
کمر: فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اردو شاعری میں محبوب کی نازک کمر کی تصویر کشی کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ ’’کمر‘‘ کو یوں تو جسم کے ایک حصے کے معنوں میں لیا جاتا ہے لیکن مجازاً اس سے مراد ہمت اور ڈھارس بھی لی جاتی ہے چنانچہ ’’کمر‘‘ سے وابستہ محاوروں میں یہی مجازی مفہوم کار فرما ہے مثلاً کمر باندھنا، یعنی مستعد ہو جانا، کمر توڑنا یعنی ہمت توڑ دینا، کمر کسنا یعنی کسی کام کے لیے تیار ہو جانا۔
چیتے کی کمر کو بھی بدنی چستی، صحت مندی اور جسمانی قوت و تناسب کے حسین امتزاج کی تشبیہ یا اشارے کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے۔ ’’کمر‘‘ کے ایک اور معنی ’’پہاڑوں کے دامن‘‘ کے بھی ہیں چنانچہ ’’کوہ و کمر‘‘ کی ترکیب کا استعمال نصف صدی قبل بہت ہوتا رہا ہے، اردو کے مایۂ ناز مزاح گو شاعر سید ضمیر جعفری اپنی دلچسپ نظم ’’عید کا میلا‘‘ میں کہتے ہیں:
کیا کوہ و کمر، کیا کوچہ و در،گلبرگ ہیں سب گلنار ہیں سب
رنگوں سے بھرے بازار ہیں سب
خوشبو میں بسے گلزار ہیں سب
بچے تو الھڑ بچے ہیں، بوڑھے بھی صبا رفتار ہیں سب
پوشاک میں چوڑی دار ہیں سب
خوراک میں مرغا مار ہیں سب
ہر سو خوشیوں کا ریلا ہے، من منگلا، دل تربیلا ہے
یارو یہ عید کا میلا ہے!
لیاقت: عربی زبان میں قابلیت، جوہر، خوبی، دانائی، شائستگی، حوصلہ، ظرف، مقدور کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ ہم اردو میں اس لفظ کو قابلیت اور صلاحیت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عرب کے لوگ اسے جسمانی توانائی اور حُسن و تناسب کے مفہوم میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ ’’لیاقتِ بدنیہ‘‘ سے مراد ہے: ’’جسمانی کمال‘‘ ’’یعنی فزیکل فٹنس۔!‘‘
فجر: اردو میں عام طور پر لفظ ’’فجر‘‘ سے فجر کی نماز کا خیال آتا ہے۔ تاہم عربی زبان میں یہ لفظ وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ ’’فجر‘‘ کے لفظی معنی ہیں: پُھوٹنا‘‘۔ اس کا اسم تصغیر ’’فُجیرہ‘‘ ہے، جو چھوٹے چشمے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’فجر‘‘ کاایک مطلب ہے بدگوئی کرنا، منہ پھٹ ہو جانا، اسی لیے ’’فجیرہ‘‘ کا دوسرا مطلب ہے: ’’گالی‘‘ اسی وجہ سے ہر اس حرکت کے لیے ’’فجر‘‘ یا ’’فجور‘‘ کا لفظ بولا جانے لگا، جس سے معاشرے کی وحدت میں دراڑ یا شگاف پیدا ہو جائے۔ ’’فاجر‘‘ ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے کو کہتے ہیں، جو انسانی معاشرے کی وحدت اور خدائی وحدت کے تصور کو پھاڑ دے۔ اس کی جمع ’’فجار‘‘ ہے۔ ’’فجار‘‘ کا ایک مفہوم ہے باہم گالم گلوچ، سماجی بے اعتدالی۔ سپیدۂ سحر کو بھی ’’فجر‘‘ اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ رات کی تاریکی کو پھاڑ کر اُفق پر پھیل جاتا ہے۔
خاموشی: فارسی زبان کے اس لفظ کو ہمارے ہاں، خصوصاً ابتدائی جماعتوں کے اساتذہ کمرۂ جماعت میں کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔! بعض اساتذہ لفظ ’’خاموش‘‘ میں ’’زور و اثر‘‘ پیدا کرنے کے لیے چیخ کر ’’خموش۔۔۔۔ ش ۔۔۔۔ش‘‘ کہنا بھی پسند کرتے ہیں۔! ویسے لفظ ’’خموش‘‘ ’’خاموش‘‘ ہی کا اختصار ہے۔ دونوں کے معنی ہیں: چُپ، ساکت۔ اسی سے لفظ بنا: ’’خاموشی‘‘ جسے مختصر کر کے ’’خموشی‘‘ اور ’’خامشی‘‘ بھی بولا جاتا ہے۔ خصوصاً شعراء کرام اختصار کی اس رعایت سے خوب استفادہ کرتے ہیں۔ع
خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری
اور ع
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
