہوتا ہے جہاں سے یہ پانی مجموعی طور پر 181.6Km3 سالانہ کے حجم سے بھارت میں داخل ہوتا ہے۔ اسی طرح بھارت کا عظیم دریائے برہم پترا جس کو چین میں دریائے یار لنگ سانگپو کہتے ہیں، چین میں تبت کے مقام سے نکلتا ہے۔ یعنی چین بھارت کے مقابلے میں دریائی گزرگاہ کے بالائی حصے پر واقع ہے۔ چین اور بھارت کے مابین نہ صرف یہ کہ دریائے برہم پترا کے پانی کی تقسیم سے متعلق دو طرفہ تنازعات کو حل کرنے کا کوئی بھی ادارہ اور نظام موجود نہیں ہے، بلکہ ان دونوں ملکوں کا ریاست اروناچل پردیش جسے چین میں جنوبی تبت کہا جاتا ہے کی، ملکیت پر جھگڑا بھی ہے۔ بھارت کو بھی چین کی طرف سے دریائے برہم پترا کے رُخ موڑنے کے منصوبے پر تحفظات ہیں۔ اگر بھارت پاکستان کے مقابلے میں دریائی گزرگاہ کے بالائی حصے میں ہونے کا فائدہ لیتے ہوئے پاکستان کے حصے کا پانی روکتا ہے یا سندھ طاس معاہدہ توڑ کر دریائی گزرگاہ کے نچلے حصے میں رہنے والی آبادی کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس طرح دریائی گزرگاہ کے اوپری حصے کے ممالک جیسے چین، کے لیے ایک مثال قائم ہوجائے گی کہ وہ بھی اپنے مفاد کی خاطر یہی عمل اپنے سے نیچے آباد ملک یعنی بھارت کے ساتھ دہرائے۔
بھارت کے NDTV میں پیش کیے جانے والے ایک پروگرام میں ایک بھارتی تجزیہ کار کی رائے کے مطابق ’’دریائے سندھ کا آغاز چین سے ہوتا ہے، لہٰذا اگر چین دریائے سندھ کا رُخ موڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو بھارت کو اس دریا سے ملنے والے پانی میں سے ۳۶ فیصد کی کمی واقع ہوجائے گی‘‘۔ ایک اور بھارتی ماہر ’’دریائے سندھ کے گزرگاہ میں چین کا کردار‘‘ کے موضوع پر اپنے مضمون میں بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کے منصوبے پر چین کے متوقع ردّعمل کے بارے میں صاف گوئی سے تنبیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اگر چین یہ فیصلہ کرے کہ تبّت کے پہاڑوں سے دریائے ستلج کی طرف جانے والے پانی کو روک دیا جائے تو شمالی بھارت کا بڑا حصہ بجلی سے محروم ہوکر تاریکی میں ڈوب جائے گا۔ دریائے ستلج کا پانی بھکرا ڈیم، کَرچَم ونگٹو پَن بجلی پروجیکٹ اور ناتھپا جھاکری ڈیم میں بہتا ہے، جو مجموعی طور پر کم سے کم ۳۶۰۰ میگا واٹ بجلی پیدا کرتے ہیں جس سے مشرقی پنجاب، ہریانہ، راجستھان، ہماچل پردیش، چندی گڑھ اور دہلی میں روشنی ہوتی ہے۔
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کر دینے کا عمل خطّے کے ان ممالک کے لیے بھی غلط مثال بنے گا جن سے بھارت کا بین الاقوامی دریاؤ ں کے پانی کی تقسیم کامعاہدہ پہلے سے موجود ہے، جیسے نیپال اور بنگلادیش۔ ۱۹۹۶ء میں دریائے گنگا کے پانی کی تقسیم کے لیے بھارت اور بنگلادیش کے مابین ہونے والے باہمی معاہدے کے بعد بھارت بنگلادیش کے ساتھ دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ بھی مکمل کرنے کے مرحلے میں ہے۔ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان ایک جذباتی شکل اختیار کر چکا ہے کیونکہ بنگلادیش دریائے تیستا کے پانی میں برابر کا حصہ مانگ رہا ہے جبکہ بھارت بنگلادیش کو صرف ایک چوتھائی پانی دینا چاہتا ہے اور خود تین چوتھائی پانی کا دعویدار ہے۔ بنگلادیش چونکہ دریائی گزرگاہ کے نچلے حصے میں واقع ہے، اس لیے بھارت پانی کے معاملے میں اپنی جغرافیائی پوزیشن کا فائدہ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلادیش عرصہ دراز سے سرحد کے آر پار بہنے والے ۵۴ دریاؤ ں کے پانی کی تقسیم میں بھارت کی طرف سے ناانصافی برتنے کا شکوہ کرتا رہا ہے۔
