
آجکل، مذاہب کے درمیان مکالمہ، (Dialogue) کا خاص چرچا ہے۔ اس کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مذاہب کے درمیان قربت بڑھے، غلط فہمیوں کا ازالہ ہو، ان کے درمیان جو اختلافات ہیں وہ دور ہوں اور وہ ایک دوسرے سے قریب آئیں۔ اس سلسلے میں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تبادلۂ خیال ہو رہا ہے، مذاکرے اور سیمینار ہو رہے ہیں اور بھی مختلف سطحوں سے کوشش ہو رہی ہے۔ اس تگ و دو کے پیچھے جو ذہن کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ مذاہب کے درمیان اختلافات حقیقی نہیں ہیں، سب کی اصل ایک ہے سب روح کی تسکین اور اپنے خالق و معبود کی رضا چاہتے ہیں، انسانوں کی بھلائی اور خیر خواہی ان میں سے ہر ایک کے پیش نظر ہے، ظلم و زیادتی اور جبر و تشدد کو سب ہی غلط باور کرتے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرنا چاہتے ہیں، ان کے درمیان بنائے اختلاف کم ہے اور اتحاد کی بنیادیں زیادہ ہیں۔ یہ بات جب بڑھتی ہے تو وحدتِ ادیان کے تصور تک پہنچتی ہے کہ منزل سب کی ایک ہے، البتہ راہیں جدا ہیں، اسی کی تبلیغ و اشاعت کے لیے یہ کوشش ہو رہی ہیں۔ یہ ایک مہمل اور بے بنیاد تصور ہے جو لوگ وحدتِ ادیان کی بات کرتے ہیں وہ ان کی بنیادی تعلیمات سے صَرفِ نظر کر رہے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مذاہب کے درمیان اختلافات ہیں اور بنیادی اختلافات ہیں، اس لیے ان کو ایک زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا، یہ فرق اسلام اور دوسرے مذاہب کے مطالعہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔
اس معاملہ میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ وہی ہمیشہ اللہ کا دین رہا ہے، اسی کی تعلیم ہر دور میں ہر پیغمبر نے دی، لیکن ان کی تعلیم اصل شکل میں باقی نہیں رہی، زمانہ گزرنے کے ساتھ ان میں تحریف ہوتی چلی گئی۔ اللہ کا یہی دین محمدﷺ پر آخری بار نازل ہوا۔ آپ سلسلۂ رسالت کی آخری کڑی ہیں، آپؐ پر جو کتاب نازل ہوئی وہ قرآن مجید ہے اور وہ پوری طرح محفوظ ہے۔ آپؐ کی سیرت اور قول و عمل سے اس کی تشریح ہوتی ہے، اب دنیا و آخرت کی فوز و فلاح اسی کتاب سے وابستہ ہے اس کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہ باتیں قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ کہی گئی ہیں۔ ارشاد ہے:
’’(اے پیغمبرؐ) کہہ دو اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔ (الاعراف: ۱۵۸)
ایک اور جگہ فرمایا:
’’ہم نے تو آپ کو تمام لوگوں کے لیے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔ (سبا: ۲۸)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری رسول اور خاتم النبیین ہونے کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا:
’’محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن اللہ کے رسول ہیں اور ’خاتم النبیین‘ ہیں اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے‘‘۔ (الاحزاب: ۴۰)
دنیا کے تمام انسانوں کو آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی اور کہا گیا کہ اسی میں ’خیر‘ ہے۔ کفر کا راستہ اختیار کرکے انسان اللہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، خود ہی نقصان میں رہے گا:
’’اے لوگو! تمہارے پاس رسول (ﷺ) تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر آگیا ہے۔ پس تم (اس پر) ایمان لے آئو، اسی میں تمہارے لیے خیر ہے لیکن اگر کفر کرو گے تو (یاد رکھو) کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے‘‘۔ (النساء: ۱۷۰)
