
اسرائیل جنوبی شام میں ۱۲ سے زائدباغی گروپوں کی خفیہ طور پرعسکری اور مالی معاونت کرتا رہا ہے۔اس معاونت کا مقصد ایران نواز جنگجوؤں اور داعش کو اسرائیلی سرحد سے دور رکھنا تھا۔یہ انکشاف شام میں موجود باغی گروہوں کے کمانڈروں نے کیا۔
اسرائیل کی جانب سے فراہم کی گئی امدادمیں گاڑیاں، مارٹر گولے اور دیگر ہلکے اور بھاری ہتھیار شامل ہیں۔اسرائیلی ایجنسیوں نے یہ ہتھیار گولان کی پہاڑیوں کے راستے منتقل کیے۔اس امداد کی منتقلی رواں سال جولائی میں ختم ہو گئی۔
مقامی صحافیوں اور باغی کمانڈروں کے مطابق اسرائیل ہر جنگجو کو ماہانہ قریباََ ۷۵ ڈالر تنخواہ ادا کرتا تھا۔اس کے علاوہ باغی گروہوں کو غیر قانونی منڈیوں سے اسلحہ خریدنے کے لیے اضافی رقم بھی فراہم کی گئی۔
باغیوں کو گمان تھا کہ اگر حکومتی افواج جنوبی شام کی طرف پیش قدمی کرتی ہیں تو اسرائیل ضرور مداخلت کرے گا۔ تاہم جب حالیہ گرمیوں میں حکومتی فوج نے روسی فضائیہ کی مدد سے جنوبی شام پر چڑھائی کی تو اسرائیل نے کوئی مداخلت نہیں کی۔اس صورت حال میں باغی گروپوں نے یہ محسوس کیا کہ انھیں دھوکا دیا گیا ہے۔
’’فورسان الجولان‘‘ نامی باغی گروپ کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ’’ہمیں اسرائیل کے حوالے سے سبق حاصل ہوا ہے۔ اسرائیل کو انسانیت کی پرواہ نہیں ہے۔ اسے صرف اپنے مفادات عزیز ہیں‘‘۔ اسرائیل نے باغیوں کے ساتھ اپنے روابط کوخفیہ رکھنے کی کوشش کی تاہم ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے اس مضمون کے لیے جن باغی کمانڈروں سے بات کی انھوں نے نام اور شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہم سے بات کی۔
شام میں جاری خانہ جنگی کو سات سال ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں ترکی، سعودی عرب، قطر اور امریکا جیسے ممالک نے باغیوں کی بڑے پیمانے پر عسکری اور مالی امداد کی۔ یہ امداد اسرائیل کی جانب سے فراہم کی گئی امداد سے کہیں زیادہ تھی۔جس وقت اسرائیلی امداد اپنے عروج پر تھی تب بھی باغیوں کی جانب سے اس امداد کے ناکافی ہونے کی شکایت کی جا رہی تھی۔
اسرائیل کی جانب سے دی جانے والی امداد کئی حوالوں سے اہم ثابت ہوئی۔اس سے اسرائیل کے ایک اور حربے کی نشاندہی ہوئی، جس کی مدد سے اُس نے ایرانی افواج کو سرحد سے دور رکھا۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ بغاوت کا زور ٹوٹنے کے بعد شام میں طاقت کا تواز ن کیسا ہوگا۔ایرانی افواج فی الحال شام سے واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں۔اس طرح ایران اور اسرائیل میں تصادم کا خطرہ بھی روز بروز بڑھ رہا ہے۔
اسرائیل نے ۲۰۱۳ء میں Free Syrian Army اور اس سے متعلقہ گروپوں کی عسکری امداد شروع کی ۔ان گروپوں میں قنطیرہ، درعا اور دمشق کے مضافاتی علاقوں میں سرگرم باغی گروہ بھی شامل تھے۔ابتدا میں اسرائیل نے امریکی ساختہ M16 رائفلیں فراہم کیں ۔بعد میں اسرائیل نے غیر امریکی ہتھیاروں کی فراہمی کا آغاز کیا تاکہ امداد کے ذرائع خفیہ رہیں۔ان غیر امریکی ہتھیاروں میں ایران کی جانب سے حزب اللہ کی امداد کے لیے بھیجے گئے ہتھیار شامل تھے۔ ان ہتھیاروں کو اسرائیل نے ۲۰۰۹ء میں قبضے میں لیا تھا۔
گزشتہ سال اس امداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اسرائیل سیکڑوں کی جگہ ہزاروں جنگجوؤں پر مشتمل گروپوں کی امداد کرنے لگا۔ ساتھ ہی شام سے متعلق اسرائیل کی پالیسی میں بھی تبدیلی آئی۔ اسرائیل نے روس اور امریکا سے اپیل کی کہ وہ ایران نواز ملیشیا کو جنوبی شام سے دور رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ تاہم جب ایسا نہ ہوا تو اسرائیل نے جارحانہ پالیسی اختیار کی۔ اسرائیلی فضائیہ نے شامی سرحد کے اندر اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان اہداف میں حزب اللہ کے اسلحے کے ذخیرے اور ایران کے فوجی اڈے شامل تھے۔
باغیوں کی مدد کرنے والے دیگر ممالک کے برعکس اسرئیل نے کوئی باقاعدہ امدادی پروگرام تشکیل نہیں دیا۔ اسرائیل نے باغی کمانڈروں کے ساتھ انفرادی تعلقات قائم کیے اور ان کے ذریعے باغیوں میں امداد تقسیم کی۔
