ڈاکٹر منظوراحمد کا مضمون بعنوان ’’پاکستان‘‘ اگر ’’معارف فیچر‘‘ میں شائع نہ ہوتا تو بہتر تھا۔ اس کے مندرجات ’’معارف فیچر‘‘ کے مزاج سے سراسر متصادم ہیں جبکہ اس کا قاری پاکستان اور نظریۂ پاکستان کے حوالے سے آپ کے احساسات سے بخوبی آگاہ ہے۔
ہمارے ہاں بدقسمتی یہ ہے کہ نہ حکومتی اداروں میں اور نہ ہی میڈیا میں بالعموم یہ شعور ہے کہ وہ کسی تحریر کو پرکھ سکیں کہ اس میں کون سے نفسیاتی اور عمرانی پہلوایسے ہیں جو تخریبی مضمرات لیے ہوئے ہیں۔ یہ مسئلہ اس لحاظ سے بھی افسوس ناک ہے کہ ہماری صحافت کے نزدیک تخریب کاری بم دھماکوں تک محدود ہے اور وہ یہ فہم نہیں رکھتی کہ بعض تحریریں جن کا ہدف انسانی دماغ ہوتا ہے کہیں زیادہ تخریبی ہوسکتی ہیں۔ ایسی تحریریں ذرائع ابلاغ کو اپنے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
اظہارِ ابلاغ پر بے جاقدغن یقینا ناپسندیدہ عمل ہے مگر ملکی سلامتی کے اپنے اصول ہیں۔ اسی طرح کچھ دستوری تقاضے بھی ہیں جن سے انحراف کسی ادارہ یا شہری کو زیب نہیں دیتا۔ دستورپاکستان کی شق ۲۔الف ان تمام امور کا احاطہ کرتی ہے جن کا احترام اور ان پر عمل وطنِ عزیز کو فکری انتشار سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔یہ ایک معروض میزان ہے اسی طرح اس سے متعلقہ قوانین جیسے قانون فوجداری دفعہ ۱۲۳ ہے جس میں صراحتاً مذکور ہے کہ جو شخص اپنی تحریر سے یا گفتگو سے یا ایسی علامات یابصری مظاہرسے جن سے پاکستان کی تشکیل بذریعہ تقسیم (ہند) کی مذمت ہو۔۔۔ اسے دس سال قیدبامشقت بمعہ جرمانہ سزادی جائے گی۔ میں اس شق کو انگریزی میںقارئین کے لیے نقل کرتا ہوں:
Whoever, within or without Pakistan, with intent to influence or knowing it to be likely that he will influence, any person or the whole or any section of the public, in manner likely to be prejudicial to the safety of Pakistan, or to endanger the sovereignty of Pakistan … shall by words, spoken or written or by signs or visible representation, condemn the creation of Pakistan by virtue of the partition of India or advocate the curtailment or abolition of the sovereignty of Pakistan … whether by amalgamation with the territories of neighbouring states … shall be punished with rigorous imprisonment which may extend to ten years, and shall be liable to fine.
بڑی ستم ظریفی ہے کہ ایک شخص پاکستان کی مذمت کرے اس کی تشکیل کو غلط کہے یعنی اس کے وجہ قیام اور مقصدِ وجود میں خرابی بسیار دیکھے۔ وہ اسے آزادی فکر کے نام پر تختہ مشق بنائے اور آپ کا موقر جریدہ اسے اس لیے شائع کردے کہ اس تخریبی فکر پر بحث کی جائے۔
آزادیٔ رائے کیا ہوتی ہے اس کی حدود کیا ہیں کیا فرد کی آزادی رائے کسی قوم کی حیات و بقا سے افضل ہے، یہ وہ موضوعات ہیں جو الگ بحث کے متقاضی ہیں۔ اس جواب دعویٰ میں، میں صرف ان مقدمات پر گفتگو کروں گا جو ڈاکٹر منظوراحمد نے اپنے مضمون میں قائم کیے ہیں۔ موضوعات کے نکات مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ پاکستان ایک نیا نام ہے۔ ابھی تک ایک خارجی تصور ہے جو ہمارے تشخص کی علامت نہیں بن سکا۔
۲۔ پاکستان نہ بنتا تو اچھا تھا!۔
۳۔ پاکستان بنانے کا مقصد اسلام تھا تو اس کے خدوخال کیا تھے؟
۴۔ قائداعظم نے اپنے مقاصد کے لیے اسلام کے محرک کو استعمال کیا!۔
۵۔ خدا کے مالک وخالق اور قانو ن دہندہ کے تصور کو سیاسی اصطلاح کے طور پر استعمال کیا!۔
۶۔ اسلام میں سیکولرازم مسئلہ نہیں۔ یہ مسئلہ تھیو کریسی نے پیدا کیا ہے!۔
۷۔ نبی اکرمؐ مکہ میں مصلح تھے (یعنی رسول نہیں تھے) اور مدینہ پہنچ کر سیاسی بن گئے!۔
۸۔ مسلمانوں کے ذہن میں سمع و طاعت کا فلسفہ ہی سیاسی اور مذہبی اعتبار سے محکم تاریخی اسلو ب رکھتا ہے جو شخصی آزادی اور جمہوریت کے تصور کے خلاف ہے۔
۹۔ مسلمانوں میں اخلاقی و غیراخلاقی قدریں بذات خود کوئی شئے نہیں بلکہ یہ خدا کا حکم ہیں۔ جس سے فرد کی شخصی آزادی ختم ہوگئی۔
۱۰۔ قانو ن سازی محدود ہوگئی ہے جس کی وجہ سے شریعت سے بہتر قانون نہیں بنایا جاسکتا نہ ہی اجتہاد سے مکمل تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
یہ ایک طویل بیان ہے جس کا میں مختصراً جواب دوں گا۔