مذہب کے اساسی عقائد کا انسان کی پوری زندگی پر اثر پڑتا ہے۔ اس سے پورا نظامِ عمل اور طریقۂ حیات وجود میں آتا ہے۔ ہر مذہب کی عبادات اس کے عقیدے کی تابع ہوتی ہیں۔ عقیدے کی بنیاد پر تہذیب و معاشرت وجود میں آتی ہے اسی کے تحت شادی بیاہ، پیدائش اور موت تک کی رسوم انجام پاتے ہیں۔ کاروبار اور لین دین کے طریقے اور مختلف افراد اور طبقات کے حقوق و فرائض طے ہوتے ہیں۔ اسی طرح مذہب عقیدہ کے ساتھ اس سے ہم آہنگ اخلاقیات اور قانون بھی رکھتا ہے۔ اسے اس کا ’نظامِ شریعت‘ کہا جاسکتا ہے۔ اسی سے اس کی انفرادیت قائم ہوتی ہے اور وہ پہچانا جاتا ہے۔
قرآن مجید کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو اصولِ دین کے ساتھ حسبِ حال اور حسبِ ضرورت شریعت اور قانون بھی دیا تھا۔ اس نے مختلف مواقع پر توریت اور انجیل کے بعض قوانین کا ذکر بھی کیا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیے گئے تھے اور جن کی پابندی کا ان سے عہد لیا گیا تھا۔ اس نے بعض دوسرے پیغمبروں کی شریعتوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔ یہ شریعتیں اپنے وقت اور ماحول کے لیے تھیں۔ آخری رسول اور آخری شریعت کے آنے کے بعد وہ منسوخ ہو گئیں۔ مذاہب کے ماننے والوں کو وہ نجی زندگی میں اپنی شریعت پر عمل کی اجازت دیتا ہے، لیکن اپنے دائرۂ اختیار میں آخری شریعت کو نافذ کرتا ہے:
’’ہم نے آپ کو دین کے معاملہ میں ایک شریعت دے دی۔ اب آپ اس کی اتباع کریں اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں جو جانتے نہیں ہیں‘‘۔ (الجاثیہ: ۱۸)
جدالِ احسن
مذاکرہ یا مباحثہ دو مقاصد کے تحت ہوتا ہے۔ ایک مقصد ہے حق و صداقت کی تلاش، بحث و تمحیص کے ذریعہ ’حق‘ کو جاننے کی کوشش۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ نظریات اور عقائد کی صحت و عدم صحت سے بحث نہ کی جائے، بلکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ کون سی مشترک اقدار ہیں جن پر سب کو اتفاق ہو سکتا ہے۔
اسلام اس مجادلہ کا قائل نہیں ہے۔ وہ ایک دعوت ہے اور بحث و مباحثہ کے ذریعہ اس کی حقانیت واضح کرنا چاہتا ہے۔
قرآن مجید کا براہِ راست خطاب مشرکین عرب اور اہلِ کتاب سے تھا۔ سورۂ نحل میں مشرکین عرب کے سیاق میں حکم دیا گیا:
’’آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ بلایئے اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بحث کیجیے۔ آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو اچھی طرح جانتا ہے‘‘۔ (النحل:۱۲۵)
اس آیت میں صاف الفاظ میں اللہ کے راستے کی طرف بلانے، یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کی دعوت کا حکم ہے۔ اس کے لیے حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ ’جدال احسن‘ کا طریقہ تجویز کیا گیا ہے۔ ’حکمت‘ یہ ہے کہ عقلی دلائل کے ذریعہ اللہ کے دین کی دعوت دی جائے۔ موعظہ حسنہ میں تذکیر اور وعظ و نصیحت کا پہلو ہے۔ ’جدال بہ طریق احسن‘ یہ ہے کہ بہتر طریقہ سے گفتگو ہو، شکوک و شبہات رفع کیے جائیں اور اس کے موقف کو بہتر طریقہ سے سمجھا جائے۔