جنوبی شام میں موجود باغیوں کے مطابق یہ کمانڈر اسرائیلی حکام سے فون پر رابطے میں رہتے تھے اور بعض اوقات گولان کے علاقے میں ملاقات بھی کرتے تھے۔ جب یہ کمانڈرکسی دوسرے گروپ میں شامل ہوجاتے تو اسرائیلی امداد کا رُخ بھی اس طرف ہو جاتا تھا۔ اسی طرح اگر یہ کمانڈر مارے جاتے یا اپنے گروپ سے نکال دیے جاتے تو اسرائیلی امداد بھی رک جاتی۔
اسرائیل کی جانب سے فورسان الجولان نامی گروپ کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ گزشتہ سال اس گروپ نے مزید کئی سو جنگجو بھرتی کیے جس کی وجہ اسرائیل سے ملنے والی امداد تھی۔ دیگر باغی گروپوں کو امداد تقسیم کرنے کی ذمہ داری بھی فورسان الجولان کی تھی۔ اس وجہ سے قنطیرہ اور درعا میں اس گروپ کا کافی اثر و رسوخ موجود تھا۔
اسرائیل نے باغیوں کو براہ راست میدانِ جنگ میں بھی امداد فراہم کی۔ اسرائیل نے باغیوں اور داعش کے درمیان جھڑپوں میں داعش کے کمانڈروں اورقلعہ بندیوں پر ڈرون حملے کیے۔ تاہم حکومتی افواج کے خلاف اسرائیل اس اقدام سے باز رہا۔
اسرائیل کی انسانی ہمدردی اور عسکری امداد کے باعث جنوبی شام کے باشندے اسرائیل کو اپنا اتحادی سمجھنے لگے۔ اسرائیل نے عربی زبان میں اپنے ”Good Neighbor” پروگرام کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی۔اس پروگرام میں جنوبی شام میں امدادی آپریشن اور شامی باشندوں کو اسرائیلی اسپتالوں میں علاج کی فراہمی شامل تھی۔
فورسان الجولان کے ایک جنگجو کا کہنا تھا کہ’’اس خطے میں اسرائیل ہی ایک ایسا ملک ہے، جو اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی بھی رکھتا ہے‘‘۔
حکومتی افواج جیسے جیسے باغیوں کے زیر اثر علاقوں کا کنٹرول واپس حاصل کرتی گئیں، اسرائیل نے بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نئی راہیں تلاش کرلیں۔ ممکنہ طور پر اسرائیل اور روس کے درمیان رواں سال جولائی میں ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔ معاہدے کے مطابق حکومتی افواج مغربی درعا اور قنطیرہ کا کنٹرول سنبھالیں گی۔ بدلے میں روس اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ایران نواز ملیشیا اسرائیلی سرحد سے ۸۰ کلومیٹر دور رہے گی۔
حکومتی افواج کی جانب سے پیش قدمی شروع کرنے کے باوجود جنوبی شام کے باشندے اسرائیل کی جانب سے پُراُمید تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ اسرائیل حکومتی افواج کو قنطیرہ اور درعا پر قبضہ کرنے سے روکے گی۔اس باعث ہزاروں افراد اسرائیلی سرحد کے قریب گولان کی پہاڑیوں سے متصل علاقے کی طرف ہجرت کرگئے۔ تاہم اسرائیل نے حکومتی افواج کو روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
ایک مقامی شخص ابو خالد کا کہنا تھا کہ ’’میرا یقین کیجیے، اسرائیل اپنے اس فیصلے پر پچھتائے گا۔ ہم نے حکومت کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے مصالحت کی ہے۔اس سے اسرائیل بھی متاثر ہوگا‘‘۔
جیسے جیسے حکومتی افواج باغیوں کے قریب پہنچنے لگیں، باغیوں نے حکومت کی جانب سے بدلہ لیے جانے کے خوف سے اسرائیلی حکام سے رابطہ کیا۔ اسرائیل نے کچھ ہی باغی کمانڈروں اور ان کے خاندان کو اسرائیل میں داخلے کی اجازت دی۔
اس بارے میں کوئی حتمی معلومات نہیں مل سکیں کہ وہ کمانڈر اب کہاں ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کمانڈروں کے اسرائیل اور اردن میں ہونے کی اطلاعات ہیں۔ایک کمانڈر نے اپنے ماتحتوں کو اطلاع دی کہ وہ اب ترکی میں ہے۔
کئی کمانڈروں نے ادلب جانے کے بجائے ہتھیار ڈال کر گھروں میں رہنے کو ترجیح دی ہے۔کچھ کو حکومت نے گرفتار کر لیا ہے۔دیگرکمانڈر گرفتاریوں اور سزا سے بچنے کے لیے حکومت کے ساتھ مل چکے ہیں ۔
(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)
“Inside Israel’s secret program to back Syrian rebels”. (“Foreign Policy”. Sep. 6, 2018)
Leave a Reply