
گرداب: یعنی بھنور، پانی کا چکر۔ فارسی زبان کا لفظ ہے مجازاً مشکل میں گھر جانے پر بھی کہتے ہیں: ’’بھئی ہم تو گرداب میں پھنس گئے ہیں!‘‘ گرداب دراصل ’’گرد آب‘‘ہے۔ گرد کا مطلب ہے ’’گھومنا‘‘ اسی سے بنا، گرد و پیش یعنی ارد گرد ، آس پاس، چونکہ چاروں طرف کے منظر کو گھوم کر ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اردو میں ہم کہتے ہیں گرداگرد اس کے معنی بھی وہی ہیں: چاروں طرف لفظ ’’گرداب‘‘ جب سفر کرتا ہوا عربی میں پہنچا تو وہاں ’’گ‘‘ کا داخلہ ممنوع تھا چنانچہ اسے ’’جرداب‘‘ کا نیا لباس دے کر اپنا لیا گیا۔
مے خور: یعنی شراب پینے والا۔ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اسے مجازاً اس جگہ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جہاں شراب پی جائے۔ اسی نسبت سے ہر خراب اور مشکوک جگہ کو ’’مے خور‘‘ اور پھر ’’ماخور‘‘ کہا جانے لگا۔ عربوں نے بھی اس لفظ کو جوں کا توں لے لیا اور ا س سے مراد شراب خانہ، قمار خانہ اور حرام کاری کا اڈا لینے لگے۔
کرہ: عربی زبان کا لفظ ہے۔ کرۂ ارض سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔ ہر وہ چیز جس میں تھوڑی سی گولائی آجائے، اس کو کرہ کہتے ہیں۔ بعض افراد اسے ’’کرہ‘‘ بولتے اور لکھتے ہیں یعنی ’’کرّہ‘‘ کے ’’ر‘‘ پر تشدید لگاتے ہیں، ایسا کرنا سراسر غلط ہے۔ اب دیکھیے کہ گولائی اور خم کے لیے انگریزی میں لفظ ’’کرو‘‘ CURVE استعمال ہوتا ہے۔ قوس یا خط وحدانی کو بھی ’’کرو‘‘ کہتے ہیں۔ ’’کروی‘‘ CURVI کا مطلب ہے، خم کھائی ہوئی شے۔ انگریزی میں اسے سابقہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ’’کروی لائنز‘‘ کا مطلب ہے ’’منحنی‘‘ ایک تحقیق کے مطابق ’’کوڑا‘‘ (تازیانہ) بھی کرہ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔
چمپا: ایک قسم کا درخت ہے، جس کا پھول خوشبو دار ہوتا ہے۔ اسے ’’چمپا‘‘ بھی لکھتے ہیں لیکن تلفظ ’’چمپا‘‘ ہی کرتے ہیں۔ ایک زیور کا نام بھی ’’چمپا کلی‘‘ ہے۔ ’’چمپا‘‘ جب عربی زبان میں پہنچا تو اہل عربی اسے ’’چنپا‘‘ کہنا چاہا مگر پھر انہوں نے اسے اپنی آسانی کے لیے ’’زنبا‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ یہی ’’زنبا‘‘ ہوتے ہوتے ’’زنبق‘‘ بن گیا۔
ورغلان: مراد ہے سوچ کا دھارا بدل لینا، اصل مقصد سے ہٹا دینا، دھوکے میں لانا غلط فہمی یا خوش فہمی کا کھیل کھیلنا، بہلانا، پھسلانا۔ یہ ’’ذمہ داری‘‘ یوں تو شیطان نے اپنے سر لی تھی لیکن جلد ہی انسانوں نے خوشی خوشی یہ کام شیطان سے لے کر اس کا بوجھ ہلکا کر دیا۔! یہ ’’مشغلہ‘‘ برصغیر پاک و ہند میں اتنا مقبول ہوا کہ فارسی والوں نے اس سے مصدر ’’مرغلانیون‘‘ بنا لیا۔ ویسے ایک امکان یہ بھی ہے کہ اردو والوں نے ہی فارسی کے مصور ’’ورغلانیان‘‘ سے اخذ کر کے ورغلانا بنا لیا ہو، جیسے فارسی کے مصدر ’’خریدنی‘‘ سے ’’خریدنا’’ بنایا گیا اور ’’چلیدن‘‘ سے چلنا۔
