غلام اعظم کے خلاف غیرانسانی کارروائی
اگر مقدمے کی کارروائی خامیوں سے پُر ہو تو انصاف کا خون ہوتا ہے اور اگر مقدمہ مذموم مقاصد کی بنیاد پر کھڑا ہو تو ناانصافی پر منتج ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم کے ساتھ نا انصافی کی حد یہ ہے کہ انہیں ۹۰ سال کی عمر میں جنوری میں گرفتار کیا گیا اور اب تک قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ ان پر ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی جنگ کے دوران انسانیت سوز مظالم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جو سراسر بے بنیاد ہیں۔ جنگی جرائم کے ایک ایسے ٹربیونل میں ان کے خلاف کارروائی کی جانے والی ہے جس کی قانونی حیثیت پر ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور انسانی حقوق سے متعلق اعلیٰ ترین امریکی عہدیدار اسٹیفن ریپ نے بھی شکوک کا اظہار کیا ہے۔
پروفیسر غلام اعظم کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے قائم کیے جانے والا ٹربیونل اب تک طے نہیں کرسکا ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم کیا ہوتے ہیں۔ اسٹیفن ریپ نے گزشتہ نومبر میں بنگلہ دیش کا تیسرا دورہ کیا اور حکومت پر زور دیا کہ وہ جنگی جرائم کے ٹربیونل میں غیرملکی ماہرین کو بھی شامل کرے تاکہ تسلیم شدہ معیارات کے مطابق مقدمہ چلایا جاسکے۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا (برکلے) میں قانون کے پروفیسر لاریل فلیچر کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے مقدمات بہت مشکوک ہوتے ہیں کیونکہ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے قوانین اور قواعد کو موم کی ناک کی طرح کسی بھی طرف موڑا جاسکتا ہے۔
جنگی جرائم کا جو ٹربیونل چالیس سال تک غیرفعال رہا، ۲۰۱۰ء میں اچانک فعال کردیا گیا۔ تیاری اور نیت کے اعتبار سے یہ ٹربیونل اب تک ادھورا اور مشکوک ہے کیونکہ اس میں بین الاقوامی اشتراکِ عمل سے گریز کیا گیا ہے۔ پروفیسر غلام اعظم پر ۶۲؍الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ تین رکنی ٹربیونل نے ان کے خلاف حتمی فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ ۲ مئی تک ملتوی کردیا تھا (جو اَب ۱۳؍مئی تک موخر کر دیا گیا ہے)۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں انہیں پھانسی دی جاسکتی ہے۔ یہ مقدمہ خالص سیاسی اور انتقامی نوعیت کا ہے کیونکہ پاکستان کی وحدت کے حامی بنگالیوں اور بہاریوں کے قتلِ عام پر اب تک کسی کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا ہے۔
پروفیسر غلام اعظم کی صحت خراب ہے۔ اہل خانہ کو ان سے ملنے نہیں دیا جارہا۔ انہیں کتابیں ساتھ رکھنے کی بھی اجازت نہیں۔ ضمانت کی درخواست مسترد کی جاچکی ہے۔ اب تک ان پر فرد جرم بھی عائد نہیں کی گئی مگر سلوک ایسا روا رکھا جارہا ہے جیسے وہ کوئی سزا یافتہ دہشت گرد ہوں۔
(بشکریہ: اداریہ ’’سعودی گزٹ‘‘۔ ۳۰؍اپریل ۲۰۱۲ء)