ترکی میں جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) ۲۰۰۲ء میں برسرِاقتدار آئی۔ تب سے اب تک مختلف حوالوں سے پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے، خدشات ابھارے جاتے رہے ہیں۔ سیکولر حلقوں کی طرف سے کیا جانے والا ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اے کے پارٹی نے ترک عوام کی طرزِ زندگی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ اے کے پارٹی کے بارے میں لوگوں کی طرزِ زندگی پر اثر انداز ہونے بلکہ مداخلت کرنے کا الزام اِس تواتر سے لگایا جاتا رہا ہے کہ وزیراعظم رجب طیب اردوان کو کئی مواقع پر وضاحت کرنی پڑی ہے کہ اے کے پارٹی ترکی کے ہر شعبے اور طبقے کی طرزِ زندگی کی محافظ ہے۔
۲۰۰۸ء میں گینار (Genar) ریسرچ کمپنی نے ایک ملک گیر سروے کیا جس کے ذریعے معلوم ہوا کہ ترکی میں ۹۴ فیصد عوام کی رائے یہ ہے کہ حکومت ان کی طرزِ زندگی میں مخِل نہیں ہوتی۔ یہ سروے بہتوں کی زباں بندی کے لیے کافی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اے کے پارٹی پر کسی کی طرزِ زندگی میں مداخلت کا الزام صرف سیکولر عناصر کی طرف سے عائد کیا جاتا رہا ہے۔ صرف اُنہی کو یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر نہیں کرسکیں گے۔ باقی معاشرہ پُرسکون ہے۔ کسی کو بظاہر حکومت سے کوئی شکایت نہیں۔ اے کے پارٹی کی کارکردگی اچھی رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ سیکولر عناصر کے خدشات کم یا ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
شراب اور الکحل والی دیگر اشیا کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ حکومت نے حال ہی میں رات کے دس بجے سے صبح کے چھ بجے تک شراب کی فروخت پر پابندی سے متعلق جو قانون منظور کیا ہے، اس نے خاصی ہلچل پیدا کی ہے۔ یورپ کے چند ممالک میں اس نوعیت کی پابندی پہلے سے عائد ہے مگر سچ یہ ہے کہ ترکی کو اس پابندی کے نفاذ سے غیر معمولی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک طرف تو سیکولر عناصر زیادہ شور مچائیں گے اور دوسری طرف عالمی برادری میں بھی ترکی کے حوالے سے خدشات بڑھیں گے۔
شراب پر پابندی مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہرگز نہیں۔ جن علاقوں میں اے کے پارٹی کا اقتدار نہیں، ان میں کادیکوئے میونسپلٹی بھی شامل ہے۔ حال ہی میں اس میونسپلٹی نے مقامی باشندوں کی بڑھتی ہوئی شکایات کی روشنی میں رات کے دوران شراب کی فروخت پر پابندی عائد کردی ہے۔ کسی بھی سطح پر کسی بھی چیز کی فروخت کو ممنوع قرار دینا ممکن ہے، اگر مقامی باشندے راضی ہوں۔ کوئی بھی مقامی ادارہ شراب کی فروخت کو، مقامی شکایات کی روشنی میں، ممنوع قرار دے سکتا ہے مگر ہاں شراب کی فروخت کو باضابطہ قانون کے ذریعے روکنا لوگوں کے لیے زیادہ الجھن پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ بہر حال، یہ سِکّے کا ایک رُخ ہے۔
لازم نہیں کہ لوگوں کی طرز زندگی صرف حکمرانوں کے ہاتھوں مشکلات سے دوچار ہو۔ ترکی میں رجعت پسند یا قدامت پرست طبقہ میڈیا اور قوانین کے ہاتھوں اپنے حقوق سے محروم ہوتا رہا ہے۔ رجعت پسندوں کو مرضی کی زندگی بسر کرنے سے روکنے کی روایت نئی نہیں۔ یہ سلسلہ ایک زمانے سے چل رہا ہے۔ روزنامہ ’’حریت‘‘ کی نام نہاد لائف اسٹائل کوچ آئسے ارمان کا تازہ ترین کالم اس کی واضح مثال ہے۔ محترمہ کا کہنا ہے کہ ہیڈ اسکارف پہننے سے ڈرائیونگ میں شدید مشکلات پیش آتی ہیں۔ ایک استدلال یہ ہے کہ اسکارف آگے سے جھکا ہوا ہو تو حدِ نظر کم رہ جاتی ہیں اور دور کی چیزیں نظر نہیں آتیں۔ اُن کی تجویز یہ ہے کہ ہیڈ اسکارف کے سامنے کے حصے کو تھوڑا سا موڑ دیا جائے تو ڈرائیونگ کی راہ میں حائل مشکلات دور ہوسکتی ہیں۔ یہ بھی ان کا احسان ہے کہ خواتین کو ہیڈ اسکارف اُتار پھینکنے کا حکم نہیں دیا!
ترکی میں بہت سے رجعت پسند اب آمدنی کا گراف بلند ہونے پر بلند تر معیار کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اُن کے لیے نئی اصطلاح SUSLUMAN وضع کی گئی ہے۔ یعنی ’’پُرتعیش مُسلمان‘‘۔ یہ لوگ اعلیٰ ریستوران میں کھانا کھاتے ہیں اور تعطیلات خاصے مہنگے تفریحی مقامات پر گزارتے ہیں۔
رجعت پسندوں کے لباس پر بھی تنقید کی جاتی ہے اور دیگر امور کو بھی بخشا نہیں جاتا۔ ہاں، اگر وہ لوگ سیکولر عناصر کی شراب نوشی پر پابندی عائد کرنے کی بات کریں تو ہنگامہ کھڑا کردیا جاتا ہے۔ اِس اعتراض پر سبھی چراغ پا ہوجاتے ہیں۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی حکومت شراب کی فروخت یا شراب پینے پر پابندی عائد کرکے اِس مسئلے کو حل نہیں کرسکتی۔ شراب نوشی کی بنیاد بننے والے سماجی مسئلے کی جڑ کو اکھاڑے بغیر، بنیاد پر ضرب لگائے بغیر بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
ترکی کے سیکولر حلقے شراب نوشی پر پابندی عائد کیے جانے کے خلاف فوراً متحرک ہو جاتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ایسا کوئی عندیہ دیے جانے کے ساتھ ہی اعتراض اور تنقید کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ وہ دیگر معاملات میں بھی حق گوئی کا فریضہ احسن طریقے سے نبھانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ سوال آزادی کا ہے۔ کسی بھی فرد کی زندگی میں مداخلت نہیں کی جانی چاہیے۔
(“Interference in Lifestyle”…
“Todays Zaman”. May 24, 2013)
Leave a Reply