کٹار: یعنی خنجر، پیش قبض، ایسا تیز دھار چوڑا خنجر جسے کمرے میں باندھتے ہیں۔ نیمچہ یا چھوٹی تلوار۔ ہندی زبان کا لفظ ’’کٹار‘‘ فلمی گانوں میں خاصا مقبول رہا ہے مثلا ’’مار کٹاری مر جانا‘‘ ’’کٹاری‘‘ دراصل ’’کٹار‘‘ ہی کی تصغیر ہے یعنی ’’چھوٹی کٹار‘‘ کاٹنے اور قتل کرنے والی نظروں کی مثال دینے کے لیے بھی لفظ ’’کٹار‘‘ سے استفادہ کیا جاتا ہے۔! مثلاً کاں نوں قتل کر دی جیوی کٹاری یعنی (اس کی نگاہ ایسی ہے جو دلوں کو کٹار کی طرح کاٹتی چلی جاتی ہے)۔ ’’کٹار‘‘ کو ’’کٹارا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ’’کٹارا‘‘ کے ہندی میں بہت سے معنی ہیں مثلاً پتلا گنا، ہندی زبان کا لفظ کٹاریا کٹھارا املی، قطار اور کٹار! فارسی زبان کے لفظ ’’کتارہ‘‘ سے بنا ہے، جسے تلوار، خنجر اور بڑی چھری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تورت: ترکی زبان کا لفظ ہے، اسے ’’تُرت‘‘ بھی لکھتے ہیں۔ یعنی ’’دہی‘‘ ’’ت‘‘ اور ’’د‘‘ کا تلفظ چونکہ قریب قریب ہے اور ترکی میں ’’ٹی‘‘ کی آواز ’’ڈی‘‘ کی سی نکالی جاتی ہے، اس لیے اس کا تلفظ ہو گیا کرد اور ’’کرد‘‘ چنانچہ انگریزی میں پہنچ کر یہ بن گیا ’’کرڈ‘‘ CURD یعنی۔ دہی۔
بیا: چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ، جو اپنے گھونسلے اس مہارت سے بنتا ہے کہ اس پر کسی ماہر کاریگر کا گماں ہوتا ہے۔ انگریزی میں اسے ’’بایا‘‘ BAYA کہتے ہیں۔
جولاہا: یعنی کپڑا بننے والا۔ ہندی زبان کا لفظ ہے اسے ’’جلاہا‘‘ بھی کہتے ہیں اور اس سے اس کی تانیث بھی بنا لی گئی ہے یعنی ’’جلاہی‘‘ (کپڑا بننے والی) لفظ ’’جولاہا‘‘ دراصل فارسی زبان کے لفظ ’’جولاہ‘‘ سے بنا ہے۔ فارسی کا یہ لفظ مکڑے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو اپنا جال بنتا ہے۔
موری! عموماً ہمارے ہاں گندے پانی کی نالی، بدرو کے لیے لفظ ’’موری کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور اسے بالعموم ناپسندیدہ معنوں میں لیا جاتا ہے۔ اس سے نکلنے والے محاوروں سے تو کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے مثلاً ’’موری کی اینٹ چوبارے چڑھی‘‘ یعنی کمینے کو اعلیٰ رتبہ ملا۔ ’’موری کا کیڑا موری ہی میں خوش رہتا ہے‘‘۔ یعنی جو گندگی میں پلا بڑھا وہ گندگی ہی میں خوش رہتا ہے۔ ’’موری میں پتھر ڈالو گے تو چھینٹیں اُڑیں گی‘‘ یعنی گندے معاملے میں پڑو گے تو بدنامی ہو گی۔ تاہم ’’موری‘‘ کے کچھ اور معنی بھی ہیں منہ، دہانہ، سوراخ، پانی کے پانی زبان میں ’’موری‘‘ کو ’’سوراخ‘‘ کے مفہوم میں بکثرت استعمال کرتے ہیں لیکن فارسی زبان میں اس سے مراد وہ سوراخ ہے جو صحن کے پانی کو باہر نکالنے کے لیے بنا لیا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہندی، پنجاب اور اردو میں یہ لفظ وائو مجہول کے ساتھ ہے یعنی ’’موری‘‘ کو ’’بوری‘‘ کے وزن پر پڑھتے ہیں اور فارسی میں یہی لفظ وائو معروف کے ساتھ بولا جاتا ہے یعنی موری کا تلفظ ’’نوری‘‘ کے وزن پر کیا جاتا ہے۔
لام: ایک تو یہی ہمارے حرف ’’ل‘‘ کا لفظ ہے، لیکن عربی میں یہ لفظ ’’زرہ‘‘ کے لیے بولا جاتا ہے۔ غالباً اسی نسبت سے ہندی میں ’’لام‘‘ سے راد لی جاتی ہے۔ فوج کا دستہ جنگ کی تیاری کرنا۔ فارسی میں ’’لام‘‘ کو خمیدہ اور ٹیڑھا‘‘ کے معنوں میں لیا جاتا ہے اور مجازاً اس سے مراد لی جاتی ہے زلف۔ ملاحظہ فرمایئے۔
لازم نستعلیق کا ہے اس بتِ کافر کی زلف
ہم تو کافر ہو گئے، منکر جو ہوں اس لام کے
اس شعر میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ ’’اس لام‘‘ میں ایک طرف تو زُلف کی طرف اشارہ ہے دوسرے ’’اسلام‘‘ کی طرف!
(بحوالہ: ’’لفظوں کا دلچسپ سفر‘‘۔ ڈاکٹر ایس اے ہاشمی)
Leave a Reply