فی زمانہ ہر جنگ بنیادی طور پر تو میڈیا کے محاذ پر لڑی جارہی ہے۔ جو ممالک اپنے میڈیا کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے پر توجہ دیتے ہیں، وہی پروپیگنڈا کی جنگ میں کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کے دوران میڈیا نے اہم جنگی ہتھیار کے طور پر اپنی حیثیت منوائی ہے اور اکیسویں صدی نے اس معاملے کو دو آتشہ کردیا ہے۔ اب روایتی میڈیا کے ساتھ ساتھ متوازی میڈیا اور سماجی میڈیا بھی ہیں، جن کی اہمیت اور اثر پذیری سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔
مغربی دنیا نے میڈیا کے میدان میں غیر معمولی پیش رفت یقینی بناتے رہنے کو خوب اہمیت دی ہے۔ ہر ملک اپنی بات مؤثر طریقے سے بیان کرنا اور اپنا مؤقف زیادہ سے زیادہ قوت کے ساتھ منوانا چاہتا ہے۔ اِس کے لیے میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جو کچھ طاقت یعنی لڑائی سے حاصل نہیں کیا جاسکتا، وہ نرم قوت یعنی علوم و فنون کی ترقی سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور کیا جارہا ہے۔ سرد جنگ کے دوران میڈیا کو آگے لایا گیا۔ بہت کچھ اِسی محاذ پر لڑا گیا۔ آج بھی معاملات زیادہ مختلف نہیں۔
روس کا معاملہ اب تک واضح نہیں ہوسکا کہ وہ یورپ میں ہے یا ایشیا میں۔ یورپ والے اُسے ایشیائی سمجھتے ہیں اور ایشیا والے یورپی قرار دے کر اُس کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ روسی قیادت کے لیے سب سے بڑا مخمصہ یہی ہے، جس سے نجات پانے کی کوشش میں وہ اپنی میڈیا مشین کو دھار دیتی رہی ہے۔ اس وقت روس میڈیا کے محاذ پر زیادہ سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے غیر معمولی فنڈ اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے مستفید ہونا لازم ہے۔ ولادی میر پوٹن کی قیادت میں روس یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ پوٹن، جو جدید ترین رجحانات کا بخوبی علم رکھتے ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کے خلاف کوئی بھی بات کس انداز سے کہنی ہے اور کس طور اپنے مؤقف کے لیے تائید و حمایت حاصل کرنی ہے۔ اُنہوں نے میڈیا کے محاذ کو کھلا چھوڑنے کی روش کو خطرناک سمجھتے ہوئے اِس محاذ پر بھی اچھی خاصی فنڈنگ کی ہے اور اُس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی برآمد ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
روس کا آر ٹی ٹیلی وژن نیٹ ورک (RT Television Network) اس وقت یورپ کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ یہ نیٹ ورک روسی صدر ولادی میر پوٹن کا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یورپ کی بیشتر قوتوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا دنیا سے منوانے کے معاملے میں میڈیا سے بھی غیر معمولی مدد لی ہے۔ پوٹن بھی اب روس کو میڈیا کے محاذ پر کھڑا کرچکے ہیں۔ ’’رشیا ٹوڈے‘‘ (Russia Today) کا نام تبدیل کرکے آر ٹی (RT) رکھا گیا ہے۔ یہ سرکاری فنڈنگ سے چلایا جانے والا سرکاری ٹیلی وژن نیٹ ورک ہے، جس کی کارکردگی اب تک متاثر کن رہی ہے۔ یورپ کی بہت سی قوتیں اِس نیٹ ورک کے حوالے سے پریشانی میں مبتلا ہیں۔ اِن قوتوں کے اپنے میڈیا بھی کم نہیں، مگر اُنہیں اندازہ ہے کہ روسی صدر اب میڈیا کو کس قدر اہمیت دے رہے ہیں اور یہ کہ اگر اس معاملے میں عدم توجہی برتی گئی تو صرف نقصان ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
