لفظوں کا دلچسپ سفر
بھنگ: ہندی زبان کا لفظ ہے۔ ایک قسم کی نشہ آور پتیوں کو کہتے ہیں، انہیں گھوٹ کر نوش فرمانے سے، انسان تمام فکروں سے وقتی طور پر بے نیاز ہو جاتا ہے۔ غالباً ان پتیوں کی یہی خوبی بہت سے ایسے بے فکروں کو پسند آ گئی ہے، جنہیں فکر رہتی ہے کہ کوئی فکر نہ ہونے کے باوجود نیند کیوں نہیں آرہی۔!
’’بھنگ‘‘ چونکہ انسان کے حواس کو معطل اور اس کی صلاحیتوں کو بے معنی کر دیتی ہے۔ اس لیے اس سے مراد ’’بربادی‘‘ بھی لی گئی ہے۔ اسی سے فعل ’’بھنگ رہنا‘‘ بنایا گیا، جس سے مراد ہے بدحواس اور پریشان رہنا۔
بھنگ سے ایک اور لفظ بھی بنا ہے، ’’بھنگی‘‘ جس کی تانیث ’’بھنگن‘‘ ہے۔ یوں تو ہم کسی کے میلے کچیلے کپڑے دیکھ کر خصوصاً بچوں کو بے تکلفی سے کہہ دیتے ہیں: ’’کیا بھنگی بنے ہوئے پھر رہے ہو!‘‘ لیکن آپ بھی واقف ہیں کہ ’’بھنگی‘‘ ہمارے معاشرے کا ایک اہم کردار ہے جسے خصوصاً عقبی گلیوں اور قدیم محلوں میں بیت الخلاء وغیرہ کی صفائی کے موقع پر یاد کیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لفظ ’’بھنگی‘‘ کے ایک معنی ہیں: ’’بھنگ پینے والا۔!‘‘ اب دیکھیے کہ عربی دانوں کا تعارف جب ’’بھنگ‘‘ سے ہوا تو ظاہر ہے وہ اسے ’’بھنگ‘‘ نہیں کہہ سکتے تھے، انہوں نے ’’بھنگ‘‘ کے ’’گ‘‘ کی جگہ ’’ج‘‘ کو دی اور ’بھ‘کی جگہ ’’ب‘‘ کو مناسب جانتے ہوئے اسے ’’بنج‘‘ کہنا شروع کر دیا لیکن اسے ’’بنج‘‘ نہ سمجھیے گا، عربی داں اسے ’’بنج‘‘ کہنا پسند کرتے ہیں معنی ہیں: ایک نشہ آور اور سکون بخش جڑی بوٹی۔
گورگان: خوارزم کا ایک شہر ہے۔ عربی دانوں نے اسے اپنی سہولت کے لیے ’’جرجان‘‘ بنا لیا۔
خُم: فارسی زبان کا یہ لفظ اردو زبان کے قدیم شاعروں میں بڑا مقبول رہا ہے۔ ’’خُم‘‘ کا مطلب ہے: شراب کا مٹکا۔ نے ’’خُمِ دل، ذکر کر، ’’شراب حسرت آرزو‘‘ کے مٹکے کی تشبیہہ کیا خوب استعمال کی ہے:
نظرِ تغافلِ یار کا گلہ کس زباں سے کروں ادا
کہ شرابِ حسرت آرزو، خُمِ دل میں تھی سو بھری رہی
شراب کے چھوٹے مٹکے کو فارسی میں ’’خم چہ‘‘ کہتے ہیں، جیسے چھوٹے صندوق کو ’’صندوقچہ‘‘ اور چھوٹی کتاب کو ’’کتابچہ‘‘ کہا جاتا ہے، اب دیکھیے کہ یہ ’’خُم چہ‘‘ جب عربی میں پہنچا تو وہاں اسے ’’خنجبہ‘‘ کہا جانے لگا، مراد ہے سبو، شراب کا مٹکا۔
دیزہ: یعنی ’’سیاہ رنگ۔‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ ’’دیز‘‘ رنگ کو کہتے ہیں۔ ’’شب دیز‘‘ کا مطلب ہے، رات کی تاریکی کی طرح سیاہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاہ رنگ کے گھوڑے یا مشکی گھوڑے کو بھی ’’شب دیز‘‘ کہتے ہیں۔ ’’مشک‘‘ دراصل اس خوشبو دار سیاہ رنگ کے مادے کو کہتے ہیں، جو ایک خاص قسم کے ہرن کی ناف سے نکلتا ہے۔ چونکہ یہ سیاہ رنگ کا ہوتا ہے اس لیے کالی چیزوں کو بھی ’’مشکی‘‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جس کا رنگ ’’مشک‘‘ کی طرح ہو اُسے ’’مشک کام‘‘ بھی کہہ دیتے ہیں۔ اب دیکھیے کہ ’’دیزہ‘‘ عربی میں پہنچ کر دیزہ نہیں رہا بلکہ ’’دیزج‘‘ بن گیا۔!