اس سے بیشتر کہ میں مقدمہ ۲۔۱ سے متعلقہ گفتگو کروں اگر میں ڈاکٹر منظوراحمد کے خیالات سے ان کی شخصیت اورفکر کا خاکہ بنائوں تو وہ لازماً سیکولروں کے اس قبیلہ سے متعلق ہیں جوپاکستان نہیں چاہتے، خاص کرایسے پاکستان کو جو اپنی تاریخ وجہ تسمیہ اور دستوری اعتبار سے اسلام کے اجتماعی نظام زندگی سے گوندھا ہوا ہے۔ اسی لیے وہ ہندوستان میں اقلیت بن کر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے بھی افسو س ناک ہے کہ اکسٹھ سال بعد بھی اس ملک کے تمام تر فوائد سمیٹنے کے باوجود وہ وطن عزیز کو ہندوستان کی گود میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے جتنے بھی مقدمات بنائے ہیں وہ اسی فکر کی تعبیر ہیں۔ میں انہیں لادین (سیکولر) کیوں کہتا ہوں؟ کیونکہ ان کی فکر میں وطن یا تو محض جغرافیہ ہے یا پھر کسی زبان ونسل سے ممکن ہے۔ اس لیے ایسا وطن جس کا جذبہ محرک اسلامی قومیت ہو جو اس علاقہ میں مسلمانوں کے کم وبیش ہزار سالہ دور کی یادگار ہو ،ان کے نزدیک ناقابل عمل ہے۔
وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی میں سمجھتے ہیں کہ شخصی آزادی اورقوت فیصلہ ختم ہوجاتی ہیں۔ باالفاظ دیگر سچائی کیا ہے جھوٹ کیا ہے۔ اس کا اختیار تعین انسان کی ذات ہے نہ کہ خدا کا حکم۔ زندگی کوئی انگریزی ناول تو نہیں جس میں ناول نویس اپنے ذہن میں ایک دنیا تخلیق کرتا ہے اور اپنے کرداروں کے ذریعہ سے اپنی دنیا کا ثبات کرتا ہے۔ ایسی تخیلاتی دنیا میں ذاتی اقدار ہی اہم ہوتی ہیں۔ غالبا ً موصوف اسے انگریزی ناول سمجھتے ہیں۔
اگر سچائی کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے کا جواب اللہ تعالیٰ کی ذات کی بجائے انسان خود دینے لگے، یعنی فلسفہ اضافیت (relativeism) قرآن کی جگہ لے لے، تواس کا لازمی انجام اخلاقی بحران اور انتشار ہوگا۔جس انداز سے خود مغرب میں اس موضوع پر بات ہورہی ہے اس سے صاف دکھائی دے رہا ہے کہ وہ معروض قدروں کے بغیر معاشرتی حرکیات پر کنٹرول کھوچکے ہیں۔ اور محسوس کرتے ہیں کہ انفرادیت تو بلاشبہ ہے لیکن اجتماعیت نہیں رہی انہیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ مغرب ایک سنگین اخلاقی بحران میں مبتلا ہے۔
ڈاکٹر موصوف کی یہ سوچ بھی واضح ہے کہ وہ انسان کو اللہ تعالیٰ کا نائب ہونا غلط سمجھتے ہیں۔ اسی طرح خدا کو تکوینی اختیار (بحیثیت ِخالق، مقتدر اور قانون دہندہ) دینے کو تیار نہیں۔وہ نیا بت الٰہیہ کو محض استعارہ سمجھتے ہیں۔ اب یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ وہ خود تو اجتہاد کے نہ ہونے پر سینہ کوبی کرتے نظر آتے ہیں مگر خود انھوں نے اجتہاد کا جو نمونہ پیش کیا ہے اہل علم تو چھوڑیں ایک عام تعلیم یافتہ انسان بھی شاید قبول کرنے پر تیار نہ ہو۔ کسی کتاب کے مرکزی موضوعات استعارہ نہیں ہواکرتے، خاص کر وہ کتاب جو ہدایت الٰہی ہو۔ ڈاکٹر منظور جیسے سیکولر افراد جو دن رات انسان اور انسانیت (humanism) کی بات کرتے ہیں لیکن وہ انسان کو اس شرف سے محروم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ وہ خدا کی تخلیق ہے اور اُسے نیابت الٰہیہ حاصل ہے۔ نہیں جناب ! خلیفہ الارض کی اصطلاح ایک بنیادی حقیقت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جس کا تعین خود قرآن نے ہی کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ انسان جانور کی اولاد نہیں وہ خدا کی تخلیق ہے اور اس طرح اگر اسے سلامتی، عدل اور خوف سے مبرا زندگی کی ضرورت ہے تو خدا کی ہدایات پر زندگی گزارے، اس کے لیے خدا نے انسان کو مکلف کر دیا ہے کہ وہ دنیا کے وسائل کو ایک پاکیزہ تمدن کی تعمیر میں استعمال کرے تاکہ زندگی اپنے تمام رنگوں کے ساتھ بندگی رب میں ڈھل جائے۔ ظاہر ہے اس قسم کے تصورِ انسان اور تصورِ زندگی میں سیکولرازم کی گنجائش نہیں رہتی اور یہی چیز موصوف کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ چونکہ موصوف سیکولر ہیں اور انسان کو ہر پابندی سے آزاد اور خودمختار سمجھتے ہیں اس لیے ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نیابت الٰہیہ جیسے مرکزی قرآنی موضوع کو استعارہ سے زیادہ اہمیت نہ دیں۔