آر ٹی ٹیلی وژن نیٹ ورک سرکاری فنڈنگ سے چلنے والا سب سے بڑا روسی میڈیا آؤٹ لیٹ ہے۔ اس نیٹ ورک کی مدد سے روسی حکومت اپنے اندرونی اور بیرونی مخالفین کے منہ بند رکھنے کے لیے مؤثر پروپیگنڈا کرتی ہے۔ روس میں حزب اختلاف کی آواز دبانے کے حوالے سے آر ٹی کا بنیادی کردار رہا ہے۔ روس کے ایک سرکردہ حزب اختلاف کے راہ نما بورس نیمسوف کے قتل کو آر ٹی نے روس کے دشمنوں کی کارستانی کا نتیجہ قرار دے کر معاملے پر عمدگی سے مِٹّی ڈال دی۔ آر ٹی نے کہا کہ یہ قتل دراصل روسی حکومت کو مشتعل کرنے کی کوشش ہے۔ ساتھ ہی ساتھ روسی قیادت کو بدنام بھی کرنا ہے تاکہ دنیا کو یہ تاثر ملے کہ روس میں حزب اختلاف کو کسی بھی طور برداشت نہیں کیا جاتا اور آواز دبانے کے لیے آواز اٹھانے والے ہی کو ختم کردیا جاتا ہے۔
آر ٹی کئی زبانوں میں نشریات پیش کرتا ہے۔ انگریزی اور ہسپانوی کے علاوہ یہ نیٹ ورک ہندی اور عربی میں بھی نشریات چلاتا آیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹی وی نیٹ ورک اس وقت ۱۰۰ سے زائد ممالک میں دیکھا جارہا ہے۔ آر ٹی کے ذریعے روسی حکومت اپنے خلاف کہی جانے والی ہر بات کا بھرپور اور بروقت جواب دیتی ہے۔ اس ٹی وی نیٹ ورک نے عوام کی نفسی ضرورت بھی بہت حد تک پوری کی ہے۔ روس کے عوام چاہتے تھے کہ ان کا بھی کوئی ایسا میڈیا نیٹ ورک ہو جو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے اور جس کی بات میں دَم بھی ہو۔ آر ٹی نے یہ کمی بہت حد تک پوری کردی ہے۔ اب روسی عوام بھی اس نیٹ ورک کی بات پر دھیان دینے لگے ہیں۔ اس کے ذریعے پیش کیے جانے والے پروگراموں میں عوام کی دلچسپی بڑھتی جارہی ہے۔ روس کے خلاف عالمی سطح پر جو سازشیں ہوتی رہتی ہیں اور خارجہ پالیسی کے میدان میں روس کو نیچا دکھانے کی جو کوششیں کی جاتی ہیں، اُن کے توڑ کے لیے آر ٹی جو کچھ پیش کرتا ہے، اُسے روسی عوام بہت توجہ اور دلچسپی سے دیکھتے ہیں اور اِس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ اب اُن کے پاس بھی ایک موثر ٹی وی نیٹ ورک موجود ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ آر ٹی جو کچھ پیش کرتا ہے، وہ پورا کا پورا سچ یا درست ہے۔ بہت سے اہم معاملات کو یہ نیٹ ورک ’’قومی ضرورت‘‘ کے تحت پوشیدہ بھی رکھتا ہے یا نظرانداز کر جاتا ہے۔ مثلاً بورس نیمسوف کے قتل کی مذمت کرتے وقت آرٹی نے اِس واردات کو روس دشمنوں کی سازش قرار دیا اور ساری دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ روس میں سب کچھ درست ہے، بس باہر سے کچھ لوگ گڑبڑ پھیلا رہے ہیں۔ آر ٹی نے یہ بات کسی بھی نشریے میں نہیں بتائی کہ بورس نیمسوف نے قتل سے تین ہفتے قبل ایک انٹرویو میں اپنے قتل کا خدشہ ظاہر کیا تھا اور صاف لفظوں میں کہا تھا کہ پوٹن اُنہیں خاموش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ بورس نیمسوف کو قتل کیوں کیا گیا؟ کیا حکومت کی داخلہ پالیسی پر تنقید کرنے کے جرم میں؟ جی نہیں، بظاہر ایسا نہیں۔ بورس نیمسوف نے ایک ایسا اعلان کیا تھا جو کسی بھی اعتبار سے حکومت کے حق میں نہیں جاتا تھا۔ اُنہوں نے یوکرین کے باغیوں کی مدد کرنے کے حوالے سے روسی اقدامات کے بارے میں حقائق منظر عام پر لانے کا اعلان کیا تھا۔ وہ اس ضمن میں ایک قرطاس ابیض شائع کرنے والے تھے۔ کریملن میں بیٹھے ہوئے پالیسی سازوں کے لیے یہ بات قطعی ناقابل برداشت تھی کہ یوکرین میں روسی مداخلت کے حوالے سے کوئی بھی ایسی ویسی بات منظر عام پر لائی جائے۔
بورس نیمسوف نے روس میں حکمرانوں کی بڑھتی ہوئی زیادتیوں اور جمہوری اقدار کی پامالی کے خلاف آواز بلند کی۔ وہ چاہتے تھے کہ جمہوریت کو اس کی روح کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ وہ جمہوریت اور رواداری کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے بہت کوشش کی۔ جمہوریت کے فروغ کے لیے ان کے بڑھتے ہوئے رابطوں سے حکومت پریشان ہوئی۔ روسی قیادت اب تک جبر کے ذریعے اپنی بات منوانے پر یقین رکھتی ہے۔ جو کچھ بورس نیمسوف نے کیا، وہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے قطعی ناقابل قبول تھا۔ جب سے پوٹن نے صدر کا منصب سنبھالا ہے، حزب اختلاف کے ایک درجن راہ نما قتل کیے جاچکے ہیں۔ یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ حکومت حزب اختلاف کو کسی بھی سطح پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یعنی جو بھی خلاف جائے، اُسے خاموش کردو۔
آر ٹی کی ایڈیٹر انچیف مارگریٹیا سمونیان کی زندگی پروپیگنڈے کے محاذ پر گزری ہے۔ وہ صدر ولادی میر پوٹن کے پرسنل اسٹاف میں بھی رہی ہیں۔ چار سال تک وزیراعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد جب پوٹن نے صدر کے منصب پر واپسی کا فیصلہ کیا تو مارگریٹا سمونیان کے لیے آگے آنے کا موقع نکل آیا۔ اس سے بہت پہلے انہوں نے پوٹن کے نزدیک ہوکر آر ٹی کی ایڈیٹر انچیف کا منصب حاصل کرلیا تھا۔ تب ان کی عمر صرف پچیس سال تھی۔ اِتنی چھوٹی عمر میں یہ منصب پاکر وہ ذرا بھی نہ گھبرائیں، بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ کام کرتی رہیں جس کے نتیجے میں آج آر ٹی کا بہت نمایاں مقام ہے۔
سمونیان نے پوٹن کی صدارتی مہم میں مرکزی کردار ادا کیا۔
وہ پوٹن کی الیکشن ٹیم کا حصہ بنیں اور دن رات کام کیا۔
۲۰۱۳ء میں سمونیان کو کریملن کے نئے میڈیا گروپ ’’روسیا سیگودنیا‘‘ کی ایڈیٹر انچیف کا منصب پیش کیا گیا۔ یہ گروپ نیوز سروس، ریڈیو اسٹیشن اور اسپوٹنک کے نام سے کام کرنے والی ملٹی میڈیا کمپنی پر مشتمل ہے۔ یہ ادارہ ہندی، ترکی اور چینی سمیت بارہ زبانوں میں خبریں نشر کرتا ہے۔ ان سب میں کریملن کا نقطۂ نظر دنیا کے سامنے رکھنے میں سب سے زیادہ کامیاب ’’آر ٹی‘‘ رہا ہے۔
آر ٹی مکمل طور پر خودمختار چینل نہیں۔ آج بھی اِسے کریملن سے ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ جب کوئی سمونیان سے اس بارے میں بات کرتا ہے تو اُنہیں بہت برا لگتا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ عام طور پر وہ خاصی خود مختاری کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ کسی مخصوص صورت حال میں ملک کے مفادات کے تحت کچھ کرنا پڑے تو اور بات ہے، ورنہ عام طور پر کریملن کی طرف سے مداخلت نہیں کی جاتی۔ سمونیان کی میز پر زرد رنگ کا سرکاری ٹیلی فون سیٹ رکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سیٹ پر کریملن سے براہِ راست فون آتا ہے اور بعض خفیہ معاملات پر تبادلۂ خیال ہوتا ہے۔
