
ٹھاکر، ٹھاکور: ہندی زبان میں یہ لفظ متعدد معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ دیوتا، پر ماتما، مالک، سردار، زمیندار، راجپوت، عزت و احترام کا لفظ۔ یہ لفظ اسی طرح ہندی میں استعمال ہوتا ہے، جیسے ہم اردو میں کسی کے لیے لفظ ’’جناب‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ اس لفظ کو محمد بن قاسم کے زمانے میں عربی زبان میں شامل کیا گیا اور عربی میں اسے تکر (ت ک ک ر) اور تکری (ت ک ک ر ی) لکھا جانے لگا۔ کبھی ’’ت‘‘ پر زبر بھی لگا دیا گیا۔ اس لفظ کی جمع بھی عربی قاعدے کے مطابق بنا لی گئی یعنی تکاکرہ، جس طرح بازار کی جمع بزادِرَہ اور بغدادی کی جمع ’’بغادِرَہ‘‘ بنائی گئی ہے۔
دمہ گر: یعنی مرض ’’دمہ‘‘ کا شکار ہو جانے والا یا سانس پر گرفت کرنے والا، کیونکہ دمہ کے مریض کو سانس میں دشواری پیش آتی ہے گویا کہ اس نے سانس کو پکڑ کر روک لیا ہے۔ اہل عرب نے اس لفظ کو دمھکر (د م ہ ک ر) بنا لیا اسے اسم صفت کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے اسم مصدر بنا لیا، یعنی: سانس کی تنگی۔
شب کوری: فارسی زبان کا مرکب لفظ ہے۔ مراد ہے رات کو نظر نہ آنا۔ یہ آنکھوں کا ایک مرض ہے۔ اس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد دن کی روشنی میں تو دیکھ سکتے ہیں لیکن رات کو انہیں نظر نہیں آتا۔ اس مرض کو شب کوری اور مریض کو ’’شب کور‘‘ کہا جاتا ہے ’’شب کوری‘‘ عربی میں پہنچی تو اسے مصدر کے طور پر اپنا لیا گیا اور زلزلہ، ولولہ کے وزن پر ’’شبکرہ‘‘ بنا لیا گیا، یعنی رات کا اندھا پن۔
سبد: مراد ہے: ’’ٹوکری‘‘ فارسی زبان میں ’’گل سرسبد‘‘ کا مطلب وہ پھول ہے جسے اس کی خوبصورتی کی بناء پر پھولوں کی بھری ٹوکری کے اوپر رکھ دیتے ہیں تاکہ مزید خوشنما معلوم ہو۔ اس لفظ نے عربوں کے ہاں قدم رکھا تو وہاں اسے نیا لباس دے دیا گیا اور ’’سبد‘‘ کی بجائے ’’سبذ‘‘ کہلانے لگا پھر اسے ’’سبذہ‘‘ بنا دیا گیا۔ یہ لفظ غیر عربی اس لیے بھی ہے کہ اصل عربی الفاظ میں ’’س‘‘ اور ’’ذ‘‘ اکٹھے نہیں آتے، بالکل اسی طرح جیسے وہ الفاظ عربی نہیں ہو سکتے جن میں جیم اور قاف اکٹھے ہوں۔
تبرزد: مصری کی ڈلی کو فارسی میں ’’تبرزد‘‘ کہتے ہیں۔ ’’تبر‘‘ کا مطلب ہے ’کلہاڑی‘ اور ’’زد‘‘ کا مطلب ہے ’چوٹ‘۔ گویا مصری کی ڈلیاں اپنی تراش خراش میں ایسی ہوتی ہیں جیسے انہیں کلہاڑی سے خوب تراش کر بنایا گیا ہو۔ ’’تبرزد‘‘ عربوں کے ہاں پہنچی تو ’’طبرزد‘‘ ہو گئی اصمعی کے مطابق اسے ’طبرزن‘ اور ’طبرزل‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ببر: فارسی میں شیر کو کہتے ہیں۔ ہم لوگ اردو میں صرف ’’ببر‘‘ کہہ کر مطمئن نہیں ہوتے اور دھاری والے شیر (ٹائیگر) کو صرف شیر اور ایال دار شیر کو ’’شیرببر‘‘ یا ’’ببر شیر‘‘ کہہ کر ہی طمانیت محسوس کرتے ہیں۔! دلچسپ بات یہ ہے کہ فارسی زبان کے ’’ببر‘‘ (بروزن ’’ابر‘‘) کو عربی میں جوں کا توں لے لیا گیا اور اس کی جمع ’’ببور‘‘ بنا لی گئی۔
بصرہ: مشہور شہر ہے، جہاں کی کھجور کو اسی نام سے منسوب کر کے ’’بصرہ کھجور‘‘ کہا جاتا ہے۔ بعض ماہرین کے خیال میں ’’بصرہ‘‘ کا لفظ فارسی ترکیب ’’بس رہ‘‘ سے تبدیل کر کے بنایا گیا ہے۔ ’’بس‘‘ کا مطلب ہے ’’کافی، بہت‘‘ اور ’’رہ‘‘ راہ کا مخفف ہے۔ یعنی بہت سے راستے چونکہ بصرہ کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہاں کئی راستے آکر ملتے ہیں اس لیے اسے ’’بس رہ‘‘ کہا گیا جو بعد میں ’’بصرہ‘‘ بن گیا۔