مزیدبرآں ستم ظریفی دیکھیں کہ ایک طرف تو علما کے فتاویٰ سے سخت بیزارہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس سے انسان اپنے نفس کا پورا اظہار نہیں کرپاتا اور اس طرح اُسے جو لذت ذہنی آوارگی اور بے راہ روی سے مل سکتی ہے اُس سے وہ محروم ہو جاتا ہے۔ لیکن خود موصوف فتویٰ دینے پر تُلے ہوئے ہیں، بلکہ بیشتر سیکولر حضرات دن رات اس عمل میں مصروف ہیں۔ ان کے نزدیک جو شئے بھی جدید سیکولرازم کے کھونٹے پرنہیں ٹِکتی وہ بیکار اور فرسودہ ہے۔ موصوف تو ایک قدم بڑھ کر خودقرآن پر ہاتھ مار رہے ہیں۔سیکولر حضرات تو طبقہ علما سے بھی آگے کی چیزیں ہیں۔ مثلاً مولوی حضرات کے فتاویٰ غلط ہوسکتے ہیں اُن کا استخراج بھی ناقص ہوسکتاہے۔اُن کا موجودہ زمانے کا علم بھی کمزورہوسکتا ہے۔ لیکن وہ اپنے فتاویٰ کی بنیاد ضرور بتائیں گے۔ مگر دوسری طرف موصوف یہ بتانے کی ضرورت شاید محسوس نہیں کرتے کہ جب وہ خلیفۃالارض اور استخلاف فی الارض جیسے مرکزی موضوعات کو استعارہ سمجھتے ہیں تو اس کی بنیاد کیا ہے؟ کیا یہ قرآن وسُنت سے انہیں ملی ہے یا کسی باطنی علم سے؟ انسان میں کچھ تو عجز ہونا چاہیے کہ وہ اپنے منہ سے نکلی کسی بات کو ظن تک ہی رکھے اور فتوے نہ دے۔اتنی رعونت توشاید آمرو ں کوزیب دیتی ہو، اہل علم کو نہیں۔
ان کی ایسی ہی فکر کا نتیجہ ہے کہ وہ اسلام کونہ وجہ اتحادسمجھتے ہیں اور نہ ہی تہذیبی اکائی۔ان کے خیال میں اسلامی تہذیبی اکائی کا تصور بیسویں صدی کی ایجاد ہے۔ اب اس سے بڑی زیادتی کیا ہوگی کہ سیکڑوں کتابیں اور خود مغربی مصنفین عالم انسانیت کی ممتاز ترین تہذیبوں میں اسلامی تہذیب کو گردانتے ہیں۔ اس کی مخصوص خصوصیات کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ جو اسے دوسری تہذیبوں سے ممیز کرتی ہیں۔ یہ تہدیب اپنی وسعت اوررنگارنگی کے باوجود ہر مسلمان ملک میں یکساں ہے۔ اس میں مقامی رنگ ہیں جو ہونے بھی چاہییں کیونکہ ایک بڑی تہذیب اسی وقت وجود میں آتی ہے جب وہ مقامی رنگوں کو اپنے اندر سموئے اور ساتھ ہی ان پر اپنی چھاپ لگائے تاکہ وہ کُل کا حصہ بھی بنیں اور ان کی انفرادیت بھی برقرار رہے۔
میں ممتاز مورخ ٹائن بی کی The Study of History اور ول ڈیورنٹ کی The Story of Civilization سے حوالہ جات دے کر مضمون کو بوجھل نہیں کرنا چاہتا البتہ خود قائداعظم کے حوالہ سے بات کرنا چاہوں گا۔قائداعظم نے مارچ ۱۹۴۰ء والی اپنی صدارتی تقریر میں لندن ٹائمز کا حوالہ دیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ’’بلاشبہ ہندوئوں اور مسلمانوں میں فرق محض (انفرادی) مذہب کا نہیں بلکہ یہ فرق قانون اور ثقافت کا بھی ہے جس کی وجہ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں دو مخصوص اور مختلف تہذیبیں ہیں۔ اس کے باوجود آنے والے زمانہ میں یہ توہمات ختم ہو جائیں گے اور انڈیا ایک قوم میں ڈھل جائے گا‘‘۔ میں یہاں انگریزی کے اصل الفاظ بھی دے دیتا ہوں تاکہ کوئی شبہ نہ رہے۔ لندن ٹائمز کا یہ تبصرہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے حوالہ سے تھا :
Undoubtedly the difference between the Hindu and Muslims is not of religion in the strict sense of the word but also of law and culture, that they may be said indeed to represent two entirely distinct and seperate “civilisations”. However, in the course of time the supersitions will die out and India will be moulded into a single nation.
قطع نظر اس کے کہ لندن ٹائمز ہمارے سیکولروں کی طرح ہندووںاور مسلمانوں میں انتہائی گہرے اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے بھی اپنی استعماری رجائیت میں امید رکھتا ہے کہ دونوں بالآخر ایک ہو جائیں گے۔ قطع نظر اس کے انگریزی کے اس حوالہ میں لفظ “civilisation” غورطلب ہے۔ مسلمانوں کی علیحدہ تہذیب سے متعلق ہونا کوئی مسلم لیگ کی اصطلاح نہیں تھی جو اچانک بیسوی صدی میں منصہ شہود پر آگئی بلکہ غیر بھی ۱۹۳۰ء کے عشرے میں یہی سمجھتے تھے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے قائداعظم نے کیا خوب کہا تھا :
(So acording to the London Times, the only difficulties are superstitions). These fundamental and deeprooted differences, spiritual economics, cultural and political have been euphemised as mere ‘supersitions’. But surely it is a flagrant disregard of the past history of the Sub-continent of India as well as the fundamental Islamic conceptions of society…..