مغرب کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا کرنے میں آر ٹی اب تک نہایت کامیاب رہا ہے۔ برطانوی اینکر ڈینیل بُشیل کی میزبانی میں چلایا جانے والا شو ’’دی ٹروتھ سیکر‘‘ عالمی سیاست و سفارت کے بیشتر معاملات میں مغرب کی کارستانیوں کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ آر ٹی کا بنیادی آئیڈیا یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی بڑے واقعات رونما ہوتے ہیں، اُن کی پشت پر مغربی طاقتوں کی سازشیں ہی کارفرما ہوتی ہیں۔
آر ٹی نے غیر معمولی حلقۂ ناظرین بنا لیا ہے۔ یہ چینل اہم واقعات کی وڈیو بروقت اَپ لوڈ کرتا ہے۔ یوٹیوب پر اس کی فوٹیجز کو اب تک ایک ارب چالیس کروڑ بار دیکھا گیا ہے۔ قدرتی سانحات اور اہم سیاسی واقعات کی وڈیو بروقت اَپ لوڈ کی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں ناظرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔
کئی یورپی ممالک میں آر ٹی نے اپنی پوزیشن خاصی بہتر بنالی ہے۔ جرمنی میں آر ٹی دیکھنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جرمن ناظرین کے لیے آر ٹی کی پالیسی یہ ہے کہ تارکین وطن کو برداشت نہ کیا جائے اور ان کے خلاف جذبات بھڑکائے جاتے رہیں۔ تارکین وطن سے نفرت کرنے والے جرمن باشندے آر ٹی باقاعدگی سے دیکھتے ہیں۔ برطانیہ اور امریکا میں بھی آر ٹی دیکھنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ خاص طور پر امریکا میں۔ امریکا میں آر ٹی کی فرنچائز بھی ہے۔ امریکا میں آر ٹی کی نشریات امریکی صحافی اور اینکر چلاتے ہیں۔ امریکیوں کو آر ٹی سے وہ سب کچھ ملتا ہے، جو اُنہیں درکار ہے۔ بہت سے امریکی چینلز کو اب آر ٹی سے مسابقت کا سامنا ہے۔ آر ٹی امریکا کی نشریات دیکھنے والوں کی تعداد اب ساڑھے آٹھ کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ ۲۰۱۱ء سے سات بڑے امریکی شہروں میں آر ٹی نیوز سروس سب سے مقبول رہی ہے۔ کروڑوں امریکی آر ٹی نیوز سروس کو معلومات کا قابلِ اعتبار ذریعہ گردانتے ہیں۔
یورپ بھر میں یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ اگر پورے خطے کو مستحکم اور پُرامن رکھنا ہے تو روس سے دوستی ناگزیر ہے۔ یورپ کے عام باشندوں کا خیال ہے کہ روس کو ناراض کرکے خطے کا امن برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ یورپی معیشت کے لیے روسی معیشت کا مستحکم رہنا اشد ضروری ہے۔
امریکا میں ’’الجزیرہ‘‘ کے امریکی فرنچائز کی ریٹنگ بھی آر ٹی سے کم ہے۔ بہت سے رجعت پسند گروپوں نے مطالبہ کیا ہے کہ آر ٹی اور ’’الجزیرہ امریکا‘‘ کو غیر ملکی ایجنٹس کے طور پر رجسٹر کیا جائے، مگر امریکی آئین اظہار رائے کی آزادی کا ضامن ہے، اِس لیے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