شوم اختر: ’’شوم‘‘ فارسی زبان میں بخیل اور کنجوس کو کہتے ہیں اور ’’اختر‘‘ سے مراد ستارہ ہے۔ چونکہ بخیل، سماجی فلاح کے کاموں پر پیسہ خرچ نہیں کرتا اور ثواب نہیں کماتا اس لیے اسے منحوس قرار دیا جاتا ہے۔ شوم کے ساتھ ’’اختر‘‘ لگا دینے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ شخص پیدائشی طور پر بدبخت اور ازلی منحوس ہے۔ یہ مرکب لفظ ’’شوم اختر‘‘ جب عربی میں پہنچا تو عربوں نے اسے اپنے قاعدے کے مطابق ’’شمختر‘‘ بنا لیا (ش م خ ت ر) شمختر سے مراد ہے، کنجوس، کمینہ اور بدبخت، بداختر!۔
مہار: اونٹ کی نکیل یا ناک کی رسّی کے لیے بولا جاتا ہے۔ اردو میں یہ لفظ ’’غبار‘‘ کے وزن پر بولا جاتا ہے، جبکہ عربی اور فارسی میں ’’کتاب‘‘ کے وزن پر یعنی مہار کی میم کے نیچے زیر لگاتے ہیں۔ خیال ہے کہ ’’مہار‘‘ (میم کے نیچے زیر کے ساتھ) ہی درست ہے، اس لیے کہ اگر عربی میں اس کا مادّہ ’’ہور‘‘ (قول کے وزن پر) مانا جائے تو ’’مقال‘‘ کے وزن پر مہار کا مطلب ہے وہ آلہ یا چیز جس سے کسی کو کسی کام سے روکا جائے یا آمادہ کیا جائے۔ اس لحاظ سے ’’مہار‘‘ کا مطلب وہ شے ہے جو اونٹ کی رفتار تیز کرنے یا روکنے میں کام آتی ہے۔
ونہّ: ایک قسم کے ساز ’’عود‘‘ کے تاروں کو فارسی میں ’’ونہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’ونہ‘‘ سفر کرتا ہوا عربی میں پہنچا تو ’’ونج‘‘ ہو گیا۔
خجستہ: اگر آپ کو اپنی گفتگو میں فارسی زبان کے الفاظ استعمال کرنے سے دلچسپی ہے اور آپ کسی صاحب سے کہنا چاہتے ہیں: آپ بڑے نیک اور خوش قسمت ہیں تو آپ ان صاحب سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں ’’آپ بڑے خجستہ ہیں!‘‘ اب یہ اور بات کہ اگر ان صاحب کو فارسی سے کوئی دلچسپی نہ ہو تو وہ آپ سے باقاعدہ خفا بھی ہو سکتے ہیں کہ شاید آپ نے ان کی شان میں کوئی گستاخی کر دی ہے اور کسی مشکل قسم کی گالی انہیں دے ڈالی ہے حالانکہ ’’خجستہ‘‘ فارسی زبان کا نہایت معتدل لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں مبارک، نیک، خوش قسمت۔
مایۂ ناز شاعر سید ضمیر جعفری اپنی مشہور مزاحیہ نظم ’’بس کا سفر‘‘ میں فرماتے ہیں۔
نشستوں پر جتنے نشستہ ہوئے ہیں
وہیں جستہ جستہ، خجستہ ہوئے ہیں
اُٹھے ہیں تو زنجیر بستہ ہوئے ہیں
گرے ہیں تو یکسر شکستہ ہوئے ہیں
نفس پر نفس تیز تر ہو رہا ہے
ٹھمک چال بس میں سفر ہو رہا ہے
خیر یہ تو ظرافت کی بات تھی، حقیقت یہ ہے کہ لفظ خجستہ، سرزمین فارسی کے لوگوں کے لیے ہمیشہ محترم رہا ہے۔ درصال اصفہان کی ایسی بہت سی خواتین کا نام ’’خجستہ‘‘ تھا جو حدیث کی راوی تھیں۔ اس وجہ سے یہ لفظ عربی زبان میں بھی استعمال ہونے لگا اور اس سے مراد ’’مبارک خاتون‘‘ لی جانے لگی۔
بردہ: فارسی زبان میں غلام یا قیدی کو کہتے ہیں۔ غلاموں کا دور گزر جانے کے باوجود وہ ’’بردہ فروشی‘‘ کا کاروبار اب بھی جاری ہے۔ اس لحاظ سے ’’بردہ فروش‘‘ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ انہوں نے جان پر کھیل کر اس لفظ یعنی ’’بَردہ‘‘ کو اردو اور فارسی زبانوں میں زندہ رکھا ہوا ہے۔! لفظ ’’بُردہ‘‘ جب عربی میں پہنچا تو ’’بروج‘‘ ہو گیا۔ وہاں بھی یہی معنی ہیں۔
(بحوالہ: ’’لفظوں کا دلچسپ سفر‘‘۔ ڈاکٹر ایس اے ہاشمی)
Leave a Reply