
طنجیر: یعنی دیگچہ! یوں تو عربی زبان کا لفظ ہے لیکن اس کی اصل فارسی کا لفظ ’’تبگیر‘‘ ہے، یعنی ’’گرمی کو قبول کرنے والا دیگجہ!‘‘ کثرت استعمال سے یہ لفظ ’’تنجیر‘‘ ہو گیا اور عربی میں پہنچ کر ’’طنجیر‘‘ بن گیا۔
قور: عربی زبان میں ’’روئی کے تاگے سے بٹی ہوئی مضبوط اور عمدہ رسّی‘‘ کو ’’قور‘‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ جب انگریزی میں پہنچا تو اسے کائر (COIR) بنا لیا گیا اور معنی میں بھی کچھ فرق آگیا۔ ناریل کی چھال کا مضبوط ریشہ جس سے رسیاں بنتی ہیں۔
یغما: اسے ’’یغمان‘‘ بھی کہتے ہیں۔ فارسی زبان کا لفظ ہے، معنی ہیں لوٹ مار کرنا، فراخ دلی کے ساتھ کسی کی چیز کو استعمال کر لینا۔ اسی سے ترکیب بنی ’’خوانِ یغما‘‘ اس سے مراد ایسا دستر خوان ہے جس پر ہر قسم کے لوگ بلا تکلف کھانا کھا لیں۔ سخی اور دریا دل آدمی کا دستر خوان، یا لنگر، جس سے خاص و عام سب ہی مستفید ہوں۔ ’’یغما‘‘ کواختصار کے ساتھ ’’یغ‘‘ کہتے ہیں اسی اعتبار سے اس کے معنوں میں چھوٹا پن پیدا ہو جاتا ہے، یعنی چور اُچَکّا! کسی کی چیز پر دلیرانہ ہاتھ صاف کرنے والا۔ اب دیکھیے کہ ’’یغ‘‘ جب فارسی زبان سے سفر کرتا ہوا انگریزی میں پہنچا تو اسے ’’یگ‘‘ YEGG بنا لیا گیا، معنی وہی ہیں: چور، نقب لگانے والا، خصوصاً سیف توڑنے والا۔ اسے ’’یگ مین‘‘ YEGG MAN بھی کہتے ہیں۔
بابا: بڑا کثیر الاستعمال لفظ ہے، جو موقع محل کی مناسبت سے اپنے معنی بدل لیتا ہے۔! ایک جانب تو یہ لفظ والد، دادا اور بزرگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ بہت سے گھروں میں بچے اپنے والد کے لیے لفظ ’’بابا‘‘ کا استعمال کرتے ہیں۔ پھر کسی بھی بوڑھے آدمی کو بھی بابا کہہ دیا جاتا ہے۔ اس طرح ’’بابا‘‘ دانا اور عقل مند آدمی کے لیے بھی بولا جانے لگا۔ دوسری طرف فقیر اور مانگنے والے مخاطب کرنے کے لیے اسی لفظ کا سہارا لیتے ہیں اور ان کے مطالبے پر ’’یہ لو بابا‘‘ یا ’’معاف کرو بابا‘‘ کہہ کر مثبت یا منفی ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے! پھر محبت کے اظہار کے طور پر بچوں کو بھی ’’بابا‘‘ کہہ کر بلایا جانے لگا۔ اس سے متاثر ہو کر بچوں کے ملبوسات فروخت کرنے والوں نے اپنے اعلانات اور اشتہارات میں ’’باباسوٹس‘‘ کا تذکرہ کرنا شروع کر دیا۔ ایک جانب یہ بھی ہوا کہ طنز کے طور پر ایسے شخص کو بھی ’’بابا‘‘ کہا جانے لگا جو دانا بننے کا دعویٰ کرے مگر بن نہ سکے۔ چنانچہ کسی سے بیزاری کے اظہار کے طور پر بھی اس کی عمر اور جنس کا لحاظ کیے بغیر کہہ دیا جاتا ہے: ’’ارے بابا‘‘ تم میرا پیچھا کب چھوڑو گے/ چھوڑو گی! بابا اور پاپا دونوں کا مفہوم سردار اورعالم کا بھی ہے۔ اسی لیے پادری اور والد کو ’’پاپا‘‘ یا ’’پپا‘‘ کہتے ہیں۔ پاپائے روم کی اصطلاح خاصی مشہور ہے۔ اسی طرح قوم کے رہنما کو بھی ’’بابا‘‘ کہہ دیا جاتا ہے مثلاً بابائے قوم قائداعظم، بابائے اردو مولوی عبدالحق وغیرہ۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانسیسی اور پولش زبانوں میں ’’بابا‘‘ بوڑھی عورت کو کہا جاتا ہے۔
’’بابا‘‘ یوں تو فارسی زبان کا لفظ ہے لیکن ذرا سے فرق سے ’’بابو‘‘ بن گیا۔ فارسی میں اسے ادب اور احترام کے اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ہمارے ہاں بھی ادب، احترام کے طور پر بڑوں یا افسروں کو اور پیار کے طور پر بچوں کو ’’بابو‘‘ کہہ دیا جاتا ہے تاہم اس کے ایک قدرے منفی معنی بھی ہیں یعنی ’’کلرک‘‘۔ اس سے ’’بابوگیری‘‘ کی طنزیہ اصطلاح وجود میں آئی۔ سادہ لوح فرد کے لیے بھی لفظ بابو استعمال کیا جاتا ہے۔