برطانیہ میں بھی آر ٹی کی ریٹنگ بہتر ہوتی جارہی ہے۔ کئی مقامی اینکر اس چینل کے ذریعے انتہائی کامیاب پروگرام پیش کر رہے ہیں۔ ان میں بل ڈوڈ کا پروگرام زیادہ مقبول ہے۔ ’’آر ٹی برٹین‘‘ کے ذریعے روس کے خلاف پائی جانے والی آراء کا توڑ عمدگی سے کیا جارہا ہے۔ لندن سے بھی آر ٹی چینل نشر ہوتا ہے۔ اس میں چند مقامی خبروں کے ساتھ ساتھ ماسکو سے نشر ہونے والی خبریں بھی شامل کی جاتی ہیں۔
اب آر ٹی کا دائرہ جنوبی امریکا تک بڑھایا جارہا ہے۔ ارجنٹائن پہلا ملک ہے جس نے ہسپانوی زبان میں آر ٹی کا ایک خود مختار فرنچائز قبول کیا ہے۔ اس چینل کے ذریعے روس ہسپانوی زبان بولنے والوں تک اپنی بات عمدگی سے پہنچا سکے گا۔ اس چینل کی لانچنگ کے موقع پر روسی صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ وڈیو کانفرنس کرتے ہوئے ان کی ہم منصب کرسٹینا فرنانڈس کرچنر نے کہا کہ ہم کسی بھی ذریعے کو بیچ میں لائے بغیر ایک دوسرے کی اقدار سے زیادہ سے زیادہ واقفیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ٹی وی کی دنیا میں روس کی بے مثال کامیابی نے کئی ممالک کو تحریک دی ہے کہ وہ بھی اپنی بات دنیا تک پہنچانے کے لیے انگریزی زبان کا چوبیس گھنٹے کی نشریات والا چینل چلائیں۔ ایران اور چین نے اس حوالے سے خاصی محنت کی ہے۔ اب تک ان کی کارکردگی بھی زیادہ بری نہیں رہی۔ پوٹن نے تیل اور اسلحے کے سودوں کے ذریعے اپنے بین الاقوامی تعلقات کا دائرہ وسیع کرنے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ شام اور وینزویلا کو مشکل حالات میں اسلحہ فراہم کرکے روس نے اِن دونوں ممالک کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو اپنا دوست بنالیا ہے۔ ظاہر ہے یہ تعلق میڈیا کے محاذ پر بھی اشتراک عمل کی راہ ہموار کرتا ہے۔ پوٹن کو مغرب کے خلاف بولنے والے اب آسانی سے مل سکتے ہیں۔
دنیا بھر میں امریکا نے جو کچھ کیا ہے، اس کے باعث اس سے نفرت کرنے یا اسے ناپسند کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ لوگ امریکی میڈیا پر زیادہ بھروسا نہیں کرتے۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ امریکی میڈیا کے ادارے حقائق کو بہت عمدگی سے چھپاتے ہیں اور حالات کی ایسی تصویر دنیا کے سامنے رکھتے ہیں جس میں حقیقت برائے نام ہوتی ہے۔ ایسے میں لوگوں کو متبادل ذرائع کی ضرورت ہے۔ آر ٹی یہ ضرورت پوری کر رہا ہے۔ ایران اور چین بھی چوبیس گھنٹے کا انگریزی زبان کا چینل چلاکر دنیا والوں کو امریکی میڈیا کی غلامی سے نکلنے کی راہ فراہم کر رہے ہیں۔ سمونیان کا کہنا ہے کہ لوگ اب امریکی میڈیا پر زیادہ بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ امریکا میں بھی ایسے لوگ اچھی خاصی تعداد میں ہیں جنہیں اس بات کا یقین ہے کہ اُن کے بڑے چینل، نیوز سروسز، اخبارات اور جرائد معاملات کو محض الجھاکر پیش کرتے ہیں۔ بہت سے معاملات میں امریکی میڈیا جس طرح کی کوریج کرتا ہے، وہ غیر معمولی حد تک حقیقت سے بہت دور ہوتی ہے۔ یہ چیز اب لوگ ہضم نہیں کر پارہے۔ اُنہیں متبادل ذرائع میڈیا درکار ہیں تاکہ وہ حقیقت تک آسانی سے پہنچ سکیں۔