’’لہٰذا لندن ٹائمز کی سوچ کے مطابق واحد مشکلات (ہندو مسلم تعلقات میں) توہمات ہیں۔ یہ ان اساسی اور گہرے اختلافات کو جو روحانی، معاشی، ثقافتی اور سیاسیات پر محیط ہیں انہیں سہل زبان کرکے محض توہمات قرار دینا (عجیب بات ہے)۔ جو بلاشبہ نہ صرف برصغیر کی تاریخ سے بلکہ بنیادی اسلامی نظریہ معاشرت سے بھی صریح زیادتی ہے‘‘۔
منظوراحمد صاحب کو مسلم لیگ کی ۱۹۳۲ء سے ۱۹۴۲ء والی قراردادوں میں اسلامی مملکت کا ذکر نہیںملتا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ایسی بیشتر قراردادوں کا ایک مخصوص پس منظر ہے جو زیادہ تر دستوری ترامیم سے متعلق ہیں، جن کے مخاطب انگریز اور ہندو ہیں۔ مسلم لیگ کی تحریک پاکستان محض یہ قراردادیں نہیں اس کا ایک مزاج ہے، تحرک ہے، اس کے قائدین کے بیانات ہیں۔ ایک اچھا اسکالر ان سب کو ملا کر دیکھتا ہے اورفیصلہ کرتا ہے۔ چونکہ موصوف تاریخ کو ایک مخصوص رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں اسی لیے اُنہیں تحریک پاکستان میں اسلامی مملکت نہیںملتی۔ لیکن مغربی مورخین اور سوچنے سمجھنے والوں کو مسلم لیگ کی قومی تحریک میں اسلامی مملکت ملتی ہے۔ ایک پاکستانی (؟)سیکولر کی سوچ اور فکری استخراج میں اور ایک مغربی ذہن کی نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت میں اتنا ہی فرق ہے جتنا دیانت اور بددیانتی میں ہے۔ مثلاً کنٹیول اسمتھ اپنی مشہور کتاب ISlam in Modern Times میں کھُلے دل سے اعتراف کرتا ہے کہ قیام پاکستان مسلمانوں کے مذہبی وجود کی عکاسی ہے۔ اسمتھ کہتا ہے کہ نظریاتی اعتبار سے یہ کوئی رقباتی، معاشی لسانی اکائی نہ تھی بلکہ یہ کوئی وطنی قومیت بھی نہ تھی جوکہ ریاست کی متلاشی تھی یقینا یہ ایک مذہبی قوم تھی۔ اسمتھ یہ کہنے کے بعد یہاں تک کہہ جاتا ہے کہ ہندوستان میں اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد اپنی اصل کے اعتبار سے کوئی عملیاتی نتیجہ نہ تھا جس کی بنا پر ایک ریاست اسلامی ریاست بننا چاہتی تھی بلکہ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس کے ذریعہ اسلام ریاست کا طالب تھا۔ )صفحہ۲۱۴(
Ideologically it was not a territorial or an economic or a linguistic or even, strictly a national community that was seeking a state, but a religious community. The drive for an Islamic state in India was in origin not a process by which a state sought Islamicness but one by which Islam sought a state.
اسمتھ نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کرلیا، کیا یہ خود ساختہ خیال تھا؟ اسمتھ محقق ہے وہ کسی پروپیگنڈا کا شکار بھی نہیں ہوسکتا اس کے سامنے تحریک پاکستان، اس کے قائدین کے بیانات، عوام کی جذباتی کیفیات اور مسلمانوں کی اس علاقہ میں تاریخ تھی۔ خود قائداعظم کی ۱۹۴۰۔۱۹۴۸ء کے درمیانی عرصہ میں ۱۰۰ سے زیادہ تقاریر جس میں انھوں نے اسلامی نظام اور اسلامی قانون کی بات کی ہے، تو کیا اسلامی قانون کے نفاذ سے کوئی ریاست اسلامی رنگ نہیں اختیارکرتی؟ میں یہاں اس ذہنی پراگندگی کو جو سیکولروں نے ہی پھیلائی ہے کہ ’’اسلامی قانون محض سزائیں ہیں‘‘ کو دُور کرناچاہتا ہوں۔سزائیں تو لازماً ہیں کیونکہ دنیا کے ہر قانون میں یہ نظامِ عدلیہ کا حصہ ہوتی ہیں، ان کے اطلاق سے ہی عدل کے قیام کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں اور قانون شریعت تو اپنی تمام تر وسعتوں اور جلال کے ساتھ عدلانہ نظام کو ممکن بناتا ہے۔ اس میں تقسیم وسائل کا عدل (distributive justice) ہے۔ معاشرتی عدل (social justice) بھی ہے اور سیاسی اور معاشی عدل (economopolitical justice) بھی۔
سیکولر حضرات کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ اسلام میں قانون سازی کا اصول ہے جو غالباً ان کی سیاسی دانش میں معاشرہ کو سیکولر بنانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سزا محض تعزیر نہیں ہوتی بلکہ اصلاح فرد ہوتی ہے جس سے مقصود معاشرتی قدروں کا اثبات ہوتا ہے مثلاً اگر مسلمان معاشرہ زنا کو گناہ کبیرہ سمجھتا ہے تو اس کی وجہ عفت و حیا اور پاکیزگی کو معاشرہ میں فروغ دینا ہے۔ لہٰذا یہ ترجیحات کی بات ہے۔ ڈاکٹر موصوف اس بات پر بھی مضطرب ہیں کہ اسلام میں قوانین یا تو ’’متعین‘‘ ہیں یا اُن سے استخراج کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ’’کسی مفسدہ کوختم کرنے یا کسی اخلاقی قدر کو معاشرہ میں قائم کرنے کے سلسلہ میں مناسب قانون سازی کا حق انسانی اختیار میں نہیں رہا‘‘۔ بلکہ ان کے اپنے الفاظ میں خدائی نیت کے شارحین کے نام منتقل ہوگیا ہے۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ اپنے قارئین کی ذہنی تربیت کے لیے اس اخلاقی قدر کا بھی ذکر کرتے جو وہ مسلمان معاشرہ میں بذریعہ قانون پیوند کرناچاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو تو اتنا ہی اخلاق چاہیے جتنا خودقرآن اور اسوہ رسولؐ میں ہے اس سے زیادہ اخلاق ہمارے معاشرہ کے لیے مفسدہ ہے۔ اسی طرح کسی مفسدہ کو ختم کرنے کے لیے اُنہیں اختیار چاہیے تو اس کے لیے اسلامی قانون سازی میں بڑی وسعت ہے۔ امام غزالیؒ نے اسلامی فکر اور مزاج سے استخراج کرتے ہوئے ’’مصالحہ‘‘ کا جو تصور دیا ہے اس میں بڑی گنجائش ہے، اسی طرح ’’قیاس‘‘ بھی اسلامی قانون سازی میںایسا معروف طریقہ ہے جس سے کسی بھی مفسدہ کو دُور کیاجاسکتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اگراس سے ان کی مراد خود اسلام ہی وہ مفسدہ ہے جس کامٹانا انہیں بذریعہ قانون سازی مطلوب ہے تو یہ اجازت تو انہیں ملنے سے رہی۔ اس کے لیے اُنہیں کروڑوں انسانوں کی گردنیں کاٹنی پڑیں گی۔
اسی طرح اسلامی قانون سازی میں انہیں اجتہاد سے بھی شکایت ہوگئی ہے۔ ایسا اجتہاد جو صرف ضمنی تبدیلی تک ہی محدود ہو، بیکار شئے ہے۔ موصوف کو ایسا اجتہاد چاہیے جس سے وہ لادینیت اور باطل نظاموں کی قدروں کی کاشت کرسکیں۔ جوآزادی ڈاکٹر منظوراحمدقانون سازی کے معاملہ میں مانگتے ہیں وہ خود مغرب کی قانونی روایت میں نہیں۔ وہاں “natural law” اساسی ہے جس کے خلاف بالعموم قانون سازی نہیں ہوسکتی اور یہاں ڈاکٹر موصوف خود قرآن کے خلاف قانون سازی کے حق کے فکری آزادی کے نام پر طالب ہیں۔ یہ کیسی دانش ہے الامان!