مشرکینِ عرب سے اسلام کا اختلاف بنیادی عقائد میں تھا۔ اسلام توحید کا علمبردار ہے۔ کائنات اور انسان کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر اسی عقیدۂ توحید سے نکلتا ہے۔ مشرکین عرب کے ہاں خدا کا تصور تھا، لیکن وہ آلودۂ شرک تھا۔ وہ اسلام کے تصور توحید کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اسلام وحی و رسالت کا قائل ہے مشرکین کے لیے یہ تصور اجنبی سا ہو کر رہ گیا تھا، وہ حضرت محمدﷺ کی رسالت کو ماننے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ آخرت اور جزائے عمل کا ہے، لیکن وہ حیات بعدالموت کو کسی طرح قبول نہیں کر رہے تھے اور خدا کے قانونِ عدل کے مقابلہ میں انہیں اپنے معبودانِ باطل کی سفارش پر تکیہ تھا۔
اس ماحول میں اسلام نے شرک کی ہر پہلو سے تردید کی اور ثابت کیا کہ اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ یہ انسان کی عقل اور اس کی نفسیات کے خلاف ہے۔ اس کے نتائج دنیا میں بھی تباہ کن ہیں اور آخرت میں بھی ہلاکت کا باعث ہوں گے۔
مشرکینِ عرب سے اس نے جس طرح گفتگو کی اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہاں پیش کی جارہی ہے:
’’اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کے مالک ہونے میں بہت سے کج خلق آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے کیا ان دونوں کا حال یکساں ہو سکتا ہے؟ الحمدللہ، مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں۔ (الزمر: ۲۹)
قرآن مجید نے اپنے موقف پر تاریخ سے استدلال کیا۔ اس نے کہا: دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جتنے رسول آئے سب نے توحید کی تعلیم دی اور شرک کی تردید کی، رسالت اور آخرت پر ایمان کی دعوت دی، اس کے انکار کے نتائج سے آگاہ کیا۔ مشرک قوموں نے ان کی سخت مخالفت کی اور ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا۔ لیکن انہوں نے صبر وثبات کے ساتھ اسے برداشت کیا۔ اللہ کے ان رسولوں کی اس سلسلے میں اپنی قوموں اور ان کے سرداروں سے جو گفتگوئیں ہوئیں اور جو مباحثے اور مکالمے ہوئے وہ بھی اس نے تفصیل سے پیش کیے۔ یہ مباحثے ’جدالِ احسن‘ کا بہترین نمونہ ہیں۔ یہ تلاش حقیقت کے لیے نہیں، بلکہ اثباتِ حق کے لیے تھے۔
مشرکین عرب کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نسلی تعلق تھا۔ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد اور خانۂ کعبہ کے محافظ ہونے کی وجہ سے سارے عرب میں ان کو عزت اور وقار حاصل تھا۔ قرآن مجید نے بتایا کہ حضرت ابراہیمؑ توحید کے علمبردار تھے۔ اسی کی دعوت لے کر وہ اٹھے تھے، ان کی مشرک قوم نے ان کی بدترین مخالفت کی اور دہکتی آگ میں انہیں ڈال دیا، لیکن اللہ نے انہیں صحیح سالم نکال لیا۔ انہوں نے اپنے وطن سے ہجرت کی اور مکہ میں خانۂ کعبہ کی تعمیر کی، اسے اللہ واحد کی عبادت کا مرکز قرار دیا جسے تم نے بت خانہ بنا رکھا ہے۔ تم ان کی اولاد ہو، پھر بھی دعوتِ توحید کی مخالفت کر رہے ہو۔ حضرت ابراہیمؑ نے وقت کے بادشاہ، اپنے باپ اور اپنی قوم سے جو گفتگو یا مباحثے کیے قرآن مجید نے اسے بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس طرح اس ’جدال احسن‘ کی راہ دکھائی ہے جس کی اس نے اجازت دی ہے۔
قرآن مجید نے اہلِ کتاب سے بھی ’مجادلہ‘ کی اجازت دی ہے۔ اس کے لیے بھی وہی شرط رکھی ہے جو مشرکین سے ’مجادلہ‘ کے لیے ہے کہ یہ مجادلہ ’بہ طریقِ احسن‘ ہونا چاہیے:
’’تم اہلِ کتاب سے مجادلہ نہ کرو، مگر مہذب طریقہ سے، لیکن ان میں سے جو ظلم کی راہ اختیار کریں ان سے بحث سے اجتناب کرو اور کہو کہ ہم ایمان رکھتے ہیں ان (تعلیمات) پر جو ہم پر نازل ہوئی ہیں اور ان پر بھی جو تم پر نازل ہوئیں۔ ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہے، ہم اسی کے فرماں بردار ہیں‘‘۔ (العنکبوت:۴۶)