نیپال، جو دریاؤ ں کے بالائی حصے میں واقع ہے، کے ساتھ بھارت نے دریائی پانی کی تقسیم سے متعلق دو باہمی معاہدے کیے ہوئے ہیں، جن کے نام ’مہاکالی‘ اور ’گندک‘ ہیں۔نیپال بھارت کے اس منصوبے کا شدت سے مخالف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ زرعی ترقی اور سیلاب سے بچاؤ کے اقدامات نیپال کے بجائے بھارت میں کیے جائیں گے۔ نیپال چاہتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے پن بجلی منصوبے شروع کرے، جس میں پنچیس ور، ارون۔۳، قابل ذکر ہیں۔ تاہم بھارت کی مخالفت کی وجہ سے کام کا آغاز نہیں ہو سکا ہے۔ دریاؤ ں کے گزرگاہ کے بالائی مقام پر ہونے کی وجہ سے نیپال کے دریا خشک موسم میں بھارت کے دریائے گنگا کو ۸۰ فیصد پانی فراہم کرتے ہیں۔ بھارت آبی گزرگاہ کے نچلی طرف رہنے والے ملکوں کے ساتھ پانی کی سیاست کے نام پر جو غنڈہ گردی کر رہا ہے، اس کی یہ پالیسی آبی گزرگاہ کے بالائی طرف رہنے والے ممالک، نیپال اور چین، کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاملے میں خود اس کے اپنے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔ اگرچہ نیپال ایک چھوٹا ملک ہے جو بین الاقوامی پانی کی تقسیم کے معاملے میں بھارت کے لیے کبھی بھی خطرہ ثابت نہیں ہوگا، تاہم بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر ختم کر دینے سے بھارت کے خطّے کے دیگر ممالک کے ساتھ آنے والے دنوں میں پانی کی تقسیم کے معاہدوں پر انتہائی منفی اثرات قائم ہوں گے۔
علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اس موضوع پر گفتگو جاری رکھے ہوئے ہیں، تاہم صاف گوئی سے کیے گئے تمام تجزیے اس تاریخی حقیقت تک پہنچتے ہیں کہ بھارتی حکومت پانی بند کرنے کی دھمکی کے ذریعے پاکستان کو کشمیر کے معاملے میں جھکانا چاہتی ہے۔ معاہدے کی حقیقی منسوخی اتنا آسان نہیں ہے اور بھارت خوب اچھی طرح اس فیصلے کے سیاسی اثرات سے واقف ہے۔ ایسا کوئی بھی فیصلہ نہ صرف بین الاقوامی برادری کی طرف سے سخت تنقید کا باعث بنے گا بلکہ آبی گزرگاہ میں نیچے کی طرف رہنے والے ملکوں سے تعلقات کے معاملے میں بھی بھارت کی پوزیشن کمزور ہوجائے گی۔
قانونی اثرات
معاہدوں کے قانون سے متعلق ویانا کنونشن Vienna Convention on the Law of Treaties (VCLT) ایک بین الاقوامی قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ کنونشن اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی ملک یکطرفہ طور پر دوسرے ملک کے ساتھ ہونے والے اپنے معاہدے کو ختم کردے۔ اگرچہ بھارت اس کنونشن پر دستخط کرنے والے ملکوں میں شامل نہیں ہے، تاہم اس کنونشن کی کئی دفعات کو بھارت کے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں روایتی بین الاقوامی قانون کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ۲۰۱۱ء میں رام جیٹھ ملانی بنام یونین آف انڈیا کے مقدمے میں بھارتی سپریم کورٹ نے اس بات کو قبول کیا کہ ویانا کنونشن میں روایتی بین الاقوامی قانون کے کئی اصول و ضوابط موجود ہیں۔ سپریم کورٹ نے خصوصی طور پر آرٹیکل ۳۱ کا ذکر کیا جو کہ معاہدوں کی تعبیر کرنے کے عام اصول مجریہ VLCT-1969 سے متعلق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کسی معاہدے کی پوری نیک نیتی کے ساتھ اور اس میں لکھے گئے الفاظ کے ظاہری معنوں میں اور اس کے سیاق و سباق اور اس معاہدے کے اغراض و مقاصد کے مطابق تعبیر کی جائے گی‘‘۔ ۲۰۱۵ء میں دہلی ہائی کورٹ نے AWAS آئرلینڈ بنام ڈائریکٹوریٹ جنرل سول ایوی ایشن کے مابین مقدمے کے فیصلے میں ویانا کنونشن کو روایتی بین الاقوامی قانون تسلیم کیا۔ اس مقدمے میں دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ ہمارے موضوع سے متعلق زیادہ ہے۔ کیونکہ اس مقدمے میں ویانا کنونشن کے آرٹیکل ۲۶، ۲۷؍اور ۳۱ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ویانا کنونشن کے آرٹیکل ۲۶ کے مطابق ’’ہر معاہدہ اپنے فریقین کے لیے ذمہ داری ہے اور ان پر لازم ہے کہ وہ اس معاہدے پر نیک نیتی سے عمل کریں‘‘۔ دہلی ہائی کورٹ نے ویانا کنونشن کے آرٹیکل ۲۶ اور ۲۷ کی دفعات کو اپنے مذکورہ بالا فیصلے میں استعمال کیا ہے، جو دو طرفہ معاہدے کے فریقین کو پابند کرتا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ معاہدے کی تمام شِقوں کی پابندی کریں گے بلکہ ملکی قوانین کو بھی معاہدے پر عمل درآمد نہ کرنے کے جواز کے طور پر پیش نہیں کریں گے۔ دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ دو طرفہ معاہدے پر عملدرآمد کے ذریعے روایتی بین الاقوامی قوانین کا حصہ بننے سے متعلق بھارت کے لیے ایک معیار قائم کرتا ہے۔ چونکہ بھارتی حکومت ماضی میں ویانا کنونشن کی بیشتر دفعات کو اپنے بین الاقوامی معاہدوں میں حوالے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے، لہٰذا سندھ طاس معاہدے کے تناظر میں ہم اس بات پر بھی گفتگو کریں گے کہ بین الاقوامی معاہدوں کی مخالفت کرنے، اس کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے یا اَزخود کسی معاہدے سے نکل جانے کے بارے میں ویانا کنونشن کیا کہتا ہے۔ ویانا کنونشن اس طرح کے فیصلے کی انتہائی محدود اجازت دیتا ہے۔ آرٹیکل ۴۲ سے ۶۲ تک میں تین متوقع صورتحال کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے، جو درج ذیل ہیں :
۱- فریقین کو معاہدہ سے نکلنے کا حق یا تو خود معاہدے میں فراہم کیا گیا ہو یا پھر تمام فریقین کے باہمی رضامندی سے کسی بھی موقع پر ایسا فیصلہ کیا جائے۔
۲- تمام فریقین کی طرف سے معاہدے کو سرے سے ختم کردیا جائے۔
۳- معاہدہ کو قانونی لحاظ سے خلافِ ضابطہ قرار دے کر ختم کردیا جائے، خواہ فریقین ایسا نہ بھی چاہتے ہوں۔ قانونی لحاظ سے منسوخ کرنے کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ معاہدے کی دفعات کسی بنیادی ملکی قانون سے ٹکراتی ہوں، معاہدے میں کسی غلطی کا امکان پیدا ہو گیا ہو، کسی وقتی لالچ، فراڈ، بدعنوانی یا زور زبردستی کے تحت معاہدہ کرایا گیا ہو، معاہدہ کسی عمومی بین الاقوامی قانون کے خلاف ہو، کسی فریق کی طرف سے معاہدہ کی صریح خلاف ورزی کی گئی ہو، معاہدہ کارکردگی دکھانے میں ناکام ہو چکا ہو یا پھر معاہدے کے وقت کی صورتحال بدل چکی ہو اور بدلتی ہوئی صورتحال میں معاہدے کی ضرورت باقی نہ رہی ہو۔
بین الاقوامی کمیشن برائے قوانین International Law Commission (ILC) فریقین کو اپنی مرضی سے یکطرفہ طور پر معاہدہ منسوخ کرنے کا حق دینے کو مسترد کرتے ہوئے اپنی دستاویز میں دو طرفہ معاہدے کو منسوخ کرنے یا اس سے نکل جانے کی وجوہات کو اجاگر کرنے سے متعلق وضاحت کرتا ہے کہ:
وجوہات کو اجاگر کرنے invoke as a ground کا مطلب یہ ہے کہ اس آرٹیکل کے تحت فریقین کو معاہدہ منسوخ کرنے سے متعلق جو حق ملتا ہے وہ ان کا صوابدیدی حق نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے معاہدے کو منسوخ کر سکیں۔
