
جاپان کے تاریخی شہر کیوتو (Kyoto) میں دنیا کے مختلف مذاہب اور اقوام سے تعلق رکھنے والے دو ہزار رہنما مسلسل چار روز تک ایک دوسرے کا نقطۂ نظر سننے کے باوجود یہ فیصلہ نہیں کرسکے کہ اس وقت مذہبی تفریق کی بنیاد پر تشدد اور قتل وغارت گری کی جو لہر چل رہی ہے اس کو امن و سلامتی کے ماحول میں کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے اور مختلف مذاہب اس ضمن میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ مذہبی رہنماؤں کی اس کانفرنس میں جس کا انتظام یہودیوں کی ایک تنظیم ’’مذاہب برائے امن‘‘ نے کیا تھا۔ پوری دنیا میں سلامتی کے غیر یقینی ماحول پر گہری تشویش ظاہر کی گئی اور یہ عزم دہرایا گیا کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرنا ہوگا۔ ’’مذاہب برائے امن‘‘ کا صدر دفتر نیویارک میں ہے۔ یہ ہر پانچ سال بعد اس قسم کے اجتماع کا اہتمام کرتی ہے اورا س کے لیے مختلف ملکوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ کیوتو کانفرنس کے شرکاء پانچ سو مختلف مذہبی تنظیموں اور ایک سو کے قریب ملکوں کی نمائندگی کررہے تھے۔ان مندوبین کا تعلق اسلام‘ صہیونیت‘ عیسائیت‘ بدھ مت‘ جاپان کے قدیم مذہب شنٹو اور دوسرے محدود عقائد سے تھا۔
یہ اس تنظیم کی آٹھویں ورلڈ اسمبلی تھی اور اس کا موضوع تھا:’’تشدد کی مخالفت اور اجتماعی سلامتی کا فروغ‘‘ جاپان نے کانفرنس میں شرکت کے لیے شمالی کوریا کے وفد کو ویزا دینے سے انکار کردیا تھا چنانچہ اس ملک کی نمائندگی نہیں ہوسکی۔
کانفرنس سے جاپان کے وزیراعظم جونی چیروکوئزومی‘ بدھ مت کے سب سے بااثر تندائی فرقے کے سپریم لیڈر ایشن وتنابے‘ ایران کے سابق صدر محمد خاتمی‘ اردن کے شہزادہ حسن بن طلال‘ تنظیم کے سیکریٹری جنرل ولیم ونیڈلے اور بوسنیا کے مفتی اعظم مصطفی یرک نے بھی خطاب کیا۔ محمد خاتمی اس اجتماع کے واحد مقرر تھے جنہوں نے مدلل انداز میں دنیا کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم تشدد کو روکنے کے جتنے بھی طریقے اختیار کر رہے ہیں وہ سب مصنوعی ہیں‘ حقیقی اسباب پر ہر کوئی پردہ ڈال رہا ہے اس لیے ہم کوئی کامیابی حاصل کرنے سے دور ہیں کانفرنس میں بار بار تشدد کی پرزور مذمت کی جاتی رہی اور یہ حوالہ بھی دیا جاتا رہا کہ اس تشدد کی وجہ سے مختلف عقائد کے ماننے والوں کے درمیان چپقلش ہے۔ یہ محاذ آرائی بدھ مت اور عیسائیوں کے پیروکاروں کے درمیان نہیں ہے ۔ عیسائیوں اوریہودیوں کے درمیان بھی نہیں ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اصل اسباب کیا ہیں مگر اس کے باوجود کوئی کھل کر کہنے کو تیار نہیں تھا کہ مذہب سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ ظلم سے فرق پڑتا ہے۔ یہ ظلم جس مذہب کے ماننے و الوں پر بھی ہوگا ‘ اس کے خلاف مزاحمت ہوگی اور تشددخود بخود جنم لے گا۔
وزیراعظم کوئزومی نے بڑے تحمل کے ساتھ دنیا میں قیام امن کی اپیل کی۔ سب کو یہ مشورہ دیا کہ وہ مل کر سلامتی کا خیال رکھیں‘ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کریں۔ کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کیا جائے جس سے دوسروں کی دل آزاری ہو اور عقائد کی خاطر ایک دوسرے کا خون نہ بہایا جائے۔ انہوں نے عراق کی صورتحال کا حوالہ دیا اور افسوس ظاہر کیاکہ وہاں بے مقصد قتل وغارت گری ہورہی ہے۔ انہوں نے اپنی پوری تقریر میں ایک بار بھی لبنان کا براہِ راست حوالہ نہ دیا اور نہ وہ یہ کہنے کی جرأت کرسکے کہ اسرائیل نے لبنان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا تھا ‘جو قرارداد منظور کی گئی اس میں بھی اسرائیل کی مذمت کرنے سے گریز کیا گیا ۔ اس کے باوجود وزیراعظم کا اصرار تھا کہ مذہبی بنیاد پر دشمنی نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ کا بار بار ذکر کیا اور کہا کہ جاپان فلسطین کے مسئلے کا منصفانہ حل چاہتا ہے مگر اس حل کے لیے جن بنیادی عوامل کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ان کا کوئی ذکر نہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جاپان مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے لیے مختلف عرب ملکوں کی قیادت سے بات چیت کرتا رہا ہے مگر مجبوری یہ ہے کہ اس ضمن میں جاپان کا سیاسی اثر و رسوخ محدود ہے اس لیے وہ کوئی زیادہ فعال کردار ادا کرنے کے قابل نہیں۔