اہلِ کتاب اصولی طور پر توحید، وحی و رسالت، آخرت اور وہاں کی جزا و سزا کے قائل تھے۔ اس سلسلے میں ان کے اور مسلمانوں کے عقائد میں اشتراک تھا، لیکن ایک دوسرے پہلو سے ان کے درمیان فرق پایا جاتا تھا۔ وہ توحید کے قائل ہونے کے باوجود گرفتارِ شرک ہو گئے تھے۔ وحی و رسالت پر ایمان کے دعوے کے باوجود رسول اللہﷺ کی رسالت کو تسلیم نہیں کر رہے تھے۔
اس آیت میں اہلِ کتاب سے مجادلہ کی اجازت کے ساتھ اس کی بنیادیں بھی فراہم کر دی گئی ہیں۔ وہ بنیادیں ہیں اللہ کے تمام رسولوں اور ان کی تعلیمات پر ایمان۔ اس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کی تعلیمات بھی شامل ہیں۔ مسلمانوں کا یہی موقف ہے کہ وہ تمام رسولوں پرایمان رکھتے ہیں، ان کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ اسی طرح تمہارا اور ہمارا خدا ایک ہی ہے، اس لیے اس کے احکام کی اطاعت ہم سب کے لیے لازم ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم اس کے مطیع فرمان ہیں۔ اس کے ہر حکم کو دل و جان سے قبول کرتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس میں اس بات کی ہدایت بھی ہے کہ اگر وہ اس کے لیے آمادہ نہیں ہیں تو تم اپنے ایمان و اسلام کا اعلان کر کے الگ ہو جائو۔
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر میثاق بنی اسرائیل کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد لیا تھا کہ وہ اللہ واحد کی عبادت کریں گے، ان کی زندگیوں میں نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام ہو گا، اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کریں گے، والدین رشتہ داروں اور سماج کے کمزور افراد، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کریں گے (اعلیٰ اخلاق کا ثبوت دیں گے) گفتگو میں بدزبانی اور تلخ کلامی کا مظاہرہ نہ کریں گے (کسی کی دل آزاری نہ کریں گے) ناحق کسی کا خون نہیں بہائیں گے، کسی کو اس کے گھر سے بے گھر نہیں کریں گے، اللہ کے رسولوں پر ایمان لائیں گے اور ان کی نصرت و حمایت کریں گے۔ (البقرۃ: ۸۳۔۸۴، المائدۃ: ۱۲)
قرآن مجید نے بتایا کہ بنی اسرائیل نے اس عہد و پیمان کی پابندی نہیں کی۔ قدم قدم پر اس کی مخالفت کرتے رہے۔ اس عہد کا لازمی تقاضا تھا کہ وہ اللہ کے رسولوں پر ایمان لاتے، مگر انہوں نے ان میں سے چند ایک کو مانا اور دوسروں کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کے ہاتھ بعض رسولوں کے قتل تک سے رنگین رہے ہیں۔ (آل عمران: ۱۸۱۔ ۱۸۲، النساء: ۱۵۷)
ان سے آخری رسول حضرت محمدﷺ پر ایمان لانے اور ان کی نصرت و حمایت کا بھی عہد لیا گیا تھا، لیکن انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم اپنے پیغمبروں کے علاوہ کسی دوسرے پیغمبر کو نہیں مانیں گے۔ یہی نہیں، آپ سے عداوت ان کے سینوں میں پرورش پاتی رہی اور انہوں نے آپ کی مخالفت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ (البقرۃ: ۹۱۔ آل عمران: ۸۱)
یہود و نصاریٰ حضرت ابراہیمؑ کو اپنا پیشوا اور مقتدیٰ مانتے اور ان سے اپنا دینی رشتہ جوڑتے تھے۔ قرآن مجید نے بہت تفصیل سے حضرت ابراہیمؑ کی تعلیم پیش کی اور بتایا کہ وہ ’مسلم حنیف‘ تھے اور ہر طرف سے کٹ کر اللہ واحد کی عبادت کرتے تھے، ان کی زندگی ہر شائبہ شرک سے پاک تھی وہ خدائے واحد کی عبادت و اطاعت کا پیغام لے کر اٹھے تھے اور زندگی بھر اسی کے لیے جدوجہد کی اور بے مثال قربانیاں دیں۔ آخری رسول حضرت محمدﷺ اسی دعوت کو لے کر اٹھے ہیں، اس لیے وہ ان کے قریب ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ سے تمہارا تعلق روایتی اور ان کا تعلق حقیقی ہے۔