ویانا کنونشن کے آرٹیکل ۶۵، ۶۶ اور ۶۷ فریقین پر بین الاقوامی معاہدے سے نکل جانے، اسے منسوخ کرنے، ختم کرنے یا معطل کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے کئی دفعات پر مبنی شرط عائد کرتا ہے۔ آرٹیکل ۶۵ یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی فریق کسی معاہدے کا پابند رہنے سے متعلق اپنی مشکل بیان کرے، یا معاہدے کی درستگی سے متعلق مختلف وجوہات کی بنیاد پر سوالات کھڑے کرے، یا معاہدے کو ختم کرنا چاہے، معاہدے سے نکلنا چاہے یا پھر معاہدے پر عمل درآمد معطل کرنا چاہے، تو اس پر لازم ہے کہ وہ تمام فریقین کو اپنی شکایت کے بارے میں مطلع کرے گا۔ ساتھ ہی شکایت کنندہ معاہدہ سے متعلق اپنی شکایت کے حل کے لیے دلائل کی بنیاد پر ممکنہ طور پر اٹھائے جانے والے اقدامات بھی تجویز کرے گا۔ ویانا کنونشن کے آرٹیکل ۶۶ کے مطابق اگر شکایت کرنے اور اقدام تجویز کرنے کے ۱۲ مہینے تک کوئی حل سامنے نہیں آتا، تو کوئی بھی فریق انصاف کے حصول کے لیے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کو تحریری درخواست دے سکے گا۔
بین الاقوامی معاہدوں سے نکلنے کے لیے ویانا کنونشن میں اوپر بیان کردہ تین متوقع صورتحال میں سے پہلی دو صورتحال جس میں معاہدے سے نکلنے کے حق کی شِق خود معاہدے میں موجود ہونے اور فریقین کی رضامندی سے معاہدے کو منسوخ کرنے کی بات کی گئی ہے، سندھ طاس معاہدے سے غیر متعلق ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کا آرٹیکل ۱۲ یہ کہتا ہے کہ ’’اس معاہدے کی دفعات یا پیراگراف (۳) کے مطابق اس معاہدے کی ترمیم شدہ دفعات پر اس وقت تک عمل ہوتا رہے گا جب تک کہ پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کی توثیق سے اسی مقصد کے لیے کوئی دوسرا معاہدہ اس کی جگہ نہ لے لے۔ صرف تیسری صورتحال جو ویانا کنونشن کے آرٹیکل ۴۶ سے ۶۲ تک کی دفعات پر مشتمل ہے، سندھ طاس معاہدہ کو منسوخ کرنے سے متعلق ہوسکتی ہے۔ تاہم اس معاہدہ کے بارے میں حقائق کا تجزیہ دلچسپ طریقے سے ویانا کنونشن کے اوپر بیان کردہ آرٹیکلز کو غیر متعلق کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر آرٹیکل ۴۶ کو اگر معاہدہ کی منسوخی کی وجہ کے طور پر پیش کیا جائے تو بھارت کو ٹھوس دلائل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ سندھ طاس معاہدہ کی کون سی شِق بھارت کے بنیادی اہمیت کے حامل قانون سے ٹکراتی ہے۔ مزید برآں یہ سوال بھی اُٹھایا جائے گا کہ اگر واقعی معاہدے کی کوئی شِق بھارت کے اہم داخلی قانون سے متصادم ہے تو پھر بھارت گزشتہ پانچ دہائیوں سے زائد عرصہ سے کس طرح اسی معاہدے کے تحت پانی اور بجلی حاصل بھی کرتا رہا ہے اور اس کو توسیع دینے کی منصوبہ بندی بھی کرتا رہا ہے؟ مزید برآں سندھ طاس معاہدے کی شِقوں میں سے کسی بھی شِق کو کشمیر کی سرزمین کے حوالے سے بھارت کے داخلی قانون کی خلاف ورزی کا جواز پیش کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، جبکہ یہ بات واضح ہے کہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے تسلیم شدہ متنازع علاقہ بھی ہے۔