یوکرین کے بحران نے آر ٹی کے لیے چند ایک مشکلات پیدا کی ہیں۔ عالمی منڈی میں روسی گیس کی کھپت برائے نام رہ گئی ہے۔ یورپی ممالک نے یوکرین کے بحران کے باعث روس سے تعلقات کی سطح گرالی ہے۔ اس پر پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں، جن کے نتیجے میں روسی کرنسی ’’روبل‘‘ کی قدر مزید گری ہے۔ اس کا خمیازہ آر ٹی کو اپنے بجٹ میں نصف حد تک کمی کی شکل میں بھگتنا پڑا ہے۔ یوکرین میں جو کچھ ہوا، وہ آر ٹی کے لیے بہت پریشان کن تھا۔ کریملن نے جو لائن دی، اُس کے مطابق نشریات چلانا چینل کی ساکھ کو داؤ پر لگانے جیسا تھا۔ یورپ میں آر ٹی کے ناظرین کو یہ بات پسند نہ آئی کہ یوکرین پر چڑھائی بھی کی گئی اور اِس سے یکسر انکار بھی کیا گیا۔ یہ تضاد چینل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ آر ٹی سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے لیے حقائق سے بہت دور ہوکر رپورٹنگ کرنا انتہائی دشوار ہوگیا۔ کرائمیا میں آر ٹی کے ایک رپورٹر نے امریکی جریدے ’’ٹائم‘‘ سے گفتگو میں کہا کہ اُسے معلوم ہے کہ حملہ کرنے والے کہاں سے آئے ہیں، مگر وہ اُن کی شناخت نہیں بتا سکتا کہ ایسا کرنے کی صورت میں اُس کی نوکری بھی جاسکتی ہے۔
برطانیہ میں آر ٹی سے وابستہ برطانوی صحافی لارا اسمتھ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی سچائی پوری دنیا پر بے نقاب ہوچکی ہو اور صرف آپ اُسے چیلنج کرتے ہوئے متبادل نقطۂ نظر پیش کرنے پر تُلے ہوں تو اپنی بات منوانا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے، اور کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسا کرنے میں اپنی ساکھ ہی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ کرائمیا اور یوکرین کے بحران میں آر ٹی کے لیے دنیا کا سامنا کرنا انتہائی دشوار ہوگیا۔
تمام مشکلات کے باوجود آر ٹی نے یورپی ریاستوں کے لیے چند ایک چیلنج ضرور کھڑے کیے ہیں۔ پروپیگنڈا مشینری بہت منظم انداز سے کام کر رہی ہے۔ آر ٹی کے لیے کام کرنے والے انتہائی منظم انداز سے کام کر رہے ہیں۔ لندن، برلن، برسلز اور دوسرے بہت سے دارالحکومتوں کے ساتھ ساتھ امریکی کانگریس کو بھی فکر لاحق ہوگئی ہے کہ روسی پروپیگنڈے کا موثر طریقے سے جواب دیا جائے۔ کانگریس نے جولائی میں ایک بل منظور کیا تھا جس میں وائس آف امریکا کو زیادہ سرکاری انداز کا آلۂ پروپیگنڈا بنانے کی منظوری دی گئی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا اور یورپ کو آر ٹی سے کس قدر پریشانی لاحق ہے۔ صدر ولادی میر پوٹن نے آر ٹی کی شکل میں میڈیا کے محاذ پر ایک ایسی توپ رکھ چھوڑی ہے جو رکے بغیر، تھمے بغیر، روسی پالیسی کے مطابق پروپیگنڈے کے گولے داغتی رہتی ہے۔ کانگریس کو اس معاملے میں اتنی فکر لاحق رہی ہے کہ وائس آف امریکا کی نوعیت ہی تبدیل کی جارہی ہے۔ ایوانِ نمائندگان میں امورِ خارجہ کمیٹی کے سربراہ ایڈ رائس کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ روس نے اپنے آپ کو پروپیگنڈا کے محاذ پر عمدگی سے منوایا ہے۔ ہمیں کسی نہ کسی طرح اِس کا توڑ کرنا ہوگا۔