انھوں نے پاکستان کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس سے صاف مترشح ہے کہ وہ ۱۹۴۷ء سے قبل کی جغرافیائی پوزیشن پر جاناچاہتے ہیں۔ اور یہ بہت بڑا ظلم ہے جو بعض سیکولر حضرات اس ملک سے کرنا چاہتے ہیں مسلمانوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں ہندوؤں کے ساتھ کبھی قربت محسوس نہیں کی۔اُن کا ایک دوسرے سے تعلق حکمران اور رعیت کا تھا جس میں دونوں تہذیبی رویوں نے ان کے درمیان گہرا بُعد پیدا کر دیا تھا، اسی لیے وہ ایک دوسرے سے ہمیشہ دُور دُور رہے۔ مجھے ان کی تحریر پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنی دانش کو نہ صرف علامہ اقبال اور قائداعظم بلکہ مسلمانوں کی اجتماعی دانش سے بھی برتر سمجھتے ہوں۔ یہ تکبر کی بدترین قسم ہے کیونکہ پاکستان مسلمانوں کی اجتماعی دانش کا مظہر ہے۔
جہاں تک وطن عزیز کے نئے نام کا تعلق ہے یہ نیا ضرور ہے لیکن اس علاقہ میں جسے ہم محبت سے پاکستان کہتے ہیں مسلمانوں کا وجود نیا نہیں۔ اس کا باطن اتناہی قدیم ہے جتنا کہ حضرت عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کے عہد میں صحابہ کرام کا بلوچستان آنا اور پھر مسلمانوں کا صدیوں سے اس علاقہ میں قیام، اُن کا تفوق اور اقتدار ہے جو اسے تاریخی جواز دیتا ہے۔ لہٰذا سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے موجودہ پاکستان اس علاقہ میں ہمارے وجود کی علامت اور ہمارے ہزارسالہ دور اقتدار کی باقیات ہے۔
تشکیل پاکستان میں مسلمان دورحکمرانی ایک بڑا اہم فیکٹر ہے جسے بالعموم نظرانداز کردیا جاتا ہے اور بات کو محض مسلمانوں کے حقوق اور دو قومی نظریہ تک محدود کر دیا جاتا ہے، جیسے تاریخ بیسویں صدی سے شروع ہوتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان دورِ حکمرانی نہ ہوتا تو نہ ہمارا اسلامی تشخص برقرار رہتا نہ ہم میں یہ طلب ہوتی کہ ہمارا جداگانہ تشخص اور ہماری حیثیت بطور ایک آزاد قوم باقی رہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں کے سا منے یہ سوال شدت سے ابھر کر سامنے آیا کہ اگر وہ اپنی گزشتہ مسلم سلطنت کا پوری طرح احیا نہیں کرسکتے تو کسی نہ کسی طرح جزوی طورپراسے بحال کریں۔ ایسی صور ت میں وہ (سلطنت) ایک نئے نام کے ساتھ ہی واپس آسکتی تھی۔ یہ نام اتنا خوبصورت، اتنا بامعنی تھا کہ جس نے سنا وہ جھوم اٹھا۔ ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ دلوں کی آواز بن گئی۔ اس سے جذباتی وابستگی فی الفور پیدا ہوئی کہ اس کے پیچھے مسلمانوں کا تاریخی شعور تھا جس کی ہیئت میں حکمرانی اور اقتدار کا پندار تھا جس کا احساس اپنی ذات کااثابت تھاکہ جس سے وجود کو تکریم ملتی ہے۔ منظوراحمد صاحب جیسے لوگ اگر اس روحانی اورقلبی واردات سے نہیں گزرے تو یہ ان کی بدقسمتی ہے۔ سیکولرحضرات کا یہی المیہ ہے کہ مسلسل نفی کے بعد ان کے حصہ میں نفی کے سوا کچھ نہیں آتا۔
پھریہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب مسلمانوں کی وسیع و عریض سلطنت سمٹ کر موجودہ پاکستان کی جغرافیائی حدود میں متعین ہوئی تو انہی علاقوں میں ہوئی جہاں مسلمانوں نے ساتویں اور آٹھویںصدی عیسوی میں اپنے قدم جمائے تھے۔ اس طرح پاکستان کے قیام سے تقریباً ۱۱۰۰ سال پہلے مسلمانوں نے اس علاقہ کو جو پہلے بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا اس کی سرحدوں کا تعین پانی پت کے قریب ایک مقام پر کردیا جس کا نام انھوں نے سرہندرکھا۔ یعنی وہ سرحدی حد جو مسلمانوں کے علاقہ تصرف و اختیار کو ہندوستان سے علیحدہ کردے۔
وطن سے محبت بالعموم جغرافیائی نہیں ہوتی یہ محبت اور جذبہ وفور ان تصورات اور عقائد سے ہوتی ہے جو کسی علاقہ سے وابستہ ہوتے ہیں۔ یہ تصورات اور عقائدپاکستان کے باسیوں کی اسلام سے نسبت، ان کی مدینہ کی اسلامی ریاست سے گہری محبت، اور اُس ولولہ انگیز تاریخ کا حصہ ہونا ہے جس نے اس علاقہ کو مسلمانوں کاگھر بنادیا، یہ گھر نیا نہیں قدیم ہے۔ اس میں وادی سندھ کی انفرادیت اور قدامت بھی ہے جو اسے گنگا جمنا کی تہذیب سے جُدا کرتی ہے اور وہ خودی کا پندار اور ہستی کا شعور بھی ہے جو صرف خودشناسی اور احترام ذات سے پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان اہل پاکستان کو اسی لیے عزیز ہے کہ یہ ان کے تاریخی وجود کی علامتِ حاضرہ ہے یہ ان کے ایک آزاد حکمران قوم ہونے کا تسلسل ہے۔