راہ نما: لفظی ترجمہ ہوا راستہ بتانے والی کتاب، یہ دراصل سمندری سفر میں رہنمائی کا نقشہ ہے جس کی مدد سے سمندر میں سفر کرنے والے سمت اور منزل کا تعین کرتے ہیں۔ فارسی زبان کا یہ لفظ عربی میں پہنچا تو ’’راہنامج‘‘ بن گیا۔
میئر: یعنی گھوڑی! اردو والے تو مذکر سے مؤنث بنانے کے لیے اکثر ’’ی‘‘ یا ’’ن‘‘ لگا کر کام چلاتے ہیں مثلاً بکرا سے بکری، مرغا سے مرغی اور گھوڑا سے گھوڑی یا دھوبی سے دھوبن وغیرہ، لیکن انگریزی والوں نے مذکر اور مؤنث کے لیے الگ الگ الفاظ مخصوص کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اب گھوڑے اور گھوڑی ہی کو لیجے۔ انگریزی میں ان کے لیے ’’ہارس‘‘ اور ’’میئر‘‘ MARE کے الفاظ موجود ہیں۔ اس میئر کی اصل، یونانی زبان کا لفظ مرہا MEARH یا ’’میرہ‘‘ بتائی گئی ہے لیکن اس کا موازنہ اگر عربی زبان کے لفظ ’’مُہر‘‘ سے کیا جائے تو یہ بات زیادہ قرین قیاس محسوس ہوتی ہے کہ انگریزی کا میئر دراصل عربی کے لفظ ’’مُہر‘‘ کی ہی بدلی ہوئی شکل ہے۔ عربی میں ’’مُہر‘‘ گھوڑی ہی کو کہتے ہیں۔
گِریَن: انگریزی زبان میں اناج کے سخت اور چھوٹے دانے کے لیے گِریَن GRAIN کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد مکئی کا دانہ بھی لیا جاتا ہے۔ بہت چھوٹی مقدار کو ظاہر کرنے کے لیے بھی ’’گرین‘‘ کہتے ہیں۔ یہ برطانوی پیمانے میں سب سے چھوٹا وزن بھی ہے۔ کھال وغیرہ پر سے بال صاف کرنے کے عمل کو بھی گرین کرنا کہتے ہیں اب ملاحظہ کیجیے کہ عربی زبان میں ’’جرن‘‘ کا مطلب ہے، کھال وغیرہ پر سے بالوں کو صاف کرنا، کسی بھی شے سے رگڑ کر، تاکہ یہ نرم ہو جائے اور ’’جرین‘‘ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پر غلہ، اناج مثلاً گندم وغیرہ کو اس لیے رکھا جاتا ہے کہ اس کے دانوں کو خوشوں سے الگ کیا جا سکے۔ اب ’’جرن‘‘ اور ’’جرین‘‘ کا سفر کرتے ہوئے انگریزی کا ’’گرین‘‘ بن جانا بالکل واضح ہو جاتا ہے۔
فرنگی: یہ لفظ سنتے ہی کسی قدیم پاکستانی فلم کا خیال آتا ہے! فارسی زبان کا یہ لفظ مغربی اقوام یا یورپ سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ فرنگیوں کی قوم کو ’’قوم فرنگ‘‘ یا ’’قوم افرنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی لفظ جب عربی میں پہنچا تو وہاں ’’افرنجہ‘‘ اور ’’افرنجہ‘‘ بن گیا۔ ’’فرنگی‘‘، ’’افرنجی‘‘ ہو گیا اور ’’فرنگی پن‘‘ نے ’’افرنجیت‘‘ کا روپ دھار لیا۔
موزہ: پیروں کے لیے بڑا موزوں پہناوا ہے! فارسی زبان میں چمڑے کے چست جوتے کو بھی موزہ کہتے ہیں اور عام جراب کو بھی۔ عربوں نے اسے ’’موزج‘‘ بنا لیا۔ اس کی جمع وہ ’’موازج‘‘ اور ’’موازِجہ‘‘ بناتے ہیں۔ ’’موزہ‘‘ کا ایک اور مطلب ہے کیلے کی پھلی۔ اسی لیے جنوبی ہند کے لوگ کیلے کو موز کہتے ہیں۔
معرکہ: یعنی میدانِ جنگ، جنگ، ہنگامہ، دھوم دھام، عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس سے ’’معرکہ آراء‘‘ کی ترکیب وجود میں آئی یعنی جنگ جو، زبردست اور اسی سے مرکب لفظ بنا ’’معرکہ آرائی‘‘۔ اردو میں یہ لفظ جنگ سے زیادہ اپنے مجازی معنوں یعنی زبردست، دھوم دھام والا کے مفہوم میں استعمال ہونے لگا۔ مثلاً کل مشاعرے میں بڑی معرکے کی غزل پڑھی، یا پرسوں دفتر میں صاحب سے بڑا معرکہ رہا۔!’’معرکہ‘‘ کی اصل ’’عرک‘‘ ہے۔ چکی پیسنے کے عمل کو عربی زبان میں ’’عرک‘‘ کہتے ہیں۔ جب کسی شخص کے ہاتھوں کسی دوسرے کی حالت ایسی ہو جائے جیسے وہ چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا ہو تو اندازہ کیجیے کہ وہ شخص کیسے عذاب میں ہو گا۔ عذاب دینے کے اس عمل کو عربی میں ’’عرک‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہی لفظ انگریزی میں پہنچ کر ’’ارک‘‘ IRK بن گیا۔ معنی ہیں: اذیت دینا، متنفر کرنا، ستانا۔
(بحوالہ: کتاب ’’لفظوں کا دلچسپ سفر‘‘۔ ڈاکٹر ایس اے ہاشمی)