مشرقی یورپ کے جو ممالک روس کے زیرِ سایہ ہیں، اُن کے لیے بھی پریشانی بڑھتی جارہی ہے۔ لٹویا میں ایک چوتھائی آبادی روسی نسل کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ لٹویا کی حکومت نے روسی زبان کا نیوز چینل شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ روسی نسل کے لٹوین باشندے خبروں اور تجزیوں کے لیے آر ٹی پر منحصر نہ رہیں۔ لٹویا کی حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ آر ٹی کے پروپیگنڈے سے متاثر ہونے والے روسی نسل کے باشندے ملک کی یکجہتی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر معاملات زیادہ بگڑ جائیں تو لٹویا کو بھی اسی بحران کا سامنا ہوسکتا ہے جس کا سامنا کرائمیا اور یوکرین کو کرنا پڑا ہے۔ لٹویا کی وزارت خارجہ کے مشیر وکٹر ماکارووز کا کہنا ہے کہ آر ٹی کے ذریعے لٹویا کی آبادی کے ایک حصے میں زہر بھرا جارہا ہے۔ یہ صورت حال ملک کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ حکومت کو بہت جلد اِس کا موثر تدارک کرنا ہوگا۔
امریکا اور یورپ میں اس حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں کہ آر ٹی کا مقابلہ کس طور کیا جائے۔ کوئی کہتا ہے کہ پہلے سے موجود چینلوں کو مؤثر طریقے سے کام پر لگایا جائے۔ کوئی کہتا ہے کہ بظاہر غیر جانبداری سے کام کرنے والے میڈیا آؤٹ لیٹس کو اب باضابطہ پروپیگنڈا مشینری کی طرح استعمال میں لایا جائے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ یورپی یونین مرکزی سطح پر ایک نیا چینل یا نیٹ ورک شروع کرے، جس کے ذریعے روس کو برسلز سے مؤثر جواب دیا جائے۔ بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا بھی انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں آزاد و خود مختار میڈیا اور پروپیگنڈا مشینری کا فرق مٹ کر رہ جائے گا۔ عام آدمی کے لیے یہ صورت حال بہت پریشان کن ہوگی کہ اسے ہر بات پروپیگنڈے کی سطح پر سمجھائی جائے۔ یورپ اور امریکا نے آزاد میڈیا کا جو تصور متعارف کرایا ہے، وہ ایسی کسی بھی میڈیا وار کے نتیجے میں بالکل ختم ہوکر رہ جائے گا۔
آر ٹی کا مقابلہ پروپیگنڈے کی سطح پر کرنے کے حوالے سے اب تک جتنی بھی تجاویز سامنے آئی ہیں، اُن کی زیادہ پذیرائی نہیں کی گئی ہے۔ میڈیا کی دنیا سے تعلق رکھنے والے مغربی ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی میڈیا کو پروپیگنڈا مشینری بننے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اگر وہ اِس معاملے میں احتیاط نہیں برتیں گے تو اپنی اثر پذیری سے محروم ہوجائیں گے۔
اپنے قتل سے آٹھ ماہ قبل بورس نیمسوف نے یوکرین میں ایک ٹاک شو میں شرکت کی تھی، جہاں کسی نے تجویز پیش کی تھی کہ آر ٹی کا عمدگی سے مقابلہ کرنے کے لیے مغربی دنیا کو بھی ایسے ہی چینل شروع کرنے چاہئیں۔ اس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے نیمسوف نے کہا تھا کہ جو کچھ پوٹن کرسکتے ہیں، وہ آپ نہیں کرسکتے۔ وہ صحافیوں کو کریملن بلاکر ہدایات جاری کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی پروپیگنڈا وار سے صرف آمریت پروان چڑھے گی۔ جمہوری اقدار کمزور پڑتی جائیں گی۔ ان کا استدلال تھا کہ مغرب کو میڈیا اور صحافت کے معاملے میں اپنے معیارات پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا لگتاہے کہ نیمسوف کے مشورے پر مغرب نے اب تک تو خوب عمل کیا ہے۔ یعنی حقائق بیان کرکے فیصلہ ناظرین پر چھوڑ دیا ہے۔
“Inside Putin on-air machine”.
(“Time”. March 16, 2015)
Leave a Reply