مذہبی رواداری کا درس ایک ایسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے دیا جارہا تھا‘ جو خود اس لفظ کے مفہوم سے ناواقف ہے۔ یہ وہی تنظیم ہے جس نے سرد جنگ کے زمانے میں مذہبی شدت پسندی کو پیدا کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے۔ وہ کمیونزم کے خلاف مذہب کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی رہی تاکہ کمیونزم کو شکست دی جاسکے۔ آج یہی تنظیم اسلام کو کمیونزم سے بھی بڑا خطرہ بنا کر دنیا کو ڈرا رہی ہے اور رواداری کاسبق صرف مسلانوں کو پڑھایا جارہا ہے۔ وزیراعظم کوئزومی بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔ ان کے مذہب کا اسلام سے کوئی تنازع نہیں ہے۔جاپان میں مسلمانوں کی تعداد اگرچہ بہت کم ہے مگر وہ طویل عرصہ سے یہاں آباد ہیں۔ مختلف شہروں میں مساجد بھی قائم ہیں‘ تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے مگراس کے باوجود کسی ایک جگہ بھی دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا‘ انہیں خود اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا کے بعض حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ تنازعات پیدا ہورہے ہیں۔
اس وقت دنیا کا سب سے بڑا ہاٹ اسپاٹ مشرق وسطیٰ ہے‘ اس کا ایک فریق اسرائیل اور دوسرا پوری اسلامی امّہ ہے۔ کوئز ومی چاہتے ہیں کہ پورا عالم اسلام اسرائیل کی بات مان لے کیونکہ اسرائیل کی پشت پر امریکا ہے اور جو امریکا کہے گا وہی انصاف ہے۔ اس لیے انہوں نے مذاہب برائے امن کانفرنس کے مندوبین کو یہ مشورہ دیا کہ مذہبی انتہا پسندی کے بجائے رواداری سے کام لینا چاہیے اور یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ کوئی مذہب دوسرے مذہب کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ بقول ان کے ہر مذہب امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے۔
ایران کے سابق صدر محمد خاتمی کی تقریر پورے عالم اسلام کی آواز تھی۔ انہوں نے عالمانہ انداز میں دلائل کے ساتھ یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ تشدد کا اصل سبب سمجھا جائے انہوں نے انصاف اور ظلم کے فلسفے پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ آج انسانی شعور ترقی کی اس منزل پر ہے جہاں دھونس اور دھمکی سے اسے دبایا نہیں جاسکتا ۔ اگر کوئی طاقتور یہ چاہتا ہے کہ صرف اسے ہی اس زمین پر زندہ رہنے کا حق ہے اور صرف اسی کا حکم چلے گا تو یہ اس خداکے اصولوں کی نفی ہے‘ جس پر مسلمان‘ عیسائی اوریہودی ایمان رکھتے ہیں۔ اگر ہم عدل سے کام نہیں لیں گے اور اس میزان کونہیں سمجھیں گے جو انسان کو پید اکرتے وقت خدا نے قائم کیا تو پھر خدائی قانون خود حرکت میں آئے گا‘ اس لیے کہ یہ کائنات خدا کی امانت ہے اور توازن کے بغیر یہ قائم نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم تشدد کی جس لہر کو دیکھ رہے ہیں اس کے پیدا ہونے میں بہت سے محرکات کا عمل دخل ہے۔ بدنیت لوگ میڈیا کی یلغار سے عوام کو گمراہ کیے ہوئے ہیں وہ اصل حقائق سے توجہ ہٹارہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حقیقت چھپی رہے اس لیے آج تک تشدد کو روکنے کے لیے کوئی طریقہ موثر ثابت نہیں ہوسکا۔ مذہبی تشدد سے بذاتِ خود کوئی وجود نہیں رکھتا۔ مذہب کا تشدد سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ کسی کا مذہب کچھ بھی ہوا گر اس پر ظلم ہوگا تو ردعمل کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں کتنے عیسائی بھی شامل تھے اور آج تک ہیں مگر کسی کو عیسائی دہشت گرد نہیں کہا جاتا یہ اصطلاح صرف مسلمانوں کے لیے ہی کیوں استعمال کی جاتی ہے۔ اگر مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرنی ہے تو پر تمام مذاہب کا یکساں احترام کرنا ہوگا اور اگرتشدد ختم کرنا ہے تو پھر ظلم کی ہر شکل کو ختم کرنا ہوگا۔
اس کانفرنس میں پوپ بینڈکٹ XVI کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا انہوں نے پوری دنیا کے عوام سے اپیل کی کہ وہ برداشت اور تحمل کا جذبہ پیدا کریں اور ہر سطح پر ایسی کوشش جاری رہنی چاہئیں جن سے بنی نوع انسان کا مستقبل محفوظ ہو اور اجتماعی سلامتی کو فروغ ملے۔ انہوں نے کہا کہ اس دنیا میں امن قائم رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے جو خلوص کے ساتھ پوری کی جانی چاہیے ۔ جاپان میں بدھ ازم کے تندائی فرقے کے پیشوا وتنابے نے بھی عوام سے اپیل کی کہ دنیا میں محبت کے جذبے کو پروان چڑھایا جائے۔ سیاسی تنازعات میں اتنی شدت پیدا نہ کی جائے کہ جنگ کی نوبت آجائے۔ اردن کے شہزادہ حسن بن طلال نے بڑی فراخدلی کے ساتھ کہا کہ اگر مسلمانوں کے کسی قول یا عمل سے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری ہوئی ہو تو وہ ذاتی طور پر اس کی معافی مانگتے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے ۲۰۰۱ء میں افغانستان کی طالبان حکومت کی جانب سے بامیان میں بدھا کے قدیم مجسموں کو مسمار کرنے کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ وہ اس پر بھی معذرت کرتے ہیں۔
(سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی ۔ ۲۲ ستمبر ۲۰۰۶)
Leave a Reply