ڈاکٹر منظور احمد کا یہ کہنا کہ یہودیوں کی طرح اہل پاکستان جنوبی ایشیا میں جلاوطنی کے دُکھ سے دوچار نہیں ہوئے درُست بات ہے۔ اور یہ احساس ضروری بھی نہیں کیونکہ محض اس کے ہونے سے وطن سے محبت نہیں پیدا ہوتی۔ آخر آج بھی یہودی اسرائیل سے باہر رہ رہے ہیں اور اسرائیل نہیں جانا چاہتے۔ باوجود اس امر کے کہ بعض جگہوں بالخصوص فرانس میں تو صیہونیوں نے خود یہودیوں کے گھروں اور ان کی عبادت گاہوں کو آگ لگائی تاکہ وہ عدم تحفظ تلے فرانس چھوڑ کر اسرائیل جابسیں۔ اس کے لیے بڑی بڑی رقوم مختص کی گئیں اور آسائشوں کی ترغیب دی گئی مگر بالعموم ناکامی ہوئی۔ تو جناب معلوم ہوا جلاوطنی (diaspora) میں رہنا اتنا بڑا المیہ نہیں ہوتا، اگر میزبان سرزمین ان کے لیے اپنے بازو وا کردے۔ البتہ جلاوطنی سے زیادہ بڑا المیہ کسی قوم کا یہ احساسِ محرومی ہوتا ہے کہ اُ س سے اُس کی عزت ا ور شرف چھین لیے گئے ہیں جو اُسے بربنائے اقتدار اور تصرف حاصل تھے۔مسلمانوں کے لیے کم وبیش ایک صدی سلطنتِ دہلی کے تخت سے دُور رہنا اتنا بڑا المناک واقعہ تھا کہ جس کی تلافی دوبارہ حصولِ اقتدار سے ہی ہو سکتی تھی اور وہ پاکستان تھا۔
تو جناب ڈاکٹر منظوراحمد صاحب پاکستان تاریخ کا تسلسل ہے۔ یہ مسلمان دور حکمرانی کی باقیات ہے۔ یہ مسلمانوں کی اس خواہش کی تکمیل ہے کہ انہیں اقلیت نہ بنائیں، سیکولر ہندوستان کی چند عددی نشستوں کااُسے بہلوانہ دیں۔ اُسے کُلّی اختیار چاہیے تھا تاکہ وہ اپنے مقدر کا فیصلہ خودکرسکے۔ مسلمان غلامی کے لیے اورجزوی مراعات کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ اسلامی نظام کی طرف جاتے ہوئے ہم سے غلطیاں بھی ہوں گی۔ اغیار ہمارا راستہ بھی روکیں گے لیکن ہمیں کتنا ہی عرصہ کیوں نہ لگے ہم اپنا راستہ خود بنائیں گے۔
اسی طرح پاکستان سے پاکستانیوں کی وابستگی منظوراحمد صاحب کو نظر نہیں آتی۔ وہ علاقوں اور زبانوں سے تعلق کو دیکھتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام سے وحدت پیدا نہیں ہوتی اور مشرقی پاکستان کی مثال دیتے ہیں۔ انہیں ہمارے عوام میں وہ وارفتگی اور جنون نظر نہیں آتا جب ہمارے کھلاڑی ہندوستان کو شکست دیتے ہیں۔ وہ ان کی دل گرفتی اور عالم طیش بھی نہیں دیکھتے جب پاکستان کی ٹیم کو شکست ہوتی ہے اور وہ ٹی وی سیٹوں کو توڑ دیتے ہیں۔
اس کے باوجود یہ بات بھی درُست ہے کہ وطن سے محبت میں مدوجزر آتے رہتے ہیں یہ کسی لمحہ کم بھی ہوسکتی ہے اور یہ کوئی نرالی بات نہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں ایسا ہوتا ہے خود امریکا جس کی فکری اور سائنسی فتوحات بے پناہ ہیں اورجہاں مادی خوشحالی بھی ہے یہ گفتگو مجالس میں جاری رہتی ہے کہ امریکا پستی اور بحران کا شکار ہے۔ ہمارے ہاں تو قومی جھنڈا جلانے کا ابھی تک کوئی واقعہ پیش نہیں آیا لیکن امریکا میں تو اکثر ہوتا رہتا ہے۔ حُب الوطنی کی تحقیر کرنا اور وطن کے ذکر پرناک منہ چڑھانا سیکولرازم اورلبرل ازم کی تعلیمات کا حصہ ہے۔ ثبوت میں انگریزی اخبارات سے ایسی کئی تحریریں پیش کی جاسکتی ہیں جس میں وطن عزیز کو نہ صرف بُرا بھلا کہا گیا بلکہ اسے ایک مصنوعی ریاست بھی قرار دیا گیا (دیکھیں pakmediaalert.wordpress.com)۔ اب اگر اس کے اثرات کچھ لوگوں پر پڑ جائیں تو یہ کوئی عجوبہ نہیں۔ بہرطور یہ سیکولر حضرات کی ناکامی ہے کہ اس سب کوشش کے باوجود اہل پاکستان کی غالب اکثریت اپنے وطن سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ کئی لوگ ایسے بھی ہیں کہ جب اُنہیںوطن عزیز کو بُرا کہنے پر ٹوکیں تو وہ فوراً تصحیح کرتے ہیں کہ ہماری مذمت حکومت سے متعلقہ ہے نہ کہ پاکستان سے۔
وہ مغرب میں بیٹھے پاکستانیوں کی وطن سے محبت کو بھی منفی انداز میں دیکھتے ہیں۔ اس کی وجہ انہیں اُن کے داخل میں نظرنہیں آتی بلکہ وہ اسے غیر اقوام میں رہنا قرار دیتے ہیں۔ جو ان کے خیال میں انہیں وحدت میں پروتی ہے۔ ان کا اس طرح سے سوچنا مارکسی فکر کا شاخسانہ ہے۔ جو خارجی عوامل میں ہی انسانی طرزعمل کو دیکھتے ہیں۔ یہ کہ وطن کی یاد (nostalgia) بھی اس کا باعث ہوسکتی ہے یا یہ کہ بیرون ملک ان کا قیام انہیں میزبان ملک سے اپنے وطن کا موازنہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور انہیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ’’آخر ہمارا ملک اتنا خراب نہیں جتنا ہم وہاں رہتے ہوئے اپنی کم فہمی کی وجہ سے محسوس کرتے تھے‘‘۔