’’بابو‘‘ ہندی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور خیال ہے کہ یہی لفظ ہندی میں ’’باپو‘‘ بن گیا یعنی ’’باپ‘‘۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لفظ ’’باپ‘‘ سے بنا ہو۔
چوبک: فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی ہیں ایسی چھڑی جس سے جانوروں کو ہانکا جائے۔ بعض اوقات اس لفظ کو پتلی لاٹھی اور اس کھونٹی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جسے بھڑ بھونجا، چنے بھونتے ہوئے استعمال کرتا ہے۔ یہ بالعموم لکڑی کی ہوتی ہے بعد میں یہ لوہے وغیرہ سے بنائی جانے لگی۔ اس سے مراد وہ سلاخ بھی ہے جسے تنور میں روٹی پکانے والا تنور سے روٹی نکالنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ویسے غالباً یہ چھڑی ابتداء میں لکڑی ہی کی ہوتی ہو گی کیونکہ فارسی میں ’’چوب‘‘ لکڑی کو کہتے ہیں۔ اب ملاحظہ کیجیے کہ ’’چوبک‘‘ جب عربی زبان میں پہنچا تو عربی میں چونکہ ’’چ‘‘ کا داخلہ ممنوع ہے اس لیے چ کی جگہ ’’ش‘‘ نے لے لی اور عربی لہجے اور تلفظ کے فرق کی وجہ سے چوبک کا ’’ک‘‘، ’’ق‘‘ میں بدل گیا یعنی عربی میں اس لفظ نے ’’شوبق‘‘ کی شکل اختیار کرلی۔ معنی ہیں: روٹی پکانے والے کی لکڑی۔
نیب: آپ کا دھیان فوراً ’’نیشنل اکائونٹیبلٹی بیورو‘‘ (نیب) کی طرف جائے گا جسے پاکستان میں بڑے غبن، خرد برد کرنے یا بھاری بھرکم قرضے لے کر ہضم کر جانے والوں کو پکڑنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ’’نیب‘‘ نے اپنی ذمہ داریاں کس حد تک پوری کیں اور وہ قومی دولت کو ذاتی دولت بنانے والوں کو پکڑنے میں کہاں تک کامیاب ہوئی، یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن یہاں ہم انگریزی زبان کے لفظ ’’نیب‘‘ NAB کی بات کر رہے ہیں، جس کے معنی ہیں: پکڑنا، گرفتار کرنا، مضبوطی سے پکڑ لینا۔ (اس لحاظ سے ’’نیشنل اکائونٹیبلٹی بیورو‘‘ کا مخفف این اے بی یعنی ’’نیب‘‘ بڑا حسب حال ہے) انگریزی میں نیب (این اے بی) کی اصل ’’نیپ‘‘ NAP بتائی جاتی ہے۔ ’’نیپ‘‘ کے معنی بھی وہی ہیں پکڑنا، گرفتار کر لینا۔ غالباً ’’کڈنیپ‘‘ کی اصطلاح اسی ’’نیپ‘‘ سے وجود میں آئی۔ کڈ KID کے منی ہیں، بچہ اور کڈ نیپ کے معنی ہے بچے کا اغوا! بعد میں یہ لفظ ہر کسی کے اغوا کے لیے استعمال ہونے لگا۔ اب یہ ملاحظہ فرمایئے کہ انگریزی کا لفظ نیپ NAP پنجابی زبان کے لفظ ’’نپ‘‘ کے کتنا قریب ہے۔ پنجاب میں ’’نپ‘‘ کا مطلب ہے گرفتار کرلینا، پکڑ لینا، مضبوطی سے تھام لینا۔!!
شیر وشکر: ’’شیر‘‘ سے تو آپ بخوبیواقف ہوں گے یعنی دودھ اور شکر بھی آپ کے لیے ہر گز اجنبی نہ ہو گی، یعنی چینی، اس لحاظ سے ’’شیر و شکر ہونا‘‘ کے لفظی معنی بنے: دودھ اور چینی کا باہمی میل جول! لیکن یہ اصطلاح محاورے کے طور پر گہری محبت اور اس حد تک محبت کے لیے استعمال کی جانے لگی کہ جس پر ایک جان دو قالب کا گمان ہو۔ بعد میں یہی اصطلاح ایک قسم کے کپڑے کے لیے بھی موزوں سمجھی جانے لگی جو لینن اور کپاس کے ریشوں کی مدد سے بڑی باریکی سے تیار کیا جاتا ہے یعنی اس کپڑے میں مختلف قسم کے ریشے باہم اس طرح گتھ جاتے ہیں جیسے وہ شیر و شکر ہو گئے ہوں۔ اسی مناسبت سے اس کپڑے کو ’’شیر و شکر‘‘ کہنے لگے۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ انگریزوں نے اس لفظ کو جوں کا توں قبول کر لیا البتہ وہ اس کا تلفظ ’’سیر و سکر‘‘ ہی کر سکے۔ چنانچہ انگریزی کی لغات میں EERSUCKER کا تلفظ ’’سیر و سکر‘‘ ہی درج کیا گیا ہے اور معنی دیئے گئے ہیں: ایک بارک ہندوستانی کپڑا (لینن یا کاٹن) جس پر دھاریاں یا خانے بنے ہوتے ہیں۔
(بحوالہ: ’’لفظوں کا دلچسپ سفر‘‘۔ ڈاکٹر ایس اے ہاشمی)
Leave a Reply