
پُرخاش: رنج، لڑائی اور نا اتفاقی کے اظہار کے لیے فارسی زبان میں لفظ ’’پُرخاش‘‘ موجود ہے۔ ہم اردو میں کہتے ہیں، ’’آپ کو مجھ سے کیا پُرخاش تھی؟‘‘
’’پُرخاش‘‘ کو عربی دانوں نے بھی اپنا لیا اور اسے حسب عادت ’’برخاش‘‘ بنا لیا، کیونکہ عربی میں ’’پ‘‘ کا کیا کام؟! عربی میں ’’برخاش‘‘ غل غپاڑہ، بحث و مباحثہ اور شور شرابے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ پھر یہ ہوا کہ یہی ’’برخاش‘‘ زبان کے ستم سہتا سہتا، ’’خرباش‘‘ ہو گیا، جس طرح ’’زنجیر‘‘ کو ’’جنزیر‘‘، ’’جذب‘‘ کو ’’جبذ‘‘ کہہ دیا جاتا ہے۔
انقرہ: اس لفظ کی اصل ’’انگوریہ‘‘ ہے۔ یہ ترکی کے اس شہر کا دوسرا نام ہے جسے عموریہ کہا جاتا تھا۔ ایک ’’انقرہ‘‘ روم میں بھی تھا۔
شونیز: فارسی زبان میں کلونجی کو کہتے ہیں۔ مشہور بیج ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بے حد شفا بخش ہوتے ہیں۔ یہ لفظ عربی میں پہنچ کر کئی طرح بولا جانے لگا: شینیز، شونوز، شہنیز۔
دوغ: فارسی زبان میں ’’دوغ‘‘ مٹھا یعنی لسی کو کہتے ہیں۔عربی میں ’’دوغ‘‘ مرض کی طوالت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس سے مراد ’’ٹھنڈک‘‘ بھی لی جاتی ہے اور ’’بے وقوفی‘‘ بھی۔
سایہ: مشہور لفظ ہے اور متعدد معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ فارسی میں اسے چھائوں، پرچھائیں، پَرتو، عکس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو والوں کے نزدیک یہ مطالب شاید کافی نہ تھے، چنانچہ انھوں نے اس لفظ کو جن بھوت کے اثر اور آسیب کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ ’’سایہ‘‘ کو مجازی معنوں میں حفاظت ، سرپرستی اور حمایت کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ سفید کیے ہوئے تانبے میں کسی نقص کی وجہ سے آ جانے والی سیاہی کو بھی ’’سایہ‘‘ کہتے ہیں۔ ’’شجر سایہ دار‘‘ کی ترکیب ایسے فرد کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو نفع اور آرام پہنچائے۔ ’’ہم سایہ‘‘ پڑوسی کو کہتے ہیں جو ساتھ ایک ہی دیوار کے سائے تلے رہتا ہے۔ سایہ کو جب ’’سایا‘‘ لکھا جائے تو یہ پرتگالی زبان کا لفظ بن جاتا ہے، جس کے معنی ہیں: یورپی عورتوں کا لہنگا۔
سایہ، عربی میں بھی ہے مگر ش کے ساتھ، یعنی ’’شایہ‘‘ اس طرح یہ لفظ ہندی کے لفظ ’’چھایا‘‘ کے قریب آ جاتا ہے لیکن اگر ’’سایہ‘‘ کو خالص عربی مانا جائے تو اس سے مراد ہو گی: معاملات کو صلح صفائی کے ساتھ طے کرلینا۔
گال: ایک تو ’’گال‘‘ ہندی میں ہوتا ہے یعنی ’’رخسار‘‘۔ ہندی ہی میں اس سے مراد غلہ کا ذخیرہ بھی لیا جاتا ہے اور اس طرح کے گودام کو ’’کنگنی‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہی ’’گال‘‘ جب پنجاب میں پہنچتا ہے تو جنس بدل کر مؤنث ہو جاتا ہے اور اس کا مطلب لیا جاتا ہے، بات، گفتگو۔ ایک قول کے مطابق ’’گال‘‘ کی اصل عربی زبان کا لفظ ’’قال‘‘ ہے۔ دیگر علاقوں میں ’’گال‘‘ کا لفظ ناپسندیدہ اور ناگوار بات کے لیے بولا جاتا ہے۔ گویا ’’گال‘‘ سے مرا د ’’گالی‘‘ ہے۔ ’’گال‘‘ فارسی میں پہنچ کر نیا سوانگ بھرتا ہے اور وہاں اس سے مراد مکر و فریب اور فریاد لی جاتی ہے۔ گیدڑ کو بھی ’’گال‘‘ کہتے ہیں کیونکہ وہ بڑا چالاک اور مکار ہوتا ہے۔
لال: یعنی سرخ۔ اس کے علاوہ سرخ رنگ کے قیمتی پتھر کو بھی ’’لال‘‘ کہتے ہیں، جو عربی میں پہنچ کر ’’لعل‘‘ بن گیا۔ عربوں کی عادت ہے کہ غیر عربی لفظ کو اپناتے ہوئے درمیان میں آنے والے ’’الف‘‘ کو ’’ع‘‘ میں تبدیل کر دیتے ہیں، جیسے ’’کاک‘‘ (چپاتی) سے ’’کعک‘‘۔ ’’لال‘‘ کو مجازاً شرم یا غصے کی کیفیت کی نشاندہی کے لیے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے جیسے غصے سے لال ہو جانا یا شرم کے مارے لال ہو جانا۔ کبھی غصے کی شدت کو ظاہر کرنے کے لیے ’’لال‘‘ کے ساتھ ایک اور رنگ ’’پیلے‘‘ کو جوڑ دیتے ہیں اور ’’لال پیلا ہونا‘‘ کی ترکیب سے کام چلاتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا خوش آواز پرندہ بھی ’’لال‘‘ کہلاتا ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں مائیں بھی اپنے بچے کو ’’میرا لال‘‘ کہہ کر خوش ہوتی ہیں۔ ’’لال‘‘ کے ساتھ دیگر الفاظ کو منسلک کر کے متعدد اصطلاحات وضع کر لی گئی ہیں، مثلاً ’’لال بھجکڑ‘‘ یعنی ایسا فرد جو پرلے درجے کا بے وقوف ہو۔ ’’لال بیگ‘‘ یعنی ایک مشہور پر دار کیڑا جو باورچی خانے میں رہنا بے حد پسند کرتا ہے۔!