تقابل اور موازنہ ہی صحیح ذہنی تناظر دیتے ہیں۔ جس طرح ہم اچھائی کو برائی اوردن کو رات کی ضد سے ہی پہچانتے ہیں۔ اسی طرح “nostalgia” بھی تقابلی صورت حالات میں آتا ہے اور یہ اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے جب بیرون ملک انسان اپنے وطن سے دور وطن سے وابستہ تصورات احساسات اور قلبی وروحانی واردات کی گرفت کو اپنے اوپر محسوس کرتا ہے۔ اور وہ خیال ہی خیال میں اپنے وطن سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اس لیے بیرون ملک پاکستانیوں کی اپنے وطن سے وابستگی اور محبت کو محض ’’غیر‘‘ کی موجودگی سے تعبیرکرنا، علمی لحاظ سے درُست نہیں کیونکہ یہ صرف یک رخہ نتیجہ نکالنے کی کوشش ہے۔
ڈاکٹر منظوراحمد ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ وہ جو تحریک پاکستان کے حوالے سے استخراج کرتے ہیں تو اس کی بنیاد کیا ہے؟ یقینا وہ ایک ایسے پاکستان کو قبو ل کرنے کو تیار نہیں جس کے پیچھے مسلم قومیت کی کرشمہ سازی ہو۔ اس لیے مسلم قومیت قبول کرنا بھی ان کے لیے مسئلہ ہے۔ ان کے خیال میں جنوبی ایشیا میں ہندوئوں کی موجودگی مسلمانوں کی مختلف ثقافتی اور لسانی اکائیوں میں وحدت کا باعث بنی۔ اس لیے جب سامنے ’’غیر‘‘ نہ رہے تو یہ وحدت ٹوٹ گئی۔ اُن کے نزدیک مشرقی پاکستان کا علیحدہ ہونا بھی اسی وجہ سے تھا۔ اوروہ اس کو بنیاد بناکر طعنہ دیتے ہیں کہ اگر اسلام میں اتنی وقعت ہوتی تو پھر پاکستان ایک رہتا۔ لیکن وہ اس کی تعبیر نہیں کرتے کہ ۲۴ سال تک مشرقی پاکستان و فاقِ پاکستان کا حصہ کیوںکر رہا ؟ یا یہ کہ موجودہ پاکستان اب تک کیوں وفاقی وحدت کی شکل میں برقرار ہے۔
یہ جناب اسلام ہی کا اعجاز ہے، ابھی بھی یہ قوم اسلام کی متلاشی ہے۔ اور بعض لوگوں نے تو اپنی سمجھ اور فہم کے مطابق نفاذ اسلام کے لیے ہتھیار بھی اٹھالیے ہیں۔ اتنی دیرپا موثر رہنے کی صلاحیت تو کسی نظام میں بھی نہیں کہ آپ نظام نافذ بھی نہ کریں اور وہ نظام صرف نام کی وجہ سے آپ کو اکٹھا رکھے۔ سیکولروں کو اس حقیقت کا اعتراف ہے اسی لیے پاکستان کی وحدانی قوت کو پاش پاش کرنے میں لسانی اور علاقائی تعصبات ابھارنے میں ان کا واضح ہاتھ شامل ہے۔ آج قومیتوں کی سیاست کون سے گروہ کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیشی تحریک سے لے کر سندھودیش، بلوچ قوم پرست تحریکیں، پختون شدت پسند، مہاجرت کے نام پر فساد اور خود پنجاب میں پنجابیت کا فتنہ جگانے والے کون لوگ ہیں، مثلاً اس سیکولر روشن خیال دیگ کے چند دانے آپ کے سامنے حاضر ہیں:
’’جو ڈرامہ برصغیر میں ہوا وہ کہیں نہیں ہوا۔ دوقومی نظریہ دھوکا ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت میں ہوتا تو مخالفت میں ووٹ دیتا‘‘ (الطاف حسین، ایم کیوایم)۔
عوامی تحریک کے صدر رسول بخش پلیجو نے کہا ’’یہ پاکستان غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، اسے ختم ہوناچاہیے‘‘۔
ورلڈ سندھی کانگریس کے نمائندے منور لغاری نے ہندوستان میں ’’فرمایا‘‘:
’’پاکستان سے آزادی دلائو مسئلہ کشمیر ختم ہو جائے گا‘‘۔ انھوں نے مزید ’’فرمایا‘‘:
’’پاکستان ۷۰فیصد وسائل سندھ سے حاصل کرتا ہے۔ سندھ کی آزادی سے پاکستان کو وسائل ملنا بند ہوجائیں گے‘‘۔
پیپلز پارٹی جسے وفاق کی زنجیر بھی کہا جاتا ہے اس کے فخر زمان صاحب نے ’’فرمایا‘‘: پنجابی کی مخالفت کرنے والے کو کچل دیں گے‘‘۔ اس طعنہ پر کہ وہ پنجاب کے الطاف حسین ہیں فخرزمان نے کہا ’’اگر کسی اہل زبان نے پنجابی کی مخالفت کی تو وہ سمجھ لے، وہ پنجاب میں نہیں رہے گا‘‘۔
یہ لوگ غیروں کے کتنے پیارے ہیں، اس کا اندازہ بھارتی پنجاب کی سنگیت ناٹک اکادمی کی سریندر کور کے طرزبیان سے لگائیں۔
’’فخرزمان کو ہماری پوری تائید حاصل ہے‘‘۔