’’ابراہیم یہودی تھے اور نہ نصرانی تھے، بلکہ سب مذاہب سے کنارہ کش اور اللہ کے مطیع فرمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔ لوگوں میں ابراہیم سے زیادہ قریب وہ تھے جنہوں نے ان کی اتباع کی اور اب یہ نبی اور ایمان والے ہیں۔ اللہ اہلِ ایمان کا ولی و کارساز ہے‘‘۔ (آل عمران: ۶۷۔۶۸)
اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جو لوگ آسمانی مذاہب کے ماننے والے ہیں انہیں ان کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے اور ان کے تقاضوں کی طرف انہیں توجہ دلائی جائے اور دینِ حق ان پر واضح کیا ہے۔ یہ قرآنی طریقہ ہے۔ اس سے دعوت کی راہیں کھلتی ہیں۔ اسی پس منظر میں حسبِ ذیل آیت کو بھی دیکھنا چاہیے:
’’کہیے! اے اہلِ کتاب! آئو ایک ’کلمۂ سواء‘ کی طرف (و ہ کلمہ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے اور ہم میں سے کوئی بھی اللہ کو چھوڑ کر کسی کو رب نہ بنائے گا۔ اگر وہ (اسے قبول نہ کریں) اور اعراض کریں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو اس کے حکم کو ماننے والے ہیں‘‘۔ (آل عمران: ۶۴)
اس آیت کو اس بات کی دلیل سمجھا جاتا ہے کہ مذاہب کے درمیان جو اقدار مشترک ہیں ان کی دعوت دی جائے۔ بنائے اختلاف سے تعرض نہ کیا جائے، ہر ایک کو اس کے طریقہ پر عمل کی اجازت ہو، اس کے درست یا نا درست ہونے سے بحث نہ کی جائے۔ اسے مذاہب کے سلسلے میں ’رواداری‘ یا عدم تعصب جو بھی کہا جائے، اسلامی نقطۂ نظر نہیں کہا جاسکتا۔ یہ اس سلسلے کی اسلامی تعلیمات اور اس کے دعوتی مشن کے خلاف ہے۔ اس سے قطع نظر خود آیت سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ اس میں اہلِ کتاب کے غلط طرزِ عمل پر تنقید کی گئی ہے اور انہیں اسلام کی دعوت دی گئی ہے۔
اس میں اہلِ کتاب کو ’کلمہ سواء‘ کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ ’کلمہ سواء‘ توحید ہے، جو اہل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان مشترک ہے اور جو تمام مذہبی کتابوں کی بنیاد ہے۔ لیکن توحید کے قائل ہوتے ہوئے بھی یہود نے حضرت عزیر کو ابن الٰہ قرار دیا۔ ہو سکتا ہے ان میں سے ایک طبقہ کا یہ عقیدہ ہو، لیکن یہود نے اس سے اپنی برأت ظاہر نہیں کی۔ اسی طرح نصاریٰ نے تثلیث کی راہ اختیار کی، جو توحید کے سراسر خلاف ہے۔
توحید کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ خدائے واحد کی عبادت ہو اور کسی دوسرے کو خدائی کا مقام نہ دیا جائے، جب تمہیں اس سے انکار نہیں ہے تو تمہاری عبادت شرک سے پاک ہونی چاہیے۔ اللہ واحد پر ایمان کے بعد اس کا کوئی جواز نہیں ہے کہ کسی دوسرے کو اپنا رب اور فرماں روا تسلیم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ قانون دینے والا ہے اور اسی کے قانون کو بالادستی حاصل ہے، لیکن تم نے اپنے احبار و رہبان کو قانون سازی کا حق دے رکھا ہے۔ وہ جس چیز کو حلال کہیں وہ تمہارے نزدیک حلال ہے اور جسے حرام قرار دیں وہ تمہارے لیے حرام ہے۔ اس طرح تم نے احبار و رہبان کو ارباب کا مقام دے رکھا ہے۔ (التوبہ: ۳۱) اپنے اس غلط رویہ کو ترک کر کے تمہیں خدائے واحد کے احکام کی اتباع کرنی چاہیے۔ اگر تم اس کے لیے تیار نہیں ہو تو گواہ رہو کہ ہم اللہ کے فرماں بردار اور اس کے احکام کے تابع ہیں۔
یہ درحقیقت اسلام کی دعوت ہے۔ ہر قل (شاہ روم) کو آپ نے جو مکتوب اسلام کی دعوت قبول کرنے کے لیے لکھا تھا اس میں اس آیت کا حوالہ تھا۔ (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن: ج ۲، جزو ۴، ص
