بُرادرہ: یہ خالص فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا اصل بازدار، مراد ہے ایسا شخص، جسے باز پالنے کا شوق ہو یا جو بازوں کی تجارت کرتا ہو۔ عربی قاعدے کے مطابق اسے ’’بزدر‘‘ بنا لیا گیا، پھر اس کی جمع ’’بُزادرہ‘‘ بنا لی گئی، یعنی وہ لوگ جو باز وغیرہ پالتے یا ان کی تجارت کرتے ہیں۔
کوشک: یعنی محل، قصر، اونچی عمارت۔ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اسے جب عربوں نے استعمال کیا تو انہوں نے اسے ’’جوسق‘‘ بنا دیا۔
تباہی: یہ لفظ عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں پایا جاتا ہے لیکن دونوں جگہ اس کے معنی مختلف ہیں۔ فارسی میں اس سے مراد ہے، ہلاکت، بربادی۔ ’’تباہ‘‘ اسم صفت ہے، اس سے ’’تباہی‘‘ اسم بنایا گیا۔ عربی میں یہی لفظ ’’تفاعل‘‘ کے وزن پر ہے لیکن چونکہ ’’ی‘‘ اپنے سے پہلے حرف پر ترجیحاً کسرہ (زیر) چاہتی ہے، اس لیے اس کو ’’تفاعل‘‘ کی بجائے ’’تفاعل‘‘ کے وزن پر ’’تباہی‘‘ کہا جاتا ہے۔ عربی میں اس کا مطلب ہے، ڈینگیں مارنا، شیخی بگھارنا۔ لفظ ’’مباہات‘‘ اسی کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے، یعنی ’’شیخی بگھارنا‘‘، ’’فخر و مباہات‘‘ کی اصطلاح اردو میں بڑی معروف ہے۔ اسی طرح ’’واہی تباہی بکنا‘‘ کی ترکیب بھی آپ کے علم میں ہو گی۔ ’’واہی‘‘ کا مطلب ہے: کمزور، فضول، بے مغز، بے وزن، بے قیمت چیز۔ ’’واہی تباہی بکنا‘‘ سے مراد ہے، فضول باتیں کرنا، اسی سے ’’واہی تباہی پھرنا‘‘ کی ترکیب بنی یعنی آوارہ پھرنا، پریشان حال پھرنا۔
چھتری: تعارف کروانے کی ضرورت نہیں، ہندی زبان کے اس لفظ کی اصل بھی فارسی کا لفظ ’’چتر‘‘ ہے، جس کے معنی ہیں: چھاتا، بڑی چھتری۔ اسی سے ’’چتر شاہی‘‘ کی اصطلاح رائج ہوئی۔ آسمان کو ’’چتر لاجورد‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’گنبدِ چتری‘‘ بھی آسمان کا دوسرا نام ہے۔ سنسکرت میں بڑی چھتری اور شامیانے کو ’’چھتر‘‘ کہتے ہیں۔ ویسے ہندی میں چھتری کے دیگر معانی بھی رائج ہیں مثلاً کبوتروں کے بیٹھنے کا ٹھٹھر (بانس کا ڈھانچا) ایک قسم کا گنبد دار محل، ہندوئوں کی ایک ذات، مسہری، سر کے بڑے اور گھنے بال، درخت کا پتوں اور ٹہنیوں کا حصہ۔ ’’چھت‘‘ چھتری کا مخفف ہے۔
چھپر: یعنی پھوس کا سائبان یا چھت۔ اس سے کئی محاورے بھی بن گئے مثلاً چھپر پھاڑ کے دینا، چھپر پر دھرنا، چھپر ٹوٹ پڑنا وغیرہ۔ ہندی زبان کا یہ لفظ بھی فارسی کے لفظ ’’چپر‘‘ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔
تباشیر: سفید رنگ کی ایک دوا جو بانس کی گانٹھوں یا جڑ سے برآمد ہوتی ہے۔ اسے طب یونانی کے ماہرین طبی نسخوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ہندی میں اسے ’’بنسلوچن‘‘ کہتے ہیں۔ ’’تباشیر‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ عربی دانوں نے اسے اپنے ہاں ’’طباشیر‘‘ کر لیا تاکہ اسے عربی زبان کے لفظ ’’تباشیر‘‘ سے الگ کیا جا سکے۔ عربی میں ’’تباشیر‘‘ دراصل ’’تبشیر‘‘ کی جمع ہے۔ تبشیر کے معنی ہیں صبح کی سفیدی۔ اس لحاظ سے ہر چیز کے آغاز کے لیے بھی ’’تباشیر‘‘ کا لفظ استعمال کر لیتے ہیں مثلاً ’’تباشیر شباب‘‘ کی ترکیب ’’آغازِ جوانی‘‘ کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔
ستون: فارسی زبان میں ’’سہارے‘‘ اور ’’کھمبے‘‘ کو کہتے ہیں۔ اردو میں بھی ان ہی معنوں میں رائج ہے۔ یہ لفظ دراصل ’’استون‘‘ ہے۔ جس طرح ’’افگار‘‘ کو ’’فگار‘‘ ’’افغان‘‘ کو ’’فغان‘‘ اور ’’افزوں‘‘ کو ’’فزوں‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح ’’استون‘‘ کو ’’ستون‘‘ کہا جانے لگا۔ پھر، عربی اثرات کے تحت یہ لفظ ’’اسطون‘‘ اور پھر ’’اسطوانہ‘‘ بن گیا۔ مراد وہی ہے: مضبوط سہارا، کھمبا۔ اس کی جمع ’’اساطین‘‘ بنا لی گئی۔ ’’اُستن‘‘ اور ’’اسطن‘‘ اسی کے مخفف ہیں۔
بغداد: عراق کے اس قدیم تاریخی شہر سے آپ خوب واقف ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لفظ ’’بغداد‘‘ دراصل ’’باغِ داد‘‘ تھا یعنی ’’گلشنِ عدل و انصاف‘‘۔ لفظ ’باغ‘ عربی میں بھی استعمال ہوتا ہے، شاید اسے فارسی سے لیا گیا ہو۔ اس کی جمع ’’بیغان‘‘ ہے۔
(بحوالہ: ’’لفظوں کا دلچسپ سفر‘‘۔ ڈاکٹر ایس اے ہاشمی)
Leave a Reply