بھارتی میڈیا میں کئی تجزیہ کاروں نے اپنی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل ۶۱ اور ۶۲ کو سندھ طاس معاہدہ کو منسوخ کرنے کے لیے بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے۔ واضح رہے کہ آرٹیکل ۶۱ معاہدہ کی کارکردگی میں ناکامی سے متعلق ہے۔ تاہم سندھ طاس معاہدہ پر اس آرٹیکل ۶۱ کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ آرٹیکل ۶۱ میں کارکردگی میں ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ معاہدے پر عملدرآمد کے لیے ناگزیر اہمیت کی حامل چیز تباہ ہوجائے یا منظر سے غائب ہوجائے، جس کے نتیجے میں لامحالہ معاہدہ کارکردگی دکھانے میں ناکام ہو جائے گا اور اس کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔ اس کے برخلاف سندھ طاس معاہدہ اپنی کارکردگی کے تسلسل کے لیے آج تک کسی بھی چیز پر انحصارنہیں کرتا ہے۔
صورتحال کی تبدیلی سے متعلق آرٹیکل ۶۲ کی شِق کو معاہدہ منسوخ کرنے کے لیے استعمال کرنے کی بات بھی ایک بہانہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ویاناکنونشن کے آرٹیکل ۶۲ کے درج ذیل الفاظ پر غور کریں :
’’مندرجہ ذیل صورتوں میں حالات کی کسی بھی تبدیلی کو ایک معاہدہ کو ختم کرنے یا اس سے نکل جانے کی وجہ کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے :
۱- اگر معاہدہ کسی سرحدی حدود کا تعّین کرتا ہو۔
۲- اگر شکایت کنندہ کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے یا معاہدے میں موجود کسی تیسرے فریق سے متعلق کسی بین الاقوامی ذمہ داری کو ادا نہ کرنے کے نتیجے میں حالات کی تبدیلی واقع ہوئی ہو‘‘۔
آرٹیکل ۶۲ کے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ اس کو بھی سندھ طاس معاہدے کی منسوخی کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان دریائے سندھ کے گزرگاہ کی صورت میں، یہ معاہدہ پہلے ہی ایک واضح جغرافیائی حدود کا تعیّن کر تا ہے۔
اگر بھارت معاہدہ سے نکلنے کی کوشش کرتا بھی رہے تو بھی کسی مروجہ بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کو نہیں روک سکتا، کیونکہ ویانا کنونشن کا آرٹیکل ۴۳، جو کہ بین الاقوامی معاہدوں کے قانون کا بڑا ذریعہ ہے، ملکوں کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ ’’وہ مروجہ بین الاقوامی قانون میں بیان کردہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے کوتاہی نہیں برتیں گے‘‘۔
بین الاقوامی قانون میں پانی کے منصفانہ استعمال کے اصول کو اچھی طرح تسلیم کیا گیا ہے، جسے اقوام متحدہ کی آبی گزرگاہ سے متعلق کنونشن Watercourses Convention کی دفعات ۵، ۶ اور ۷ میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ کنونشن نہ صرف ملکی سرحدوں کے دونوں اطراف بہنے والے دریائی پانی کے منصفانہ اور مناسب استعمال کی ترغیب دیتا ہے اور اس کے استعمال کے لیے مناسب قواعد و ضوابط مقرر کرتا ہے بلکہ تمام متعلقہ ملکوں کو بھی پابند کرتا ہے کہ وہ آبی گزر گاہوں میں آنے والے ملکوں کے لیے کسی طرح بھی نقصان کا باعث نہیں بنیں گے۔ ان قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کو ایک حالیہ مثال میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ۱۹۹۸۔۱۹۹۷ء میں گبچی کووو اور نگیماروس کے مابین ہونے والا مقدمہ Gabcikovo-Nagymaros Case ہے۔ اس مقدمے میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے چیکو سلواکیہ کی طرف سے دریائے ڈَنْوبے کی سمت کو یکطرفہ طور پر موڑنے (جس کے ذریعے چیکوسلواکیہ نے دریائے ڈنوبے کا ۹۰ فیصد پانی اپنے استعمال کے لیے مختص کرلیا تھا) کو غیر قانونی قرار دیا۔ کیونکہ چیکوسلواکیہ نے ہنگری کے ساتھ آبی گزرگاہ کی مشترکہ ملکیت کے اصول کے تحت ہونے والے باہمی معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی۔ عالمی عدالتِ انصاف نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران خصوصی طور پر بین الاقوامی دریائی گزرگاہ کے غیرجہازرانی استعمال کے متعلق اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا :
’’چیکوسلواکیہ نے مشترکہ وسائل کا یکطرفہ طور پر کنٹرول سنبھال کر ہنگری کو اس کے جائز حق سے محروم کردیا کہ وہ دریائے ڈَنْوبے کے قدرتی وسائل سے منصفانہ اور معقول حصہ حاصل کرسکتا۔ اس طرح چیکوسلواکیہ قدرتی وسائل کو تناسب سے حاصل کرنے کے بین الاقوامی قانون کا احترام کرنے میں ناکام ہو گیا‘‘۔
اوپر بیان کیے گئے معاملے میں عالمی عدالتِ انصاف نے ہنگری کی طرف سے ۱۹۷۷ء میں دو طرفہ معاہدے کو منسوخ کر دینے کو بھی غیر قانونی قرار دے کر مسترد کردیا اور اس معاملے میں ہنگری کی طرف سے پیش کی گئیں تمام وجوہات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، جیسے کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہونا، فرائض کی بجاآوری کا ناممکن ہو جانا، حالات میں بنیادی تبدیلی پیدا ہو جانا، دوسرے فریق یعنی چیکوسلواکیہ کی طرف سے معاہدے کی سنگین خلاف ورزی کرنا اور بین الاقوامی ماحولیاتی قوانین میں نئے معیار کا رائج ہو جاناوغیرہ شامل ہیں۔ عدالت نے دونوں فریقین کو یہ باور کرایا کہ اس معاہدے کو مشترکہ سرمایہ کاری کا ایک منصوبہ سمجھیں جس سے ماحول کے تحفظ جیسے بنیادی مقصد سمیت کئی دیگر مقاصد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
بھارت کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ دریائے سندھ پر پاکستان کے قانونی حق کے متعلق سیاسی گفتگو سندھ طاس معاہدے سے کہیں پہلے کی بات ہے۔ بھارت اور پاکستان کے علیحدہ ملک بن جانے کے فوری بعد سے اس بات کی اہمیت پر زور دیا جانے لگا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے تنازع کے حل کے ذریعے ہی امن اور خوشحالی کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔ ڈیوڈ لیلی انتھال ۱۹۵۱ء میں اپنے مشہور مضمون Another Korea in the Making میں پاکستان کی قانونی پوزیشن کا اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے، ’’پاکستان کا مؤقف ہے کہ اس کے دریا ؤ ں میں پانی کا مسلسل بہا ؤ اس کا قانونی حق ہے، یعنی آبی گزرگاہ کے بالائی حصے میں موجود بھارتی ڈیموں میں محفوظ پانی کے ذخیرے میں پاکستان کا بھی حق ہے۔ البتہ یہ بات قطعاً ناکا فی ہے کہ پاکستان اس اہم ترین مسئلے کے حل کے لیے محض قانونی حق کی بات ہی کرتا رہے۔ شاید پاکستان کا قانونی دعویٰ بہت مضبوط ہو، تاہم یہ تنازع دو کسانوں کے درمیان تنازع کے مقابلے میں، جو اپنے نجی حق کے لیے الجھ رہے ہوں، کہیں زیادہ اہم ہے۔ اگر بھارت عالمی عدالتِ انصاف میں اس معاملے کو لے جاتا ہے تو عدالت ممکنہ طور پر پاکستان کے حق میں اس قانونی معاملے کا فیصلہ کر سکتی ہے‘‘۔ بین الاقوامی طریقہ کار اور معیار کے تناظر میں بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ کو منسوخ کرنا یا پاکستان کی طرف جانے والے پانی کو روک کر آبی گزرگاہ کے نچلے حصے میں رہنے والی پاکستانی آبادی اور ماحولیات کو نقصان پہنچانا، دنیا میں قائم شدہ قانون کی حکمرانی کے صریحاً خلاف ہے۔ لہٰذا پاکستان بھارت کے اس عمل کو مروجہ بین الاقوامی قانون کے تناظر میں عالمی عدالتِ انصاف میں چیلنج کرسکتا ہے۔
(۔۔۔۔۔ جاری ہے!)
Leave a Reply