۶۸)
حقیقت یہ ہے کہ مذاہب کے اختلافات فروعی نہیں اصولی ہیں، انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی، لیکن اس کے باوجود بعض سماجی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے اہل مذاہب ہی نہیں، بلکہ تمام سماجی اور سیاسی گروہ مل جل کر کوشش کر سکتے ہیں۔
آج دنیا کے بیشتر ممالک میں مخلوط آبادیاں ہیں۔ ان کے درمیان مذہبی عقائد، مادّی افکار و نظریات، تہذیب و معاشرت کا اختلاف ہے اور کہیں مادری زبان کا فرق بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ایک تکثیری سماج کا حصہ ہیں۔ اس پہلو سے ان کے مشترک مسائل بھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی ضرورت ہے کہ ملک میں امن و امان ہو، فکرو عمل کی آزادی ہو، ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کام کے مواقع حاصل ہوں، انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو، عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، سب کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے، غربت اور جہالت ختم ہو، طبی سہولتیں حاصل ہوں، صفائی ستھرائی کا اہتمام ہو اور فضائی آلودگی پر قابو پایا جائے۔ اس نوعیت کے اور بھی مسائل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کے مسائل پر قابو پانے کے لیے معاشرے میں بیداری لانے، ان کے حق میں فضا بنانے اور بسا اوقات قانونی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ان مسائل کا تعلق حکومت سے بھی ہے اس کے لیے اسے متوجہ کرنا اور اس پر اثر انداز ہونا پڑتا ہے۔ اس کے لیے تکثیری معاشرے مشترکہ جدوجہد کا تقاضا کرتے ہیں۔ اسی سے بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔
اسی طرح موجودہ مادّہ پرست تہذیب نے اباحیت کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ انسان اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے کوئی بھی بندش گوارا نہیں کرنا چاہتا، ہر طرف بے حیائی اور عریانی کی فضا ہے، زنا اور بدکاری عام ہو رہی ہے، نشہ آور چیزوں کا استعمال بڑھ رہا ہے، اس کے نتیجہ میں خاندان انتشار اور تباہی کا شکار ہو رہے ہیں اور طرح طرح کے امراض پھیل رہے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب زنا، بدکاری، بے حیائی اور منشیات کے استعمال کو صحیح نہیں سمجھتا۔ اس کے خاتمہ کے لیے مشترک کوشش ہونی چاہیے۔
مذاہب کے درمیان ایک قدر مشترک اخلاقیات ہے۔ صداقت اور راست گوئی، عفت و عصمت، دیانت و امانت، باہم الفت و محبت، رشتوں کا احترام، غریبوں، ناداروں، مریضوں اور معذوروں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی خبرگیری، تعصب اور نفرت سے اجتناب، کسی کے حق پر دست درازی اور ظلم و زیادتی کا خاتمہ، اس طرح کی اخلاقیات کی اہمیت تمام مذاہب تسلیم کرتے ہیں اور ان کے مخالف رویہ کو صحیح نہیں سمجھتے۔ اس کے لیے کہیں کہیں کوشش بھی ہوتی ہے۔ اسلام سماج میں اخلاق کو فروغ دینا چاہتا ہے اس کے لیے اس کا اپنا ایک طریقہ اور لائحہ عمل بھی ہے، لیکن اس کے ساتھ اخلاق کو عام کرنے کی جو کوشش ہو اس میں وہ اپنے اصول کے تحت شریک ہو سکتا ہے اور اس کے لیے مشترکہ جدوجہد بھی کر سکتا ہے۔
[مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کے امیر، معروف دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔]
(بحوالہ: سہ ماہی ’’تحقیقات اسلامی‘‘ علی گڑھ۔ جولائی تا ستمبر۲۰۱۰ء)
Leave a Reply