یعنی پاکستان میں جو سیکولر حضرات لسانی عصبیتوں کا فتنہ اٹھارہے ہیں اسے انڈیا کی پوری حمایت حاصل ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ بیانات پنجابی کانفرنس منعقدہ سال ۲۰۰۱ء لاہور شہر میں عوام کے سامنے آئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکولر یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں؟ کیا اس طرزفکر سے کسی معاشرہ میں وحدت پیدا ہوتی ہے؟ یا اس سے تو لازماً معاشرہ توڑ پھوڑ کا شکار ہوجاتاہے؟ ظاہر ہے یہ سب کچھ اس لیے کیا جارہا ہے کہ پاکستانی قوم کی اسلامی وحدت کو ختم کیا جائے تاکہ نہ بانس رہے نہ بنسری باجے۔
اب یہ تو بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ آپ اسلام کے بارے میں کہیں کہ یہ قومی وحدت کا وسیلہ نہیں کیونکہ یہ ناکام ہو گیاہے اور ساتھ ہی اس کی پیدا کردہ وحدت کو لسانی اور نسلی سیاست اور فکر کے ذریعہ برباد بھی کریں۔ مسلم پاکستان اور سیکولروں میں یہ ٹکرائو قدیم ہے۔ پاکستان کی دستوری تاریخ میں جو بیانات قرارداد کے حوالے سے ہندو نمائندوں نے پارلیمان میں دیے یہی سب کچھ آج سیکولر بھی چبا رہے ہیں۔ پھر ان ہی سیکولروں نے قرارداد مقاصد کوآئین کا دیباچہ بنادیا تاکہ اس کا نفاذ ہی نہ ہو۔ جب اسے عوامی دبائو کے پیش نظر ضیاء الحق نے قابلِ نفاذ شق بنادیا تو سیکولروں کے سیکولر ججوں نے یہ کہہ کر کہ قرارداد مقاصد والی شق آئین کی دوسری شقوں کی طرح ہے یعنی سب شقیں برابر ہیں، اس کی اولیت اور اہمیت کی راہ کاٹ دی۔ ابھی تک سیکولر زحضرات اپنے حربوں میں کامیاب ہیں کیونکہ سول اور ملٹری بیوروکریسی ان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ اب یہ کیسی دانش ہے کہ آپ اسلامی نفاذ کی راہ کو توخود روکیں اور پھر کہتے جائیں قائداعظم کے ذہن میں کوئی اسلامی نقشہ نہیں تھا۔ اگر تھا تو کہاں گیا۔ ہمیں تو نظر نہیں آتاوغیرہ۔ قائداعظم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ قوم کو ایک خاص قسم کا اسلامی نظام دیں گے۔ بلکہ بہ تکرار یہ کہا کہ ہمیں پاکستان چاہیے تاکہ ہم اسلام کی اجتماعی ہدایات کو روبکار لاسکیں،اسلامی قانون نافذ کرسکیں۔ مثلاً انھوں نے اپنی آخری تقریروں میں وطن عزیز کو ایک ایسی تجربہ گاہ قرار دیا جہاں اسلام کو موجودہ زمانہ میں روبہ عمل لایا جاسکے اور انھوں نے یہ کام گورنراسٹیٹ بنک کے سپر دکیا کہ وہ معاشیات کو اسلامی خطوط پر ڈالیں۔
جب کسی نے ان سے پوچھا کہ وطن عزیز کا دستور کیا ہوگا تو اس شخص نے جو سب سے بڑا جمہوریت پرست تھا کہا کہ یہ دستورساز اسمبلی کا کام ہے کہ دستور بنائے۔ باالفاظ دیگر وہ اسلامی نظام کے خدوخال تو دیتے رہے تھے لیکن ان خدوخال پر دستور مرتب کرنا دستو رساز اسمبلی کا کام تھا۔
یہ بات تو ریکارڈ پر ہے کہ اسلام کے بارے میں ان کی حسیات بڑی گہری تھیں۔ ان کے کردار اور ان کے طرزِتکلّم کی سنجیدگی اس وقت کے سیکولرحضرا ت کو کھٹکتی تھی۔ چنانچہ کراچی کی تقریب میلاد النبی میں اُنہوں نے کہہ بھی دیا کہ ’’جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو کئی لوگ بُرا مناتے ہیں‘‘۔
Islamic principles have no parallel… no doubt there are many people who do not quite appreciate when we talk of Islam….
’’اسلامی اصولوں کا کوئی جواب نہیں۔۔۔۔۔ بلاشبہ کئی لوگ بُرا مناتے ہیں جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں‘‘۔
اب یہ کہنا کہ ’’قائداعظم نے بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے‘‘ اسلامی محرکات کو استعمال کیااُن پر ایک عظیم بہتان ہے۔ اچھا ہوتا کہ اگر ڈاکٹر منظورقائد کے ’’اپنے مقاصد‘‘ کا بھی ذکرکرتے۔ اور اگر اُن مقاصد میں پاکستان شامل تھا تو اس میں کیا برائی تھی۔ اسی طرح اگر انھوں نے اسلام کا نام لیا تو انھوں نے کیا بُرا کیا۔ آخر مسلمان کو کفر کے نام پر تو متحرک نہیں کیا جاسکتا۔ محرکات تو تاریخ ہواکرتی ہے، عقیدہ ہوتا ہے، مشکلات سے نکلنے کا احسا س ہوتا ہے۔
سیکولر حضرات سے میری گزارش ہے کہ وہ اپنے مطالبات، فکری بحثوں اور سیاسی ایجنڈا کو دستور پاکستان کے اندر ہی محدود رکھیں اور پاکستان کے خلاف مورچہ زن نہ ہوں۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔
(نوٹ: یہ مضمون روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں بھی شائع ہو چکا ہے)
{}{}{}
Leave a Reply