اب سنیے کہ فارسی میں تو ’’خموش‘‘ کا مطلب ہے، ’’چپ‘‘ لیکن جب یہی لفظ عربی میں پہنچتا ہے تو ’’مچھر‘‘ بن جاتا ہے۔! غالباً اس لیے کہ یہ چپکے سے کاٹ لیتا ہے، حالانکہ یہ کہنا گویا مچھر پر تہمت لگانا ہے وہ تو باقاعدہ جنگ کا بگل بجا کر، اعلان جنگ کرتا ہے، پھر حملہ آور ہوتا ہے، خیر عربی میں ’’خموش‘‘ کا لفظی مطلب ہے: نوچنا، چھیلنا، بدن کے کسی حصے کو زخمی کر دینا۔ اس لحاظ سے بھی ’’مچھر‘‘ کے لیے ’’خموش‘‘ کا لفظ خاصا موزوں ہے، کیونکہ موصوف کی عادت ہے کہ گاہے گاہے چٹکیاں لیتے، بدن کو نوچتے یا ’’شکار‘‘ کو خود اپنی بوٹیاں نوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔! خموشی سے لفظ ’’خماشہ‘‘ بنا ہے۔ یہ ایسے زخم کو کہتے ہیں جس کی دیت یا تاوان متعین نہ ہوا ہو۔
ہائوہو: شور و غوغا، کراہنے کی آواز، اچانک گھبراہٹ میں منہ سے نکلنے والی بے ساختہ آواز کے لیے ہندی زبان میں ’’ہائوہو‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اسے عام لوگ ’’ہوہا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ انگریزی میں بھی اسے ’’ہوہا‘‘ ہی کہتے ہیں اور معنی ہیں: وہ بھگدڑ جو شور کے ساتھ ہو۔ ہجے ہیں: HOO HA غالباًہر زبان کے لوگ بھگدڑ اور ہنگامے کے دوران ’’ہو ہو، ہا ہا‘‘ قسم کی آوازیں ہی نکالتے ہیں۔!
انبار: یعنی ڈھیر، ذخیرہ۔ اس لفظ کو فارسی زبان کا لفظ سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس کی اصل عربی ہے۔ یہ لفظ ’’نبر‘‘ کی جمع ہے۔ ’’نبر‘‘ سے مراد ہے وہ جگہ جہاں تاجر حضرات اپنے مال کو ذخیرہ کرتے ہیں اور ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ اردو میں یہ لفظ واحد اور جمع دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔
مہندس: عربی زبان میں ’’انجینئر‘‘ کو کہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ لفظ دراصل ’’مہنداز‘‘ سے بنایا گیا ہے، اس لیے کہ عربی زبان میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس میں ’’د‘‘ کے بعد ’’ز‘‘ آتا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ مہنداز، دراصل آب اندازی کا اختصار ہے۔ اس سے عربی کا لفظ ’’مہنداس‘‘ بنا اور اس کا فاعل ’’مہندس‘‘ ہو گیا۔ مراد ہے سیوریج سسٹم اور پانی کی گزر گاہوں کو ایک مقررہ اندازے کے مطابق تعمیر کرنے والا۔ ویسے عربی میں ’’مہندس‘‘ سے مراد ہے تجربہ کار آدمی، تیز نظر، بہادر اور ہندوس سے مراد ہے: عالم اور ماہر۔
چنار: مشہور درخت ہے۔ ہمارے ہاں خصوصاً کشمیرمیں چنار کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اس درخت کو رات کے وقت دیکھیں تو لگتا ہے اس کے پتوں سے آگ بھڑک رہی ہے۔ محبوبہ کے مہندی رنگے ہاتھوں کو چنار کے پتوں سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ ’’چنار‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ یہ عربی میں پہنچ کر ’’صنار‘‘ بن گیا۔ اس درخت کو عربی میں ’’دُلب‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اسی سے ایک لفظ ’’دالب‘‘ بنا۔ مراد ہے ایسا انگارہ جو ٹھنڈا ہونے کو نہ آئے۔
بیشہ: فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی ہیں جنگل، بیابان۔ سعدی کہتے ہیں۔
بیشہ گماں مبر کہ خالیست
شاید کہ پلنگے خفتہ باشد
یعنی: ہر جنگل کو خالی نہ سمجھو، عین ممکن ہے کہ اس میں چیتا سو رہا ہو۔
یہ لفظ عربی میں بھی پایا جاتا ہے۔ یمن کی بولی میں ’’بیشہ‘‘شیر کی کچھار کو کہتے ہیں یا اس جنگل کو جس میں شیر کثرت سے ہوں۔ عربی میں ’’بیشہ‘‘ کو ’’بِئشہ‘‘ یعنی ’’یا‘‘ کی بجائے ’’ہمزہ‘‘ سے بھی لکھتے ہیں۔ بعض اوقات بیشہ کو ’’بیش بھی کہتے ہیں۔
(بحوالہ: ’’لفظوں کا دلچسپ سفر‘‘۔ ڈاکٹر ایس اے ہاشمی)
Leave a Reply