مئے خور: یعنی شراب پینے والا۔ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اسے مجازاً اس جگہ کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جہاں شراب پی جائے۔ اسی نسبت سے ہر خراب اور مشکوک جگہ کو ’’مے خور‘‘ اور پھر ’’ماخور‘‘ کہا جانے لگا۔ عربوں نے بھی اس لفظ کو جوں کا توں لے لیا اور اس سے مراد شراب خانہ، قمار خانہ اور حرام کاری کا اڈا لینے لگے۔
شال: آپ بخوبی واقف ہوں گے بلکہ سردیوں میں اکثر اس ’’ہتھیار‘‘ سے ٹھنڈک کا مقابلہ کرتے ہوں گے۔ عموماً اسے فارسی زبان کا لفظ کہا جاتا ہے لیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ اس لفظ کی اصل تسلیمات یا ’’سالیاٹ‘‘ ہے، جو ہندوستان کا کوئی قدیم شہر تھا جس کی نسبت سے اسے ’’شال‘‘ کہا جانے لگا۔ اون کی بنی ہوئی اس چادر کو انگریزی میں بھی ’’شال‘‘ کہا جاتا ہے، تاہم اس کا تلفظ فار FOR کی طرح کیا جاتا ہے۔ ’’شال‘‘ کے انگریزی میں ہجے ہیں: SHAWL۔ اسی لفظ سے فعل ’’شال‘‘ بھی بنا یعنی شال میں لپیٹنا اور اسی سے صفت بنی ’’شال لیس‘‘ SHAWL LESS یعنی شال کے بغیر!
ٹھگ: بچوں کی قدیم کہانیوں میں ’’موصوف‘‘ کا ذکر اکثر ملتا ہے۔! غالباً اس زمانے میں ’’ولن‘‘ کا کردار یہی صاحب ادا کرتے تھے! ہندی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی بڑے واضح ہیں یعنی لٹیرا، چور، جعلساز، دغا باز دوست وغیرہ۔ اسی سے فعل بنا: ’’ٹھگنا‘‘ یعنی لوٹ لینا، فریب سے دوسرے کا مال لے لینا، مہنگے داموں بیچنا، کم داموں خرید لینا، یہ سارے ’’کمالات‘‘ آج بھی دکھائے جا رہے ہیں، بس ان کے لیے اصطلاحات بدل گئی ہیں اب ہم ایسے لوگوں کو بزبان غیر ’’چیٹر‘‘ یا ’’فراڈیے‘‘ کہہ کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ لیتے ہیں۔! کسی کو فریب دے کر لوٹ لینے کے عمل کے لیے ’’ٹھگنے‘‘ کے علاوہ کچھ اور اصطلاحات بھی استعمال کی جاتی ہیں، مثلاً ’’ٹھگ بازی‘‘ یعنی رہزنی، جعل سازی، ’’ٹھگ لانا‘‘ یا ’’ٹھگ لینا‘‘ یعنی دھوکا دے کر مال لے آنا۔
’’ٹھگوں کے پیشے کو ’’ٹھگی‘‘ کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس کے اس محکمے کو بھی ’’ٹھگی‘‘ کہا جاتا تھا جو ٹھگوں کو پکڑتا تھا۔ پولیس کی حسب حال اور ’’اسم با مسمی‘‘ کارکردگی کے پیش نظر یہ خطاب بہت موزوں دکھائی دیتا ہے۔ اب دیکھیے کہ ’’ٹھگ‘‘ انگریزی میں بھی جا پہنچا۔! وہاں اس کے معنی بدمعاش، غنڈہ، خونی، سفاک، گلا گھونٹ کر یا زہر دے کر مار ڈالنے اور لوٹ لینے والا کے لیے جاتے ہیں۔ ہجے ہیں ’’ٹی ایچ یو جی‘‘ اسی سے مزید الفاظ بنے ’’ٹھگی‘‘ THUGEE اور ’’ٹھگ اِزم‘‘ THUGISM۔
(بحوالہ: ’’لفظوں کا دلچسپ سفر‘‘۔ ڈاکٹر ایس اے ہاشمی)
Leave a Reply